کیا پرانا نبی آنے سے ختم نبوّت نہیں ٹوٹتی؟

’’اِس اِستدلال کا بنیادی نقطہ یہ ہے کہ پہلے پیدا ہونے والا نبی آخری نبی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ جب ہم اِس استدلال کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ بھی انتہائی بودا اورلغو نظر آتا ہے۔    سوال یہ ہے کہ آج اگر کسی بیس سالہ نوجوان کے سامنے کوئی بچہ پیدا ہو اور دیکھتے دیکھتے چند دِن میں فوت ہو جائے پھر وہ نوجوان اسّی سال بعد سَو سال کی عمر میں وفات پائے تو مؤرّخ کِس کو آخری لکھے گا یعنی ہر صاحبِ فہم اور ذی ہوش و حواس مؤرّخ کِس کو آخری قرار دے گا؟
اس بچّے کو جو بعد میں پیدا ہؤا مگر چند دِن کی زندگی پاکر فوت ہو گیا یا اس پہلے پیدا ہونے والے انسان کو جو اس بچے کی وفات کے اسّی80 سال بعد سَو 100سال عمر پاکر فوت ہؤا؟

 افسوس کہ بعینہٖ یہی صورت ہمارے مخالف علمائے کرام پیش کر رہے ہیں اور انہیں اِس منطق کا بودا پَن نظر نہیں آرہا۔ وہ نہیں دیکھتے کہ ان کے بیان کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی عمر کم و بیش چھ صد سال کی تھی جب سَیّد کَونین حضرت محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم پیدا ہوئے۔ 63 سال کی عمر میں حضرت عیسیٰ ؑ کی زندگی میں ہی آپ ؐ کا وصال ہؤا اور اس کے بعد اَب تک چودہ سَو سال مزید ہونے کو آئے کہ عیسیٰ نبی اﷲ زندہ سلامت موجود ہیں۔ بتائیے کہ جب وہ نازل ہو کر اپنا مشن پورا کرنے کے بعد بالآخر فوت ہوں گے تو ایک غیر جانبدار مؤرّخ زمانی لحاظ سے کِس کو آخری قرار دے گا۔

 جب علماءِ ظاہر کے نزدیک آیت خاتم النّبییّن زمانی اعتبار سے آنحضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد کسی اَور کو آخری ہونے کا حق نہیں دیتی تو پھر زمانی اعتبار سے ہی علماءِ ظاہر کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آخری نبی قرار دینے کا کیا حق ہے؟ صرف مُنہ سے اِس حقیقت کا انکار کوئی معنے نہیں رکھتا جب کہ وہ عملاً حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اِس دُنیا میں آنحضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے سینکڑوں سال بعد آنے والا سب سے آخری نبی تسلیم کرتے ہیں۔

حضرت بانی ٔ سلسلہ احمدیہ نے خاتمیتِ محمدیہ کے بارے میں جو جامع اور دلکش تصورپیش فرمایا ہے وہ بالکل یگانہ اور بے نظیر ہے۔ آپ نے قرآنِ پاک کی روشنی میں آیت خاتم النّبییّن کی تفسیر مختلف پیرایوں میں اپنی کتب میں ایسے انداز میں بیان فرمائی ہے کہ اس کا ہر حصّہ دعوتِ ایمان و عرفان دے رہا ہے۔ گویا کہہ رہا ہے ع

دامنم می کشد کہ جا اینجا است

 آپ نے کِس قدر شاندار اور کتنی موثر اصطلاح بیان فرمائی کہ ہمارا خدا ایک زندہ خدا ہے ہماری کتاب قرآنِ مجید ایک زندہ کتا ب ہے اور ہمارا رسول حضرت خاتم النّبییّن محمدمصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم ایک زندہ رسول ہے۔ اُمّتِ محمدیہ میں یہ اصطلاح پہلی مرتبہ آپ نے جاری فرمائی اور عشّاقِ محمد عربی صلی اﷲ علیہ وسلم کو صحیح طور پر خاتمیّتِ محمدیہ سے متعارف کروایا۔

 یہ تینوں بُنیادی مسائل یعنی ایمان باﷲ، ایمان بالکتاب اور ایمان بالرسول ایک دوسرے کے ساتھ اِس طرح پیوست ہیں اور باہم ایسا گہرا ربطہ رکھتے ہیں کہ ایک مضمون کودوسرے سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ پس ممکن نہیں کہ ان میں سے ایک مضمون کے متعلق حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کے اعتقادات اور نظریات کا جائزہ دوسرے متعلقہ مضامین کے ذکر کے بغیر کما حقّہ، کیا جاسکے۔ پس لازماً ہمیں ختمِ نبوت کے بارہ میں بانی ٔ سلسلہ کے فرمودات پر نظر ڈالنے سے قبل ہستی باری تعالیٰ اور قرآنِ عظیم کے متعلق آپ کے ایمان، اعتقادات اور نظریات پر بھی نظر کرنی پڑے گی ورنہ ختمِ نبوت کے بارہ میں آپ کے تصور کا ادراک مکمل نہ ہو سکے گا۔‘‘

(محضرنامہ ۔ صفحہ32تا34)

یہ بھی ملاحظہ فرمائیں

ختم نبوت کے بارہ میں احادیث نبویہ ﷺسے پیش کردہ غیراز جماعت کے دلائل اور ان کا رد

ختم نبوت کے بارہ میں احادیث نبویہ ﷺسے پیش کردہ غیراز جماعت کے دلائل اور ان کا رد لَا نَبِی…