حدیث ’’اِتَّخَذُوا قُبُورَاَنبِیَاءِھِم مَسَاجِدَ‘‘ اور قبر مسیح

حدیث مبارکہ ہے:

’’لَعنَةُاللہ عَلَی الْیَھُودوَالنَّصَا ریٰ اِتَّخَذُوا قُبُورَاَنبِیَاءِ ھِم مَسَاجِدَ‘‘ (بخاری کتاب المغازی باب مرض النبی ﷺووفا تہ)

ترجمہ: اللہ یہودو نصاری پر لعنت کرے کہ انہوں نے اپنے انبیاء کی قبور کو سجدہ گاہ بنالیا۔

اعتراض اٹھایا جاتا ہے کہ حدیث ، اللہ یہودو نصاری پر لعنت کرے کہ انہوں نے اپنے انبیاء کی قبور کو سجدہ گاہ بنالیا،سے بانی جماعت احمدیہ نے اپنے من گھڑت استدلال کرکے وفات مسیح ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی ہے۔

معترض نے اس مذکورہ بالا حدیث سے یہ استدلال کیا ہے کہ جب حضرت عیسٰیؑ کی قبر ہی نہیں تو پھر سجدہ گاہ کہاں ہوا؟ لہذا اس حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عیسٰی ؑ زندہ ہیں ۔

جواب: 
معترض کو معلوم ہو نا چاہیے کہ یہ الفاظ حضور ﷺ کے ہیں کہ اللہ یہودو نصاری پر لعنت کرے۔۔ ۔ اگر تو حضرت عیسیٰؑ کی قبر نہیں ہے اور نصاری نے ان کی قبر کو سجدہ گاہ نہیں بنایا تو اس طرح (نعوذ باللہ ) حضور ﷺ پر الزام آئے گا ۔ آپﷺ سے سچی محبت رکھنے والے کو آپﷺ کے الفاظ کو سچا ثابت کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اور یہی حضرت بانی جماعت احمدیہ کر رہے ہیں۔

حضرت مسیح موعودؑ اپنی کتاب ست بچن میں فرماتے ہیں:

ایک اور قوی ثبوت یہ ہے کہ صحیح بخاری صفحہ 339 میں یہ حدیث موجود ہے لَعنَةُاللہ عَلَی الْیَھُودوَالنَّصَاریٰ اِتَّخَذُوا قُبُورَاَنبِیَاءِ ھِم مَسَاجِدَ (بخاری کتاب المغازی باب مرض النبی ﷺووفاتہ) یعنی یہود اور نصاریٰ پر خدا کی لعنت ہو جنہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو مساجد بنالیا یعنی ان کو سجدہ گاہ مقرر کر دیا اور ان کی پرستش شروع کی۔ اب ظاہر ہے کہ نصار ٰی بنی اسرائیل کے دوسرے نبیوں کی قبروں کی ہرگز پرستش نہیں کرتے بلکہ تمام انبیاء کو گنہگار اور مرتکب صغائر و کبائر خیال کرتے ہیں۔ ہاں بلاد شام میں حضرت عیسٰی علیہ السلام کی قبر کی پرستش ہوتی ہےاور مقررہ تاریخوں پر ہزارہا عیسائی سال بسال اس قبر پر جمع ہوتے ہیں سو اس حدیث سے ثابت ہوا کہ درحقیقت وہ قبرحضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ہی قبر ہے جس میں مجروح ہونے کی حالت میں وہ رکھے گئے تھے اور اگر اس قبر کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی قبر سے کچھ تعلق نہیں تو پھر نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا قول صادق نہیں ٹھہرے گا اور یہ ہرگز ممکن نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایسی مصنوعی قبر کو قبر نبی قرار دیں جو محض جعلسازی کے طور پر بنائی گئی ہو ۔کیونکہ انبیاء علیہم السلام کی شان سے بعید ہے کہ جھوٹ کو واقعات صحیحہ کے محل پر استعمال کریں۔

(ست بچن، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ309)

پھرحضر ت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں :

”پس اگر حدیث میں نصاریٰ کی قبر پرستی کے ذکر میں اس قبر کی طرف اشارہ نہیں تو اب واجب ہے کہ شیخ بطالوی اور دوسرے مخالف مولوی کسی اور ایسے نبی کی قبر کا ہمیں نشان دیں جس کی عیسائی پرستش کرتے ہوں یا کبھی کسی زمانہ میں کی ہے۔ نبوت کا قول باطل نہیں ہو سکتا چاہئے کہ اس کو سرسری طور پر نہ ٹال دیں اور ردی چیز کی طرح نہ پھینک دیں کہ یہ سخت بے ایمانی ہے بلکہ دو باتوں سے ایک بات اختیار کریں۔

(۱) یا تو اس قبر کا ہمیں پتا دیویں جو کسی اور نبی کی کوئی قبر ہے اور اس کی عیسائی پرستش کرتے ہیں۔
(۲) اور یا اس بات کو قبول کریں کہ بلاد شام میں جو حضرت عیسیٰ کی قبر ہے جس کی نسبت سلطنت انگریزی کی طرف سے پچھلے دنوں میں خریداری کی بھی تجویز ہوئی تھی جس پر ہر سال بہت سا ہجوم عیسائیوں کا ہوتا ہے اور سجدے کئے جاتے ہیں وہ درحقیقت وہی قبر ہے جس میں حضرت مسیح مجروح ہونے کی حالت میں داخل کئے گئے تھے پس اگر یہ وہی قبر ہے تو خود سوچ لیں کہ اسکے مقابل پر وہ عقیدہ کہ حضرت مسیح صلیب پر نہیں چڑھائے گئے بلکہ چھت کی راہ سے آسمان پر پہنچائے گئے۔ کس قدر لغو اور خلاف واقعہ عقیدہ ٹھہرے گا ۔“

(ست بچن، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 310)

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:

”ہم نے کسی کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ حضرت مسیح کی بلاد شام میں قبر ہے مگر اب صحیح تحقیق ہمیں اس بات کے لکھنے کیلئے مجبور کرتی ہے کہ واقعی قبر وہی ہے جو کشمیر میں ہے اور ملک شام کی قبر زندہ درگور کا نمونہ تھا جس سے وہ نکل آئے اور جب تک وہ کشمیر میں زندہ رہے ایک اونچے پہاڑ کی چوٹی پر مقام کیا گویا آسمان پر چڑھ گئے۔“

(ست بچن ،روحانی خزائن جلد 10 حاشیہ صفحہ 307)

یہ بھی ملاحظہ فرمائیں

یہود، نصاریٰ اور مسلمانوں کا نظریہ بابت وفات مسیح

یہود کا نظریہ یہود کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ ؑ نعوذ باللہ جھوٹے تھے اس لیے انہوں نے اسے صلیب …