مسئلہ وفات مسیح کی اہمیت

مخالفین احمدیت اعتراض کرتے ہیں کہ وفات مسیح اہم مسئلہ نہیں۔ جماعت احمدیہ اپنے بانی حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کی اقتداء میں قرآن مجید ، احادیث نبویہ اور عقلی مشاہدات کی بنیاد پر یہ عقیدہ رکھتی ہے کہ حضرت عیسیٰ سابقہ انبیاء کی طرح  وفات پا چکے ہیں۔ وفات مسیح کا عقیدہ ایک فطری عقیدہ ہے جس کے ثابت کرنے کےلئے عمومی رنگ کے علاوہ کسی دلیل کی ضرورت نہیں لیکن اللہ تعالیٰ جو حکیم و خبیر ہے اسنے اپنے خاص فضل سے قرآن کریم میں وفات مسیح کے متعلق قطعی فیصلہ فرما دیا ہے ۔ حضرت مسیح موعود ؑ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے الہام ہوا:

’’مسیح ابن مریم رسول اللہ فوت ہو چکا ہے اور اس کے رنگ میں ہوکر وعدہ کے موافق تو آیا ہے۔ وَکَانَ وَعْدُ اللّٰہِ مَفْعُوْلًا‘‘ (ازالہ اوہام ۔روحانی خزائن جلد 3صفحہ402)

مذکورہ بالا الہام میں دو دعوے ہیں پہلا دعویٰ وفات مسیح کا ہے اور اس پر بنیاد رکھتے ہوئے دوسرا دعویٰ حضرت مرزا صاحب کا مثیل مسیح ہونے کا ہے۔ اگرآپ کے الہام میں پہلا دعویٰ وفات مسیح کا غلط ہے جو دوسرے دعویٰ کی بنیاد ہے تو لازماًدوسرا دعویٰ مثیل مسیح ہونے کا سو فیصدغلط ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے اپنے مخالفین کو چیلنج دیا کہ اگر تم حیات مسیح ثابت کر دو تو اس صورت میں میری طرف سے ایک نشان کیا اگر ایک لاکھ نشانات بھی ہو ں تب بھی وہ قابل قبول نہیں ہو ں گے۔

در اصل اس چیلنج کے نتیجہ میں حیات مسیح کا عقیدہ رکھنے والوں کو اپنا عقیدہ قرآن کریم ، احادیث نبویہ اور عقلی مشاہدات سے ثابت کرنا پڑے گا۔ جو نہ وہ پہلے کر سکے ہیں اور نہ آئندہ کر سکیں گے۔

حضرت بانیٔ  جماعت احمدیہ نے اپنے زمانے کے علماء کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا:

”میں وعدہ کرتا ہوں کہ اگر مسیح ابن مریم کی حیات۔۔۔۔۔۔ ثابت ہو جائے تو میں اپنے الہام سے دستبردار ہو جاؤں گا۔ کیونکہ میں جانتا ہوں کہ قرآن کریم سے مخالف ہو کر کوئی الہام صحیح نہیں ٹھہر سکتا۔ پس کچھ ضرور نہیں کہ میرے مسیح موعود ہونے میں الگ بحث کی جائے۔ میں حلفاً اقرار کرتا ہوں کہ اگر میں ایسی بحث وفات عیسیٰ علیہ السلام میں غلطی پر نکلا تو دوسرا دعویٰ خود چھوڑ دوں گا اور ان تمام نشانوں کی پرواہ نہیں کروں گا جو میرے اس دعویٰ کے مصدق ہیں۔ کیونکہ قرآن کریم سے کوئی حجت بڑھ کر نہیں۔‘‘ (اشتہار 2اکتوبر 1891ء بحوالہ مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ235تا236)

 ایک اور اشتہار میں مولوی نذیر حسین صاحب دہلوی جو پورے ہندوستان میں اہلحدیث کے بہت بڑے عالم سمجھے جاتے تھے جنہوں نے نصف صدی کے قریب حدیث پڑھائی تھی اور پورے ملک میں شیخ الکل مشہور تھے ،کو مخاطب کر کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:۔

”اس قدر تو خود میں مانتا ہوں کہ اگر میرا دعوی ٰ مسیح موعود ہونے کا مخالف نصوص بینہ قرآن وحدیث ہے اور دراصل حضرت عیسیٰؑ ابنِ مریم آسمان پر بجسد عنصری موجود ہیں جو پھر کسی وقت زمین پر اتریں گے۔تو گومیرا دعویٰ ہزار الہام سے موید اور تائید یافتہ ہو اور گو نہ صرف ایک نشان بلکہ لاکھ آسمانی نشان اس کی تائید میں دکھلاؤں،تاہم وہ سب ہیچ ہیں۔کیونکہ کوئی امر اور کوئی دعویٰ اور کوئی نشان مخالف قرآن اور احادیث صحیحہ مرفوعہ ہونے کی حالت میں قابل قبول نہیں ۔اور صرف اس قدر مانتا ہوں بلکہ اقرار صحیح شرعی کرتا ہوں کہ اگر آپ یا حضرت !ایک جلسہ بحث مقررکرکے میری دلائل پیشکردہ جو صرف قرآن اور احادیث صحیحہ کی رو سے بیان کروں گا توڑ دیں اور ان سے بہتر دلائل حیات مسیح ابن مریم پر پیش کریں اور آیات صریحہ بینہ قطعیہ الدلالت اور احادیث صحیحہ مرفوعہ متصلہ کے منطوق سے حضرت مسیح ابنِ مریم کا بجسدہ العنصری زندہ ہونا ثابت کر دیں تو میں آپ کے ہاتھ پر توبہ کروں گا اور تمام کتابیں جو اس مسئلے کے متعلق تألیف کی ہیں ،جس قدر میرے گھر میں موجود  ہیں سب جلا دوں گا اور بذریعہ اخبارات اپنی توبہ اور رجوع کے بارے میں عام اطلاع دے دوں گا۔‘‘ (اشتہار 17اکتوبر1891ء مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 242)

پھر ایک اور اشتہار میں مولوی سید نذیر حسین صاحب کو مخاطب کر تے ہوئے فرمایا ۔(یہ اشتہار آپ نے مولوی نذیر حسین صاحب کی وفات و حیات مسیح پر بحث سے انکار پر تحریر فرمایا )

”میں نے یہ بھی وعدہ کیا تھا کہ اگر میں اپنے اس الہام پر غلطی پر نکلا اور آپ نے نصوص صریحہ بینہ قطعیہ سے مسیح ابن مریم کی جسمانی حیات کو ثابت کر دکھایا تو تمام عالم گواہ رہے کہ میں اپنے اس دعوے سے دست بردار ہو جاؤں گا ،اپنے قول سے رجوع کر وں گا ۔اپنے الہام کو اضغاث احلام قرار دے دوں گا اور اپنے اس مضمون کی کتابوں کو جلا دوں گا اور میں نے اللہ جلّشانہ کی قسم بھی کھائی کہ در حالت ثبوت مل جانے کے میں ایسا ہی کروں گا ۔‘‘ (اشتہار 23اکتوبر 1891ء مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 261)

اور آخر میں حضرت مرزا صاحب ؑ بانیٔ سلسلہ احمدیہ کی ایک پیشگوئی مسئلہ وفات مسیح کے متعلق درج کرتے ہیں۔ آپ ؑ فرماتےہیں:

’’مسیح موعود کا آسمان سے اُترنا محض جھوٹا خیال ہے۔ یاد رکھو کہ کوئی آسمان سے نہیں اُترے گا۔ ہمارے سب مخالف جواب زندہ موجود ہیں وہ تمام مریں گے اور کوئی اُن میں سے عیسیٰ ؑبن مریم کو آسمان سے اُترتے نہیں دیکھے گا۔ اور پھر ان کی اولاد جو باقی رہے گی وہ بھی مرے گی اور اُن میں سے بھی کوئی آدمی عیسیٰ ؑبن مریم کو آسمان سے اُترتے نہیں دیکھے گا اور پھر اولاد کی اولاد مرے گی اور وہ بھی مریم کے بیٹے کو آسمان سے اُترتے نہیں دیکھے گی۔ تب خدا اُن کے دلوں میں گھبراہٹ ڈالے گا کہ زمانہ صلیب کے غلبہ کا بھی گزر گیا۔ اور دنیا دوسرے رنگ میں آگئی مگر مریم کا بیٹا عیسٰیؑ اب تک آسمان سے نہ اُترا۔ تب دانشمند یک دفعہ اس عقیدہ سے بیزار ہو جائیں گے۔ اور ابھی تیسری صدی آج کے دن سے پوری نہیں ہوگی کہ عیسیٰ کے انتظار کرنے والے کیا مسلمان اور کیا عیسائی سخت نومید اور بدظن ہو کر اس جھوٹے عقیدہ کو چھوڑیں گے اور دنیا میں ایک ہی مذہب ہوگا اور ایک ہی پیشوا۔ مَیں تو ایک تخم ریزی کرنے آیا ہوں سو میرے ہاتھ سے وہ تخم بویا گیا اور اب وہ بڑھے گا اور پھولے گا اور کوئی نہیں جو اُس کو روک سکے۔‘‘ (تذکرۃ الشہادتین ۔ روحانی خزائن جلد 20صفحہ 67)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

’’وفات مسیح پر قرآن ہمارے ساتھ ہے۔ معراج والی حدیث ہمارے ساتھ ہے ۔ صحابہ ؓ کا اجماع ہمارے ساتھ ہے ۔ کیاوجہ ہے کہ تم حضرت عیسیٰؑ کو وہ خصوصیت دیتے ہو جو دوسرے کے لئے نہیں ۔ مجھے ایک بزرگ کی بات بہت ہی پیاری لگتی ہے ۔ اس نے لکھا ہے کہ اگر دنیا میں کسی کی زندگی کا مَیں قائل ہوتا تو آنحضرت ﷺ کی زندگی کا قائل ہوتا۔ دوسرے کی زندگی سے ہم کو کیا فائدہ ؟ تقویٰ سے کام لو۔ ضد اچھی نہیں۔ دیکھو پادری لوگ گلی اور کوچوں اور بازاروں میں یہی کہتے پھرتے ہیں کہ ہمارا یسوع زندہ ہے اور تمہارا رسُول مر چکا ہے ۔ اس کا جواب تم ان کو کیا دے سکتے ہو؟یہ زمانہ تو اسلام کی ترقی کا زمانہ ہے ۔ کسو ف و خسوف بھی پیشگوئی کے مطابق ہو چکا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اسلام کے واسطے وہ پہلو اختیار کیا ہے جس کے سامنے کوئی بول نہیں سکتا۔ سوچو انیس سو سال تک مسیح ؑ کو زندہ ماننے کا کیا نتیجہ ہوا؟ یہی کہ چالیس کروڑ عیسائی ہو گئے ۔ اب دُوسرے پہلو کو بھی چند سال کے واسطے آزما ؤ اور دیکھو کہ اس کا کیا نتیجہ ہوتا ہے ۔ کسی عیسائی سے پوچھو کہ اگر یسوع مسیح کی وفات کو تسلیم کر لیا جائے تو کیا پھِر بھی کوئی عیسائی دنیا میں رہ سکتا ہے ۔ تمہارایہ طیش اور یہ غضب مجھ پر کیوں ہے ؟ کیا اسی واسطے کہ مَیں اسلام کی فتح چاہتا ہوں۔‘‘ (ملفوظات جلد4ص520)

یہ بھی ملاحظہ فرمائیں

یہود، نصاریٰ اور مسلمانوں کا نظریہ بابت وفات مسیح

یہود کا نظریہ یہود کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ ؑ نعوذ باللہ جھوٹے تھے اس لیے انہوں نے اسے صلیب …