معراج اور رفع حضرت عیسیٰ علیہ السّلام

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا جسمانی رفع ثابت کرنے کے لئے یہ دلیل دی جاتی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی جسمانی طور پر معراج پر تشریف لے گئے تھے۔ چنانچہ کسی بھی انسان کا جسم سمیت آسمان پر جانا ممکن ہے۔

بنیادی جواب: 

اللہ تعالیٰ یقیناً ہر چیز پر قادر ہے ۔ وہ جو چاہے کرتا ہے مگر وہ اپنے بنائے ہوئے اصولوں کے خلاف نہیں کرتا۔ قرآن کریم کی آیت کریمہ ہے کہ لَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَبْدِیْلًا۔ (فاطر:44) یعنی تو ہر گز اللہ  کی سنت میں تبدیلی نہیں پائے گا۔  زندہ جسم سمیت کسی انسان کو اتنی دیر تک آسمان پر بٹھائے رکھنا اسکی سنت نہیں۔اسکے برعکس ہر انسان کے جسم پر موت وارد کرنا اسکی سنت ہے ۔یہی حال حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ہے ۔

کفارِ مکّہ کا مطالبہ – کفار نے آنحضرتﷺ سے آسمان پر چڑھ جانے کا مطالبہ کیا تھا

اَوْ تَرْقٰى فِىْ السَّمَآءِؕ وَلَنْ نُّؤْمِنَ لِرُقِيِّكَ حَتّٰى تُنَزِّلَ عَلَيْنَا كِتٰبًا نَّقْرَؤُهٗ‌ؕ قُلْ سُبْحَانَ رَبِّىْ هَلْ كُنْتُ اِلَّا بَشَرًا رَّسُوْلاً (بنی اسرائیل 94)

ترجمہ: ”یا تُو آسمان میں چڑھ جائے۔ مگر ہم تیرے چڑھنے پر بھی ہرگز ایمان نہیں لائیں گے یہاں تک کہ تُو ہم پر ایسی کتاب اتارے جسے ہم پڑھ سکیں۔ تُو کہہ دے کہ میرا ربّ (ان باتوں سے ) پاک ہے (اور) میں تو ایک بشر رسول کے سوا کچھ نہیں۔“

کفارِ مکّہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مطالبہ کیا کہ اگر آپ آسمان پر چڑھ جائیں اور ہمارے لئے ایک کتاب لے آئیں تب ہم آپ پر ایمان لائیں گے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان سے کہہ دو کہ اللہ تعالیٰ ایسی باتوں سے پاک ہے۔ یعنی وہ کبھی بھی کسی انسان کو جسم سمیت اوپر نہیں لے کرگیا اور میں تو صرف ایک بشر رسول ہوں۔ لہٰذا اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے جسمانی طور پر آسمان پر جانے کے عقیدہ کو مانا جائے تو پھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ وہ نہ بشر ہیں نہ رسول۔

جہاں تک معراج پر آنحضور ﷺ کے جسمانی طور پر جانے کا ذکر ہےتو اس دعویٰ کے برعکس قرآن و حدیث کے مندرجہ ذیل دلائل یہ ثابت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا معراج جسمانی نہیں بلکہ روحانی تھا۔ معراج یعنی آسمان پر جانے کا واقعہ 5 نبوی میں ہوا جب آپ خانہ کعبہ یعنی مسجدِ حرام میں سورہے تھے۔ ۔پس اس واقعہ کے روحانی ثابت ہوجانے سے حضرت عیسیٰ ؑ کا آسمان پر جسم کے ساتھ جانے کی دلیل بھی رد ہوجاتی ہے۔مندرجہ ذیل دلائل سے معراج کے روحانی ہونے کی تائید کرتے ہیں۔

قرآن کریم میں ذکر کہ آنکھ نے نہیں ،دل نے دیکھا

اگر معراج جسمانی ہوتا تو پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کو جسمانی آنکھ سے دیکھتے لیکن قرآن و حدیث میں ذکرہے کہ جو کچھ بھی دیکھا گیا دل سے دیکھا گیا۔

1. مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰى‏ (النجم: 12)

”اور دل نےجھوٹ بیان نہیں کیا جو اس نے دیکھا“

2. وَمَا جَعَلْنَا الرُّءْيَا الَّتِىْۤ اَرَيْنٰكَ اِلَّا فِتْنَةً لِّلنَّاسِ

اور وہ خواب جو ہم نے تجھے دکھایا اُسے ہم نے نہیں بنایا مگر لوگوں کے لئے آزمائش۔۔۔“ (بنی اسرائیل: 61)

حدیث میں ذکر کہ آنکھ نے نہیں ،دل نے دیکھا

1. ”عَنْ اِبْنِ عَبَّاسٍ قَالَ رَاٰہُ بَفُوَٴادِہ مَرَّتَیْنِ“

ابن عبّاس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کو اپنے دل سے دو بار دیکھا۔“ (مسلم کتاب الایمان)

حضرت عا ئشہ ؓ فرماتی ہیں

2. ”مَنۡ زَعَمَ اَنَّ مُحَمّداً صَلیَّ اللہُ عَلیہِ وَسَلَّمَ رَاٰی رَبَّہُ فَقَدۡ اَعۡظَمَ عَلی اللہِ الۡقَرِیَّةَ۔۔۔ اَوَلَمۡ تَسۡمَعۡ اَنَّ اللہَ عَزَّوَجَلَّ یَقُولُ لَا تُدۡرِکُہُ اۡلاَبۡصَارُ وَ ھُوَ یُدۡرِکُ اۡلاَبۡصَارَ۔۔۔“   

”جو اس بات کا قائل ہوا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا اس نے اللہ پر بڑا جھوٹ باندھا ۔۔۔ کیا تو نے نہیں سنا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ آنکھیں اس تک نہیں پہنچتیں بلکہ وہ آنکھوں تک پہنچتا ہے۔“ (مسلم کتاب الایمان)

صحیح بخاری میں مذکور مندرجہ ذیل حدیث پوری وضاحت سے یہ ثابت کررہی ہے کہ یہ سارا نظارہ روحانی تھا۔ اس حدیث کے شروع میں کہا گیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مسجدِ حرام میں سورہے تھے۔ آپ کی آنکھیں تو بند تھیں لیکن دل جاگ رہا تھا۔ پھر اس حدیث کا اختتام ان الفاظ سے ہوتا ہے کہ پھر حضور جاگ گئے اور آپ مسجدِ حرام میں ہی تھے۔ چنانچہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ سارا نظارہ دل نے دیکھا جو جاگ رہا تھا جبکہ آنکھیں سورہی تھیں۔

3. ”وَ ھُوَ نَائِمٌ فِی اۡلمَسۡجِدِ الحَرَامِ ۔۔۔ یَریٰ قَلۡبَہ ُوَ تَنَامُ عَیۡنُہ وَلَا یَنَامُ قَلۡبُہ ۔۔۔ وَاسۡتَیۡقَظَ وَ ھُوَ فِی اۡلمَسۡجَدِ الۡحَرامِ“ (بخاری کتاب التوحید)

”اور آپ مسجدِ حرام میں سو رہے تھے ۔۔۔ آپ کا دل دیکھ رہاتھا اور آپ کی آنکھیں سو رہی تھیں لیکن دل نہیں سورہا تھا ۔۔۔ اور آپ بیدار ہوئے تو مسجدِ حرام میں تھے۔“

حضرت عائشہ صدیقہؓ خدا کی قسم کھا کر بیان فرماتی ہیں کہ معراج میں حضور کا جسم غائب نہیں ہوا تھا۔

4. ’وَ اللّٰہِ مَا فُقِدَ جَسَدُ رَسُولِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم وَلٰکِن عُرِجَ بِرُوحِہ (تفسیر کشّاف)

اللہ کی قسم (معراج میں) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جسم غائب نہیں ہوا تھا بلکہ آپ کی روح کے ذریعے معراج ہوئی تھی۔

یہ بھی ملاحظہ فرمائیں

یہود، نصاریٰ اور مسلمانوں کا نظریہ بابت وفات مسیح

یہود کا نظریہ یہود کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ ؑ نعوذ باللہ جھوٹے تھے اس لیے انہوں نے اسے صلیب …