ثبوت صداقت حضرت مسیح موعودؑ از سورة یونس آیت 17

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

فَقَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِہٖ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ۔ (یونس :17)

ترجمہ: پس مَیں اس رسالت سے پہلے بھی تم میں ایک لمبی زندگی گزار چکا ہوں ، تو کیا تم عقل نہیں کر تے ؟

 حضرت بانی جماعت احمدیہ فرماتے ہیں:۔

’’دوسری خوبی جو شرط کے طور پر مامورین کے لئے ضروری ہے وہ نیک چال چلن ہے کیونکہ بدچال چلن سے بھی دِلوں میں نفرت پیدا ہوتی ہے۔ اوریہ خوبی بھی بدیہی طور پر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں پائی جاتی ہے جیسا کہ اللہ جلّشانہ، قرآن شریف میں فرماتا ہے فَقَدْ  لَبِثْتُ فِیْکُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِہٖ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ یعنی ان کفار کو کہہ دے کہ اِس سے پہلے میں نے ایک عمر تم میں ہی بسر کی ہے پس کیا تمہیں معلوم نہیں کہ میں کس درجہ کا امین اور راستباز ہوں۔ اب دیکھو کہ یہ دونوں صفتیں جو مرتبہ نبوت اور ماموریت کے لئے ضروری ہیں یعنی بزرگ خاندان میں سے ہونا اور اپنی ذات میں امین اور راستباز اور خدا ترس اور نیک چلن ہونا قرآن کریم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت کمال درجہ پرثابت کی ہیں اور آپ کی اعلیٰ چال چلن اور اعلیٰ خاندان پر خود گواہی دی ہے۔ اور اِس جگہ میں اِس شکرکے ادا کرنے سے رہ نہیں سکتا کہ جس طرح خدا تعالیٰ نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید میں اپنی وحی کے ذریعہ سے کفار کو ملزم کیا اور فرمایا کہ یہ میرا نبی اس اعلیٰ درجہ کا نیک چال چلن رکھتا ہے کہ تمہیں طاقت نہیں کہ اس کی گذشتہ چالیس برس کی زندگی میں کوئی عیب اور نقص نکال سکو باوجود اس کے کہ وہ چالیس برس تک دن رات تمہارے درمیان ہی رہا ہے ۔ اور نہ تمہیں یہ طاقت ہے کہ اس کے اعلیٰ خاندان میں جو شرافت اور طہارت اور ریاست اور امارت کا خاندان ہے ایک ذرہ عیب گیری کرسکو۔۔۔۔۔۔ اسی طور سے خدا تعالیٰ نے میرے مخالفین اور مکذّبین کو ملزم کیا ہے۔ چنانچہ براہین احمدیہ کے صفحہ 512میں میری نسبت یہ الہام ہے جس کے شائع کرنے پر بیس برس گذر گئے اور وہ یہ ہے وَلَقَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِہٖ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ یعنی ان مخالفین کو کہہ دے کہ میں چالیس برس تک تم میں ہی رہتا رہا ہوں اور اس مدّت دراز تک تم مجھے دیکھتے رہے ہو کہ میرا کام افترا اور دروغ نہیں ہے اور خدا نے ناپاکی کی زندگی سے مجھے محفوظ رکھا ہے تو پھر جو شخص اِس قدر مُدت دراز تک یعنی چالیس برس تک ہر ایک افترا اور شرارت اور مکر اور خباثت سے محفوظ رہا اور کبھی اس نے خلقت پر جھوٹ نہ بولا توپھر کیونکر ممکن ہے کہ برخلاف اپنی عادت قدیم کے اب وہ خدا تعالیٰ پر افترا کرنے لگا۔‘‘ (تریاق القلوب۔روحانی خزائن جلد 15صفحہ281تا283)

آپ علیہ السلام فرماتے ہیں :

’’دیکھو خدا نے اپنی حجت کو تم پر اس طرح پر پورا کر دیا ہے کہ میرے دعویٰ پر ہزار ہا دلائل قائم کر کے تمہیں یہ موقعہ دیا ہے کہ تا تم غور کرو کہ وہ شخص جو تمہیں اس سلسلہ کی طرف بلاتا ہے وہ کس درجہ کی معرفت کا آدمی ہے اور کس قدر دلائل پیش کرتا ہے اور تم کوئی عیب’ افترا یاجھوٹ یا دغا کا میری پہلی زندگی پر نہیں لگا سکتے تا تم یہ خیال کرو کہ جو شخص پہلے سے جھوٹ اور افترا کا عادی ہے یہ بھی اُس نے جھوٹ بولا ہوگا۔ کون تم میں ہے جو میری سوانح زندگی میں کوئی نکتہ چینی کر سکتا ہے۔ پس یہ خدا کا فضل ہے کہ جو اس نے ابتدا سے مجھے تقویٰ پر قائم رکھا اور سوچنے والوں کے لئے یہ ایک دلیل ہے۔‘‘ (تذکرۃ الشہادتین ۔ روحانی خزائن جلد 20صفحہ 64)

یہ بھی ملاحظہ فرمائیں

ثبوت صداقت حضرت مسیح موعودؑ از سورة الحاقہ 45تا47

وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَیْنَا بَعْضَ الْاَقَاوِیلِ لَاَخَذْنَا مِنْہُ بِالْیَمِیْنِ ثُمَّ لَق…