ثبوت وفات مسیح از سورۃ مریم آیت 32

وَاَوْصَانِیْ بِالصَّلٰوۃِ وَ الزَّکٰوۃِ مَا دُمْتُ حَیًّا (مریم :32)

ترجمہ: حضرت عیسیٰ ؑ نے کہا ۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے تاکیدی حکم دیا ہے کہ جب تک مَیں زندہ رہوں نماز پڑھتا رہوں اور زکوٰۃ ادا کرتا رہوں۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:۔

’’دیکھنا چاہیئے کہ قرآن شریف میں یہ بھی آیت ہے جو حضرت مسیح کی زبان سے اللہ جلّ شانُہ’ فرماتا ہے

وَاَوْصَانِیْ بِالصَّلٰوۃِ وَ الزَّکٰوۃِ مَا دُمْتُ حَیًّاوَ بَرًّا بِوَالِدَتِیْ

یعنی حضرت مسیح فرماتے ہیں کہ خدائے تعالیٰ نے مجھے فرمایا ہے نماز پڑھتارہ اور زکٰوۃ دیتا رہ اور اپنی والدہ پر احسان کرتا رہ جب تک تو زندہ ہے۔ اب ظاہر ہے کہ ان تمام تکلیفات شرعیہ کا آسمان پر بجالانا محال ہے۔ اور جو شخص مسیح کی نسبت یہ اعتقاد رکھتا ہے کہ وہ زندہ مع جسدہ آسمان کی طرف اٹھایا گیا اس کو اس آیت موصوفہ بالا کے منشاء کے موافق یہ بھی ماننا پڑے گا کہ تمام احکام شرعی جو انجیل اورتوریت کی رُو سے انسان پر واجب العمل ہوتے ہیں وہ حضرت مسیح پر اب بھی واجب ہیں حالانکہ یہ تکلیف مالایطاق ہے۔ عجیب بات ہے کہ ایک طرف تو خدا تعالیٰ یہ حکم دیوے کہ اے عیسیٰ جب تک تو زندہ ہے تیر ے پر واجب ہے کہ تو اپنی والدہ کی خدمت کرتا رہے اور پھرآپ ہی اس کے زندہ ہونے کی حالت میں ہی اس کو والدہ سے جدا کردیوے اورتابحیات زکٰوۃ کا حکم دیوے اورپھر زندہ ہونے کی حالت میں ہی ایسی جگہ پہنچادے جس جگہ نہ وہ آپ زکٰوۃ دے سکتے ہیں اور نہ زکٰوۃ کے لئے کسی دوسرے کو نصیحت کرسکتے ہیں اور صلٰوۃ کے لئے تاکید کرے اور جماعت مومنین سے دور پھینک دیوے جن کی رفاقت صلٰوۃ کی تکمیل کے لئے ضروری تھی۔ کیا ایسے اُٹھائے جانے سے بجُز بہت سے نقصان عمل اور ضائع ہونے حقوق عباد اور فوت ہونے خدمت امر معروف اورنہی منکر کے کچھ اَور بھی فائدہ ہؤا؟ اگر یہی اٹھارہ سواکانوے برس زمین پر زندہ رہتے تو اُن کی ذات جامع البرکات سے کیا کیا نفع خلق اللہ کو پہنچتا لیکن اُن کے اُوپر تشریف لے جانے سے بجُز اس کے اور کونسا نتیجہ نکلا کہ اُن کی اُمت بگڑ گئی اور وہ خدمات نبوت کے بجالانے سے بکلّی محروم رہ گئے۔‘‘

(ازالہ اوہام۔ روحانی خزائن جلد 3صفحہ 331تا332)

’’اس کی تفصیل ہم اسی رسالہ میں بیان کر چکے ہیں۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہے کہ انجیلی طریق پر نماز پڑھنے کے لئے حضرت عیسیٰ کو وصیت کی گئی تھی اور وہ آسمان پر عیسائیوں کی طرح نماز پڑھتے ہیں اور حضرت یحییٰ ان کی نماز کی حالت میں اُن کے پاس یونہی پڑے رہتے ہیں مردے جو ہوئے۔ اور جب دنیا میں حضرت عیسیٰ آئیں گے تو برخلاف اس وصیت کے اُمّتی بنکر مسلمانوں کی طرح نماز پڑہیں گے۔‘‘

(ازالہ اوہام۔ روحانی خزائن جلد 3صفحہ 428)

استدلال از حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ

یہ آیت فیصلہ کرتی ہے کہ اپنی زندگی کے زمانہ میں حضرت عیسیٰ ؑ نماز پڑھتے تھے اور زکوٰۃ بھی دیا کرتے تھے اب چونکہ وہ وفات پا چکے ہیں۔ اور دار العمل میں نہیں رہے بلکہ خدا تعالیٰ کے پاس جنت میں ہیں۔ لہٰذا اب ان پر نہ نماز فرض ہے نہ زکوٰۃ ۔ جیسا کہ ہر انسان پر شریعت کی تکلیف زندگی میں ہوتی ہے نہ کہ مرنے کے بعد۔ دوسرا اگر وہ آسمان پر زندہ فرض کئے جائیں اور ان احکام کی پابندی ان پر اب بھی ضروری تجویز کی جائے تو ماننا پڑتا ہے کہ انکےپاس آسمان پر روپیہ بھی ہو اور زکوٰۃ وصول کرنے والوں کا ایک گروہ بھی موجود ہو اور یہ باتیں بالبداہت محال ہیں۔

یہ بھی ملاحظہ فرمائیں

ثبوت وفات مسیح از سورۃ الحشر آیت 8

مَآ اٰتٰکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَا نَھٰکُمْ عَنْہُ فَانْتَھُوْا۔ (الحشر:8) ترجمہ: ا…