آیت لَوْ تَقَوَّلَ عَلَیْنَا اور معیار صداقت ۔ ایک اعتراض کا جواب

اعتراض کیا جاتا ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ نے جس مدت کو معیار صداقت ٹھہرا یا ہے آپ خود اس پر پورا نہیں اترتے کیونکہ آپ نے1901ء میں دعویٰ نبوت کیا ہے۔اس پرمزید اعتراض یہ بھی کیا جاتا ہے کہ سورۃ الحاقۃ کی آیت وَلَوْتَقَوَّلَ ۔۔۔۔ میں مدعی الہام نہیں مدعی نبوت کا ذکر ہے۔

جواب از تحریرات حضرت مسیح موعود علیہ السلام

حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:۔

’’  خدا تعالیٰ قرآن شریف میں بار بار فرماتا ہے کہ مفتری اسی دنیا میں ہلاک ہوگا بلکہ خدا کے سچے نبیوں اور مامورین کے لئے سب سے پہلی یہی دلیل ہے کہ وہ اپنے کام کی تکمیل کرکے مرتے ہیں۔ اور ان کو اشاعت دین کے لئے مہلت دی جاتی ہے اور انسان کی اس مختصر زندگی میں بڑی سے بڑی مہلت تیئیس۲۳برس ہیں کیونکہ اکثر نبوت کا ابتدا چالیس برس پر ہوتا ہے اور تیئیس برس تک اگر اور عمر ملی تو گویا عمدہ زمانہ زندگی کا یہی ہے۔ اسی وجہ سے مَیں بار بار کہتا ہوں کہ صادقوں کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا زمانہ نہایت صحیح پیمانہ ہے اور ہر گز ممکن نہیں کہ کوئی شخص جھوٹا ہو کر اور خدا پر افترا کرکے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ نبوت کے موافق یعنی تیئیس23 برس تک مہلت پا سکے ضرور ہلاک ہوگا۔ اس بارے میں میرے ایک دوست نے اپنی نیک نیتی سے یہ عذر پیش کیا تھا کہ آیت وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَیْنَا (الحاقۃ:45) میں صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مخاطب ہیں۔ اس سے کیونکر سمجھا جائے کہ اگر کوئی دوسرا شخص افتراکرے تو وہ بھی ہلاک کیا جائے گا۔ مَیں نے اس کا یہی جواب دیا تھا کہ خدا تعالیٰ کا یہ قول محلِ استدلال پر ہے اور منجملہ دلائل صدق نبوت کے یہ بھی ایک دلیل ہے اور خدا تعالیٰ کے قول کی تصدیق تبھی ہوتی ہے کہ جھوٹا دعویٰ کرنے والا ہلاک ہو جائے ورنہ یہ قول منکر پر کچھ حجت نہیں ہو سکتا اور نہ اس کے لئے بطور دلیل ٹھہر سکتا ہے بلکہ وہ کہہ سکتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تیئیس23 برس تک ہلاک نہ ہونا اس وجہ سے نہیں کہ وہ صادق ہے بلکہ اس وجہ سے ہے کہ خدا پر افترا کرنا ایسا گناہ نہیں ہے جس سے خدا اسی دنیا میں کسی کو ہلاک کرے کیونکہ اگر یہ کوئی گناہ ہوتا اور سنت اللہ اس پر جاری ہوتی کہ مفتری کو اسی دنیا میں سزا دینا چاہئے تو اس کے لئے نظیریں ہونی چاہئے تھیں۔ اور تم قبول کرتے ہو کہ اس کی کوئی نظیر نہیں بلکہ بہت سی ایسی نظیریں موجود ہیں کہ لوگوں نے تیئیس 23 برس تک بلکہ اس سے زیادہ خدا پر افتراکئے اور ہلاک نہ ہوئے۔ تو اب بتلائو کہ اس اعتراض کا کیا جواب ہوگا؟‘‘۔ (اربعین نمبر4۔ روحانی خزائن جلد17صفحہ434-435)

حضرت مسیح موعودؑ لیکچر لاہور جو3ستمبر 1904ء کا ہے میں فرماتے ہیں:

’’سو مَیں زور سے کہتا ہوں کہ میرا مسیح موعود ہونے کا دعویٰ اِسی شان کاہے کہ ہر ایک پہلو سے چمک رہا ہے۔ اوّل اِس پہلو کو دیکھو کہ میرا دعویٰ منجانب اللہ ہونے کا اور نیز مکالمہ اور مخاطبہ الٰہیہ سے مشرف ہونے کا قریباً ستائیس برس سے ہے۔یعنی اس زمانہ سے بھی بہت پہلے ہے کہ جب براہین احمدیہ ابھی تالیف نہیں ہوئی تھی۔ اور پھر براہین احمدیہ کے وقت میں وہ دعویٰ اسی کتاب میں لکھ کر شائع کیا گیا جس کو چوبیس برس کے قریب گزر چکے ہیں۔

اب دانا آدمی سمجھ سکتا ہے کہ جھوٹ کا سلسلہ اس قدر لمبا نہیں ہوسکتا اور خواہ کوئی شخص کیسا ہی کذّاب ہو وہ ایسی بدذاتی کا اس قدر دور دراز مدّت تک جس میں ایک بچہ پیدا ہو کر صاحب اولاد ہو سکتا ہے طبعًا مرتکب نہیں ہو سکتا۔ ماسوائے اس کے اس بات کوکوئی عقلمند قبول نہیں کرے گا کہ ایک شخص قریباً ستائیس برس سے خدا تعالیٰ پر افترا کرتا ہے اور ہر ایک صبح اپنی طرف سے الہام بنا کر اور محض اپنی طرف سے پیشگوئیاں تراش کر کے خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کرتا ہے اور ہر ایک دن یہ دعویٰ کرتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے مجھے یہ الہام کیا ہے اور خدا تعالیٰ کا یہ کلام ہے جو میرے پر نازل ہوا ہے۔ حالانکہ خدا جانتا ہے کہ وہ اس بات میں جھوٹا ہے۔ نہ اس کو کبھی الہام ہوا اور نہ خدا تعالیٰ اُس سے ہمکلام ہوا۔ اور خدا اس کو ایک لعنتی انسان سمجھتا ہے مگر پھر بھی اس کی مدد کرتا ہے۔ اور اس کی جماعت کو ترقی دیتا ہے۔ اور ان تمام منصوبوں اور بلاؤں سے اُسے بچاتا ہے جو دشمن اس کیلئے تجویز کرتے ہیں۔ پھر ایک اَور دلیل ہے جس سے میری سچائی روز روشن کی طرح ظاہر ہوتی ہے اورمیرا منجانب اللہ ہونا بپایۂ ثبوت پہنچتاہے۔ اور وہ یہ ہے کہ اُس زمانہ میں جبکہ مجھے کوئی بھی نہیں جانتا تھا یعنی براہین احمدیہ کے زمانہ میں جبکہ میں ایک گوشۂ تنہائی میں اس کتاب کو تالیف کررہا تھا اور بجز اس خدا کے جو عالم الغیب ہے کوئی میری حالت سے واقف نہ تھا تب اس زمانہ میں خدا نے مجھے مخاطب کر کے چند پیشگوئیاں فرمائیں جو اسی تنہائی اور غربت کے زمانہ میں براہین احمدیہ میں چھپ کر تمام ملک میں شائع ہوگئیں‘‘ (روحانی خزائن جلد 20 لیکچر لاہور ص188تا189)

مزید جوابات

وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَیْنَا بَعْضَ الْاَقَاوِیلِ لَاَخَذْنَا مِنْہُ بِالْیَمِیْنِ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْہُ الْوَتِیْن۔ (الحاقہ :45تا47)

ترجمہ:۔ اور اگر وہ بعض باتیں جھوٹے طور پر ہماری طرف منسوب کر دیتا۔تو ہم اُسے ضرور داہنے ہاتھ سے پکڑ لیتے ،پھر ہم یقیناً اس کی رگ ِ جان کاٹ ڈالتے۔

اس اعتراض کی بنیاد صرف اس مفروضہ پرہے کہ اس آیت میں صرف مدعی نبوت کے لئے وعید ہے۔ جبکہ اس آیت کے الفاظ بتاتے ہیں کہ اس آیت میں صرف مدعی وحی و الہام کا ذکر ہے۔

اگر مدعی نبوت کا ذکر ہوتا تو لَوْ تَنَبَّأَ  کے الفاظ ہوتے۔تَقَوَّلَ  اور   تَنَبَّأَ کے فرق کو لغت کھول کر معترض کو دوبارہ سمجھنے کی ضرورت ہے۔

حضرت اقدس مسیح موعود ؑ نے اپنے الہامات 1880ء سے شائع کرنے شروع کئے ۔ گو اس سے قبل بھی آپؑ اپنے الہامات لوگوں کے سامنے پیش کرتے تھے لیکن 1880ء سے باقاعدہ کتابی صورت میں بھی لوگوں کے سامنے آنے شروع ہو گئے۔

براہین احمدیہ جو 1880تا1884ء شائع ہوئی ۔ اس میں ایک آدھ نہیں بلکہ سینکڑوں الہامات آپؑ نے شائع کئے۔ اب معیارِ صداقت آنحضور  ﷺ کی زندگی کے باعث 23سال ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعودؑ  1908ء میں فوت ہوئے  1884ء سے بھی حساب لگائیں تو یہ 24سال بنتے ہیں۔ جبکہ آپ کو وحی و الہام کا دعویٰ اس سے قبل 1868کے قریب سے تھا۔

تفصیل جواب:

اگر بغرض بحث یہ مان بھی لیا جائے کہ یہاں صرف مدعی نبوت  ہی مراد ہے تو پھر بھی یہ اعتراض باطل ہے کیونکہ حضرت اقدس ؑ کا الہام ھُوَ الَّذِی اَرْسَلَ رَسُوْلَہُ بِالْھُدَی براہین احمدیہ میں موجود  ہے جس میں حضور ؑ کو  رسول کہہ کر پکارا گیا ہے اور حضورؑ نے اس الہام کو خدا کی طرف منسوب فرمایا ہے۔

اگر خدا تعالی نے حضرت مسیح موعود ؑ کو رسول نہیں کہا تھا تو پھر آیت زیر بحث کے مطابق ان کی قطع و تین ہونی چاہیے تھی مگر  حضرت مسیح موعودؑ اس الہام کے بعد تقریبا 30 سال تک زندہ رہے ۔

ہما رایہ مذہب  نہیں کہ حضرت مرزا صاحب ؑ براہین کی تالیف کے  زمانے میں نبی نہ تھے بلکہ ہمارا عقیدہ تو یہ ہے کہ حضور ؑ  براہین احمدیہ کے زمانے میں بھی نبی تھے  ہاں لفظ نبی کی تعریف  جو غیر احمدی علماء کے نزدیک مسلم تھی جو یہ  تھی کہ نبی کے لئے شریعت لانا ضروری ہے نیز یہ بھی ضروری ہے کہ وہ کسی دوسرے نبی کا تابع نہ ہو اس تعریف کی رو سے نہ حضرت مرزا صاحب 1901ء سے پہلے نبی تھے اور نہ بعد میں   کیونکہ آپ کوئی شریعت نہ لائے تھے اس لئے اوائل میں حضور ؑ اس تعریف  نبوت کی رو سے اپنی نبوت کی نفی کرتے رہے  جس سے مراد صرف اس قدر تھی کہ میں صاحب شریعت براہ راست نبی نہیں ہوں لیکن بعد میں جب حضور ؑ نے نبی کی تعریف سب مخالفین پر واضح  فرماکر اس کو خوب شائع فرمایا کہ نبی کے لئے شریعت لانا ضروری نہیں اور  نہ یہ ضروری ہے کہ وہ صاحب شریعت رسول کا تابع نہ ہو بلکہ کثرت مکالمہ و مخاطبہ مشتمل بر کثرت امور غیبیہ کا  نام نبوت ہے  تو اس تعریف کی رو سے آپ نے اپنے آپ کو نبی اور رسو ل کہا۔ اب ظاہر ہے کہ1901 ءسے پہلے کی تعریف نبوت کی رو سےحضرت صاحبؑ کبھی بھی نبی نہ تھے اور نہ صرف حضرت صاحب ؑ بلکہ آپ سے پہلے ہزاروں انبیاء مثلا حضرت ہارون ؑ ۔ سلیمان ؑ ، یحییؑ ۔ زکریاؑ ، اسحاقؑ یوسف ؑ ، وغیرہ بھی نبی ثابت نہیں ہوتے کیونکہ وہ بھی کوئی نئی شریعت نہ لائے تھے لیکن 1901 کے بعد کی تشریح کے رو سے ( جو ہم نے اوپر بیان کی ہے) 1901سے پہلے بھی حضورؑ نبی تھے۔

غرضیکہ حضرت صاحب ؑ کی نبوت یا اس کے دعوے کے زمانے کے بارہ میں کوئی اختلاف یا شبہ نہیں بلکہ بحث  صرف بحث نبوت کے متعلق ہے ورنہ حضرت صاحب ؑ  کا دعوی ابتداء سے آخر تک یکساں چلا  آتا ہے جس میں کوئی فرق نہیں آپ کے الہامات میں لفظ نبی اور رسول براہین کے زمانے  سے لے کر وفات تک ایک جیسا آیا ہے حضرت اقدسؑ نے جس چیز کو1901 کے بعد نبوت قرار دیا ہے اس کا اپنے وجود میں موجود ہونا حضورؑ نے براہین احمدیہ  کے زمانہ سے تسلیم فرمایا ہے  ۔

یہ بھی ملاحظہ فرمائیں

ثبوت صداقت حضرت مسیح موعودؑ از سورة الحاقہ 45تا47

وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَیْنَا بَعْضَ الْاَقَاوِیلِ لَاَخَذْنَا مِنْہُ بِالْیَمِیْنِ ثُمَّ لَق…