اعتراض: مرزا صاحب دعویٰ سے قبل حیات مسیح کے قائل تھے۔

ایک بات اعتراض کے رنگ میں یہ پیش کی جاتی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے دعویٰ سے قبل حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات اور انہی کے دوبارہ آنے پر یقین رکھتے تھے جس کا اظہار آپؑ نے براہین احمدیہ میں بھی کیا ہے۔

اس بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

’’کہتے ہیں کہ مسیح موعود کا دعویٰ کرنے سے پہلے براہین احمدیہ میں عیسیٰ علیہ السلام کے آنے کا اقرار موجود ہے۔ اے نادانو! اپنی عاقبت کیوں خراب کرتے ہو۔ اس اقرار میں کہاں لکھا ہے کہ یہ خدا کی وحی سے بیان کرتا ہوں اور مجھے کب اِس بات کا دعویٰ ہے کہ مَیں عالم الغیب ہوں جب تک مجھے خدا نے اس طرف توجہ نہ دی اور بار بار نہ سمجھایا کہ تُو مسیح موعود ہے اور عیسیٰ فوت ہوگیا ہے تب تک مَیں اسی عقیدہ پر قائم تھا جو تم لوگوں کا عقیدہ ہے۔ اِسی وجہ سے کمال سادگی سے مَیں نے حضرت مسیح کے دوبارہ آنے کی نسبت براہین میں لکھا ہے۔ جب خدا نے مجھ پر اصل حقیقت کھول دی تو مَیں اس عقیدہ سے باز آگیا۔ مَیں نے بجز کمال یقین کے جو میرے دِل پر محیط ہوگیا اور مجھے نُور سے بھر دیا اُس رسمی عقیدہ کو نہ چھوڑا حالانکہ اسی براہین میں میرانام عیسیٰ رکھا گیا تھا اور مجھے خاتم الخلفاء ٹھہرایا گیا تھا اور میری نسبت کہا گیا تھا کہ تُو ہی کسر صلیب کرے گا۔ اور مجھے بتلایا گیا تھا کہ تیری خبر قرآن اور حدیث میں موجود ہے اور تو ہی اِس آیت کا مصداق ہے کہ ھُوَ الَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیْظْھِرَہ ٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ۔ تا ہم یہ الہام جو براہین احمدیہ میں کھلے کھلے طور پر درج تھا خدا کی حکمت عملی نے میری نظر سے پوشیدہ رکھا اور اسی وجہ سے باوجودیکہ مَیں براہین احمدیہ میں صاف اور روشن طور پر مسیح موعود ٹھہرایا گیا تھا مگر پھر بھی مَیں نے بوجہ اس ذہول کے جو میرے دل پر ڈالا گیا حضرت عیسیٰ کی آمد ثانی کا عقیدہ براہین احمدیہ میں لکھ دیا۔ پس میری کمال سادگی اور ذہول پر یہ دلیل ہے کہ وحی الٰہی مندرجہ براہین احمدیہ تو مجھے مسیح موعود بناتی تھی مگر مَیں نے اس رسمی عقیدہ کو براہین میں لکھ دیا۔ مَیں خود تعجب کرتا ہوں کہ مَیں نے باوجود کھلی کھلی وحی کے جو براہین احمدیہ میں مجھے مسیح موعود بناتی تھی کیونکر اسی کتاب میں رسمی عقیدہ لکھ دیا۔

پھر مَیں قریباً بارہ برس تک جو ایک زمانہ دراز ہے بالکل اس سے بیخبر اور غافل رہا کہ خدا نے مجھے بڑی شدّو مدّ سے براہین میں مسیح موعود قرار دیا ہے اور مَیں حضرت عیسیٰ کی آمد ثانی کے رسمی عقیدہ پر جما رہا۔ جب بارہ برس گزر گئے تب وہ وقت آگیا کہ میرے پر اصل حقیقت کھول دی جائے تب تواتر سے اِس بارہ میں الہامات شروع ہوئے کہ تو ہی مسیح موعود ہے۔ پس جب اِس بارہ میں انتہا تک خدا کی وحی پہنچی اور مجھے حکم ہوا کہ فَاصْدَعْ بِمَا تُوْمَرُ یعنی جو تجھے حکم ہوتا ہے وہ کھول کر لوگوں کو سُنا دے اور بہت سے نشان مجھے دیئے گئے اور میرے دل میں روزِ روشن کی طرح یقین بٹھا دیا گیاتب مَیں نے یہ پیغام لوگوں کو سُنا دیا یہ خدا کی حکمت عملی میری سچائی کی ایک دلیل تھی اور میری سادگی اور عدم بناوٹ پر ایک نشان تھا۔ اگر یہ کاروبار انسان کا ہوتا اور انسانی منصوبہ اس کی جَڑ ہوتی تو مَیں براہین احمدیہ کے وقت میں ہی یہ دعویٰ کرتا کہ مَیں مسیح موعود ہوں مگر خدا نے میری نظر کو پھیر دیا۔ مَیں براہین کی اس وحی کو نہ سمجھ سکا کہ وہ مجھے مسیح موعود بناتی ہے یہ میری سادگی تھی جو میری سچائی پر ایک عظیم الشان دلیل تھی ورنہ میرے مخالف مجھے بتلاویں کہ مَیں نے باوجودیکہ براہین احمدیہ میں مسیح موعود بنایا گیا تھا بارہ برس تک یہ دعویٰ کیوں نہ کیا اور کیوں براہین میں خدا کی وحی کے مخالف لکھ دیا۔کیایہ امر قابلِ غورنہیں جو ظہور میں آیا۔ کیا یہ طریق بے ایمانی نہیں کہ براہین احمدیہ کی اس عبارت کو تو پیش کرتے ہیں جہاں مَیں نے معمولی اور رسمی عقیدہ کی رُو سے مسیح کی آمد ثانی کا ذکر کیا ہے۔ اور یہ پیش نہیں کرتے کہ اسی براہین احمدیہ میں مسیح موعود ہونے کا دعویٰ بھی موجود ہے۔ یہ ایک لطیف استدلال ہے جو خدا نے میرے لئے براہین احمدیہ میں پہلے سے تیار کر رکھا ہے۔ ایک دشمن بھی گواہی دے سکتا ہے کہ براہین احمدیہ کے وقت میں مَیں اس سے بیخبر تھا کہ مَیں مسیح موعود ہوں تبھی تو مَیں نے اس وقت یہ دعویٰ نہ کیا۔ پس وہ الہامات جو میری بیخبری کے زمانہ میں مجھے مسیح موعود قرار دیتے ہیں ان کی نسبت کیونکر شک ہو سکتا ہے کہ وہ انسان کا افترا ہیں کیونکہ اگر وہ میرا افترا ہوتے تو مَیں اسی براہین میں اُن سے فائدہ اُٹھاتا اور اپنا دعویٰ پیش کرتا اور کیونکر ممکن تھا کہ مَیں اسی براہین میں یہ بھی لکھ دیتا کہ عیسیٰ علیہ السلام دوبارہ دنیا میں آئے گا۔ ان دونوں متناقض مضمونوں کا ایک ہی کتاب میں جمع ہونا اور میرا اُس وقت مسیح موعود ہونے کا دعویٰ نہ کرنا ایک منصف جج کو اس رائے کے ظاہر کرنے کے لئے مجبور کرتا ہے کہ درحقیقت میرے دِل کو اس وحی الٰہی کی طرف سے غفلت رہی جو میرے مسیح موعود ہونے کے بارے میں براہین احمدیہ میں موجود تھی اِس لئے مَیں نے ان متناقض باتوں کو براہین میں جمع کردیا۔

اگر براہین احمدیہ میں فقط یہ ذکر ہوتا کہ وہی عیسیٰ علیہ السلام دوبارہ دنیا میں آئے گا۔ اور میرے مسیح موعود ہونے کی نسبت کچھ ذکر نہ ہوتا تو البتہ ایک جلد باز کسی قدر اس کلام سے فائدہ ٹھا سکتا تھا اور کہہ سکتا تھا کہ براہین احمدیہ سے بارہ برس بعد کیوں اس پہلے عقیدہ کو چھوڑ دیا گیا۔ گو ایسا کہنا بھی فضول تھا کیونکہ انبیاء اورملہمین صرف وحی کی سچائی کے ذمہ وار ہوتے ہیں اپنے اجتہاد کے کذب اور خلاف واقعہ نکلنے سے وہ ماخوذ نہیں ہو سکتے کیونکہ وہ ان کی اپنی رائے ہے نہ خدا کا کلام تاہم عوام کے آگے یہ دھوکا پیش جا سکتا تھا مگر اب تو ایسے پوچ اعتراض کو قدم رکھنے کی جگہ نہیں کیونکہ اُسی براہین احمدیہ میں اظہار دعویٰ سے بارہ برس پہلے جا بجا مجھے مسیح موعود قرار دیا گیا ہے اور عقلمند کے آگے میری سچائی کے لئے یہ نہایت صاف دلیل ہے۔

غرض براہین احمدیہ میں حضرت عیسیٰ کی دوبارہ آمد کا ذکر ایک نادان کو اُس وقت دھوکا دے سکتاتھا جبکہ براہین احمدیہ میں میرے مسیح موعود ہونے کی نسبت کچھ ذکر نہ ہوتا مگر وہ ذکر تو ایسا صاف تھا کہ لدہیانہ کے مولویوں محمد اور عبدالعزیزاور عبداللہ نے اسی زمانہ میں اعتراض کیا تھا کہ یہ شخص اپنا نام عیسیٰ رکھتا ہے اور عیسیٰ کی نسبت جس قدر پیشگوئیاں ہیں وہ سب اپنی طرف منسوب کرتا ہے اور ان کا جواب مولوی محمد حسین نے اپنے ریویو میں دیا تھا کہ یہ اعتراض فضول ہے کیونکہ اسی براہین میں حضرت عیسیٰ کی آمد ثانی کا اقرار بھی تو موجود ہے۔

پس مَیں خدا کی حکمت عملیوں پر قربان ہوں کہ کیسے لطیف طور سے پہلے سے میری بریّت کا سامان براہین میں تیار کر رکھا۔ اگر براہین احمدیہ میں حضرت عیسیٰ کی آمد ثانی کا کچھ بھی ذکر نہ ہوتا اور صرف میرے مسیح موعود ہونے کا ذکر ہوتا تو وہ شور جو سالہا سال بعد پڑا اور تکفیر کے فتوے تیار ہوئے یہ شور اُسی وقت پڑ جاتا۔ اور اگر براہین میں صرف حضرت مسیح کی آمد ثانی کا ذکر ہوتا اور میرے مسیح موعود ہونے کے الہامات اس میں مذکور نہ ہوتے تو جاہلوں کے ہاتھ میں ایک حجت آجاتی کہ براہین میں تو حضرت عیسیٰ کی آمد ثانی کا اقرار تھا اور پھر بارہ برس بعد اُس آمد سے انکار کیوں کیا گیا مگر ایک طرف وحی الٰہی کا براہین میں مجھے مسیح موعود قرار دینا اور ایک طرف اس کے برخلاف میرے قلم سے رسمی عقیدہ کے طور پر آمد ثانی مسیح کا ذکر ہونا یہ ایسا امر ہے کہ عقلمند اس سے سمجھ سکتا ہے کہ یہ خاص خدا کی حکمت عملی ہے۔ غرض خدا کی حکمت عملی نے مجھے اس غلطی کا مرتکب کر کے کہ مَیں نے عیسیٰ کی آمدثانی کا اسی کتاب میں ذکر کر دیا جہاں میرے مسیح موعود ہونے کا ذکر تھا میری سادگی اور عدم افترا کو ظاہر کر دیا۔ ورنہ کیا شک تھا کہ وہ سب الہامات جو براہین احمدیہ میں مندرج ہیں جو مجھے مسیح موعود بناتے ہیں وہ تمام افترا پر محمول ہوتے اور یہ بات تو کوئی عقل سلیم قبول نہیں کرے گی کہ جو دعویٰ مسیح موعود ہونے کا براہین احمدیہ سے بارہ سال بعد پیش کیا گیا اس کا منصوبہ اتنی مدّت پہلے بنا رکھا تھا۔ غرض اسی کتاب میں جس میں میرے مسیح موعود ہونے کا ذکر ہے حضرت عیسیٰ کی آمد ثانی کا بھی ذکر ہونا یہی میری سادگی اور عدم افتراپر ایک زندہ گواہ ہے۔ ‘‘ (اعجازِ احمدی۔روحانی خزائن جلد 19صفحہ112تا116)

یہ بھی ملاحظہ فرمائیں

یہود، نصاریٰ اور مسلمانوں کا نظریہ بابت وفات مسیح

یہود کا نظریہ یہود کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ ؑ نعوذ باللہ جھوٹے تھے اس لیے انہوں نے اسے صلیب …