اعتراض بابت تحریر حقیقتہ الوحی: ’’تیرا تخت سب سے اوپر بچھایا گیا‘‘

اعتراض کیا جاتا ہے کہ حقیقتہ الوحی ۔روحانی خزائن جلد 22صفحہ 92 پر لکھا ہے کہ ’’آسمان سے کئی تخت اترے پر تیرا تخت سب سے اوپر بچھایا گیا۔‘‘

یہ ایک الہام ہے

جو حوالہ دیاگیا ہے وہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے الہامات بیان فرما رہے ہیں ۔ اور جو کلمات الہام ہوئے ہوں ان پر انسان کا کوئی اختیار نہیں ہوتا ۔ اس لحاظ سے اس عبارت پر کوئی اعتراض نہیں بنتا۔

جماعت احمدیہ کے دوسرے امام حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ  اس اعتراض کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں:۔

’’یہ ٹھیک ہے مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ یہ کہنے والا اپنا رُتبہ محمد ﷺ سے بڑا قرار دیتا ہے ۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا شعر ہے        ؎

                        ابنِ مریم کے ذکر کو چھوڑو

                        اس سے بہتر غلام ِ احمد ہے

جس کا یہ مطلب  ہے کہ مَیں جو محمد ﷺ کا غلام ہوں ابن مریم سے بڑھ کر ہوں۔ اسی طرح سینکڑوں جگہ آپ نے لکھا ہے کہ میں محمد ﷺ  کا خادم ہوں ایک منٹ ان سے جدا ہونا  میرے لئے موت ہے ۔پھر آپ فرماتے ہیں کہ کُلُّ بَرَکَۃٍ مِّنْ مُحَمَّدٍ  ﷺ فَتَبَارَکَ مَنْ عَلَّمَ وَ تَعَلَّمَ۔یعنی ہر برکت محمد ﷺ  کی طرف سے ہے اور وہ بڑا مبارک ہے جس نے محمد ﷺ  سے تعلیم پائی یعنی مَیں خود۔اس الہام کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ  کے بعد  کے تمام بزرگوں  سے آپ کا درجہ بڑا تھا۔‘‘

(سید عطاء اللہ شاہ بخاری کے مقدمہ میں حضور کا بیان ۔ انوار العلوم جلد 13 صفحہ 388)

پھر فرمایا:  ’’میرا عقیدہ یہ ہے کہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب کا رسول کریم ﷺ  سے بڑا رتبہ رکھنا تو درکنار   وہ ان کے برابر بھی نہیں ہو سکتے۔ اس لئے جہاں حضرت مرزا صاحب  کے تخت کے متعلق یہ آیا ہے کہ تیرا تخت سب سےاوپر بچھایا گیا ، وہاں رسول کریم  ﷺ کے بعد میں آنےو الے تختوں کا ذکر ہے نہ یہ کہ رسول کریم  ﷺ کے تخت  سے اوپر حضرت مرزا صاحب کا تخت بچھایا گیا ۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ کتاب اربعین کے صفحہ 17 میں حضرت مرزا صاحب نے یہ لکھا ہے ۔ اور حقیقۃ الوحی کا صفحہ 116٭بھی اسی عقیدہ کی تائید کرتا ہے ۔‘‘

(سید عطاء اللہ شاہ بخاری کے مقدمہ میں حضور کا بیان ۔ انوار العلوم جلد 13 صفحہ405)

٭حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :۔

’’ مَیں ہمیشہ تعجب کی نگہ سے دیکھتا ہوں کہ یہ عربی نبی جس کا نام محمد ہے (ہزار ہزار درود اور سلام اُس پر) یہ کس عالی مرتبہ کا نبی ہے۔ اس کے عالی مقام کا انتہا معلوم نہیں ہو سکتا اور اس کی تاثیر قدسی کا اندازہ کرنا انسان کا کام نہیں۔ افسوس کہ جیساحق شناخت کا ہے اُس کے مرتبہ کو شناخت نہیں کیا گیا۔ وہ توحید جو دنیا سے گم ہو چکی تھی وہی ایک پہلوان ہے جو دوبارہ اس کو دنیا میں لایا۔ اُس نے خدا سے انتہائی درجہ پر محبت کی اور انتہائی درجہ پر بنی نوع کی ہمدردی میںؔ اس کی جان گداز ہوئی اِس لئے خدانے جو اُس کے دل کے راز کا واقف تھا اُس کو تمام انبیاء اور تمام اوّلین و آخرین پر فضیلت بخشی اور اُس کی مرادیں اُس کی زندگی میں اُس کو دیں۔ وہی ہے جو سرچشمہ ہر ایک فیض کا ہے اور وہ شخص جو بغیر اقرار افاضہ اُس کے کسی فضیلت کا دعویٰ کرتا ہے۔ وہ انسان نہیں ہے بلکہ ذُرّیّتِ شیطان ہے کیونکہ ہر ایک فضیلت کی کُنجی اُس کو دی گئی ہے اور ہر ایک معرفت کا خزانہ اُس کو عطا کیا گیا ہے۔ جو اُس کے ذریعہ سے نہیں پاتا وہ محروم ازلی ہے۔ ہم کیا چیز ہیں اور ہماری حقیقت کیا ہے۔ ہم کافر نعمت ہوں گے اگر اس بات کا اقرار نہ کریں کہ توحید حقیقی ہم نے اِسی نبی کے ذریعہ سے پائی اور زندہ خدا کی شناخت ہمیں اِسی کامل نبی کے ذریعہ سے اور اسکے نُور سے ملی ہے اور خدا کے مکالمات اور مخاطبات کا شرف بھی جس سے ہم اُس کا چہرہ دیکھتے ہیں اِسی بزرگ نبی کے ذریعہ سے ہمیں میسر آیا ہے ۔‘‘

(حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد 22صفحہ 118تا119)

یہ بھی ملاحظہ فرمائیں

اعتراض بابت نزول قرآنی آیات

مرزا صاحب پر وہی قرآنی آیات نازل ہوئیں جو آنحضرتﷺ پر نازل ہوئی تھیں۔جیسے و رفعنا لک ذکرک،،…