الہام ’’اَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ عَرْشِیْ‘‘ پر اعتراض

’’اَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ عَرْشِیْ‘‘پر اعتراض کا جواب۔ (تذکرہ صفحہ 513)

ترجمہ: تُو بمنزلہ میرے عرش کے ہے۔

جب بھی خدا کا کوئی بندہ آسمان سے آتا ہے ایک نئی زمین اورنیا آسمان پیدا کیا جاتا ہے ۔حضرت بایزید بسطامی ؒ کے متعلق لکھا ہے کہ ان سے کسی نے پوچھاکہ عرش کیا ہے ؟فرمایا میں ہوں پوچھا کرسی کیا ہے َفرمایا میں ہوں پوچھا لوح کیا ہے ؟فرمایا میں ہوں پوچھا کہتے ہیں کہ ابراہیم موسی اور محمد ؐ اللہ کے برگزیدہ بندے ہیں فرمایا میں ہوں۔ (تذکرہ الاولیاء اردو باب نمبر 14شائع کردہ شیخ برکت علی اینڈ سنز)

عرش الٰہی کوئی مادی مقام نہیں ہے جیسا کہ معترض صاحب کے دماغ میں ہے جو جو ّ میں کسی جگہ لٹکا پڑا ہے نہ ہی کرسی سے مراد ایسی کرسی ہے جس پر انسان بیٹھتا ہے ۔یہ سب جہالت کی باتیں ہیں جو عرفان سے عاری لوگ خدا تعالی کی طرف منسوب کر دیتے ہیں ۔خدا تعالیٰ کی شان کے مطابق عرش اور اس کے مختلف معنی ہوتے ہیں جن میں سے ایک معنی عبادت گذار بندے کا قلب ہے جس پر خدا تعالیٰ تجلی فرماتا ہے اور قرار پکڑتا ہے یعنی ہمیشہ کے لئے اس قلب پر قبضہ فرما لیتا ہے چنانچہ مرزا صاحب نے معراج کے مضمون پر عارفانہ کلام میں یہ حقیقت بیان فرمائی کہ وہ بلند ترین مقام جس پر خدا تعالی جلوہ گر ہو اور جسے عرش کے نام سے یاد کیا جاتا ہے وہ خود محمد ؐ کا اعلیٰ اور ارفع قلب ہی تھا۔

امت محمدیہ میں اور بھی اےسے صوفی بزرگ گزرے ہیں جنہوں نے یہی معنی کئے ہیں اور اپنے لئے کئے۔

یہ بھی ملاحظہ فرمائیں

اعتراض بابت نزول قرآنی آیات

مرزا صاحب پر وہی قرآنی آیات نازل ہوئیں جو آنحضرتﷺ پر نازل ہوئی تھیں۔جیسے و رفعنا لک ذکرک،،…