کیا آنحضور ﷺ کی بعثت ثانیہ حضرت مسیح موعودؑ کے ذریعہ ہوئی؟

امت محمدیہ میں یہ عقید ہ مسلسل چلا آیا ہے کہ آخری زمانہ میں آنحضرت ﷺ کی بعثت ثانیہ کے طور پر امام مہدی کا ظہور ہوگا ۔ مسیح موعود کی آمد کا عقیدہ بھی امت میں جاری وساری رہا ہے۔ مسلمانوں کا عمومی عقیدہ یہی چلا آیا ہے کہ آنے والا مسیح نبی ہے ۔خود نبی پاک ﷺ نے امت کے موعود کو چار مرتبہ نبی اﷲ قرار دیا ہے ۔بیشک اب تکمیل دین کے لئے نبی کی ضرورت نہیں مگر تکمیل اشاعت دین کا کام بھی نبی کے بغیر نہیں ہو سکتا ۔

قرآن کریم کی سورۃ الجمعۃ کی آیت 3-4میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

’’ھُوَالَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیّٖنَ رَسُوْلاً مِّنْھُمْ یَتْلُوْاعَلَیْھِمْ اٰیٰتِہٖ وَیُزَکِّیْھِمْ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ ۔ وَاِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ۔ وَّاٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ‘‘ (سورۃ الجمعۃ:3،4)

ترجمہ :وہی ہے جس نے امی لوگوں میں انہی میں سے ایک عظیم رسول مبعوث کیا۔ وہ اُن پر اس کی آیات کی تلاوت کرتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب کی اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے جبکہ اس سے پہلے وہ یقیناً کھلی کھلی گمراہی میں تھے۔

اور انہی میں سے دوسروں کی طرف بھی (اسے مبعوث کیا ہے )جو ابھی اُن سے نہیں ملے۔

ان آیات کریمہ میں نبی کریم ﷺ کی بعثت ثانیہ کی خوش خبری دی گئی ہے ۔ چنانچہ اس کی تفسیربیان کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں :

’’ حدیث صحیح میں ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اِس آیت کی تفسیر کے وقت سلمان فارسی کے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور فرمایا ۔ لَوْکَانَ الْاِیْمَانُ مُعَلَّقًا بِالْثُّرَیَّا لَنَالَہٗ رَجَلٌ مِّنْ فَارِسَ یعنی اگر ایمان ثریّا پر یعنی آسمان پر بھی اُٹھ گیا ہو گا تب بھی ایک آدمی فارسی الاصل اُس کو واپس لائے گا۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ فرمایا کہ ایک شخص آخری زمانہ میں فارسی الاصل پیدا ہو گا اس زمانہ میں جس کی نسبت لکھا گیا ہے کہ قرآن آسمان پر اُٹھایا جائے گا یہی وہ زمانہ ہے جو مسیح موعود کا زمانہ ہے۔ اور یہ فارسی الاصل وہی ہے جس کا نام مسیح موعود ہے۔۔۔۔ جس حالت میں مسیح موعود اور فارسی الاصل کا زمانہ بھی ایک ہی ہے اور کام بھی ایک ہی ہے یعنی ایمان کو دوبارہ قائم کرنا اس لئے یقینی طور پر ثابت ہوا کہ مسیح موعود ہی فارسی الاصل ہے اور اُسی کی جماعت کے حق میں یہ آیت ہے وَّاٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ اس آیت کے معنے یہ ہیں کہ کمال ضلالت کے بعد ہدایت اور حکمت پانے والے اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے معجزات اور برکات کو مشاہدہ کرنے والے صرف دو ہی گرو ہ ہیں اوّل صحابۂ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ظہور سے پہلے سخت تاریکی میں مبتلا تھے اور پھر بعد اس کے خدا تعالیٰ کے فضل سے انہوں نے زمانہ نبوی پایا اور معجزات اپنی آنکھوں سے دیکھے اور پیشگوئیوں کا مشاہدہ کیا اور یقین نے اُن میں ایک ایسی تبدیلی پیدا کی کہ گویا صرف ایک رُوح رہ گئے۔ دوسرا گروہ جو بموجب آیت موصوفہ بالا صحابہ کی مانند ہیں مسیح موعود کا گروہ ہے۔ کیونکہ یہ گروہ بھی صحابہ کی مانند آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے معجزات کو دیکھنے والا ہے اور تاریکی اور ضلالت کے بعد ہدایت پانے والا۔ اور آیت 3 میں جو اس گروہ کو 3کی دولت سے یعنی صحابہ سے مشابہ ہونے کی نعمت سے حصّہ دیا گیا ہے ۔ ‘‘ (ایام الصلح۔ روحانی خزائن جلد14ص304-305)

’’ آیت وَّاٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ میں یہ بھی اشارہ ہے کہ جیسا کہ یہ جماعت مسیح موعود کی صحابہ رضی اﷲ عنہم کی جماعت سے مشابہ ہے ایسا ہی جو شخص اس جماعت کا امام ہے وہ بھی ظلّی طو رپر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے مشابہت رکھتا ہے جیسا کہ خود آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے مہدی موعود کی صفت فرمائی کہ وہ آپ سے مشابہ ہو گا اور دو مشابہت اُس کے وجود میں ہوں گی۔ ایک مشابہت حضرت مسیح علیہ السلام سے جس کی وجہ سے وہ مسیح کہلائے گا اور دوسری مشابہت آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے جس کی وجہ سے وہ مہدی کہلائے گا۔ ‘‘ (ایام الصلح۔ روحانی خزائن جلد14ص307)

حضرت مرزا غلام احمد قایانی ؑ کو اللہ تعالیٰ نے اس آخری زمانہ میں اسلام کی احیاء اور اشاعت کے واسطے مبعوث فرمایا۔آپ نے اللہ تعالیٰ سے خبر پاکر نبی کریمﷺ کی پیش گوئیوں کے عین مطابق مسیح موعود اور مہدی موعود ہونے کا دعوی کیا اور اپنے آپ کو و اٰخرین منھم کا مصداق قرار دیا۔

حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:۔

اور چونکہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کا حسب آیت واٰخرین منھم دوبارہ تشریف لانا بجز صورت بروز غیر ممکن تھا اس لئے آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی روحانیت نے ایک ایسے شخص کو اپنے لئے منتخب کیا جو خلق اور خو اور ہمت اور ہمدردی خلائق میں اس کے مشابہ تھا اور مجازی طور پر اپنا نام احمد اور محمد اس کو عطا کیا تا یہ سمجھا جائے کہ گویا اس کا ظہور بعینہٖ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ظہور تھا لیکن یہ امر کہ یہ دوسرا بعث کس زمانہ میں چاہئے تھا؟ اس کا یہ جواب ہے کہ چونکہ خدا تعالیٰ کے کاموں میں تناسب واقع ہے اور وضع شیء فی محلّہٖ اس کی عادت ہے جیسا کہ اسم حکیم کے مفہوم کا مقتضاہونا چاہئے اور نیز وہ بوجہ واحد ہونے کے وحدت کو پسند کرتا ہے اس لئے اُس نے یہی چاہا کہ جیسا کہ تکمیل ہدایت قرآن خلقتِ آدم کی طرح چھٹے دن کی گئی یعنی بروز جمعہ ایسا ہی تکمیل اشاعت کا زمانہ بھی وہی ہو جو چھٹے دن سے مشابہ ہولہٰذا اُس نے اس بعث دوم کے لئے ہزار ششم کو پسند فرمایا اور وسائل اشاعت بھی اِسی ہزار ششم میں وسیع کئے گئے اور ہر ایک اشاعت کی راہ کھولی گئی۔ ہر ایک ملک کی طرف سفر آسان کئے گئے جابجا مطبع جاری ہو گئے۔ ڈاک خانہ جات کا احسن انتظام ہو گیا اکثر لوگ ایک دوسرے کی زبان سے بھی واقف ہو گئے اور یہ امور ہزار پنجم میں ہرگز نہ تھے بلکہ اس ساٹھ سال سے پہلے جو اس عاجز کی گذشتہ عمر کے دن ہیں ان تمام اشاعت کے وسیلوں سے ملک خالی پڑا ہوا تھا اور جو کچھ ان میں سے موجود تھا وہ ناتمام اور کم قدر اور شاذو نادر کے حکم میں تھا۔ (تحفہ گولڑویَّہ ۔روحانی خزائن جلد 17صفحہ 265)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ ایم ۔ ٹی۔ اے کے پروگرام لقاء مع العرب میں فرماتے ہیں :۔

’’سب سے پہلے تو یہ کہ خدا تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کے ساتھ کیاہوا یہ وعدہ پورا فرمایا جس کاذکر قرآن کریم میں سورۃ الجمعہ میں یوں فرمایا:

’’ھُوَالَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیّٖنَ رَسُوْلاً مِّنْھُمْ یَتْلُوْاعَلَیْھِمْ اٰیٰتِہٖ وَیُزَکِّیْھِمْ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ ۔ وَاِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ۔ وَّاٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ ۔ وَھُوَالْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ‘‘۔ (سورۃ الجمعۃ:4،3)

اس کا مطلب یہ ہے کہ وعدہ کا دوسرا حصہ ایک ایسے زمانہ میں پورا ہوگا جو آنحضرت ﷺ کے وقت کے بہت بعد میں آنے والاہے ۔ جس بناپراس کا اٰخَرِیْنَ مِنْھُم کے حوالہ سے ذکرکیا ۔ یہ وہ وعدہ ہے جس میں احمدیت کی تصویر ابھرتی ہے ۔ تمام قدیم مسلمان علماء اس وعدہ کے مختلف پہلو زیر بحث لایا کرتے تھے اور سب اس نکتہ پر متفق تھے کہ آخری زمانہ میں جو یقینا آج کل کا زمانہ ہے خدا تعالیٰ’’ اَلْاِمَامُ الْمَہْدِی‘‘ کے نام سے ایک مصلح مبعوث فرمائے گا۔۔۔

قرآن کریم نے بڑی تفصیل کے ساتھ اس مسئلہ پر بات کی ہے ۔ ان لوگوں کے بارہ میں جوآخرت میں آنے والے ہیں ، مرنے کے بعدکی آخرت میں نہیں بلکہ اسی زمین پر بعدکے زمانہ میں اور ان میں سے بعض لوگوں کا درجہ خدا کی نظر میں ایسا بلند ہوگا کہ وہ ثُلَّۃٌ مِنَ الاَوَّلِین۔ وَ ثُلَّۃٌ مِنَ الآخِرِین (الواقعہ:40،41)کہلائیں گے۔ان میں سے ایک جماعت ثُلّۃٌ ہوگی اور پھر ایک اورجگہ فرماتاہے۔ ثُلَّۃٌ مِنَ الاَوَّلِین وَ قَلِیْلٌ مِّنَ الآخِرِین(الواقعہ:14) وہ سارے بالکل ایک دوسرے کے برابر نہیں ہونگے کیونکہ پہلی مرتبہ جب آنحضرتﷺ خود تشریف لائے ، آپ کا لوگوں کی اصلاح و تربیت و تقویٰ کے معیار کو بلندکرنا ایسا بے نظیر و لاثانی تھا کہ آپؐ کے بعد آپؐ کی ماتحتی میں خواہ کیسا ہی بلند مرتبہ نبی مبعوث ہوجاتا وہ اپنے ماننے والوں کو اس درجہ کمال تک نہیں پہنچا سکتاتھا۔

یہ بہت ہی خوبصورت آیت ہے جو آپ ؐ کی بعثت اولیٰ اور بعثت ثانیہ کے درمیان فرق اور موازنہ کو پیش کر رہی ہے۔ جب آپ پہلی مرتبہ ظاہر ہوئے تو آپ کے متبعین کا معیارروحانی بھی بہت بلند تھا اور تعداد بھی بہت زیادہ تھی۔ اس لئے جب بھی ان کا ذکر ہوا تو قرآن کریم نے فرمایا ’’ ثُلَّۃٌ مِنَ الاَوَّلِین ‘‘ ۔ ’’ ثُلَّۃٌ مِنَ الاَوَّلِین ‘‘ کبھی ان کے لئے قَلِیلٌ مِنَ الاَوَّلِین نہیں فرمایا۔ لیکن جب آپ کی بعثت ثانیہ کاذکر ہوا ، بے شک کہ قرآن کریم فرماتاہے ’’وَاٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ‘‘گویا کہ آپ ؐ دوبارہ تشریف لائیں گے ۔ لیکن آیات قرآنی ہمیں یقینی خبر دے رہی ہیں کہ آپ بنفس نفیس اسی وجود کے ساتھ ظہور نہیں فرمائیں گے بلکہ آپ کی خُو بُو پر اورکامل متابعت میں کوئی دوسرا وجود اپنی انتہائی کوشش فرمائے گا لیکن اس کے ماننے والوں کا اولین کے ساتھ مقابلہ نہیں ہو سکے گا۔اُس کے ذریعہ آخرین کی پیشگوئی تو ضرور پوری ہوگی ایک قلیل تعداد اس کے ماننے والوں کی مرتبہ ومقام میں ضرور اولین کے مرتبہ تک پہنچے گی۔ بے شک کہ ان سب کا معیار ویسااعلیٰ و ارفع نہیں ہوگا۔ اس لئے دوسری جگہ ثُلَّۃٌ مِنَ الآخِرِین سے مراد اس وجود کے ماننے والوں کی کثرت تعداد مراد ہے جو روحانیت میں درمیانہ درجہ کے حامل ہونگے۔ انہیں اولین جیسا اعلیٰ مقامِ روحانیت نصیب نہیں ہوگا ۔ اس ایمانی ، روحانی و اخلاقی معیارکو سامنے رکھ کر قرآن کریم فرماتاہے ’’ ثُلَّۃٌ مِنَ الاَوَّلِین وَ ثُلَّۃٌ مِنَ الآخِرِیْن‘‘ ایک کثیر تعدادپہلوں کی اور ایک کثیر تعداد بعد میں آنے والوں کی ۔ لیکن جہاں اعلیٰ مرتبہ و مقام اورمعیار روحانیت کی بات کرتاہے توفرماتاہے ’’ثُلَّۃٌ مِنَ الاَوَّلِین وقَلِیْلٌ مِّنَ الآخِرِین ‘‘ بہت ہی خوبصورت بیان ہے۔ (لِقَاء مَعَ الْعَرَبْ7مارچ1995ء۔الفضل انٹرنیشنل 30 جولائی 1999)

یہ بھی ملاحظہ فرمائیں

حضرت خواجہ غلام فریدؒ کی گواہی

سرائیکی علاقہ کے ایک مردِ باصفا برگزیدہ خدا حضرت خواجہ غلام فرید صاحب آف چاچڑاں شریف ضلع …