کیا حضرت مسیح موعودؑ نے اپنے معجزات کو آنحضورؐ کے معجزات سے زیادہ بتایا ہے؟

اعتراض کیا جاتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آنحضور ﷺ کے معجزات کی تعدادتو تین ہزار بیان کئے ہیں جبکہ اپنے نشانات تین لاکھ بتائےہیں۔

وہ عبارتیں جن پر اعتراض کیا جاتا ہے

(الف)’’ہمارے سید و مولیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے تین ہزار سے زیادہ معجزات ہوئے ہیں اور پیشگوئیوں کا تو شمار نہیں مگرہمیں ضرورت نہیں کہ ان گذشتہ معجزات کو پیش کریں۔ بلکہ ایک عظیم الشان معجزہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ہے کہ تمام نبیوں کی وحی منقطع ہوگئی اور معجزات نابود ہوگئے اور ان کی اُمّت خالی اور تہی دست ہے۔ صرف قصے ان لوگوں کے ہاتھ میں رہ گئے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی منقطع نہیں ہوئی اور نہ معجزات منقطع ہوئے بلکہ ہمیشہ بذریعہ کا ملینِ اُمّت جو شرفِ اتباع سے مشرف ہیں ظہور میں آتے ہیں۔ اِسی وجہ سے مذہب اسلام ایک زندہ مذہب ہے اور اس کا خدا زندہ خدا ہے۔ چنانچہ اس زمانہ میں بھی اس شہادت کے پیش کرنے کے لئے یہی بندۂ  حضرتِ عزّت موجود ہے۔ اور اب تک میرے ہاتھ پر ہزارہا نشان تصدیقِ رسول اللہؐ اور کتاب اللہ کے بارہ میں ظاہر ہو چکے ہیں۔‘‘ (چشمہ ٔ مسیحی۔ روحانی خزائن جلد 20صفحہ 350تا351)

(ب) ’’اگر خدا تعالیٰ کے نشانوں کو جو میری تائید میں ظہور میں آچکے ہیں آج کے دن تک شمار کیا جائے تو وہ تین لاکھ سے بھی زیادہ ہوں گے‘‘۔ (حقیقۃ الوحی حاشیہ ۔ روحانی خزائن جلد 22صفحہ48)

حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے کہیں آنحضرت ﷺ کی توہین نہیں کی

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:۔

۔’’ایک جلسہ کرو اور ہمارے معجزات اور پیشگوئیاں سنو اور ہمارے گواہوں کی شہادت رویت جو حلفی شہادت ہو گی۔ قلمبند کرتے جاؤ۔ اور پھر اگر آپ لوگوں کے لئے ممکن ہو تو باستثناء ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا میں کسی نبی یاولی کے معجزات کو ان کے مقابل پیش کرو‘‘۔ (نزول المسیح ۔روحانی خزائن جلد 18ص462)

ایک معجزہ کئی نشانوں پر مشتمل ہو سکتا ہے۔ مگر ایک نشان کئی معجزوں پر مشتمل نہیں ہوتا۔

 آپؑ فرماتے ہیں:

’’اس نے میرا دعویٰ ثابت کرنے کے لئے اس قدر معجزات دکھائے ہیں کہ بہت ہی کم نبی ایسے آئے ہیں جنہوں نے اسقدر معجزات دکھائے ہوں۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ اس نے اسقدر معجزات کا دریا رواں کر دیا ے کہ باستثناء ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے باقی تمام انبیاء علیہم السلام میں ان کا ثبوت اس کثرت کے ساتھ قطعی اور یقینی طور پر محال ہے‘‘۔ (تتمہ حقیقہ الوحی ۔روحانی خزائن جلد 22صفحہ 574)

پھر فرماتے ہیں:

’’کسی نبی سے اسقدر معجزات ظاہر نہیں ہوئے جسقدر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے۔۔۔ ہمارے نبیﷺ کے معجزات اب تک ظہور میں آ رہے ہیں اور قیامت تک ظاہر ہوتے رہیں گے جو کچھ میرے تائید میں ظاہر ہوتا ہے در اصل وہ سب آنحضرت ﷺ کے معجزات ہیں‘‘۔ (تتمہ حقیقہ الوحی ۔روحانی خزائن جلد 22صفحہ468تا469)

گویا آنحضرت ﷺ کے معجزات حضرت مسیح موعو علیہ السلام کے معجزات سے کئی لاکھ زیادہ ہیں۔

تین ہزار معجزات کیوں لکھے؟

اب اگر یہ سوال ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آنحضرت ﷺ کے تین ہزار معجزات کیوں لکھے ہیں؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ تین ہزار معجزات آنحضرت ﷺ کے کل معجزات نہیں بلکہ یہ صرف وہ معجزات ہیں جو صحابہ رضوان اللہ علیہم کے سامنے ظاہر ہوئے۔ چنانچہ خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام لکھتے ہیں:۔

۔’’آنحضرت ﷺ کے معجزات تو چاروں طرف سے چمک رہے ہیں۔ وہ کیونکر چھپ سکتے ہیں صرف وہ معجزات جو صحابہ ؓ کی شہادتوں سے ثابت ہیں وہ تین ہزار معجزہ ہے اور پیشگوئیاں تو دس ہزار سے بھی زیادہ ہونگی۔ جو اپنے وقتوں پر پوری ہو گئیں اور ہوتی جاتی ہیں۔ ماسوائے اس کے بعض معجزات اور پیشگوئیاں قرآن شریف کی ایسی ہیں کہ ہمارے لئے بھی اس زمانہ میں محسوس و مشہود کا حکم رکھتی ہیں۔ اور کوئی اس سے انکار نہیں کرسکتا‘‘۔

( ایک عیسائی کے تین سوال اور ان کے جواب۔ روحانی خزائن جلد 4صفحہ445)

 پس ثابت ہوا کہ:۔

الف۔’’تین ہزار معجزات‘‘ سے مراد صرف اسقدر معجزات ہیں جو صحابہؓ کی شہادتوں سے ثابت ہیں۔

ب۔  پیشگوئیاں ان معجزات میں شامل نہیں۔

ج۔  وہ پیشگوئیاں جو آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں پوری ہوئیں۔ وہ علاوہ ان تین ہزار معجزات کے دس ہزار سے زیادہ تھیں۔

د۔  آپ کی پیشگوئیاں اور معجزات قیامت تک ظاہر ہوتے رہیں گے لہٰذا ان کو گنا ہی نہیں جا سکتا۔ حضرت داتاگنج بخش رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں:۔

۔’’کرامات اولیاء سب محمد ﷺ کا معجزہ ہیں‘‘۔

(کشف المحجوب مترجم اردہ شائع کردہ برکت علی اینڈ سنز علمی پریس ص 257)

پس اندریں حالات حضرت مسیح موعو علیہ السلام کے’’نشانات‘‘جن میں اکثر پیشگوئیاں بھی شامل ہیں۔ اگر تین لاکھ کی بجائے دس لاکھ بھی ہو ں پھر بھی آنحضرت ﷺ کے معجزات سے انکی کوئی نسبت ہی نہیں ٹھہرتی۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے نشانات و معجزات کو آنحضرت ﷺ کی طرف منسوب کیا ہے

حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں :۔

۔’’یہ سہولت کامل (نشرواشاعت کی) پہلے کسی نبی یا رسول کو ہر گز نہیں دی گئی مگر ہمارے نبی ﷺ اس سے باہر ہیں کیونکہ جو کچھ مجھے دیا گیا وہ انہیں کا ہے‘‘۔

(نزول المسیح حاشیہ ۔روحانی خزائن جلد 18صفحہ401)

ان عبارات میں حضرت اقدس ؑ نے جو اپنے نشانات و معجزات کو آنحضرت ﷺ کی طرف منسوب فرمایا ہے۔ تو یہ کسر نفسی کے طور پر نہیں بلکہ امر واقع ہے۔ کیونکہ حضرت مسیح موعود ؑ نے اپنے بعض نشانات جو حقیقۃ الوحی ص 193 طبع اول سے آخیر کتاب تک لکھے ہیں۔ اگر ان کو بغور دیکھ جائے تو وہ سب کے سب آنحضرت ﷺ ہی کے نشانات اور معجزات ثابت ہوتے ہیں۔ مثلا حقیقۃ الوحی ص 193 پر پہلا نشان حضرت اقدس ؑ نے حدیث مجددین کو قرار دیا ہے۔ کہ ہر صدی پر مجددین آنے کی پیشگوئی میر ی صداقت کا نشان ہے۔ اب یہ پیشگوئی آنحضرت ﷺ کی ہے اور اس کا چودہویں صدی کے سر پر حضرت مسیح موعود ؑ کی ذات میں پورا ہونا جہاں حضرت مسیح موعود ؑ کی صداقت کا نشان ہے وہاں اس سے بڑھ کر آنحضرت ﷺ کی صداقت کا نشان ہے۔

اسی طرح حقیقۃ الوحی ص 194 پر حدیث کسوف و خسوف رمضان ۔ صحیح دار قطنی ص 188کو حضرت اقدس ؑ نے اپنی صداقت کا دوسرا نشان قرار دیا ہے اور درحقیقت یہ بھی آنحضرت ﷺ کی پیشگوئی ہے اور اس کا 1894ءمیں حضرت اقدس ؑ کے زمانہ میں پورا ہونا۔ جہاں حضرت مسیح موعو علیہ السلام کی صداقت کا نشان ہے۔ وہاں اس سے بڑھ کر آنحضرتﷺ کی صداقت کا نشان ہے۔ علیٰ ہذا القیاس۔ حقیقۃ الوحی ص 198 پر ایک نشان ستارہ ذوالسنین کے نکلنے کی پیشگوئی اور اس کا حضرت اقدس ؑ کے وقت میں پورا ہونا ۔ ستارہ ذوالسنین نکلنے کی پیشگوئی انحضرت ﷺ کی ہے جو حجج الکرامہ ص 250پر درج ہے۔ پس یہ بھی آنحضرت ﷺ کا نشان ہے۔ غرضیکہ اسی طرح پانچواں چھٹا ۔ ساتوں ھَلُّمْ جَرَّا۔ نشان حضرت اقدس ؑ نے اپنی صداقت پر آنحضرت ﷺ اور قرآن مجید کی پیشگوئیوں کو قرار دیا ہے۔ فرماتے ہیں:۔

۔’’ میں ہمیشہ تعجب کی نگاہ سے دیکھتا ہو کہ یہ عربی نبی جس کا نام محمد ﷺ ہے (ہزار ہزار درود اور سلام اس پر) یہ کس عالی مرتبہ کا نبی ہے۔ اس کے عالی مقام کا انتہا معلوم نہیں ہو سکتا۔ اور اس تاثیر قدسی کا اندازہ کرنا انسان کا کام نہیں۔ افسوس کہ جیسا حق شناخت کاہے اس کے مرتبہ کو شناخت نہیں کیا گیا۔ وہ توحید جو دنیا سے گم ہو چکی تھی وہی ایک پہلوان ہے جو دوبارہ اس کو دنیا میں لایا۔ اس نے خدا سے انتہائی درجہ محبت کی اور انتہائی درجہ پر بنی نوع کی ہمدردی میں اس کی جان گداز ہوئی۔ اس لئے خدا نے جو اس کے دل کے راز کا واقف تھا اس کو تمام انبیاء اور تمام اولین و آخرین پر فضیلت بخشی۔ اور اسکی مرادیں اس کی زندگی میں اس کو دیں۔ وہی ہے جو سرچشمہ ہر ایک فیض کاہے اور وہ شخص جو بغیر اقرار افاضہ اسکے کے کسی فضیلت کا دعوی کرتا ہے وہ انسان نہیں بلکہ ذریت شیطان ہے کیونکہ ہر ایک فضیلت کی کنجی اس کو دی گئی ہے اور ہر ایک معرفت کا خزانہ اس کو عطاء کیا گیا ہے۔ جو اس کے ذریعہ سے نہیں پاتا وہ محروم ازلی ہے۔ ہم کیا چیز ہیں اور ہماری حقیقت کیا ہے۔ ہم کافر نعمت ہونگے ۔ اگر اس بات کا اقرار نہ کریں کہ توحید حقیقی ہم نے اسی نبی ﷺ کے ذریعہ سے پائی اور زندہ خدا کی شناخت اسی کامل نبی کے ذریعہ سے اور اس کے نور سے ملی ہے اور خد کے مکالمات اور مخاطبات کا شرف بھی جس سے ہم اس کے چہرہ دیکھتے ہیں۔ اسی بزرگ نبیﷺ کے ذریعہ سے ہمیں میسر آیا ہے۔ اس آفتاب ہدایت کی شعاع دھوپ کی طرح ہم پر پڑتی ہے اور اسی وقت تک ہم منور رہ سکتے ہیں جب تک کہ ہم اس کے مقابل پر کھڑے ہیں‘‘۔

(حقیقہ الوحی ۔روحانی خزائن جلد 22صفحہ118تا119)

غرضیکہ ان حقائق کے پیش نظریہ کہنا کہ مسیح موعودؑ نے اپنے نشانات آنحضرت ﷺ سے زیادہ قرار دئے ہیں انتہائی بد دیانتی اور شرارت ہے۔ خصوصا جبکہ حضرت اقدسؑ کا دعویٰ ہی یہ ہے ’’ کُلُّ بَرَکَتہ مِّنْ مُحَمَّدٍ ﷺ ۔ فَتَبَارَکَ مَنْ عَلَّمَ وَ تَعَلَّمُ ‘‘ کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا شاگر ہوں۔ اور ہر ایک برکت آنحضرتﷺ ہی کے پاک وجود سے ہے‘‘۔

( براہینِ احمدیہ حصہ سوم حاشیہ در حاشیہ ۔ روحانی خزائن جلد1صفحہ 265)

یہ بھی ملاحظہ فرمائیں

حضرت بانیٔ جماعت احمدیہ کاعشق رسول ﷺ – آپؑ کی تحریرات اور آپؑ کے واقعات کی روشنی میں

ذیل میں حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ علیہ السلام کی تحریرات سے کچھ اقتباس پیش ہیں ۔یہ تحریرات ا…