حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات اور پیشگوئیوں پر اعتراض کا بنیادی جواب

بنیادی جواب

کرامات ظاہر ہونے کی وجہ

کرامات ظاہر ہونے کی وجہ اور غرض بیان کرتے ہوئے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں:۔

’’کرامات کی اصل بھی یہی ہے کہ جب انسان اپنے تمام وجود کے ساتھ خدا کا ہو جاتا ہے اور اُس میں اور اُس کے ربّ میں کوئی حجاب باقی نہیں رہتا اور وہ وفا اور صدق کے تمام اُن مراتب کو پورے کرکے دکھلاتا ہے جو حجاب سوز ہیں تب وہ خدا کا اور اُس کی قدرتوں کا وارث ٹھہرایا جاتا ہے اور خدا تعالیٰ طرح طرح کے نشان اس کے لئے ظاہر کرتا ہے جو بعض بطور دفع شر ہوتےؔ ہیں اور بعض بطور افاضۂ  خیر اور بعض اُس کی ذات کے متعلق ہوتے ہیں اور بعض اُس کے اہل وعیال کے متعلق اور بعض اُس کے دشمنوں کے متعلق اور بعض اُس کے دوستوں کے متعلق اور بعض اُس کے اہل وطن کے متعلق اور بعض عالمگیر اور بعض زمین سے اور بعض آسمان سے۔ غرض کوئی نشان ایسا نہیں ہوتا جو اُس کے لئے دِکھلایا نہیں جاتا اور یہ مرحلہ دقّت طلب نہیں اور کسی بحث کی اِس جگہ ضرورت نہیں کیونکہ اگر درحقیقت کسی شخص کو یہ تیسرا درجہ نصیب ہو گیا ہے جو بیان ہو چکا ہے تو دنیا ہر گز اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ ہر ایک جو اُس پر گرے گا وہ پاش پاش ہو جائے گا اور جس پر وہ گرے گا اُس کو ریزہ ریزہ کر دے گا کیونکہ اُس کا ہاتھ خدا کا ہاتھ اور اُس کا مُنہ خدا کا مُنہ ہے اور اُس کا وہ مقام ہے جس تک کوئی نہیں پہنچ سکتا۔ ‘‘

    (حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد 22صفحہ 53)

اپنی پیشگوئیوں کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بیان

اپنی پیشگوئیوں کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام  بیان فرماتے ہیں:۔

            ’’ کوئی ایسی پیشگوئی میری نہیں ہے کہ وہ پوری نہیں ہوئی یا اُس کے دو حصوں میں سے ایک حصہ پورا نہیں ہو چکا۔ اگر کوئی تلاش کرتا کرتا مر بھی جائے تو ایسی کوئی پیشگوئی جو میرے منہ سے نکلی ہو اس کو نہیں ملے گی جس کی نسبت وہ کہہ سکتا ہو کہ خالی گئی مگر بے شرمی سے یا بے خبری سے جو چاہے کہے اور میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ ہزارہا میری ایسی کھلی کھلی پیشگوئیاں ہیں جو نہایت صفائی سے پوری ہو گئیں جن کے لاکھوں انسان گواہ ہیں ان کی نظیر اگر گذشتہ نبیوں میں تلاش کی جائے تو بجز آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے کسی اور جگہ ان کی مثل نہیں ملے گی اگر میرے مخالف اسی طریق سے فیصلہ کرتے تو کبھی سے اُن کی آنکھیں کھل جاتیں اور میں ان کو ایک کثیر انعام دینے کو تیار تھا اگر وہ دنیا میں کوئی نظیر ان پیشگوئیوں کی پیش کرسکتے محض شرارت سے یا حماقت سے یہ کہنا کہ فلاں پیشگوئی پوری نہ ہوئی ہم بجز اس کے کیا کہیں کہ ایسے اقوال کو خباثت اور بدظنی کی طرف منسوب کریں اگر کسی مجمع میں اسی تحقیق کے لئے گفتگو کرتے تو ان کو اپنے قول سے رجوع کرنا پڑتا یابے حیا کہلانا پڑتا۔ ہزار ہا پیشگویوں کا ہو بہو پورا ہو جانا اور اُن کے پورا ہونے پر ہزارہا گواہ زندہ پائے جانا یہ کچھ تھوڑی بات نہیں ہے گویا خدائے عزوجل کو دکھلا دینا ہے۔ کیا کسی زمانہ میں باستثنائے زمانہ نبوی کے کبھی کسی نے مشاہدہ کیا کہ ہزارہا پیشگوئیاں بیان کی گئیں اور وہ سب کی سب روز روشن کی طرح پوری ہوگئیں اور ہزارہا لوگوں نے ان کے پورے ہونے پر گواہی دی۔ میں یقینا جانتا ہوں کہ اس زمانہ میں جس طرح خدا تعالیٰ قریب ہو کر ظاہر ہو رہا ہے اور ؔصدہا امور غیب اپنے بندہ پر کھول رہا ہے اس زمانہ کی گذشتہ زمانوں میں بہت ہی کم مثال ملے گی۔ لوگ عنقریب دیکھ لیں گے کہ اس زمانہ میں خدا تعالیٰ کا چہرہ ظاہر ہوگا گویا وہ آسمان سے اُترے گا ۔‘‘

  (کشتی ٔ نوح۔ روحانی خزائن جلد 19صفحہ 6،7)

معجزہ کی حقیقت

معجزہ کی حقیقت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:۔

            ’’ معجزات کی مثال ایسی ہے جیسے چاندنی رات کی روشنی جس کے کسی حصہ میں کچھ بادل بھی ہو مگر وہ شخص جو شب کو ر ہو جو رات کو کچھ دیکھ نہیں سکتا اُس کیلئے یہ چاندنی کچھ مفید نہیں۔ ایسا تو ہرگز نہیں ہوسکتا اور نہ کبھی ہوا کہ اِس دنیا کے معجزات اُسی رنگ سے ظاہر ہوں جس رنگ سے قیامت میں ظہور ہوگا۔ مثلاً دو تین سو مُردے زندہ ہو جائیں اور بہشتی پھل اُن کے پاس ہوں اور دوزخ کی آگ کی چنگاریاں بھی پاس رکھتے ہوں اور شہر بشہر دورہ کریں اور ایک نبی کی سچائی پر جو قوم کے درمیان ہو گواہی دیں اور لوگ اُن کو شناخت کرلیں کہ درحقیقت یہ لوگ مرچکے تھے اور اب زندہ ہوگئے ہیں اور وعظوں اور لیکچروں سے شور مچا دیں کہ درحقیقت یہ شخص جو نبوت کا دعویٰ کرتا ہے سچا ہے۔ سو یاد رہے کہ ایسے معجزات کبھی ظاہر نہیں ہوئے اور نہ آئندہ قیامت سے پہلے کبھی ظاہر ہوں گے۔ اور جو شخص دعویٰ کرتا ہے کہ ایسے معجزات کبھی ظاہر ہوچکے ہیں وہ محض بے بنیاد قصوں سے فریب خوردہ ہے اور اُس کو سنت اللہ کا علم نہیں اگر ایسے معجزات ظاہر ہوتے تو دنیا دنیا نہ رہتی اور تمام پردے کھل جاتے اور ایمان لانے کا ایک ذرّہ بھی ثواب باقی نہ رہتا۔‘‘

 (براہین احمدیہ حصہ پنجم۔ روحانی خزائن جلد 21صفحہ 43،44)

نشان سے فائدہ اٹھانے کے لئے راستبازی اور انصاف پسندی ضروری ہے ۔

نشان سے فائدہ اٹھانے کے لئے راستبازی اور انصاف پسندی ضروری ہے ۔ اس ضمن میں فرمایا :۔

            ’’ نشان اور معجزہ ہر ایک طبیعت کیلئے ایک بدیہی امر نہیں جو دیکھتے ہی ضروری التسلیم ہو بلکہ نشانوں سے وہی عقلمند اور منصف اور راستباز اور راست طبع فائدہ اٹھاتے ہیںؔ جو اپنی فراست اور دوربینی اور باریک نظر اور انصاف پسندی اور خدا ترسی اور تقویٰ شعاری سے دیکھ لیتے ہیں کہ وہ۔۔۔۔۔۔ ایسے امور ہیں جو دنیا کی معمولی باتوں میں سے نہیں ہیں اور نہ ایک کاذب اُن کے دکھلانے پر قادر ہوسکتا ہے اور وہ سمجھ لیتے ہیں کہ یہ امور انسانی بناوٹ سے بہت دور ہیں اور بشری دسترس سے برتر ہیں اور اُن میں ایک ایسی خصوصیت اورامتیازی علامت ہے جس پر انسان کی معمولی طاقتیں اور پُرتکلف منصوبے قدرت نہیں پاسکتے اور وہ اپنے لطیف فہم اور نُورِ فراست سے اس تہ تک پہنچ جاتے ہیں کہ اُن کے اندر ایک نُور ہے اور خدا کے ہاتھ کی ایک خوشبو ہے جس پر مکر اور فریب یا کسی چالاکی کا شُبہ نہیں ہوسکتا ۔ پس جس طرح سورج کی روشنی پر یقین لانے کیلئے صرف وہ روشنی ہی کافی نہیں بلکہ آنکھ کے نور کی بھی ضرورت ہے تا اُس روشنی کو دیکھ سکے اِسی طرح معجزہ کی روشنی پر یقین لانے کیلئے فقط معجزہ ہی کافی نہیں ہے بلکہ نورِ فراست کی بھی ضرورت ہے اور جب تک معجزہ دیکھنے والے کی سرشت میں فراستِ صحیحہ اور عقل سلیم کی روشنی نہ ہو تب تک اس کا قبول کرنا غیر ممکن ہے‘‘۔

      (براہین احمدیہ حصہ پنجم۔ روحانی خزائن جلد 21صفحہ 45)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بیان کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو 4 قسم کے نشانات دئیے ہیں

آپ علیہ السسلام فرماتے ہیں:۔

’’مَیں نے بار ہا ذکر کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے چار قسم کے نشان مجھے دیے ہیں۔ اور جن کو مَیں نے بڑے دعوے کے ساتھ متعدد بار لکھا اور شائع کیا ہے ۔

            اول عربی دانی کا نشان ہے اور یہ اس وقت سے مجھے ملا ہے جب سے کہ محمد حسین (بٹالوی صاحب)نے یہ لکھا کہ یہ عاجز عربی کا ایک صیغہ بھی نہیں جانتا۔ حالانکہ ہم نے کبھی دعویٰ بھی نہیں کیا تھا کہ عربی کا صیغہ آتا ہے ۔ جو لوگ عربی اور املاء اور انشامیں پڑے ہیں وہ اس کی مشکلات کا اندازہ کر سکتے ہیں اور اس کی خوبیوں کا لحاظ رکھ سکتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔بڑی مشکل آکر یہ پڑتی ہے جب ٹھیٹھ زبان کا لفظ مناسب موقع پر نہیں ملتا ۔ اُس وقت خدا تعالیٰ وہ الفاظ القا کرتا ہے ۔ نئی اور بناوٹی زبان بنا لینا آسان ہے مگر ٹھیٹھ زبان مشکل ہے ۔ پھر ہم نے ان تصانیف کو بیش قدر انعامات کے ساتھ شائع کیا ہے اور کہا ہے کہ تم جس سے چاہو مدد لے لو۔ اور خواہ اہل زبان بھی ملا لو۔ مجھے خدا تعالیٰ نے اس بات کا یقین دلا یا ہے کہ وہ ہرگز قادر نہیں ہو سکتے ۔ کیونکہ یہ نشان قرآن کریم کے خوارق میں سے ظلی طور پر مجھے دیا گیا ہے ۔

            دوم دعاؤں کا قبول ہونا۔ مَیں نے عربی تصانیف کے دوران میں تجربہ کر کے دیکھ لیا ہے کہ کس قدر کثرت سے میری دعائیں قبول ہوتی ہیں ۔ ایک ایک لفظ پر دعا کی ہے اور مَیں رسول اللہ ﷺ کو تو مستثنیٰ کرتا ہوں (کیونکہ ان کے طفیل اور اقتداءسے تو یہ سب کچھ ملا ہی ہے )اور مَیں کہہ سکتا ہوں کہ میری دعائیں اس قدر قبول ہوئی ہیں کہ کسی کی نہیں ہوئی ہونگی۔ مَیں نہیں کہہ سکتا کہ دس ہزار یا دو لاکھ یا کتنی۔ اور بعض نشانات قبولیت کے تو ایسے ہیں کہ ایک عالم ان کو جانتا ہے ۔

            تیسرا نشان پیشگوئیوں کا ہے ۔ یعنی اظہار علی الغیب ۔ یوں تو نجومی اور رمّال لوگ بھی اٹکل بازیوں سے بعض باتیں ایسی کہہ دیتے ہیں کہ اُن کا کچھ نہ کچھ حصہ ٹھیک ہوتا ہے ۔ اور ایسا ہی تاریخ ہم کو بتلاتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں بھی کاہن لوگ تھے جو غیب کی خبریں بتلاتے تھے۔۔۔۔مگر ان اٹکل باز رمّالوں اور کاہنوں کی غیب دانی اور مامور من اللہ اور ملہم کے اظہار غیب میں فرق ہوتا ہے ۔۔۔۔

چوتھا نشان قرآن کریم کے دقائق اور معارف کا ہے ۔ کیونکہ معارف قرآن اس شخص کے سوا اور کسی پر نہیں کھل سکتے جس کی تطہیر ہو چکی ہو۔ لَا یَمَسُّہُ اِلَّا الْمُطَہَّرُوْنَ ۔مَیں نے کئی مرتبہ کہا ہے کہ میرے مخالف بھی ایک سورۃ کی تفسیر کریں اور مَیں بھی تفسیر کرتا ہوں اور پھر مقابلہ کر لیا جائے۔ مگر کسی نے جرأت نہیں کی ۔

  (ملفوظات جلد اول صفحہ 268،267)

یہ بھی ملاحظہ فرمائیں

اعتراض بابت نزول قرآنی آیات

مرزا صاحب پر وہی قرآنی آیات نازل ہوئیں جو آنحضرتﷺ پر نازل ہوئی تھیں۔جیسے و رفعنا لک ذکرک،،…