باؤنڈری کمیشن کے حوالہ سے ایک اعتراض کا جواب

پس منظر باؤنڈری کمیشن

جب آل انڈیا نیشنل کانگرس کو ہندوستان کی تقسیم ناگزیر نظر آنے لگی تو 8مارچ1947ء کو ان کی طرف سے یہ مطالبہ کیا گیا کہ آزادی کے وقت بنگال اور پنجاب کے صوبوں کو بھی تقسیم کیا جائے۔ ان صوبوں کے جو اضلاع پاکستان کا حصہ بننا چاہیں وہ پاکستان میں شامل ہوں اور جو بھارت کا حصہ بننا چاہیں وہ بھارت میں شامل ہوں اور وائسرائے نے قائد اعظم سے ملاقات میں اس بات کا عندیہ بھی دے دیا کہ تقسیم کی صورت میں بنگال اور پنجاب کے صوبوں کو بھی تقسیم کیا جائے گا۔ جب آزادی کا وقت آیا تو بنگال اور پنجاب کے صوبوں کو تقسیم کرنے کے لئے علیحدہ باؤنڈری کمیشن تشکیل دے دیے گئے۔ دونوں صوبوں میں بہت سے اضلاع ایسے تھے جن کے بارے میں مسلم لیگ کا دعویٰ تھا کہ انہیں پاکستان میں شامل ہونا چاہیےاور کانگرس کا دعویٰ تھا کہ ان کو بھارت کا حصہ بننا چاہئے۔ قائد اعظم کے ارشاد کے تحت پنجاب باؤنڈری کمیشن میں مسلم لیگ کے کیس کی پیروی حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے کی۔ قادیان ضلع گورداسپور میں شامل ہے اور اس ضلع پر بھی دونوں فریق دعویٰ کر رہے تھے۔ اس ضلع میں مسلمانوں کی معمولی اکثریت تھی اور یہ اکثریت اس صورت میں بنتی تھی کہ احمدیوں کے ووٹ پاکستان کی تائید میں شامل کئے جائیں۔

جماعت احمدیہ کا موقف

اس پس منظر میں مسلم لیگ کے کیس کو مضبوط کرنے  کے لئے ، خود مسلم لیگ کے کہنے پر جماعت احمدیہ نے اس کمیشن کے روبرو اپنا میمورنڈم پیش کیا جو کہ اس موقف پر مشتمل تھا کہ ہم پاکستان میں شامل ہونا چاہتے ہیں اور اس طرح اس ضلع میں ان لوگوں کی اکثریت ہے جو کہ پاکستان میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔ چنانچہ ضلع گورداسپور کو پاکستان میں شامل کیا جائے اور باؤنڈری کمیشن کے روبرو جماعت ِ احمدیہ کی طرف سے یہ موقف مکرم و محترم شیخ بشیر احمد صاحب نے پیش کیا تھا۔

باؤنڈری کمیشن سے متعلق جماعت احمدیہ پراعتراض

اس پس منظر کو بیان کرنے کے بعد ہم اس تحریری موقف کی طرف آتے ہیں جو کہ جماعت احمدیہ کے مخالف ممبران اسمبلی نے 1974ء میں اس موضوع پر قومی اسمبلی کی کاروائی شروع ہونے سے قبل ممبران اسمبلی کو بھجوا یا تھا۔ اس میں مذکورہ میمورنڈم کے بارے میں لکھا ہے ۔

’’جماعت احمدیہ تقسیم کی مخالف تھی لیکن جب مخالفت کے باوجود تقسیم کا اعلان ہو گیا تو احمدیوں نے پاکستان کو نقصان پہنچانے کی ایک اور زبردست کوشش کی جس کی وجہ سے گورداسپور کا ضلع جس میں قادیان کا قصبہ واقع تھا پاکستان سے کاٹ کر بھارت میں شامل کر دیا گیا۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ حد بندی کمیشن جن دنوں بھارت اور پاکستان کی حد بندی کی تفصیلات طے کر رہا تھا کانگریس اور مسلم لیگ کے نمائندے دونوں اپنے اپنے دعاوی اور دلائل پیش کر رہے تھے۔ اس موقع پر جماعت احمدیہ نے باؤنڈری کمیشن کے سامنے اپنا الگ ایک محضر نامہ پیش کیا اور اپنے لئے کانگریس اور مسلم لیگ دونوں سے الگ مؤقف اختیار کرتے ہوئے قادیان کو ویٹیکن سٹی قرار دینے کا مطالبہ کیا اس محضرنامہ میں انہوں نے اپنی تعداد اپنے علیحدہ مذہب ، اپنے فوجی اور سول ملازمین کی کیفیت اور دوسری تفصیلات درج کیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ احمدیوں کا ویٹیکین سٹیٹ کا مطالبہ تو تسلیم نہ کیا گیا البتہ باؤنڈری کمیشن نے احمدیوں کے میمورینڈم سے یہ فائدہ حاصل کر لیا کہ احمدیوں کو مسلمانوں سے خارج کر کے گورداسپور کو مسلم اقلیت کا ضلع قرار دے کر اس کے اہم ترین علاقے بھارت کے حوالے کر دیئے اور اس طرح نہ صرف گورداسپورکا ضلع پاکستان سے گیا بلکہ بھارت کو کشمیر ہڑپ کر لینے کی راہ مل گئی اور کشمیر پاکستان سے کٹ گیا۔ ‘‘

(قادیانی فتنہ اور ملت اسلامیہ کا موقف، مرتبہ مفتی محمد تقی عثمانی صاحب و سمیع الحق صاحب، ناشر ادارۃ المعارف کراچی، فروری 2005ءص201)

مندرجہ بالا حوالہ سے یہ بات ظاہر ہے کہ تقسیم ہندکے نازک موڑ پر احمدیوں نے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ

1۔  قادیان کو Vaticanکی طرح علیحدہ سٹیٹ قرار دیا جائے ۔

2۔       اور چونکہ اگر احمدیوں کو شامل نہ کیا جاتا تو گورداسپور کے ضلع میں مسلمانوں کی اکثریت نہ ہوتی، اس لئے احمدیوں کی اس حرکت کی وجہ سے نہ صرف گورداسپور کے ضلع کا بیشتر علاقہ پاکستان میں شامل نہیں کیاگیا بلکہ گورداسپور کے یہ علاقے بھارت میں شامل ہونے کی وجہ سے ، بھارت کو کشمیر تک کا راستہ مل گیا اور کشمیر بھی پاکستان میں شامل نہ ہوسکا۔

باؤنڈری کمیشن کی شائع شدہ کاروائی اس اعتراض کا پول کھول دیتی ہے

شاید یہ محضرنامہ تیار کرنے والوں کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ ایک روز باؤنڈری کمیشن کی تمام کاروائی شائع ہوجائے گی اور ان کے بنائے ہوئے جھوٹ کی قلعی بھی کھل جائے گی۔ باؤنڈری کمیشن کی تمام روداد اور اس کے کاغذات 1983ء میں National Documentation Centreکی طرف سے شائع کئے گئے۔ اس وقت پاکستان میں جنرل ضیاء الحق صاحب کا مارشل لاء لگا ہو اتھا۔یہ مواد چار جلدوں میں The Partition of the Punjab 1947 A Compilation of  Official Documentsکے نام سے شائع کیا گیا۔اس کی پہلی جلد میں صفحہ 428سے 470پر شائع کیا گیا ہے اور اس میمورنڈم کے مطالعہ سے یہ حقیقت بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ اس میں قادیان کے Vaticanکی طرز پر علیحدہ ریاست بنانے کا کوئی مطالبہ نہ صرف درج نہیں ہے بلکہ اس قسم کا کوئی اشارہ تک نہیں پایا جاتا۔ جیسا کہ ہم ذکر کر چکے ہیں اس وقت پنجاب کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا رہا تھا۔ مغربی پنجاب نے پاکستان کا حصہ بننا تھا اور مشرقی پنجاب نے بھارت میں شامل ہونا تھا۔ جماعت احمدیہ کے میمورنڈم کا پہلا جملہ ہی یہ تھا:۔

’’Being the headquarters of the Ahmadiyya Community, Qadian should be placed in the Western Punjab because…..‘‘

(The Partition of the Punjab 1947 A Compilation of Official Documents Vol. 1, Published by National Documentation Centre Lahore, 1983, P428)

اس میمورنڈم کا پہلا جملہ ہی واضح کر دیتا ہے کہ محضرنامہ میں جو الزامات لگائے گئے تھے وہ جھوٹے اور خود ساختہ تھے۔

 یہ میمورنڈم ان دلائل سے بھرا ہوا ہے کہ ضلع گورداسپور کو پاکستان کا حصہ ہونا چاہئے اور قادیان کو پاکستان میں شامل ہونا چاہیئے اور اس بات کے تاریخی دلائل دیے گئے ہیں کہ ماضی میں مسلمانوں کے ساتھ کافی زیادتیاں کی گئی ہیں۔ اب ان زیادتیوں کا اعادہ کرنا سنگین غلطی ہو گی۔

جماعت احمدیہ نے اپنے آپ کو مسلمان ہی کہا

اور جب اس کمیشن کی کاروائی کے دوران جسٹس تیجا سنگھ (جن کو اس کمیشن میں جج بننے کے لئے کانگرس نے نامزد کیا تھا)نے جماعت احمدیہ کے وکیل محترم شیخ بشیر احمد صاحب سے سوال کیا کہ جماعت احمدیہ کا اسلام سے کیا تعلق ہے تو اس کے جواب میں محترم شیخ بشیر احمد صاحب نے جواب دیا۔

”They claim to be Mussalmans first and Mussalmans last. They are part of Islam.“

(The partition of the Punjab 1947 A Compilation of Official Record Vol. 2, pg. 250)

پھر جب جماعت احمدیہ کے میمورنڈم پر سوالا ت شروع ہوئے تو جماعت احمدیہ کے نمائندے مکرم شیخ بشیر احمد صاحب نے اس کمیشن کے روبرو یہ اعداد و شمار پیش کئے کہ ہندوستان میں احمدیوں کی 745جماعتیں ہیں اور ان میں سے 547پاکستان کے حصہ میں آرہی ہیں۔ اس بناء پر بھی ہماری استدعا ہے کہ جماعت کے مرکز قادیان کو پاکستان میں شامل کیا جائے۔

(The Partition of the Punjab 1947 A Compilation of Official Record Vol. 2, pg. 250)

سول اینڈ ملٹری گزٹ کی 11جولائی 1952ء کی اشاعت کے ایڈیٹوریل میں یہ انکشاف کیا گیا تھا کہ کانگرس کا دعویٰ یہ تھا کہ گورداسپور گو کہ مسلم اکثریت کا ضلع ہے لیکن اسے دیگر عوامل کی بنیاد پر بھارت کا حصہ بنانا چاہئے اور اس غرض کے لئے مجلس احرار کو مولویوں نے یہ مصالحہ بہم پہنچا یا تھا کہ ان کے نزدیک احمدی مسلمان نہیں ہیں اس طرح اگر اس ضلع میں احمدیوں کو مسلمانوں کی تعداد میں شامل نہ کیا جائے تو اس ضلع میں مسلمان اکثریت میں نہیں رہتے۔ جسٹس تیجا سنگھ کا یہ سوال اسی فتنہ کا شاخسانہ معلوم ہوتا ہے ورنہ ایک سکھ کو مسئلہ ختم نبوت سے کیا دلچسپی ہو سکتی تھی۔

مخالفین نے خود اپنے الزام کی تردید کر دی

جھوٹ بولنے والے کا حافظہ کمزور ہوتا ہے ۔ اس محضرنامہ میں بھی مخالفین نے اگلے صفحہ پر ہی خود اپنے لگائے ہوئے الزام کی تردید کر دی ہے ۔ جیسا کہ ہم ذکر کر چکے ہیں کہ اس ڈرامائی باب کے شروع میں مخالفین نے یہ الزام لگایا تھا کہ اس کمیشن کے روبرو احمدیوں نے یہ مطالبہ پیش کیا تھا کہ قادیان کو Vaticanکی طرح ایک علیحدہ ریاست بنایا جائے۔ اور اس کے بعد وہ سید نور احمد صاحب کی ایک تحریر درج کرتے ہیں جو کہ روزنامہ مشرق3فروری 1946ء میں شائع ہوئی تھی۔ اس میں نور احمد صاحب لکھتے ہیں۔

’’۔۔۔ضلع گورداسپور کے سلسلے میں ایک اور بات بھی قابل ذکر ہے اس کے متعلق چوہدری ظفر اللہ خان جو مسلم لیگ کی وکالت کر رہے تھے خود بھی ایک ایک افسوسناک حرکت کر چکے ہیں۔ انہوں نے جماعت احمدیہ کا نقطہ نگاہ عام مسلمانوں سے (جن کی نمائندگی مسلم لیگ کر رہی تھی)جداگانہ حیثیت میں پیش کیا۔ جماعت احمدی کا نقطہ نگاہ بیشک یہی تھا کہ وہ پاکستان میں شامل ہونا پسند کرے گی۔ لیکن جب سوال یہ تھا کہ مسلمان ایک طرف اور باقی سب دوسری طرف تو کسی جماعت کا اپنے آپ کو مسلمانوں سے علیحدہ ظاہر کرنا مسلمانوں کی عددی قوت کو کم ثابت کرنے کے مترادف تھا اگر جماعت احمدیہ یہ حرکت نہ کرتی تب بھی ضلع گورداسپور کے متعلق شاید فیصلہ وہی ہوتا جو ہوا۔ لیکن یہ حرکت اپنی جگہ بہت عجیب تھی۔‘‘

                                    (قادیانی فتنہ اور ملت اسلامیہ کا موقف، مرتبہ مفتی محمد تقی عثمانی صاحب و سمیع الحق صاحب ، ناشر ادارۃ المعارف کراچی، فروری 2005ء صفحہ 203)

اس اشاعت کے پیش لفظ میں لکھا ہوا ہے کہ گو اس محضرنامہ کو تقی عثمانی صاحب نے اور سمیع الحق صاحب نے تحریر کیا تھا لیکن روزانہ شاہ احمد نورانی صاحب، مفتی محمود صاحب، پروفیسر غفور صاحب، ظفر انصاری صاحب آکر لکھے ہوئے حصے کو سنتے اور تحریر میں ہر طرح ان کی آراء بھی شامل تھیں۔

لیکن یہ بات ہمیں بہت تعجب میں ڈالتی ہے کہ یہ سب احباب مل کر اتنی سی بات بھی محسوس نہیں کر سکے کہ دو صفحات کے اندر انہوں نے اپنی ہی لکھی ہوئی بات کی تردید کر دی اور جب ہم نور احمد صاحب کے بیان کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ سید نور احمد صاحب جن تاریخی واقعات کے بارے میں اپنی رائے لکھنے کی تکلیف فرما رہے تھے وہ ان تاریخی واقعات کے بارے میں بنیادی باتوں کا علم بھی نہیں رکھتے تھے۔

جماعت احمدیہ کا نقطہ نگاہ چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے نہیں شیخ بشیر احمد صاحب نے پیش کیا تھا

سید نور احمد صاحب نے لکھا ہے کہ باؤنڈری کمیشن کے روبرو حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے جماعت احمدیہ کا نقطہ نگاہ مسلمانوں سے (جن کی نمائندگی مسلم لیگ کر رہی تھی )جداگانہ حیثیت میں پیش کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ باؤنڈری کمیشن کے روبرو حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے جماعت احمدیہ کا نقطہ نگاہ پیش ہی نہیں کیا تھا۔ اس کمیشن کے سامنے جماعت احمدیہ کا نقطہ نگاہ مکرم شیخ بشیر احمد صاحب نے پیش کیا تھا اور باؤنڈری کمیشن کی شائع کردہ جس روداد کا حوالہ ہم دے چکے ہیں اس کی جلد 2کو دیکھنے سے یہ حقیقت بالکل واضح ہو جاتی ہے ۔ اس جلد کے صفحہ 240تا252پر ایک نظر ڈالنے سے ہی یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ سید نور احمد صاحب نے غلط حقائق پیش کئے ہیں ۔ اس کمیشن کے سامنے قائد اعظم محمد علی جناح کے ارشاد پر حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے مسلم لیگ کا کیس پیش کیا تھا۔

’’مسلمان ایک طرف اور باقی دوسری طرف‘‘ کاموقف کانگرس نے پیش کیا تھا نہ کہ مسلم لیگ نے

ایک اور اہم بات جو قابل توجہ ہے یہ ہے کہ سید نور احمد صاحب جن کا حوالہ مخالفین نے اپنے میمورنڈم میں بڑے دعویٰ سے پیش کیا ہے لکھتے ہیں کہ ’’سوال یہ تھا کہ مسلمان ایک طرف اور باقی دوسری طرف‘‘۔ یہی جملہ ظاہر کرتا ہے کہ یا تو وہ پوری طرح حقائق سے باخبر نہیں یا پھر عمدًا حقائق کو چھپا رہے ہیں۔ کیونکہ مسلم لیگ نے پنجاب باؤنڈری کمیشن کے روبرو یہ موقف پیش ہی نہیں کیا تھا مسلمان ایک اور باقی مذاہب کے لوگ دوسری طرف۔ جہاں تک پنجاب کی تقسیم کا تعلق ہے تو اس میں مسلم لیگ کی طرف سے یہ موقف کیا گیا تھا کہ پنجاب کی عیسائی تنظیموں کی طرف سے یہ موقف پیش کیا جا رہا ہے کہ وہ مغربی پنجاب میں (جس نے پاکستان میں شامل ہونا تھا)شامل ہونا پسند کریں گے اور عیسائی بھی مسلمانوں کے دعوےکی تائید کر رہے ہیں ۔

(The Partition of the Punjab 1947 A Compilation of Official Record Vol. 1, pg.295)

یہ موقف تو کانگریس کی طرف سے پیش کیا جا رہا تھا کہ تمام غیر مسلموں کی رائے کانگریس کے دعوے کے حق میں شمار ہونی چاہیے ۔ اس طرح سید نور احمد صاحب اور ان کا حوالہ دینے والے مولوی حضرات خود مسلم لیگ کے پیش کردہ موقف کی مخالفت اور کانگریس کے پیش کردہ موقف کی تائید کر رہے ہیں۔

جسٹس منیر رپورٹ میں اس اعتراض کی تردید

1953ء میں جب پنجاب میں جماعت احمدیہ کے خلاف فسادات برپا کئے گئے تو ان فسادات پر ایک تحقیقاتی عدالت قائم کی گئی۔ اس کے صدر جسٹس محمد منیر صاحب تھے۔ ان فسادات کے دوران اور اس تحقیقاتی عدالت کے روبرو بھی باؤنڈری کمیشن میں پیش کئے جانے والے جماعت احمدیہ کے میمورنڈم کے حوالے سے جماعت احمدیہ پر بے بنیاد الزامات لگائے گئے تھے۔ اس تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ میں جسٹس محمد منیر صاحب نے اس موضوع کے بارے میں تحریر کیا۔

’’۔۔۔لہٰذا قادیان کی آخری شمولیت کے متعلق اندیشے محسوس کئے جانے لگے اور چونکہ احمدی اس کو ہندوستان میں شامل کرنے کا مطالبہ نہ کر سکتے تھے۔ لہٰذا ان کے لئے اس کے سوا اور کوئی چارہ باقی نہ رہا تھا کہ اس کو پاکستان میں شامل کرانے کے لئے جدوجہد کریں۔ احمدیوں کے خلاف معاندانہ اور بے بنیاد الزامات لگائے گئے ہیں کہ باؤنڈری کمیشن کے فیصلے میں ضلع گورداسپور اس لئے ہندوستان میں شامل کر دیا گیا کہ احمدیوں نے ایک خاص رویہ اختیار کیا اور چوہدری ظفر اللہ خان نے جنہیں قائد اعظم نے اس کمیشن کے سامنے مسلم لیگ کا کیس پیش کرنے پر مامور کیا تھا خاص قسم کے دلائل پیش گئے۔ لیکن عدالت ہذا کا صدر جو اس کمیشن کا ممبر تھا۔ اس بہادرانہ جدوجہد پر تشکر و امتنان کا اظہار کرنا اپنا فرض سمجھتا ہے جو چوہدری ظفر اللہ خان نے گورداسپور کے معاملے میں کی تھی۔ یہ حقیقت باؤنڈری کمیشن کے کاغذات سے ظاہر و باہر ہے اور جس شخص کو اس مسئلے سے دلچسپی ہو ۔ وہ شوق سے اس ریکارڈ کا معائنہ کر سکتا ہے ۔ چوہدری ظفر اللہ خان نے مسلمانوں کی نہایت بے غرضانہ خدمات انجام دیں۔ ان کے باوجود بعض جماعتوں نے عدالت تحقیقات میں ان کا ذکر جس انداز میں کیا ہے وہ شرمناک ناشکرے پن کا ثبوت ہے۔‘‘

                                    (رپورٹ تحقیقاتی عدالت برائے تحقیقات فسادات پنجاب1953ء۔ صفحہ 209)

(ماخوذ از ’’باؤنڈری کمیشن کے حوالے سے بعض اہم معلومات‘‘از مکرم ڈاکٹر مرزا سلطان احمد صاحب۔ روزنامہ الفضل13اگست2011ء۔صفحہ 7تا8)

یہ بھی ملاحظہ فرمائیں

ڈاکٹر محمّد عبد السلام صاحب پر غداری کا الزام

مکرم ڈاکٹر عبد السلام صاحب کی پاکستان کے لئے خدمات مکرم ڈاکٹر عبد السلام صاحب کی اگر صرف پ…