کیا جماعت احمدیہ خود کو امّت کے معاملات سے الگ رکھا ہوا ہے؟

ایک اعتراض بکثرت یہ کیا جاتا ہے کہ گویا احمدیوں نے خود اپنے آپ کو ایک الگ امت بنایا ہے ۔ اس لئے اگر ہم (عام مسلمان)انہیں الگ امت قراردیں اور مسلمان نہ کہیں تو ہم حق بجانب ہیں۔

بنیادی جواب

جماعتِ احمدیہ کی مِلّی خدمات کا دائرئہ خدمات کے پورے سلسلہ کو گھیرے ہوئے ہے۔ چاہے یہ تبلیغی خدمات ہوں یا علمی خدمات۔ آئینی و قانونی خدمات زیرِ بحث ہوں یا قومی و سماجی وسیاسی خدمات غرض ہر پہلو سے اللہ تعالیٰ نے اپنی اس جماعت کو خدماتِ عظیمہ کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔
حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے 4مارچ1889ء کو ایک اشتہار کے ذریعہ ایسے لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے جو آپؑ کے ہاتھ پر بیعت کرنا چاہتے تھے فرمایا:۔

            ”یہ سلسلہ بیعت محض بمراد فراہمی طائفہ متقین یعنی تقویٰ شعار لوگوں کی جماعت کے جمع کرنے کے لئے ہے تا ایسے متقیوں کا ایک بھاری گروہ دنیا پر اپنا نیک اثر ڈالے اور ان کا اتفاق اسلام کے لئے برکت و عظمت و نتائج خیر کا موجب ہو اور وہ یہ برکت کلمہ واحدہ پر متفق ہونے کے اسلام کی پاک و مقدس خدمات میں جلد کام آسکیں۔ ۔۔۔اوراسلامی کاموں کے انجام دینے کے لئے عاشق زار کی طرح فدا ہونے کو تیار ہوں اور تمام تر کوشش اس بات کے لئے کریں کہ ان کی عام برکات دنیا میں پھیلیں۔ ”

(مجموعہ اشتہارات جلد1صفحہ164-165)

پھر آپؑ اپنی کتاب فتح الاسلام میں فرماتے ہیں:۔
” سچائی کی فتح ہو گی اور اسلام کے لئے پھر اُ س تازگی اور روشنی کا دن آئے گا جو پہلے وقتوں میں آچکا ہے اور وہ آفتاب اپنے پورے کمال کے ساتھ پھر چڑھے گا جیسا کہ پہلے چڑھ چکا ہے۔ لیکن ابھی ایسا نہیں۔ ضرور ہے کہ آسمان اُسے چڑھنے سے روکے رہے جب تک کہ محنت اور جانفشانی سے ہمارے جگر خون نہ ہو جائیں اور ہم سارے آراموں کو اُس کے ظہور کے لئے نہ کھو دیں اور اعزاز اسلام کے لیے ساری ذلّتیں قبول نہ کرلیں۔ اسلام کا زندہ ہونا ہم سے ایک فدیہ مانگتا ہے۔ وہ کیا ہے ؟ہمارا اسی راہ میں مرنا۔”

(فتح اسلام ۔ روحانی خزائن جلد 3صفحہ10)

جماعت احمدیہ کی خدمت اسلام

جماعتِ احمدیہ تو شروع دن سے اسلام کی خدمت میں سرگرم ہے۔ دنیا کی 70زبانوں میں قرآن کریم کے مکمل تراجم جماعتِ احمدیہ شائع کر چکی ہے ۔ 120سے زائد زبانوں میں منتخب آیات و منتخب احادیث شائع ہوچکی ہیں۔سینکڑوں مشن ہاؤسز آنحضور ؐ کے لائے ہوئے دینِ اسلام کی خدمت میں مصروف ہیں۔ جماعتِ احمدیہ کی دنیا بھر میں کل مساجد کی تعداد جولائی 2011ء تک 16099 ہو چکی تھی۔
دنیا کے 11ممالک میں سے مبلغین احمدیت تیار ہو رہے ہیں تا اسلام کا پوری دنیا پر غلبہ مکمل ہوکہ جس کی خوشخبری آنحضور ؐ نے 1400سال قبل دی تھی۔ یہ مبلّغین احمدیت افریقہ کے صحراؤں میں بھی اور روس کے برفیلے علاقوں میں بھی، جزائر میں بھی اور امریکہ و یورپ میں بھی غرض ہر جگہ اسلام کی خدمت میں مصروف ہیں۔
اگر ملی خدمات کی بات کی جائے کہ مسلمانوں کی سیاسی و قانونی نکتہ نگاہ سے جماعت نے کیا خدمت کی تو یہ بات بھی کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ جماعتِ احمدیہ کے سپوتوں نے اس میدان میں بھی ایسی خدمت کی کہ تا ابد یاد رہے گی۔
حضرت چوہدری سرمحمد ظفراللہ خاںصاحب کی خدماتِ جلیلہ جو صرف پاکستان تک محدودنہیں کا باب تو بہت لمبا ہے ۔ ہم اس جگہ اخبار نوائے وقت کے ایک اداریہ پر اکتفاء کریں گے۔

            ”سر محمد ظفراللہ خان طویل علالت کے بعد 93برس کی عمر میں وفات پاگئے ہیں اورانہیں آج ربوہ میں سپردِ خاک کر دیا جائے گا۔ قطع نظر اس بات کے کہ اُن کا تعلق قادیانی جماعت سے تھا اپنی طویل زندگی میں اُن کی ترقی و عروج اورخدمات و کارکردگی کے اظہارواعتراف میں تامّل و بخل سے کام لینا مناسب نہیں ہوگا۔ انگریزوں کے زمانہ میں وہ پنجاب اسمبلی، وائسرائے کی ایگزیکٹو کونسل اور وفاقی عدالت کے رکن رہے اور قیامِ پاکستا ن کے بعد قریبًا سات برس تک وزیرِ خارجہ رہے۔ اور اس دوران میں انہوں نے اقوامِ متحدہ میں بھی پاکستان کے مندوبِ اعلیٰ کے طور پرفرائض ادا کئے ۔ وہاں جنرل اسمبلی کی صدارت کا اعزاز بھی حاصل کیا۔ انہوں نے مسئلہ کشمیر کے علاوہ فلسطین اور کئی عرب ملکوں (مراکش، تیونس، لیبیاوغیرہ) کے حق آزادی و خود مختاری کی وکالت میں پاکستان کا نقطہ ء نظر جس انداز میں پیش کیا اُسے عرب ملکوں میں اب تک سراہا جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ صدرِ محترم کے علاوہ سعودی سفیر بھی اُن کی عیادت کے لئے گئے تھے۔ وزارتِ خارجہ کی سربراہی سے سبکدوش ہونے کے بعد وہ عالمی عدالتِ انصاف کے رکن بن گئے اور دوسری میعاد کے لئے منتخب ہونے کے بعد اُس کے صدر بھی رہے ۔ اس دوران میں وہ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر بھی منتخب ہوئے ۔ قادیانی ہونے کی نسبت سے پاکستان میں اُن کے خلاف اعتراض و احتجاج کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہا لیکن قاعداعظم اور پھر لیاقت علی خاں مرحوم نے انہیں بہت اہم ذمہ داریاں سپرد کیں۔ ۔۔۔ 1953ء کی اینٹی قادیانی تحریک سے قبل اسلامیانِ ہند کے قومی معاملات میں سر آغاخان کی طرح ، سر محمد ظفراللہ خاں کا حصہ و کردار بھی بہت نمایاں رہاتھا۔ 1930ء میں وہ مسلم لیگ کے صدر بھی بنائے گئے تھے اور 1931ء میں اور بعد کی گول میز کانفرنسوں میں وہ علامہ اقبال ، قائداعظم اور دوسرے اکابر کے ساتھ مسلمانوں کے نمائندے کے طور پر شامل ہوتے رہے۔ ”

(اداریہ نوائے وقت 3ستمبر1985ء)

اس ا دارئے میں جن عرب ممالک کی آزادی کاذکر کیا گیا ہے اُن کے متعلق تفصیل سے چوہدری محمد ظفراللہ صاحب کی سوانح حیات” تحدیثِ نعمت ‘‘میں ذکر ملتا ہے ۔
٭ عرب ممالک کے لئے جماعتِ احمدیہ کی خدمات کے بارہ میں الفضل انٹر نیشنل میں قسط وار شائع ہونے والے مضمون” مصالح العرب” میں تفصیل بیان کی گئی ہے ۔
پھر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب پہلے مسلمان پاکستانی تھے جنہوں نے فزکس میں نوبیل انعام حاصل کیا اور آج تک کوئی اور پاکستانی ان کے بعد یہ اعزاز حاصل نہ کرسکا۔
اسی طرح دیگر احمدی کہ جنہوں نے ملک و قوم کی خدمت میں ایک نمایاں مقام حاصل کیا جن میں ایم ایم احمد، جنرل اختر حسین ملک، جنرل عبدالعلی ملک اور میجرافتخارحسین جنجوعہ و دیگر شامل ہیں۔

یہ بھی ملاحظہ فرمائیں

جماعت احمدیہ پر لگائے جانے والے تحریف قرآن کے الزام پر ایک طائرانہ نظر

پاکستان میں جماعت احمدیہ کے خلاف فتنہ انگیزی کو ہوا دینے کے لیے کئی طرح کے اعتراضات کو بنی…