جماعت احمدیہ مبائعین اور غیر مبائعین (لاہوری جماعت)میں کیا فرق ہے؟

جماعت احمدیہ مبائعین اور غیر مبائعین (لاہوری جماعت)میں کیا فرق ہے؟

جواب بیان فرمودہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع  نے مورخہ 2جون 1991ء کو ریڈیو اپار سرینام سے ’’جماعت احمدیہ قادیان اور لاہور ی جماعت میں کیا فرق ہے ؟‘‘کے موضوع پر لائیو خطاب فرمایا ۔ اس خطاب کے لئے نصف گھنٹے کا وقت مقرر تھا مگر خطاب کے دوران انتظامیہ نے دس منٹ کا وقت بڑھا دیا اور حضور نے 40 منٹ تک اس اہم موضوع پر  جماعت کاموقف پیش فرمایا ۔ احباب کے استفادہ کے لئے اس خطاب کا ایک حصہ ذیل میں پیش ہے ۔

                سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :۔

                السلام علیکم ورحمۃ اللہ ۔ مجھے بہت خوشی ہے کہ مجھے آج یہ موقع مل رہا ہے کہ میں سرینام کے باشندوں سے  ، خصوصاً ان سے جو اردو زبان کسی حد تک سمجھتے ہیں ، آج براہ راست مخاطب ہو رہا ہوں۔ مجھ سے یہ فرمایا گیا ہے کہ  یہاں احمدیوں کے دو گروہیں ، ایک وہ جو قادیانی کہلاتے ہیں اور ایک وہ جو لاہوری۔ اور نئی نسلوں کے احمدی یعنی چھوٹے بچے جو یہاں پیدا ہوئے ان کو لاہوری اور قادیانی کا زیادہ فرق معلوم نہیں ۔ اسی طرح جو دوسرے ہم سے پوچھتے ہیں کہ بتائیے آپ کے دو گروہ کیوں ہو گئے ؟ کیوں آپس میں بٹ گئے ؟ ان کو ہم پوری طرح تسلی بخش جواب نہیں دے سکتے۔ اس لئے آج کے خطاب میں اسی موضوع پر کچھ کہئے ۔

                اس سلسلہ میں سب سے پہلے تو اس اختلاف کا پس منظر یعنی بیک گراؤنڈ ، کب سے یہ اختلاف شروع ہوا ؟ کیوں ہوا ؟ اس کے متعلق میں آپ کے سامنے کچھ گزارشات رکھتا ہوں۔

                 حضرت بانی سلسلہ احمدیہ مرزا غلام احمد قادیانی لاہوری اور قادیانی دونوں گروہوں کے نزدیک وہ امام ہیں جن کی پیشگوئی حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ نے فرمائی تھی ۔ اس لحاظ سے دونوں گروہ قادیانی بھی اور لاہوری بھی آپ کووہ امام مہدی مانتے ہیں جس کے آنے کی پی شگوئی فرمائی گئی تھی ۔ اسی طرح دونوں گروہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب آف قادیان کو مسیح موعود بھی مانتے ہیں ۔ یعنی وہ مسیح جس کے متعلق پیشگوئی فرمائی گئی تھی کہ آخری زمانہ میں وہ ظاہر ہو گا، نازل ہو گا اور اللہ کے فضل کے ساتھ وہ تمام دنیا میں (دین)کے حق میں جہاد شروع کر ے گا۔ یہ تو اتفاقات ہیں ، یعنی ان باتوں پر اتفاق ہے ۔

                حضرت مرزا صاحب کے وصال کے بعد ، حضرت مسیح موعود کے فوت ہو جانے پر دونوں گروہوں کے درمیان کوئی اختلاف ظاہر نہیں ہوا۔ بلکہ دونوں متفقہ طور پر اس بات پر راضی ہوئے اور اتفاق کر گئے کہ حضرت مرزا صاحب کے وصال کے بعد جماعت کو ایک امام کی ضرورت ہے جو خلیفۃ المسیح کہلائے گا ۔ اور اس لحاظ سے سب سے پہلے خلیفہ ، وہ پہلا امام جس کے ہاتھ پر ساری جماعت اکٹھی ہو ئی اور بیعت کر کے ان کی اطاعت کو قبول کیا ، وہ حضرت حکیم نور الدین صاحب خلیفۃ المسیح الاول تھے ۔

                 یاد رکھئے کہ اس آپس میں کوئی اختلاف خلافت اور امامت کے متعلق نہیں تھا ۔ چنانچہ چھ سال تک مسلسل حضرت خلیفۃ المسیح الاول خلافت کے مقام پر فائز رہے ، لاہوری احمدی بھی جو بعد میں لاہوری بنے اور قادیانی احمدی بھی جو بعد میں قادیانی کہلاتے ہیں متفقاً آپ کی بیعت میں داخل ہوئے اور آپ کی اطاعت آپ کے آخری سانس تک بجا لاتے رہے ۔

                جب آپ کا وصال ہوا  اس وقت یہ اختلاف پیدا ہوا ۔ اس وقت اختلاف کی شکل یہ تھی کہ ایک انجمن تھی جس حضرت مسیح موعود نے بنائی تھی اور اس انجمن کو  حضرت مسیح موعود نے جانشین بھی قرار دیا ۔ دوسری طرف آپ نے یہ بھی پیشگوئی فرمائی کہ میرے جانے کے بعد قدرت ثانیہ آئے گی۔ اور وہ و ہ قدرت ہے کہ جب تک میں یہان تم میں ہوں اس وقت تک وہ قدرت ظاہر نہیں ہو گی۔ لیکن وہ ایک عظیم قدرت ہے جو خدا کی طرف سے میرے وصال کے بعد ظاہر ہو گی اور پھر ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی ۔

                پس جماعت احمدیہ قادیان کے نزدیک خلافت ہی وہ قدرت ثانیہ ہے جس کی پیشگوئی فرمائی گئی تھی اور جو انجمن کے اوپر فائق تھی ۔ اور انجمن کو اس کے تابع کر دیا گیا تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ ہم کہتے ہیں کہ تمام احمدی جو انجمن کے ممبر تھے یا نہیں تھے سو فیصدی خلافت اولیٰ یعنی پہلے خلیفہ کے ہاتھ پر بیعت کر کے اس بات کو ثابت کر گئے کہ قدرت ثانیہ خلافت ہی تھی ۔ اور قدرت ثانیہ کے مقابل پر انجمن کی حیثیت تابع فرمان کی حیثیت تھی ، الگ آزاد حیثیت نہیں تھی ۔

                 پس جب حضرت خلیفۃ المسیح الاول حکیم نور الدین کا وصال ہوا ، جب وہ خدا کے حضور واپس حاضر ہوئے  تو اختلاف بس اتنا ہی تھا کہ انجمن کے ممبران یہ کہتے تھے کہ ہمارا حق ہے ، سارے ممبران نہیں ، ان میں جو چیدہ چیدہ بڑے بڑے حضرت مولوی محمد علی صاحب جیسے بزرگ تھے ، وہ اور ان کے ساتھی خواجہ کمال الدین وغیرہ یہ اصرار کر رہے تھے کہ ہمارا حق ہے کہ ہم حضرت مسیح موعود کے وارث بنیں اور ہمیں قیادت کے اختیار ہوں ، ہماری رہنمائی میں ساری جماعت اپنے قدم آگے بڑھائے ۔

                دوسرا حصہ جس کو اب قادیانی کہا جاتا ہے ان کا اصرا رتھا کہ جو بات طے کرنے والی تھی وہ تو حضرت مسیح موعود کے وصال کے وقت طے کرنے والی تھی ۔ جب آپ رخصت ہوئے اس وقت آپ نے قدرت ثانیہ کا وعدہ فرمایا تھا ۔ وہ قدرت ثانیہ کہاں گئی ؟ اگر وہ ظاہر نہیں ہوئی تو کیا آپ کا وعدہ غلط نکلا ؟ وہ یقینا ً ظاہر ہوئی اور خلافت کی صورت میں ظاہر ہوئی اور انجمن کے سب ممبروں نے حضرت خلیفۃ المسیح الاول کے ہاتھ پر بیعت کر کے اس بات کو ثابت کر دیا کہ خدا کے نزدیک رہنمائی کا حق ایک امام کو حاصل ہو گا جسے جماعت منتخب کرے گی اور وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت یافتہ ہو گا۔

                اس پہلو سے جماعت احمدیہ قادیان یہ بات بھی بار بار اپنے بھائیوں کو سمجھانے کی کوشش کرتی ہے کہ حضرت اقدس محمدرسول اللہ ﷺ ہی کا نمونہ ہے جو قیامت تک کے لئے تقلید کے لائق ہے ۔ آپؐ نے اور آپؐ کے صحابہ نے جو نمونہ پیچھے چھوڑا وہی اس لائق ہے کہ ہم اس کی پیروی کریں۔ حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کے وصال کے بعد کوئی انجمن قائم نہیں کی گئی ۔ بلکہ تمام دنیا جانتی ہے کہ خلافت راشدہ کے ذریعہ روحانی قیادت مسلمانوں کو نصیب ہوئی اور اسی کا وعدہ قرآن کریم میں آیت استخلاف میں دیا گیا تھا ۔ پس ہم اپنے بھائیو ں کو یہ سمجھانے کی کوشش کرتےہیں کہ وہ طریق جو حضرت اقدس حضرت محمد رسول اللہ خاتم النبیین ﷺ نے پیچھے چھوڑا جس پر خلفائے راشدین چلے ، جس پر تمام صحابہ نے قدم مارے ، وہی درست طریق ہے اور روحانی جماعتوں میں قیادت ایک امام کی شکل میں چلا کرتی ہے ۔ انجمنوں کے بس کی بات نہیں کہ وہ روحانی قیادت کر سکیں ۔ پس یہ ایک زائد دلیل تھی جو جماعت کی طرف سے پیش کی گئی ۔

                مگر بہر حال وہ انجمن کے سرکردہ ممبران جو ایک بہت بڑا مقام جماعت میں رکھتے تھے ، انہوں نے اس بات پر اصرار کیا کہ پہلی دفعہ جو بات ہو گئی ، ہو گئی ۔ ایک خلیفہ کافی ہے ۔ اب ہم دوبارہ کسی خلیفہ کی بیعت نہیں کریں گے ۔ ہم ہی ہیں جو صاحب اختیار ہیں ۔ہماری قیادت میں ساری جماعت کو آگے بڑھنا ہو گا ۔ لیکن جماعت کی اکثریت نے اس خیال کو رد کر دیا اور اگرچہ یہ شروع میں دعویٰ کیا گیا کہ اکثریت انجمن کے ساتھ ہے لیکن حالات نے بتا دیا کہ یہ بات نہیں تھی ، ورنہ انجمن کو قادیان چھوڑنا نہ پڑتا ۔ پس بہت جلد انجمن کے وہ سرکردہ ممبران قادیان کو چھوڑ کر لاہور چلے گئے اور وہیں سے اپنی قیادت کا نظام جاری کیا ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ لوگ جو قادیان کے مرکز سے چمتے رہے ان کو قادیانی کہا جاتا ہے اور جو لوگ  لاہور آگئے ان کو لاہوری کہا جاتا ہے ۔

                اس اختلاف کے علاوہ کچھ اور باتیں بھی بیان کی جاتی ہیں جن کو سمجھانا میرا فرض ہے ۔ یہ کہا جاتا ہے کہ اختلاف صرف یہی نہیں تھا بلکہ اور اختلافات بھی تھے ۔ عقیدوں کے اختلاف بھی تھے ، خاتم النبیین کے مسئلہ پر بھی اختلاف تھا ۔ میں یہ اصرار کے ساتھ گزارش کرتا ہوں کہ اختلاف کی تاریخ کو آپ اٹھا کر دیکھ لیجئے جس وقت جماعت قادیان اور جماعت لاہور کا اختلاف ہوا ہے ، اس وقت کہیں ختم نبوت کا کوئی سوال نہیں اٹھایا گیا ، عقائد کی اور کوئی بحث نہیں اٹھائی گئی ، یہ سب بعد کی باتیں ہیں ۔ بنیادی فرق صرف یہ تھا کہ کیا خلافت کا نظام جماعت میں جاری رہے جیسا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاول کی صورت میں جاری ہو چکا تھا یا اسے تبدیل کیا جائے ۔

                پس جماعت احمدیہ قادیان نے کچھ تبدیل نہیں کیا۔ جماعت احمدیہ قادیان اسی عقیدہ پر قائم رہی جس عقیدہ کی رو سے خلیفہ ٔ اول کا انتخاب ہوا۔ جماعت احمدیہ قادیان نے مرکز کو بھی نہیں چھوڑا، اسی مرکز پر قائم رہی ۔ پس ہمارا یہ مؤقف ہے اور اپنے بھائیوں کو ہم سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں اور خصوصاًوہ احمدی چھوٹے بچے جو یہاں پیدا ہوئے ان کو میں سمجھا رہاں کہ کیوں یہ اختلاف ہوئے اور ہمارا کیا مؤقف تھا ؟ کیا آج تک موقف ہے ؟

                پس ہم یہ ایمان رکھتے ہیں کہ روحانی سلسلے اسی طرح چلائے جاتے ہیں جیسے انبیاء کے بعد روحانی سلسلے چلتے ہیں اور وہی سلسلے ہیں جو ہمیشہ دنیا میں کامیاب ہوتے ہیں۔ وہی سنت ہے جس میں اللہ تعالیٰ برکت عطا فرما تا ہے ۔ انجمنوں کے ذریعہ روحانی جماعتوں کے نظام نہیں چلا کرتے ، بلکہ اس سے اختلافات پیدا ہوتے چلے جاتے ہیں اور ترقی کی بجائے جماعتیں تنزل کرنا شروع کر دیتی ہیں ۔

                (اس کے بعد حضور نے ختم نبوت کے متعلق جماعتی موقف بیان کیا اور پھر فرمایا )

                اب ایک اور بات میں آپ کو سمجھاتا چلوں کہ جماعت لاہور کے بعض ممبران جن سے میر ی گفتگو ہوتی ہے وہ کہتے ہیں کہ درحقیقت یہ بات ہمیں سمجھ نہیں آتی کہ آنحضور کے بعد ایک اور نبی آجائے ۔ میں ان سے کہتا ہوں اس بحث میں نہ پڑیں۔ امام مہدی اور مسیح موعود کا آنا تو مقدر ہے یا نہیں ؟ صرف یہ بحث کریں جو امام مہدی آئے گا اس کا منصب خود آنحضور ﷺ کی پیشگوئیوں کے مطابق اور مسیح موعود کا منصب آپؐ کے ارشادات کے مطابق کیا ہے ؟ اگر وہ امتی نبی کا منصب ہے تو اسے ماننا پڑے گا۔

                دوسرے میں ان کو ادب کے ساتھ یہ توجہ دلاتا ہوں کہ ذرا ٹھنڈے دل سے غور کریں کہ پہلے مجددین کو کیوں امام مہدی نہیں کہا گیا ؟ آپ کہتے ہیں مرزا صاحب بھی ایک مجدد ہیں ، اس سے بڑھ کر کچھ نہیں ۔ تو پہلے مجددوں کو آپ مسیح موعود کیوں نہیں مانتے ؟ پہلے مجددوں کو امام مہدی کیوں نہیں مانتے ؟ کوئی فرق ہے تو آپ فرق کرتے ہیں۔ اس لئے تقویٰ سے کام لیں ۔ جو آپ کا عقیدہ ہے دنیا کے خوف سے بے پروا ہو کر سچائی سے بیان کریں ۔ آپ سب جانتے ہیں اور یہ ایمان رکھتے ہیں کہ گزشتہ سارے مجددین میں سے ایک بھی نہ امام مہدی تھا ، نہ مسیح موعود تھا ۔ پس جس کو مسیح موعود مان بیٹھے اس کے متعلق وہ لقب کیسے چھین سکتے ہیں جو حضرت محمد رسول اللہ ﷺ نے آپ کو عطا فرمایا ہے ۔

                ایک اور بات آپ کو سمجھانے کے لئے عرض کرتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود کا جو بھی منصب آپ سمجھیں ، کم سے کم لاہوری احمدی ، قادیانی احمدیوں سے اس بات پر تو سو فیصد متفق ہیں کہ مسیح موعود سچے تھے ، جھوٹے انسان نہیں تھے۔ اگر نعوذ باللہ لاہوری ان کو جھوٹا سمجھتے تو مجدد بھی نہ مانتے ۔ سچا تو مانتے ہیں اور یہ بھی مانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ آپ پر وحی نازل فرماتا تھا ۔ آپ سے ہم کلام ہوتا تھا ۔ آپ کو سچی رؤیا دکھاتا تھا ۔ آ پ کو سچے کشوف دکھاتا تھا ۔ آپ کو وہ باتیں بتاتا تھا جو غیب کی باتیں ہیں اور وہ باتیں ہماری آنکھوں کے سامنے پوری ہوتی رہیں ۔ پس اس بات پر ہم دونوں گروہوں کا سو فیصد اتفاق ہے ۔ ایک بھی احمدی ایسا نہیں جو اس سے اختلاف رکھتا ہو ۔ حضرت مسیح موعود سچے تھے اور یقینا ً سچے تھے ۔

                اب سوال یہ ہے کہ ایک سچا اگر یہ اعلان کرے کہ خدا نے مجھے ایک بات بتائی ہے جو پوری ہو گئی اور اس طرح پوری ہو گئی ، تو سچا ماننے والے کو کیا حق ہے کہ اس سے اختلاف کرے۔

                دیکھیں مَیں پہلے بھی یہ دلیل دے چکا ہوں کہ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ نے جب مسیح موعود کو نبی اللہ کہہ دیا اور مسلم میں یہ حدیث موجود ہے تو جو شخص بھی مسیح موعود کو وہ مسیح موعود سمجھتا ہے جس کی پیشگوئی تھی اس کو یہ حق نہیں ہے کہ نبی اللہ کا انکار کر دے۔

                اسی طرح اب میں مسیح موعود کے بارے میں ایک بات آپ کو بتاتا ہوں ۔ آپ نے خدا سے خبر پا کر ایک مبشر اولاد کی پیشگوئی فرمائی اور صرف یہی نہیں کہ پیشگوئی فرمائی ، یہ اعلان کیا کہ اللہ نے اپنے وعدے کے مطابق وہ انیک اولاد مجھے عطا کر دی ہے ۔ ایک نظم میں سے ایک دو شعر میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں ، فرماتے ہیں            ؎

                                خدا یا تیرے فضلوں کو کروں یاد                 بشارت تو نے دی اور پھر یہ اولاد

اے میرے مولا میں تیرے فضلوں کو یاد کرتا ہوں تو نے خوشخبری دی ، اور پھر اس خوشخبری کے نتیجے میں یہ اولاد جو میرے ہاں پیدا ہو چکی ہے یہ اولاد عطا فرمائی ۔ اور وعدہ کیا کیا ؟

                                کہا ہرگز نہیں ہوں گے یہ برباد                    بڑھیں گے جیسے باغوں میں ہوں شمشاد

                یہ اعلان ، خدا نے مجھ سے وعدہ کیا کہ یہ ہرگز برباد نہیں ہوں گے ۔ جس طرح باغوں میں شمشاد پھولتے  پھلتے اور بڑھتے ہیں اس طرح تیری آنکھوں کے سامنے تیری اولاد پھولے گی ، پھلے گی ۔

                پھر ان کے تقویٰ کے متعلق آپ نے کلام کیا اور دعائیں کیں کہ اے خدا مجھے اس حالت میں واپس نہ بلانا کہ میری اولاد تقویٰ پر قائم نہ ہو ۔ فرمایا                  ؎

                                یہ ہو میں دیکھ لوں تقویٰ سبھی کا                    جب آوے وقت میری واپسی کا

                اے خدا ! جب تو مجھے واپس بلائے  تو یہ توفیق دینا کہ میں اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے بچوں کو متقی دیکھوں ۔

                آپ سچا مانتے ہیں تو یہ مانیں کہ حضرت مسیح موعود نے جو کچھ فرمایا ۔سچ فرمایا اور آپ کی اولاد جیسا کہ خدا نے فرمایا تھا برباد نہیں ہوئی ۔

                لیکن عجیب بات ہے کہ اس کے باوجود آپ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود کی تمام تر اولاد بغیر استثناء کے کلیۃ ً برباد ہو گئی ۔یعنی عقیدہ سے ہٹ گئے ، سچائی سے ہٹ گئے ، ایک نیا مسلک بنا لیا اور بربادی کیا ہوتی ہے ۔ دنیا کی بربادی تو ایک معمولی بات ہے ۔ اصل بربادی تو دین اور روحانیت کی بر بادی ہے ۔ بعض غیر مبائعین ، یعنی ہم انہیں غیر مبائعین کہتے ہیں جنہوں نے خلیفہ کی بیعت نہ کی ہو اور دنیا ان کو لاہوری احمدی کہتی ہے ، وہ بعض دفعہ بڑی جرأت کی بات کرتے ہیں ۔ وہ کہتےہیں دیکھو نوح کی اولاد بھی تو بر باد ہو گئی تھی ۔ ہم کہتے ہیں نوح کی جس اولاد کی بربادی کی تم بات کرتے ہو اس کے متعلق خدا نے بتا دیا تھا کہ یہ برباد ہو گی ، یہ نہیں فرمایا تھا کہ یہ بچے گی اور پھر وہ برباد ہو گئی ۔ میں جس اولاد کی بات کر رہا ہوں اس کے متعلق حضرت مسیح موعود یہ فرما رہے ہیں کہ         ؎

                خدا یا تیرے فضلوں کو کروں یاد                 بشارت تو نے دی اور پھر یہ اولاد

                کہا ہرگز نہیں ہوں گے یہ برباد                    بڑھیں گے جیسے باغوں میں شمشاد

                بشارت کیا ہے اک دل کی غذا دی                                فسبحان الذی اخزی الاعادی

یہ بشارت ، یہ خوشخبری، یہ تو میرے دل کی غذا بن گئی ۔ یہ بات بالکل اور بات ہے ۔ حضرت مسیح موعود کو خدا نے یہ خوشخبری دی تھی کہ اولاد برباد نہیں ہو گی ۔ پھر اس اولاد ، اولاد در اولاد، اولاد در اولاد  جو سینکڑوں ہزاروں تک پہنچ گئی ، اس میں سے ایک بھی آدمی آپ کے نزدیک ہدایت پر قائم نہیں رہا ۔ سوچئے تو سہی ، غور تو کریں ، استغفار سے کام لیں اور اگر خود ان مسائل کی سمجھ نہیں آتی تو دعا سے کام لیں ۔

                دیکھئے یہ زمانہ اختلافات کا زمانہ نہیں رہا ۔ ہمیں آپس میں مل بیٹھ کر معاملات کو طے کرنا ہے ۔ دنیا کی حالت بد سے بدتر ہوتی چلی جارہی ہے ۔ تمام دنیا کے معاشرے برباد ہو رہے ہیں۔ مسلمان کہلانے والے بھی ، ان ملکوں میں جا کر دیکھئے کس گندے حال کر پہنچ چکے ہیں۔ پاکستان سے میں آیا ہوں ، ہم میں سے بہت سے ایسے ہیں جو پاکستان سے آئے ہیں ۔ بہت سے ایسے ہیں جو ہندوستان سے آئے ہیں۔ وہاں کے مسلمانوں کا حال آپ جانتے ہیں ۔ اسقدربد حالت ہو گئی ہے کہ جھوٹ ، رشوت ، بدکاری  ، ظلم و ستم، بچوں پر ظلم ، بیواؤں پر ظلم ، یتیموں کا مال کھانا، عدالتوں میں جھوٹی گواہیاں دینا روز مرہ کا دستور بن گیا ہے ۔ اس حال کو (دین)پہنچ رہا ہے ، اختلاف بڑھ رہے ہیں ۔ غیر قومیں مسلمانوں پر ظلم کر رہی ہیں ۔ غیر قومیں مسلمانوں کو دنیا کے سامنے جاہل ، بیوقوف اور اکھڑ ، ایسے لوگوں کے طور پر پیش کر تی ہے جن کا مسلک ہی یہ ہے کہ کوئی بات نہ مانے تو ان کے جہاز اڑا دو خواہ اس میں کتنے معصوم مارے جائیں۔ یہ نقشے دنیا میں مسلمانوں کے بنائے جا رہے ہیں ۔ یہ وقت اختلافات کا وقت تو نہیں ہے ۔ یہ وقت اکٹھے ہونے کا وقت ہے ، (دین)کی خاطر ، خدا کی خاطر ، دنیا کی بھلائی کی خاطر ، دنیا کو ہلاکت سے نجات کی خاطر۔

                میں آپ کو کلام اللہ کے پیغام کے ساتھ یہ دعوت دیتا ہوں کہ تَعَالَوْا اِلٰی کَلِمَۃٍ ۔۔۔۔۔(آل عمران :65) اے ہمارے بھائیو ! اس ایک کلمہ کی طرف لوٹ آؤ جو ہم دونوں کے درمیان واحد ہے ، ہم دونوں کے درمیان مشترک ہے ۔ آ پ بھی مسیح موعود کو سچا مانتے ہیں ۔ ہم بھی مسیح موعود کو سچا مانتے ہیں ۔ ہم دونوں اس بات پر اتفاق کر جائیں کہ آپ وہ امام تھے جس کے آنے کی خبر حضرت محمد رسول اللہ ﷺ نے عطا فرمائی تھی ۔ پس آپ کو جس جس نام سے محمد ؐ رسول اللہ نے یاد فرمایا ، ہم اس نام سے انکار کرنے کا حق نہیں رکھتے ۔ ہمیں لازم ہے کہ ہم اس حیثیت سے آپ کو امام قبول کریں اور حقیقت یہ ہے کہ غیر احمدی مسلمان بھی جن کو آپ سنی یا شیعہ مسلمان کے طور پر جانتے  ہیں وہ بھی درحقیقت مسیح موعود کو نبی اللہ ہی مانتے ہیں۔ وہ بھی درحقیقت امام مہدی کو وہی مقام دیتے ہیں جو میں دے رہا ہوں یا میں سمجھ رہا ہوں ۔ جو آپ کو سمجھ میں آجانا چاہیے کہ خدا کا بنایا ہوا امام ہی دراصل نبی ہوتا ہے ۔ اگر وہ شریعت نہ لے کے آئے ، اگر وہ ایک پہلے کی شریعت پر ہو اور صرف یہی نہیں اس سے بڑھ کر جو محمد ؐرسول اللہ  کی شریعت کا بھی غلام ہو اور آپؐ کے ہر ہر لفظ کا ، آپؐ کی سنت کا ، آپؐ کی حدیث کا غلام ہو ۔ ایسا تابع فرمان ، ایسا امتی نبی حضرت محمد ؐ رسول اللہ خاتم النبیین کی امت میں آسکتا ہے اور یہ آیت خاتم النبیین کی امت میں آسکتا ہے اور یہ آیت خاتم النبیین کے منافی نہیں ، بلکہ قرآن کریم کی ایک دوسری آیت کے عین مطابق ہے ، جس میں اللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ فرمایا کہ وَمَنْ یُطِعِ اللّٰہَ وَ الرَّسُوْلَ ۔۔۔۔(النساء : 70-71)کہ دیکھو محمد ؐ رسول اللہ کا مقام کتنا بڑا ہے کہ آج خدا یہ اعلان کرتا ہے کہ جو اللہ اور اس رسول کی اطاعت کرے گا اب سارے انعام اسی کو ملیں گے اور جو محمد ؐ رسول الل کا سچا غلام ہو گا ، وہ اپنی غلام کے مرتبے کے مطابق کیا کیا انعام پا سکتا ہے ؟ یہ آیت ان انعامات کو گنواتی ہے ۔ پہلا انعام ہے مِنَ النَّبِیِّیْنَ ۔ پھر فرمایا وَ الصِّدِّیْقِیْنَ ۔ وہ نبیوں میں سے ہو گا۔ وہ صدیقوں میں سے ہو گا ۔ وَحَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیْقًا۔پس قرآن تو فرماتا ہے کہ امتی نبی تابع فرمان نبی کے آنے کی گنجائش ہے اور صدیق اور صالح اور شہید بھی امتی ہی ہوں گے ، امت سے باہر کوئی انعام باقی نہیں رہا ۔ پس میں اسی کی طرف آپ بلاتا ہوں۔

                اللہ تعالیٰ آپ کو توفیق عطا فرمائے کہ میرے پیغام کو جو سچے جذبے سے ہے قبول فرمائیں ۔ اگر نہیں تو دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں مل کر بیٹھنے کی توفیق بخشے ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ۔

(روزنامہ الفضل۔ مؤرخہ 23 مئی 2014صفحہ 15تا17)

یہ بھی ملاحظہ فرمائیں

حضرت بانیٔ جماعت احمدیہ کاعشق رسول ﷺ – آپؑ کی تحریرات اور آپؑ کے واقعات کی روشنی میں

ذیل میں حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ علیہ السلام کی تحریرات سے کچھ اقتباس پیش ہیں ۔یہ تحریرات ا…