حامد میر کے کالم ’’کلین شیو مولوی‘‘ جواب

جواب
مؤرخہ یکم اگست 2019 کے جنگ اخبار میں معروف صحافی حامد میرصاحب نے ’’کلین شیومولوی‘‘کے نام سے ایک کالم تحریر کیا۔ اس کالم میں موصوف نے چند باتیں کیں جن کا جواب دینا مقصود ہے ۔

حامد میر صاحب گاہے بگاہے احمدیوں کے بارہ میں کالم لکھتے رہتے ہیں ۔ مگر افسوس یہ ہے کہ ہر بار وہ وہی پُرانی باتیں اور پُرانے اعتراضات نئے پیرائے میں ڈھال کر عوام کے سامنے پیش کر دیتے ہیں۔ ان اعتراضات کا جواب بارہا جماعت احمدیہ کے لٹریچر میں دیا جا چکا ہے اور اب بھی دیا جاتا ہے ۔

حامد میر صاحب لکھتے ہیں :’’ کہ 1974ء میں پاکستان کی قومی اسمبلی میں کئی دن تک بحث ہوئی۔ اٹارنی جنرل یحییٰ بختیار نے احمدیوں کے روحانی پیشوا مرزا ناصر پر تفصیلی جرح کی اس دوران مرزا ناصر احمد نے یہ تسلیم کیا کہ اسرائیل کے شہر حیفا میں اُن کی جماعت کا ایک مشن موجود ہے ‘‘۔

اس جملے سے غالباً وہ احمدیوں کا حیفا میں مشن ہونے سے اسرائیل سے متعلق مسلمانوں کے مخصوص جذبات ابھارنا چاہتے تھے ۔ جبکہ یہ سب جانتے ہیں کہ کئی مسلمان اسرائیل میں نہ صرف بستے بلکہ کئی امام اسرائیلی حکومت سے تنخواہ بھی لیتے ہیں۔ آج بھی 17 فیصد آبادی اسرائیل میں مسلمانوں پر مشتمل ہے جن میں اکثریت سنی مسلمانوں کی ہے ۔لہٰذا یہ تاثر دینا کہ صرف احمدی اسرائیل میں موجود ہیں درست نہیں۔

یہ بات بھی غور طلب ہے جس مقصد سے اس خصوصی کمیٹی کا قیام عمل میں لایا گیا تھا اس کے بارہ میں تو کوئی بات پوچھی ہی نہیں گئی ۔ یعنی یہ بات کہ ’’اسلام میں اس شخص کی کیا حیثیت ہے جو حضرت محمد ﷺ کو آخری نبی نہ مانتا ہو۔‘‘اس کلیدی سوال کے علاوہ ادھر اُدھر کی باتوں میں وقت ضائع کیا گیا اور اس سوال کے بارہ میں کوئی پوچھ گچھ نہ ہوئی ۔ چنانچہ کس بنیاد پر قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی پر یہ عقدہ کھلا کہ احمدی ختم نبوت کے منکر ہیں ، ہم قارئین پر اس کا فیصلہ چھوڑتے ہیں۔

پھر حامد میر صاحب ملک محمد جعفر خان صاحب کی کتاب ’’احمدیہ تحریک ‘‘کے حوالہ سے فرماتے ہیں :’’ جماعت احمدیہ نے اپنی پالیسی سے خود کو مسلمانوں سے دور کیا کیونکہ غیر احمدیوں کے ساتھ نماز پڑھنے یا کسی غیر احمدی کی نماز جنازہ پڑھنے پر احمدیوں کو جماعت سے خارج کر دیا جاتا ہے۔ ‘‘

ایک ایسے شخص کا بیان جوبقول حامد میر صاحب کے ’’ جو پہلے احمدی تھے ‘‘یعنی احمدیت چھوڑ چکے تھے ، احمدیوں کے عقائد کے بارہ میں کتنا قابل قبول ہو سکتا ہے؟ نیز یہ بات ہی جھوٹ ہے کہ احمدیوں نے خود کو مسلمانوں سے دور کیا۔ جماعتِ احمدیہ اِس معاملہ میں ایک مظلوم جماعت ہے جس پر شروع ہی سے علماء حضرات نے فتاوٰی لگا رکھے ہیں۔

جہاں تک نماز جنازہ نہ پڑھنے کا تعلق ہے تو نماز جنازہ فرض کفایہ ہوتی ہے یعنی اگر چند لوگ ملکر ادا کر دیں تو وہ فرض ادا ہو جاتا ہے۔ پھر یہ بھی غور کرنا چاہیے کہ ایک طرف احمدیوں کو غیر مسلم کہا جاتا ہے اور اعتراض اس بات پر کیا جا رہا ہے کہ وہ دوسروں کے ساتھ نماز نہیں پڑھتے یا نماز جنازہ نہیں پڑھتے۔ اگر آپ کے نزدیک احمدی غیر مسلم ہیں تو انکا نماز جنازہ پڑھنے یا نہ پڑھنے سے کیا تعلق؟

بہر حال جماعت احمدیہ کا یہ طریق ہے کہ اگر کسی جگہ ایسی صورتحال پیدا ہو جائے کہ کسی کلمہ گو مسلمان کے لئے کوئی اور جنازہ پڑھنے والا موجود نہ ہو تو جماعت میں نہ صرف اسکا جنازہ پڑھا جاتا ہے بلکہ تجہیز و تکفین وغیرہ میں بھی جہاں تک مدد ہو سکے وہ کی جاتی ہے ۔

حامد میر صاحب مزید لکھتے ہیں :’’ جب قومی اسمبلی نے احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا تو اس کی حمایت کرنے والوں میں مولانا شاہ احمد نورانی اور مولانا مفتی محمود سے لے کر خان عبدالولی خان اور سردار شیر باز مزاری سے لے کر سردار شوکت حیات تک سب کلین شیو سیاستدان شامل تھے۔ ‘‘

یہ بات کہہ کر گویا اس فیصلے کو صحیح ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کسی فیصلہ کو اس بنیاد پرمستند مانا جاتا ہے کہ اس کو کرنے والا فلاں فلاں عالم تھا یا فلاں دنیوی علوم کا ماہر یا سیاستدان تھا ۔ یا یہ بات دیکھی جاتی ہے کہ کس بنیاد پر یہ فیصلہ دیا گیا ۔ اور وہ کیا وجہ تھی جو اس فیصلہ پر منتج ہوئی ؟ یقیناً ایک منصف مزاج شخص یہی بات کہے گا کہ وہ وجہ دیکھی جانی چاہیے ، وہ ثبوت دیکھے جانے چاہئیں جن کی بنا پر یہ فیصلہ دیا گیا ۔ اور ثبوت جیسا کہ ہم پہلے قارئین کو بتا چکے ہیں کوئی پیش ہی نہیں کیا گیا ، اس بنیادی سوال پر ہی بحث نہیں کی گئی جس کی بنیاد پر احمدیوں پر یہ فیصلہ ٹھونسا گیا۔

اس کے بعد میر صاحب موصوف احمدیوں کے خلا ف بنے قانون کو مزید تقویت دینے کے لئے لکھتے ہیں :۔

’’یہ علامہ اقبالؒ ہی تھے جنہوں نے سب سے پہلے احمدیوں کے بارے میں اپنے تحفظات کا کھل کر اظہار کیا ‘‘۔

علامہ اقبال کے نہ معلوم کن تحفظات کا ذکر حامد میر صاحب فرما رہے ہیں ۔ ہم نے اس غرض سے جب اقبال کی بعض تحریرات کھنگالیں تو ہمیں یہ تحریر نظر آئی :

’’پنجاب میں اسلامی سیرت کا ٹھیٹھ نمونہ ا س جماعت کی شکل میں ظاہر ہوا ہے جسے فرقہ قادیانی کہتے ہیں‘‘۔

(لیکچرملت بیضا پر عمرانی نظر ۔ 1910؁ء)

اس کے بعد میر صاحب رقمطراز ہیں کہ :

’’ بھٹو نے ختم نبوت کا مسئلہ کسی مولوی کے دباؤپر حل نہیں کیا تھا بلکہ پارلیمنٹ میں اپنی اکثریت کے بل پر حل کیا جو کلین شیو تھی۔ ‘‘

اس ضمن میں پیپلز پارٹی کے سینئررہنما سید مبشر حسن صاحب کا ایک بیان پڑھنے اور سننے سے تعلق رکھتا ہے ۔

دنیا نیوز کے ایک پروگرام ’’تلاش‘‘میں موصوف نے اینکر کے سوال پوچھنے پر کہ کیا احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے کا فیصلہ سیاسی فیصلہ تھا؟ انہوں نے جواب دیا :

’’بالکل سیاسی فیصلہ تھا ۔ ۔۔۔آپ پوچھ رہے ہیں کہ یہ کیوں ہوا ؟یہ سعودی عرب کے پریشر سے ہوا ۔وہ یہ کہتاتھا سعودی عرب کا بادشاہ کہ انکو یہاں نہ آنے دو۔یہاں نہ آنے کا مطلب یہ ہے کہ انکو مسلم نہ لکھو پاسپورٹ میں۔ اگرانکو غیر مسلم لکھو گےتو پھر یہ نہیں آسکیں گے حج کو۔ ‘‘

پھر اینکر نے دوبارہ پوچھا : تو یہ amendmentجو یہ ہے It was a political decision?

اسکے جواب میں سید مبشر حسن نے کہا کہ “Totally political”۔

ویڈیو ملاحظہ کرنے کے لئے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کریں:

پس یہ تو حال ہے اس فیصلہ کے استناد کا۔ سیاسی مفادات کے حصول کی خاطر ایک جماعت کو غیر مسلم قرار دے دیا گیا۔ اب ہم یہ فیصلہ قارئین پر چھوڑتے ہیں کہ وہ سید مبشر حسن صاحب جو نہ صرف بھٹو صاحب کے قریبی ساتھی رہے بلکہ پیپلز پارٹی کے بانی اراکین میں سے ہیں، کی بات کو زیادہ مستند سمجھتے ہیں یا پھر حامد میر صاحب کی۔

یہ بھی ملاحظہ فرمائیں

جماعت احمدیہ پر لگائے جانے والے تحریف قرآن کے الزام پر ایک طائرانہ نظر

پاکستان میں جماعت احمدیہ کے خلاف فتنہ انگیزی کو ہوا دینے کے لیے کئی طرح کے اعتراضات کو بنی…