دفاع پاکستان اور جماعت احمدیہ

دفاع پاکستان کے متعلق حضرت امام جماعت احمدیہ کی راہنمائی

وطن سے محبت ایک احمدی کے ایمان کا حصہ ہے ۔ اس محبت کے عملی اظہار کےلئے احمدی ہر موقع پر دفاع  پاکستان میں صفِ اوّل میں رہے ہیں اور ان کے کارنامے تاریخ پاکستان کا سنہرا باب رہیں گے۔

 دفاع پاکستان کے متعلق حضرت امام جماعت احمدیہ کی راہنمائی

قیام پاکستان کے فورًا بعد 48-1947ء میں جماعت احمدیہ کے دوسرے امام حضرت مرزا بشیر الدین  محمود احمد صاحب نے ملک و ملت کے مستقبل کےسلسلہ میں جو راہنمائی فرمائی اس میں آپ نے دفاع پاکستان کو بھی موضوع بنایا اور یہ گراں قدر مشورے دئیے:

(i)       پاکستان کی فوج، فضائی طاقت اور بحری طاقت کو فوری بڑھانا نہایت ضروری ہے ۔

(ii)      (انگریز افسروں کی جگہ)یہ ضروری ہے کہ فوج کی راہنمائی پاکستانی جرنیل کریں۔

(iii)    جو لوگ سرحد کے ساتھ ساتھ بستے ہیں انہیں فوجی اسلحہ کے استعمال کی تربیت دی جائے ۔

                                                                                         (اخبار ایسٹرن ٹائمز یکم دسمبر 1947ء)

(iv)     پاکستانی بحریہ کو آبدوز (Submarines) Mine Layers, Destroyers, اور ہوائی جہاز برداز جہاز(Aircraft Carriers) حاصل کرنے کےلئے فوری طور پر قدم اٹھانا چاہیے ۔

                                                  (الفضل 11جنوری 1948ء بحوالہ تاریخ احمدیت جلد نمبر 11صفحہ 424)

فرقان بٹالین اور وطن کی خاطر جانی قربانی

جماعت احمدیہ نے حکومت پاکستان کے مطالبہ اور خواہش پر جون 1948ء میں محاذ کشمیر پر ایک رضا کار بٹالین بھجوائی ۔ یہ فرقان بٹالین دو سال محاذ پر ڈٹی رہی۔ اس کی کمان حضرت مرزا ناصر احمد صاحب کے سپرد تھی جو بعد میں جماعت کے تیسرے خلیفہ ہوئے ۔ اس میں تین ہزار رضار کار مجاہدین شامل تھے اور اس کی ذمہ داری سعد آباد کی حفاظت تھی ۔ فرقان بٹالین کا کام ختم ہونے پر پاکستانی فوج کے کمانڈر ان چیف نے اپنے پیغام مورخہ 17جون 1950ء میں کہا :۔

  ’’دشمن نے  ہوا پر سے اور زمین پر سے آپ پر شدید حملے کئے لیکن آپ نے ثابت قدمی اور اولو العزمی سے اس کا مقابلہ کیا اور ایک انچ زمین بھی اپنے قبضہ سے نہ جانے دی ۔‘‘

 (تاریخ احمدیت جلد ششم۔ صفحہ 674,673)

جنگ ستمبر1965ء ۔چھمب محاذ پر لیفٹیننٹ جنرل اختر حسین ملک

کشمیر میں چھمب کی فتح کا کارنامہ انجام دینے والے ایک اور احمدی لیفٹیننٹ جنرل اختر حسین ملک تھے ۔ یہ ایک بڑی فتح تھی جس کے اعتراف میں آپ کو سب سے پہلے دوسرا بڑا جنگی اعزاز ہلالِ جرأت دیا گیا ۔آپ کے اس عظیم کارنامے کا ذکر مشہور دانشور شاعر اور ادیب احمد ندیم قاسمی نے یوں کیا۔

  ’’لیفٹیننٹ جنرل اختر حسین ملک قوم کے ایک ایسے ہیرو تھے جن کا نام پاکستانی بچوں کو بھی یاد ہے ۔ وہ بہادری اور استقامت اور اولو العزمی کی ایک مجسم تصویر بن کر ابھرے اور اہل پاکستان کےذہنوں پر چھا گئے ۔ ‘‘

                                                                 (روزنامہ جنگ کراچی 9ستمبر1969ء صفحہ 4)

جنرل اختر حسین ملک کو کمان سے ہٹانے کا واقعہ

صحافی راحیلہ عبشائی کا ایک مضمون بعنوان ’’اے وادیٔ کشمیر تیری جنت میں آئیں گے ہم ‘‘ روزنامہ جناح  لاہور میں شائع ہوا ۔ متذکرہ مضمون کےآخری کالم میں وہ لکھتی ہیں:۔

’’جب پاکستان نے 1965ء میں چھمب جوڑیاں پر حملہ کر کے قبضہ کر لیا تب ہندوستانی افواج کے مورال گر چکے تھے اور وہ بدحواسی میں پسپا ہو رہی تھیں اس وقت ضرورت اس بات کی تھی کہ اکھنور پر قبضہ کر لیا جاتااور یہ تقریبا ہو چکا تھا کہ جنرل اختر حسین نے اپنی اعلیٰ جنگی مہارت اور فوج کی بے مثال قربانی سے کامیابی حاصل کر لی تھی مگر صدر ایوب نے جنرل اختر حسین ملک کو وہاں سے ہٹا دیا یہ ایک بہت بڑی سیاسی و جنگی غلطی تھی کہ دریا عبور کرتے ہوئے گھوڑے تبدیل کرنے والی بات تھی کہا جاتا ہے کہ جنرل ایوب اختر ملک کو ذاتی طور پر پسند نہ کرتے تھے اور نہیں چاہتے تھے کہ کامیابی کا سہرا ان کے سر باند ھ کر انہیں ہیرو بنا دیا جائے ان کو یہ پوزیشن جنرل یحییٰ خان کو دینی تھی اس چکر میں ہندوستانی افواج کو وقت مل گیا اور وہ سنبھل گئے ۔پاکستانی افواج و کشمیری مجاہدین پر اس اچانک تبدیلی پر اثر پڑا علاوہ جنرل یحییٰ خان عیاش طبع تھے اور وہ میدان جنگ میں 36گھنٹے بعد پہنچے جبکہ ایک ایک منٹ قیمتی ترین ہوتا ہے ۔ ‘‘

                        (روزنامہ ’جناح‘مورخہ 2اکتوبر2010ءبحوالہ روزنامہ الفضل ۔مورخہ 13اگست 2012ء)

رن کچھ محاذ پر برگیڈئر افتخار جنجوعہ

رن کچھ میں دشمن کے وسیع علاقہ پر قبضہ کرنے والے احمدی جرنیل برگیڈئر افتخار جنجوعہ ہیرو آف رن کچھ کہلائے ۔آپ نے اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر اگلی صفوںمیں جنگ لڑی اور زخمی بھی ہوئے ۔ اس شجاعت و جرأت کے اعتراف میں بہادری کے دوسرے بڑے اعزا ہلالِ جرأت کے حق دار ٹھہرے ۔

چونڈہ محاذ پر برگیڈئر عبد العلی ملک

چونڈہ کے محاذ پر دوسری جنگ عظیم کے بعد ٹینکوں کی سب سے بڑی جنگ میں ملک کا دفاع برگیڈئر عبد العلی ملک نے کیا۔ انہیں بھی بہادری کا دوسرا بڑا اعزاز ہلالِ جرأت دیا گیا۔ ان کے اس کارنامے کے بارے میں ایک اخبار نے لکھا :۔

  ’’عبد العلی نے چونڈہ کےمحاذ پر ٹینکوں کی عظیم جنگ میں پاکستانی فوج کی کمان کی اور ایسے کارنامے سر انجام دئے کہ تاریخ حرب کے ماہرین حیران و ششدر رہ گئے۔ اس وقت موصوف برگیڈئر تھے۔‘‘

                                                                             (روزنامہ امروز لاہور 23اگست 1969ء)

یہ بھی ملاحظہ فرمائیں

ڈاکٹر محمّد عبد السلام صاحب پر غداری کا الزام

مکرم ڈاکٹر عبد السلام صاحب کی پاکستان کے لئے خدمات مکرم ڈاکٹر عبد السلام صاحب کی اگر صرف پ…