اعتراض: مرزا صاحب نے حج نہیں کیا جبکہ یہ بات حدیث میں مذکور ہے

آنحضرتﷺ نے آنے والے مسیح کے حالات کاذکر کرتے ہوئے ان کے حج و عمرہ کرنے اور روضہ مبارکہ پر حاضر ہوکر سلام پیش کرنے کو بطورِ خاص ذکر فرمایا ہے ۔جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام حج و زیارت نہ کر سکے۔

جواب از حضرت مسیح موعود علیہ السلام

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اس کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں:۔

حج کا مانع صرف زاد راہ نہیں اور بہت سے امور ہیں جو عند الله حج نہ کرنے کے لئے عذرِ صحیح ہیں۔چنانچہ ان میں سے صحت کی حالت میں کچھ نقصان ہونا ہے۔ اور نیز اُن میں سے وہ صورت ہے کہ جب راہ میں یا خود مکّہ میں امن کی صورت نہ ہو۔الله تعالیٰ فرماتا ہے مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلًا (آل عمران:98) عجیب حالت ہے کہ ایک طرف بد اندیش علماء مکّہ سے فتویٰ لاتے ہیں کہ یہ شخص کافر ہے اور پھر کہتے ہیں کہ حج کے لئے جاؤ اور خود جانتے ہیں کہ جب کہ مکّہ والوں نے کفر کا فتویٰ دے دیا تو اب مکہ فتنہ سے خالی نہیں اور خدا فرماتا ہے کہ جہاں فتنہ ہو اُس جگہ جانے سے پرہیز کرو۔ سو میں نہیں سمجھ سکتا کہ یہ کیسا اعتراض ہے۔ ان لوگوں کو یہ بھی معلوم ہے کہ فتنہ کے دنوں میں آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے کبھی حج نہیں کیا اور حدیث اور قرآن سے ثابت ہے کہ فتنہ کے مقامات میں جانے سے پرہیز کرو۔ یہ کس قسم کی شرارت ہے کہ مکہ والوں میں ہمارا کفر مشہور کرنا اور پھر بار بار حج کے بارے میں اعتراض کرنا۔ نَعُوْذُ بِاللهِ مِنْ شُرُوْرِہِمْ۔ ذرہ سوچنا چاہئے کہ ہمارے حج کی ان لوگوں کو کیوں فکر پڑ گئی۔ کیا اس میں بجز اس بات کے کوئی اور بھید بھی ہے کہ میری نسبت ان کے دل میں یہ منصوبہ ہے کہ یہ مکّہ کو جائیں اور پھر چند اشرار الناس پیچھے سے مکہ میں پہنچ جائیں اور شورِ قیامت ڈال دیں کہ یہ کافر ہے اسے قتل کرنا چاہیےٴ۔ سو بروقت ورودِ حکم الہٰی اِن احتیاطوں کی پروا نہیں کی جائے گی۔ مگر قبل اس کے شریعت کی پابندی لازم ہے اور مواضع فتن سے اپنے تئیں بچانا سنّتِ انبیاء علیہم السلام ہے۔ مکہ میں عنانِ حکومت ان لوگوں کے ہاتھ میں ہے جو ان مکفّرین کے ہم مذہب ہیں۔ جب یہ لوگ ہمیں واجب القتل ٹھہراتے ہیں تو کیا وہ لوگ ایذاسے کچھ فرق کریں گے اور الله تعالیٰ فرماتا ہے وَلَا تُلْقُوْ ا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَی التَّھْلُکَةِ (البقرة:196) پس ہم گناہ گار ہوں گے اگر دیدہ ودانستہ تہلکہ کی طرف قدم اٹھائیں گے اور حج کو جائیں گے۔ اور خدا کے حکم کے بر خلاف قدم اٹھانا معصیت ہے حج کرنا مشروط بشرائط ہے مگر فتنہ اور تہلکہ سے بچنے کے لئے قطعی حکم ہے جس کے ساتھ کوئی شرط نہیں۔اب خود سوچ لوکہ کیا ہم قرآن کے قطعی حکم کی پیروی کریں یا اس حکم کی جس کی شرط موجود ہے۔باوجود تحققِ شرط کے پیروی اختیار کریں ۔

(ایام الصلح ۔ روحانی خزائن جلد 14صفحہ 415-416)

ایک اور موقع پر فرمایا :

”یہ لوگ شرارت کے ساتھ ایسا اعتراض کرتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم دس سال مدینہ میں رہے۔ صرف دو دن کا راستہ مدینہ اور مکہ میں تھا مگر آپ نے دس سال میں کوئی حج نہ کیا۔ حالانکہ آپ سواری وغیرہ کا انتظام کر سکتے تھے۔ لیکن حج کے واسطے صرف یہی شرط نہیں کہ انسان کے پاس کافی مال ہو بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ کسی قسم کے فتنہ کا خوف نہ ہو۔ وہاں تک پہنچنے اور امن کے ساتھ حج ادا کرنے کے وسائل موجود ہوں۔ جب وحشی طبع علماء اس جگہ ہم پر قتل کا فتویٰ لگا رہے ہیں اور گورنمنٹ کا بھی خوف نہیں کرتے تو وہاں یہ لوگ کیا نہ کریں گے لیکن ان لوگوں کو اس امر سے کیا غرض ہے کہ ہم حج نہیں کرتے۔ کیا اگر ہم حج کریں گے تو وہ ہم کو مسلمان سمجھ لیں گے؟ اور ہماری جماعت میں داخل ہو جائیں گے؟ اچھا یہ تمام مسلمان علماء اوّل ایک اقرار نامہ لکھ دیں کہ اگر ہم حج کر آویں تو وہ سب کے سب ہمارے ہاتھ پر توبہ کر کے ہماری جماعت میں داخل ہو جائیں گے اور ہمارے مرید ہو جائیں گے۔ اگر وہ ایسا لکھ دیں اور اقرار حلفی کریں تو ہم حج کر آتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے واسطے اسباب آسانی کے پیدا کر دے گا تاکہ آئندہ مولویوں کا فتنہ رفع ہو۔ ناحق شرارت کے ساتھ اعتراض کرنا اچھا نہیں ہے۔ یہ اعتراض ان کا ہم پر نہیں پڑتا بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم پر بھی پڑتا ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی صرف آخری سال میں حج کیا تھا۔”

(ملفوظات جلد پنجم صفحہ248)

حج بدل:۔

حضرت اقدس مسیح موعود کی خواہش حج کی وجہ سے حجِ بدل بھی کیا گیا۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود ؑ کی طرف سے حضرت حافظ احمداللہ ؓ صاحب نے حجِّ بدل کیا

یہ بھی ملاحظہ فرمائیں

حضرت بانی جماعت احمدیہ کی دعوت مقابلہ تفسیر نویسی اور پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی کی اصل واقعاتی حقیقت

قارئین کرام!آجکل سوشل میڈیا پر احمدیوں کے خلاف اشتعال انگیزمنفی مہم میں الزام تراشیوں کا ا…