مسئلہ کفر و اسلام میں ہمارا مسلک (حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ)

حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:۔

“۔۔۔بعض دوست جنہیں سلسلہ کے عقائد کے متعلق تفصیلی واقفیت نہیں دریافت کرتے ہیں کہ غیر احمدیوں کے کفر و اسلام کے متعلق ہمارا مسلک کیا ہے ۔ یعنی آیا ہم انہیں ہندوؤں اور عیسائیوں کی طرح کے کافر اور دائرہ اسلام سے کلی طور پر خارج سمجھتے ہیں یا یہ کہ ان کا کفر ہندوؤں اور عیسائیوں کی طرح کے کافر اور دائرہ اسلام سے کلی طور پر خارج سمجھتے ہیں یا یہ کہ ان کا کفر ہندوؤں اور عیسائیوں کی طرح کا کفر نہیں بلکہ ایک جداگانہ رنگ رکھتا ہے ۔ سو اس کے متعلق اصولی طور پر یاد رکھنا چاہئے کہ ہمارا یہ عقیدہ ہر گز نہیں کہ جن مسلمان کہلانے والوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا انکار کیا ہے وہ ہندوؤں اور عیسائیوں کی طرح کافر ہیں۔ یعنی جس طرح یہ قومیں ظاہری اور باطنی ہر دو لحاظ سے اسلام سے دُور پڑی ہوئی ہیں۔ اسی طرح غیر احمدیوں کا بھی حال ہے ۔ ایسا خیال نہ صرف واقعات اور عقل ِ خدا داد کے خلاف ہے بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم کے بھی سراسر خلاف ہے لیکن اس کے مقابل پر یہ بھی ایک واضح اور بین صداقت ہے جسے کسی صورت میں چھپایا نہیں جا سکتا کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی واضح تصریحات کے مطابق انہیں کافر خیال کرتےہیں۔

دراصل کفر کی کئی قسمیں ہیں اور اس کے مختلف مدارج ہیں اور گو محض کافر ہونے کے لحاظ سے سب منکر برابر ہوں مگر اس میں شبہ نہیں کہ دائرہ انکار کی تنگی یا وسعت کے لحاظ سے ہر گروہ کے کفر میں فرق ہوتا ہے اور کفر دون کفر کا مسئلہ بالکل درست ہے اور برحق ہے ۔ ایک دہریہ جو مذہب کی تمام اصولی صداقتوں کا منکر ہے ۔ وہ ہم سے دور ترین مقام پر ہے ۔ اس کے بعد ایک ہندو کا نمبر آتا ہے جو خدا کو اور بعض غیر سامی انبیاء کو تو مانتا ہے مگر جملہ سامی انبیاء کا منکر ہے ۔ اس کے بعد یہودی ہیں جو اکثر انبیاء کو مانتے ہیں مگر حضرت مسیح ناصری اور آنحضرت ﷺ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے منکر ہیں ۔ ان سے اوپر عیسائی ہیں جو دیگر انبیاء کے علاوہ حضرت مسیح ناصری ؑ کو بھی مانتے ہیں اور اسلام کے عرفی دائرہ سے باہر ہمارے قریب تر ہیں اور بالآخر سب سے اوپر اور سب سے زیادہ قریب غیر احمدی ہیں۔ جو باقی سب انبیاء پر ایمان لانے کے علاوہ آنحضر ت ﷺ اور آپؑ کی لائی ہوئی شریعت پر ایمان لانے کے بھی مدعی ہیں مگر وہ موجودہ زمانہ کے مامور و مرسل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا انکار کرتے ہیں۔ بیشک یہ تمام گروہ اصطلاحی طور پر کُفر کی زد کے نیچے آتے ہیں اور ان میں سے کوئی بھی حقیقی رنگ میں مسلمان نہیں کیونکہ قرآن کے اصولی تعلیم کے مطابق جو شخص بھی کسی اہم اور اصولی مذہبی صداقت کا منکر ہو وہ خدا کی نظر میں مسلمان نہیں سمجھا جاتا مگر اس میں شبہ نہیں کہ ان مختلف اقوام کا کفر الگ الگ رنگ اور الگ الگ درجہ رکھتا ہے اور ان سب کو ایک درجہ اور ایک لیول پر سمجھنا کسی طرح درست نہیں ۔ اسی لئے جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے غیر احمدی منکروں کو کافر قرار دیا ہے ۔ وہاں کفر کی اقسام کو تسلیم کرتے ہوئے اپنے کُفر کو آنحضرت ﷺ کے کفر سے علیحدہ اور ممتاز بھی رکھا ہے ۔ بہر حال ہمارے نزدیک کفر کے مختلف درجے ہیں اور کفر دو کفر کے اصول کے ماتحت غیر احمدی مسلمان ہمارے قریب تر ہیں اور یہ ایک ایسی بدیہی صداقت ہے جسے کسی صورت میں رد نہیں کیا جا سکتا۔

علاوہ ازیں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ اسلام کی دو تعریفیں ہیں۔ ایک تو عرفی اور ظاہری تعریف اور دوسری حقیقی اور اصلی تعریف ۔ عُرفی اور ظاہری تعریف تو یہ ہے کہ ایک شخص ظاہری طور پر آنحضرتؤ کی رسالت اور قرآنی شریعت کا قائل ہو اور ان پر ایمان لانے کا دعویٰ رکھتا ہو اور حقیقی اور اصلی تعریف یہ ہے کہ اسلام کے متعلق اس کا دعویٰ محض ایک زبانی دعویٰ نہ ہو بلکہ وہ اسلام کی حقیقت پر قائم ہو اور اس کی سب صداقتوں پر ایمان لاتا ہو ۔ اسلام کی اس دوہری تعریف کے ما تحت ہم جہاں غیر احمدیوں کو عُرفی اور رسمی لحاظ سے مسلمان کہتے ہیں وہاں حقیقت اور اصلیت کے لحاظ سے ہم ان کے اسلام کے منکر بھی ہیں ۔ اسی امتیاز کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ الہامی شعر اشارہ کرتا ہے کہ :۔

چُودَور ِ خسروی آغاز کر دند

مسلماں را مسلماں باز کر دند

(ترجمہ :۔ جب مسیح السلطان کا دور شروع کیا گیا تو مسلمانوں کو جو صرف رسمی مسلمان تھے نئے سرے سے مسلمان بنانے لگے ۔ )

(حقیقۃ الوحی ۔روحانی خزائن جلد22صفحہ 110)

(تذکرہ صفحہ 514-562طبع2004)

اسی لطیف الہامی شعر میں جہاں ایک طرف عرف اور نام کے لحاظ سے غیر احمدیوں کومسلمان کہہ کر پکارا گیا ہے وہاں حقیقت کے لحاظ سے ان کے اسلام کا انکار بھی کیا گیا ہے اور یہ وہ لطیف نکتہ ہے جس میں مسئلہ کفر و اسلام کی ساری بحث کا نچوڑ آجا تا ہے ۔

یہ سوال کہ کیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے منکروں کو واقعی کافر قرار دیا ہے چند حوالوں سے بالکل واضح ہو جاتا ہے ۔ مثلاً حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:۔

(الف): “اللہ تعالیٰ اب ان لوگوں کو مسلمان نہیں جانتا ۔ جب تک وہ غلط عقائد کو چھوڑ کر راہ راست پر نہ آجائیں اور اس مطلب کے واسطے خدا تعالیٰ نے مجھےمامور کیا ہے ۔ ”

(احمدی اور غیر احمدی میں کیا فرق ہے ؟۔روحانی خزائن جلد20صفحہ 492)

(ب): “خدا تعالیٰ نے مجھ پر ظاہر کیا ہے کہ ہر ایک شخص جس کو میری دعوت پہونچی ہے اور اس نے مجھے قبول نہیں کیا وہ مسلما ن نہیں ہے ۔”

(حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد 22صفحہ 167)

(ج): “کفر دو قسم پر ہے ۔

(اول) ایک یہ کفر کہ ایک شخص اسلام سے ہی انکار کرتا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا کا رسول نہیں مانتا۔ (دوم) دوسرے یہ کفر کہ مثلاً وہ مسیح موعود کو نہیں مانتا اور اس کو باوجود اتمام حجت کے جھوٹا جانتا ہے جس کے ماننے اور سچا جاننے کے بارے میں خدا اور رسول نے تاکید کی ہے اور پہلے نبیوں کی کتابوں میں بھی تاکید پائی جاتی ہے۔ پس اس لئے کہ وہ خدا اور رسول کے فرمان کا منکر ہی کافر ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اس میں شک نہیں کہ جس پر خدا تعالیٰ کے نزدیک اول قسم کفر یا دوسری قسم کفر کی نسبت اتمام حجت ہو چکا ہے وہ قیامت کے دن مواخذہ کے لائق ہوگا اور جس پر خدا کے نزدیک اتمام حجت نہیں ہوا اور وہ مکذّب اور منکر ہے تو گو شریعت نے (جس کی بنا ظاہرپر ہے) اُس کا نام بھی کافر ہی رکھا ہے اور ہم بھی اُس کو باتباع شریعت کافر کے نام سے ہی پکارتے ہیں مگر پھربھی وہ خدا کے نزدیک بموجب آیت لَا یُکَلِّفُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَا (البقرۃ:287) قابل مواخذہ نہیں ہوگا۔”

(حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جل 22صفحہ 185تا186)

ان حوالہ جات سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا عقیدہ قطعی طور پر واضح ہو جاتا ہے اور کسی شک و شبہ کی گنجائش باقی نہیں رہتی اور ظاہر ہے کہ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا عقیدہ ہے وہی جماعت کا عقید ہ ہے جس میں کسی احمدی کہلانے والے کو انکار کی مجال نہیں۔ خلاصہ کلام یہ کہ مسئلہ کفر و اسلام کے متعلق ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ چونکہ غیر احمدیوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا انکار کیا ہے جو خدا کے ایک بر گزیدہ مرسل و مامور تھے ۔ اور جن کے ماننے کے لئے خدا اور اس کے رسول نے سخت تاکید فرمائی ہے اور اسے اس زمانہ کے لئے مدارِ نجات ٹھہرایا ہے ۔ اس لئے آپ کا منکر اسلامی اصطلاح کی رُو سے کافر ہے اور حقیقت کے لحاظ سے اسے کسی صورت میں بھی مسلمان نہیں سمجھا جا سکتا مگر باوجود اس کے غیر احمدیوں کا یہ کفر اس رنگ اور اس درجہ کا کفر نہیں جو ہندوؤں اور عیسائیوں وغیرہ میں پایا جاتا ہے بلکہ غیر احمدی مسلمان باوجود اس کفر کے ہمارے بہت قریب ہیں اور انہیں یہ حق حاصل ہے کہ اسلام کی ظاہری اور عرفی تعریف کے لحاظ سے مسلمان کہلائیں مگر حقیقت کے لحاظ سے و ہ یقینا ً مسلمان نہیں۔

اگر اس جگہ یہ سوال پیدا ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتاب تریاق القلوب میں لکھا ہے کہ اپنے منکروں کو کافر قرار دینا صرف ان نبیوں کا حق ہوتا ہے جو خدا کی طرف سے نئی شریعت لاتے ہیں اور غیر تشریعی نبیوں کا انکار کفر نہیں ہوتا ۔(تریاق القلوب۔ روحانی خزائن جلد 15صفحہ 432حاشیہ ۔ناقل)اور چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام مسلمہ طور پر غیر تشریعی نبی تھے اس لئے آپ کا منکر کافر نہیں ہو سکتا تو اس کا جواب یہ ہے کہ بیشک حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایسا لکھا ہے اور ہمارے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ہر ارشاد اور ہر فیصلہ ہر حال میں واجب القبول ہے مگر ہمارا فرض ہے کہ ہم آپ کی تحریرات کے ایسے معنی نہ کریں جو دوسری نصوص اور محکم تحریرات کے خلاف ہوں۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جملہ تحریرات پر یکجائی نظر ڈالنے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ تریاق القلوب والے حوالہ کا یہ منشاء نہیں کہ غیر تشریعی نبی کا انکار کسی صورت میں بھی موجب کفر نہیں ہوتا بلکہ اس سے مراد صرف یہ ہے کہ جہاں ایک تشریعی نبی کا انکار براہ راست کفر ہوتا ہے ۔ وہاں ایک غیر تشریعی نبی کا انکار براہ راست کفر نہیں ہوتا بلکہ اس کے نبی متبوع کے واسطے سے کفر قرار پاتا ہے ۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے منکروں کو کافر قرار دیتے ہوئے یہی دلیل دی ہے کہ چونکہ میرے انکار سے آنحضرت ﷺ کا انکار لازم آتا ہے اس لئے میرا منکر خدا کی نظر میں مسلمان نہیں ۔ گویا صرف واسطہ کا فرق ہے ورنہ نتیجہ دونوں صورتوں میں ایک ہی ہے ۔ علاوہ ازیں اگر یہ قرار دیا جائے کہ ایک غیر تشریعی نبی کا انکار کسی صورت میں بھی کفر نہیں ہوتا تو پھر نعوذباللہ قرآن کریم کی وہ محکم آیتیں باطل چلی جاتی ہیں جن میں ہر رسول اور ہر نبی کے انکار کو کفر قرار دیا گیا ہے اور اس جہت سے تشریعی اور غیر تشریعی نبیوں میں کوئی تمیز ملحوظ نہیں رکھی گئی ۔

(المؤمنون :45)

خلاصہ یہ کہ ہم تریاق القلوب والے حوالے کو مانتے ہیں مگر ہمارے نزدیک اس کے یہ معنی ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا انکار براہ راست کفر نہیں بلکہ اس وجہ سے کفر ہے کہ آپ آنحضرت ﷺ کے بروز اور تابع نبی ہیں اور آپ کے انکار سے آنحضرت ﷺ کا انکار لازم آتا ہے ، جن کے دین کی تجدید اور جن کے مشن کی تکمیل کے لئے آپ مبعوث کئے گئے ۔

اس مضمون کو ختم کرنے سے قبل یہ ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ مسئلہ کفر و اسلام ان مسائل میں سے نہیں ہے جن کے متعلق عام حالات میں بحث کی کوئی حقیقی ضرورت پیش آتی ہو۔ ہمارے سامنے اصل بحث یہ نہیں ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے منکر کافر ہیں یا مسلمان بلکہ اصل بحث یہ ہے اور اسی پر ہمیں اپنے سب مخالفوں کو مجبور کر کے لانے چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعاویٰ بر حق ہیں اور آپ پر ایمان لانا ضروری ہے ۔ جس کے بغیر نجات نہیں ہو سکتی ۔ اگر ہم اس صداقت کو لوگوں کے دلوں میں قائم کر دیں تو باقی سب باتیں خود بخود صاف ہو جاتی ہیں مگر مشکل یہ ہے کہ ہمارے غیر مبایع مہربان ہمیں خود مجبور کر کے اس مسئلہ کی طرف لاتے ہیں جس سے ان کی غرض احقاق حق نہیں ہوتی بلکہ دوسروں کا اشتعال دلانا اصل مقصد ہوتا ہے اور پھر ہمیں مجبور ہو کر ایک تلخ صداقت کا اظہار کرنا پڑتا ہے ورنہ حقیقۃ ً یہ مسئلہ ایسا نہیں ہے کہ جس کے متعلق عام حالات میں بحث وغیرہ کی ضرورت پیش آئے اور جہاں تک میں نے غور کیا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بھی یہی طریق تھا کہ آپ اس بحث میں عام طور پر از خود قدم نہیں رکھتے تھے بلکہ صرف دوسروں کی طرف سے سوال ہونے پر اظہار رائے فرماتے تھے اور یہی مسلک ہمارا ہونا چاہئے ۔”

(مطبوعہ الفضل 28مئی 1940۔ بحوالہ مضامین بشیر جلد اول صفحہ 380تا384)

یہ بھی ملاحظہ فرمائیں

حضرت بانیٔ جماعت احمدیہ کاعشق رسول ﷺ – آپؑ کی تحریرات اور آپؑ کے واقعات کی روشنی میں

ذیل میں حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ علیہ السلام کی تحریرات سے کچھ اقتباس پیش ہیں ۔یہ تحریرات ا…