اعتراض: مرزا صاحب کی پیشگوئی کہ “ہم مکہ میں مریں گے یا مدینہ میں“ پوری نہ ہوئی

اعتراض کیا جاتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پیشگوئی فرمائی تھی کہ “ہم مکہ میں مریں گے یا مدینہ میں “۔ جبکہ آپکی وفات لاہور میں ہوئی۔

حضرت مسیح موعودؑ کی اس الہام”ہم مکہ میں مریں گے یا مدینہ میں “کی بیان فرمودہ تشریح

سب سے پہلی یہ بات سمجھنی چاہیے کہ یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک الہام ہے ۔پس اس کے ظاہری معنے لینا درست نہیں ۔  چنانچہ ذیل میں مکمل حوالہ پیش ہے جس میں آپؑ نے اسکی تشریح بھی فرما دی ہے  :۔

“14جنوری1906:۔

(1)کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ۔(2)سَلَامٌ قَوْلًا مِّنْ رَّبٍّ رَّحِیْمٍ۔(3)ہم مکہ میں مریں گے یا مدینہ میں ۔

ترجمہ ۔ خدا نے ابتداء سے مقدر کر چھوڑا ہے کہ وہ اور اس کے رسول غالب رہیں گے۔(2)خدائے رحیم کہتا ہے کہ سلامتی ہے ۔ یعنی خائب و خاسر کی طرح تیری موت نہیں ہے ۔

اور یہ کلمہ کہ ہم مکہ میں مریں گے یا مدینہ میں ، اس کے یہ معنی ہیں کہ قبل از موت مکی فتح نصیب ہو گی ۔ جیسا کہ وہاں دشمنوں کو قہر کے ساتھ مغلوب کیا گیا تھا اسی طرح یہاں بھی دشمن قہری نشانوں سے مغلوب کئے جائیں گے۔ دوسرے یہ معنے ہیں کہ قبل از موت مدنی فتح نصیب ہو گی ۔ خود بخود لوگوں کے دل ہماری طرف مائل ہو جائیں گے۔ فقرہ کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ مکہ کی طرف اشارہ کرتا ہے اورفقرہ سَلَامٌ قَوْلًا مِّنْ رَّبٍّ رَّحِیْمٍ مدینہ کی طرف۔  “

( تذکرہ ۔ ص503)

کسی الہام کی تشریح میں ملہم کی اپنی تشریح کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ پس صاحب الہام یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیان فرمودہ تشریح ہی صحیح ہے ۔ اور اسے الہام سے ہٹا کر قول قرار دینا یا ظاہری پیشگوئی قرار دینا خیانت اور ظلم ہے ۔

یہ بھی ملاحظہ فرمائیں

پیشگوئیوں کے اصول

پیشگوئیاں دراصل دو قسم کی ہوتی ہیں ۔بعض وعدہ پر مشتمل ہوتی ہیں اور بعض وعید یعنی کسی عذاب …