چوہدری ظفراللہ خان صاحب اور جنازہ قائد اعظم

اعتراض اٹھایا جاتا ہے کہ چوہدری ظفراللہ خان صاحب سابق وزیر خارجہ پاکستان نے قائد اعظم کی نماز جنازہ میں شرکت نہیں کی۔

حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کا جواب

ہم قارئین کو حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کا جواب سناتے ہیں:

”میں اصل نماز جنازہ میں شریک نہیں ہوا ۔ لیکن میں جنازے کے جلوس کے ساتھ تھا۔ یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ نماز جنازہ مرحوم مولانا شبیر احمد عثمانی نے پڑھائی تھی۔ جن کے خیال کے مطابق میں کافر اور مرتد تھا اور مجھے سزائے موت دے دینی چاہئے تھی۔“

(روزنامہ ملت 21جنوری 1954ء صفحہ5 کالم4)

قائد اعظم کی نماز جنازہ پڑھانے والے مولانا شبیر احمد عثمانی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور جماعت احمدیہ کے بارہ میں درج ذیل فتویٰ دیا تھا:

”مرزا غلام احمد قادیانی … مرتد اور زندیق ہے اور جو جماعت … ان کو صادق سمجھتی رہے اور اس کی حمایت میں لڑتی رہے وہ بھی یقیناً مرتد اور زندیق ہے خواہ قادیان میں سکونت رکھتی ہو یا لاہور میں جبتک وہ ان تصریحات کے غلط اور باطل ہونے کا اعلان نہ کرے گی خدا کے عذاب سے خلاصی پانے کی اس کے لئے کوئی سبیل نہیں۔ “

(الشھاب از مولانا شبیر احمد عثمانی ۔ ادبی کتب خانہ ملتان ۔ صفحہ18-19)

جواب از حضرت مرزا طاہر احمد صاحب خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ

 جماعت احمدیہ کے چوتھے خلیفہ حضرت مرزا طاہر احمد صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ اس اعتراض کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں :۔

ترجمہ از انگریزی :۔”یہ بالکل غلط ہے ۔یہ ایک ایسا معاملہ ہے جوغیر ضروری طور پر ابھارا جاتا ہے ۔جبکہ اس واقعہ  کا اس سے دور کا بھی تعلق نہیں جو حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کے  دل میں قائد اعظم سے محبت  تھی یا اس رویے سے جو حضرت چوہدری  صاحب کا قائد اعظم کے احسانوں کے بارہ میں تھا۔

دراصل قائد اعظم نے حضرت چوہدر ی صاحب کو مسلم لیگ میں اس لئے شامل کیا تھا کہ چوہدری صاحب اپنے آپ کو مسلمان کہتے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ وہی قائد اعظم تھے کہ جن کے متعلق ملاؤں نے فتویٰ دیا تھا کہ یہ صحیح مسلمان نہیں ہیں۔بعض نے تو انہیں “کافر اعظم “تک کہہ دیا تھا۔اور ان میں سے ایک اب پاکستان کا صدر ہے ۔ تارڈ صاحب (محمد رفیق تارڈ)جوبہت فخر سے اپنے آپ کو  سید عطاء اللہ شاہ بخاری کا شاگرد کہتے ہیں۔جبکہ عطاء اللہ شاہ بخاری نے اس بات سے اتفاق کیا تھا کہ قائد اعظم کافر اعظم ہیں۔ اعتراض کرنے والے انکو تو کچھ نہیں کہتے۔ ایسا کہنے والا پاکستان کا صدر تک بن سکتا ہے۔پس یہ عجیب نفرت ہے احمدیوں سے ۔ کہ ظفر اللہ خان جن کے قائد اعظم سے بہت اچھے مراسم تھے، اگر وہ انکی نمازِ جنازہ نہیں پڑھتے اس لئے کہ وہ اصول پسند تھے۔ اور وہ سمجھتے تھے کہ مسلم لیگ کا ممبر ہونا الگ بات ہے۔ انہیں مسلم لیگ کا وفادار ہونا چاہیے ۔ لیکن ایک دوسرے کی نماز جنازہ پڑھناایک بالکل اور بات ہے۔نماز جنازہ ایک مذہبی حکم ہے ۔اور اس حکم کے بارہ میں ہمارے پاس ثبوت موجود ہیں کہ ایک فرقہ کے لوگوں نے دوسرے فرقہ کے لوگوں کے پیچھے نماز جنازہ پڑھنا حرام قرار دیا ہے۔یہ وہ بات ہے جس پر یہ لوگ یقین رکھتے ہیں پھر بھی یہ اعتراض کرتے ہیں۔انکے پاس کوئی دلیل نہیں ۔

اگر چوہدری صاحب نے نماز جنازہ نہیں پڑھی تو وہ 3 باتوں میں سے ایک کی وجہ سے نہ پڑھی ہو گی۔

1۔        پہلی بات تو یہ تھی کہ قائد اعظم کی نماز جنازہ کی امامت ایک ملا کر رہا تھا جنہوں  نے چوہدری ظفر اللہ خان کو کافر قرار دیا ہوا تھا۔جو یہ یقین رکھتا تھا کہ چوہدری صاحب مسلمان نہیں ہیں۔چوہدری صاحب ایک ایسے شخص کے پیچھے نماز کیسے ادا کر سکتے تھے جس نے انہیں دائرہ اسلام سے خارج قرار دے دیا تھا۔یہ ایک وجہ تھی ۔

2۔        دوسری وجہ یہ تھی کہ قائد اعظم کا مذہبی عقیدہ انکا ذاتی معاملہ تھا۔انکے فرقے کے لوگوں کا انکا جنازہ ادا کرنا کافی تھا   ۔اور دوسرے لوگ نماز جنازہ کے علاوہ بھی انکے لئے دعا کر سکتے ہیں۔

3۔        تیسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ چوہدری صاحب نے اس وجہ سے بھی پڑھنے سے اجتناب کیا کہ دوسرے مسلمان چوہدری صاحب کے قائد اعظم کا جنازہ پڑھنے پر اعتراض کریں گے۔ کیونکہ یہی انکا وطیرہ ہے ۔اگر احمدی کسی غیر احمدی کا جنازہ پڑھنا چاہیں تو ملا اسکی سخت مخالفت کرتے ہیں۔اسکی مثال جہانگیر وٹو کی وفات کے وقت ملتی ہے۔جب احمدی انکا جنازہ پڑھنے وہاں گئے ، اور اس بات کی وصیت خود انہوں نے کی تھی کہ احمدی میرا جنازہ پڑھیں، تو وہاں  جن لوگوں نے بھی اس بات کی اجازت دی تو ملاؤں نے ان سب کی سخت مخالفت کی اور اعتراضات اٹھائے۔

پس امن عامہ کو قائم رکھنے کی خاطر ، ظفر اللہ خان صاحب کے لئے یہ سب سے موزوں تھا کہ وہ الگ سے کھڑے رہتے۔پس اس بات سے جماعت احمدیہ کے خلاف کچھ بھی ثابت نہیں ہوتا۔”

(لقاء مع العرب۔ 11فروری1998)

نماز جنازہ فرض کفایہ ہے

نماز جنازہ فرض کفایہ

یہ بات جاننا ضروری ہے کہ نماز جنازہ فرض کفایہ ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ کسی کی وفات پر تمام مسلمان اس کی نماز جنازہ ادا کریں اور نہ ہی ایسا ممکن ہے۔ پس اس امر کو کسی کے مسلمان ہونے یا نہ ہونے کا معیار ہرگز نہیں بنایا جاسکتا۔

اہل سنت اور اہل تشیع نے قائد اعظم کی نماز جنازہ الگ الگ اداکی

یہ بات بھی دیکھنی چاہیے کہ   پہلے توقائد اعظم کی نماز جنازہ شیعہ مسلک پرادا کی گئی۔ بعد ازاں عوام کے لیے مولانا شبیر احمد عثمانی نے نماز جنازہ پڑھائی۔چنانچہ خالد احمد صاحب نے Was Jinnah a Shia or a Sunni کے عنوان سے لکھا:

”سید انیس الحسن شیعہ عالم تھے۔ انہوں نے حلفی بیان دیا کہ مس جناح کے کہنے پر انہوں نے قائد اعظم کو غسل دیا تھا۔ اور گورنر جنرل ہاؤس کے ایک کمرے میں ان کی نماز جنازہ بھی شیعہ دستورالعمل کے مطابق ادا کی جاچکی تھی۔ اس میں شیعہ عالم شریک تھے۔ جیسے یوسف ہارون، ہاشم رضا اور آفتاب حاتم علوی حاضر تھے۔جبکہ لیاقت علی خان بطور سنی کمرے سے باہر کھڑے رہے۔ جب شیعہ رسومات ختم ہوئیں تب جنازہ حکومت کے حوالے کیا گیا۔ تب متنازعہ شخصیت مولوی شبیر احمد عثمانی جو دیوبندی فرقے کو چھوڑ چکے تھے اپنے فرقے کے خیالات کے برعکس جناح کی جدوجہد پاکستان کے حامی تھے۔ انہوں نے دوبارہ نماز جنازہ پڑھائی۔ یاد رہے شبیر احمد عثمانی شیعوں کو مرتد اور واجب القتل قرار دے چکے تھے۔ یہ دوسری نماز جنازہ سنی طریق سے پڑھائی گئی۔

(24-30 DECEMBER 2010 FRIDAY TIMES )

(ترجمہ: بحوالہ ہفت روزہ لاہور 12 تا18 فروری 2011ء ۔ جلد نمبر 60 شمارہ نمبر 7 صفحہ 5-4)

پس اہل تشیع نے اہل سنت کو کافر سمجھتے ہوئے ان کی اقتداء میں نماز جنازہ اد انہ کی اور اہل سنت نے بھی اسی وجہ سے ایسا کیا۔ پس یا تو یہ دونوں گروہ بھی کافر اور ملت اسلامیہ سے خارج قرار دئیے جائیں اور یا احمدیوں کے اس طرز عمل کو ان کی تکفیر کی بنیاد نہ بنایا جائے۔

حضرت چوہدری صاحب کی طرف منسوب بیان کی حقیقت

حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحب کی طرف جھوٹ اور دھوکہ دہی کی راہ سے یہ بیان منسوب کیا جاتا ہے کہ جب آپ سے پوچھا گیا کہ آپ نے قائد اعظم کا جنازہ کیوں نہیں پڑھا تو آپ  نے یہ جواب دیا:

”یا تو آپ مجھے کافر حکومت کا مسلمان وزیر سمجھ لیں یا مسلمان حکومت کا کافر نوکر۔(زمیندار لاہور 8فروری 1950)“

(قادیانی فتنہ اور ملت اسلامیہ کا موٴقف صفحہ50)

اس کے بارہ میں صرف تحقیقاتی عدالت میں حضرت چوہدری صاحب کا اپنا دیا ہوا جواب ہی کافی ہے۔ آپ نے تحقیقاتی عدالت کے اس سوال کے جواب میں کہ بیان کیا گیا ہے کہ جیکب آباد کے ایک مسجد کے خطیب مولوی محمد اسحاق سے اگست 1949ء میں ایک گفتگو کے دوران آپ(حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب) نے اس رائے کا اظہار کیا تھا کہ انہیں ایک کافر حکومت کا مسلمان ملازم یا ایک مسلمان حکومت کا ایک کافر ملازم سمجھا جا سکتا ہے۔ عدالت نے دریافت کیا کہ یہ بیان کیادرست ہے ؟ توحضرت چوہدری صاحب نے فرمایا کہ:

مجھے اس پر بہت زیادہ شک ہے۔“

(روزنامہ ملت لاہور 21 جنوری 1954ء صفحہ5)

پس ایک غیر ضروری بات کو مخالفین احمدیت کی طرف سے اہمیت دینا انکی اپنی سنجید گی پر بھی سوال کھڑا کرتا ہے۔

یہ بھی ملاحظہ فرمائیں

جماعت احمدیہ پر لگائے جانے والے تحریف قرآن کے الزام پر ایک طائرانہ نظر

پاکستان میں جماعت احمدیہ کے خلاف فتنہ انگیزی کو ہوا دینے کے لیے کئی طرح کے اعتراضات کو بنی…