امکان نبوّت از روئے احادیث

صحیح مسلم کی حدیث میں آنے والے مسیح کو چار دفعہ نبی اللہ کہا گیا :۔

رسول اللہ  ﷺ نے امت محمدیہ کے مسیح موعود کو چار دفعہ تکرار کے ساتھ نبی اللہ  قرار دیا ہے اور اس پر وحی نازل ہونے کا بھی ذکر فرمایا ہے ۔

رسول کریم  ﷺ اس حدیث میں فرماتے ہیں:۔

ویحصر نبی اللہ عیسیٰ واصحابہٗ۔۔۔۔۔فیرغب نبی اللہ عیسیٰ واصحابہٗ ۔۔۔۔۔ثم یھبط نبی اللہ عیسیٰ واصحابہٗ ۔۔۔۔۔فیرغب نبی اللہ عیسیٰ واصحابہٗ الی اللہ                                               (صحیح مسلم کتاب الفتن باب ذکر الدجال )

یعنی جب مسیح موعود یاجوج ماجوج کے زور کے زمانہ میں آئے گا تو مسیح نبی اللہ اور اس کے صحابی دشمن کے نرغہ میں محصور ہو جائیں گے ۔۔۔۔تو پھر مسیح نبی اللہ اور اس کے صحابہ خدا کے حضور رجوع کریں گے۔۔۔۔پھر مسیح نبی اللہ اور اس کے صحابی ایک خاص جگہ اتریں گے ۔۔۔۔ پھر مسیح نبی اللہ اور اس کے صحابی خدا تعالیٰ کے حضور تضرع کے ساتھ رجوع کریں گے۔

ہمارا سوال ہے کہ جب اس حدیث میں چار دفعہ تکرار سے رسول اللہ  ﷺ نے مسیح موعود کو نبی ا للہ قرار دیا ہے تو کسی  کیا حق ہے کہ وہ یہ خیال پیش کریں کہ مسیح موعود نبی کی حیثیت میں نہیں آئے گا ؟

پھر اسی حدیث میں لکھا ہے:۔

اذ اوحی اللہ الیٰ عیسیٰ انی قد اخرجت عباداً لّی لایدان لاحدٍ بقتالھم ۔

کہ خدا تعالیٰ عیسیٰ موعود کو وحی کرے گا کہ میں نے کچھ بندے (یعنی یاجوج ماجوج) نکالے ہیں جن سے کسی کو لڑنے کی طاقت نہیں۔

گویا آنے والے کو اللہ تعالیٰ وحی کرے گا ۔

لیس بینی و بینہ نبی:

متعدد احادیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے امت میں نبی کی آمد کا ذکر فرمایا ہے اور آنے والے موعود مسیح اور مہدی کو نبی قرار دیا ہے۔ اور فرمایا کہ میرے اور اس کے درمیان کوئی نبی نہیں ۔  جیسا کہ درج ذیل حدیث میں  فرمایا:

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” لَيْسَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ نَبِيٌّ – يَعْنِي عِيسَى – وَإِنَّهُ نَازِلٌ، فَإِذَا رَأَيْتُمُوهُ فَاعْرِفُوهُ۔

ترجمہ :۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا : میرے اور عیسیٰ علیہ السلام کے درمیان کوئی نبی نہیں ہے ۔ اور وہ ضرور نازل ہوں گے ۔ پس جب تم انہیں دیکھو تو پہچان لینا ۔

(سنن ابو داؤد کتاب الملاحم ، باب خروج الدجال )

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ: «أَلَا» إِنَّ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ لَيْسَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ نَبِيُّ، أَلَا انہ خَلِيفَتِي فِي أُمَّتِي مِنْ بَعْدِي

(المعجم الصغیر للطبرانی جزء ۱۔ صفحہ۲۵۷۔ بیروت لبنان)

’’سن لو ! میرے اور عیسی بن مریم  کے درمیان کوئی نبی نہیں ۔اور سن لو کہ وہ میرے بعد میری امت میں میرا خلیفہ ہے‘‘

لوعاش لکان صدیقا نبیا:

آیت خاتم النبیین   ۵ھ؁ میں نازل ہوئی   ۹ھ؁ میں آنحضرت  ﷺ کے صاحبزادے ابراہیم پیدا ہوئے اور پھر فوت بھی ہو گئے ۔ حدیث میں آتا ہے کہ :۔

عن ابن عباسٍ قال لما مات ابراہیم ابن رسول اللہ ﷺ صلیّٰ رسول اللہ صَلی اللہ علیہ وسلم وقال ان لہٗ مرضعاً فی الجنۃ ولو عاش لکان صدیقاً نبیاً

(ابن ماجہ کتاب الجنائز باب ما جاء فی الصلوٰۃ علی ابن رسول اللہ  ﷺ وذکر وفاتہ)

حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ جب ابراہیم فرزند رسول وفات پا گیا تو آنحضرت  ﷺ نے اس کی نماز جنازہ پڑھی اور فرمایا کہ جنت میں اس کے لئے ایک دودھ پلانے والی ہے اور فرمایا کہ اگر وہ زندہ رہتا تو ضرور صدیق نبی ہوتا ‘‘

یہ فقرہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت فرمایا جبکہ اس سے پانچ سال پہلے آیت  خاتم النبیّین نازل ہو چکی تھی اس فقرہ سے ظاہر ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک آیتِ  خاتم النبیّین صاحبزادہ ابراہیم کے بالفعل نبی بننے میں روک نہ تھی۔ بلکہ صاحبزادہ موصوف کی وفات ان کے بالفعل نبی بننے میں روک ہوئی۔ اگر آیت خاتم النبیّین اُن کے نبی بننے میں روک ہوتی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس فقرہ کی بجائے یہ فرماتے :      لَوْعَاشَ اِبْرَاھِیْمُ لَمَا کَانَ نَبِیًّا لِاَنِّیْ خَاتَمُ النَّبِیّیْنَ۔

یعنی اگر ابراہیم زندہ بھی ہوتا تو بھی نبی نہ ہوتا کیونکہ میں خاتم النبیین ہوں۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فقرہ  لَوْعَاشَ لَکَانَ صِدِّیْقًا نَبِیًّا۔ ظاہر کرتا ہے کہ آیت خاتم النبیین ان کے نبی بننے میں روک نہ تھی۔ دیکھئے اگر بالفرض یونیورسٹی ایم۔ اے کا امتحان بند کردے اور ایک شخص کا لائق لڑکا بی ۔اے تک پہنچ جائے اور وفات پا جائے تو اس وقت اس کا باپ یہ نہیں کہہ سکتا کہ اگر میرا بیٹا زندہ رہتا تو وہ ایم۔اے ہوتا۔ کیونکہ اس صورت میں یہ فقرہ جھوٹ بن جاتا کیونکہ اگر وہ زندہ بھی رہتا تو ایم ۔ اے نہ ہوسکتا۔ پس مخبرِ صادق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فقرہ بھی اسی وجہ سے صحیح قرار پاتا ہے کہ خاتم النبیین کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک نبی کا آنا ممکن تھا اور آیت خاتم النبیین آپ کے ماتحت نبی کے آ نے میں روک نہ تھی۔

حدیث کی صحت و قوت

بعض لوگوں نے اِس حدیث کو ضعیف قرار دے کر ردّ کرنے کی کوشش کی ہے۔ اور بعض نے اس کے یہ معنی لے کر کہ گویا صاحبزادہ ابراہیم اسی لئے فوت ہو گئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا تھا۔ ان معنی میں اسے قبول کیا ہے۔ حضرت امام علی القاریؒ ان لوگوں کے خیالات کو ردّ کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:۔

لَوْعَاشَ وَصَارَ نَبِیًّا وَکَذَالَوْصَارَعُمَرُ نَبِیًّا لَکَانَا مِنْ اَتْبَاعِۃٖ عَلَیْہِ السَّلَامُ۔

ترجمہ :    اگر صاحبزادہ ابراہیم زندہ رہتے اور نبی ہو جاتے اور اسی طرح اگر حضرت عمرؓ نبی ہو جاتے تو وہ دونوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متبعین میں سے ہوتے۔

یہ لکھ کر آگے اس اعتراض کا جواب کہ کیا ان کا نبی ہو جانا خاتم النبیین کے خلاف نہ ہوتا یوں دیتے ہیں۔

فَـلَا یُنَا قِضُ قَوْلُہٗ تَعَالٰی خَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ اِذَاالْمَعْنٰی اَنَّہٗ لَا یَأتِیْ نَبِیٌّ بَعْدَہٗ یَنْسَخُ مِلَّتَہٗ وَلَمْ یَکُنْ مِّنْ اُمَّتِہٖ ۔

(موضوعات کبیر صفحہ 58 ،59 مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی)

ترجمہ:   صاحبزادہ ابراہیم کا نبی ہو جانا آیتِ خاتم النبیین کے خلاف اس لئے نہ ہوتا کیونکہ خاتم النبیین کے یہ معنی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی ایسا نبی نہیں آسکتا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کو منسوخ کرے اور آپ کی اُمت میں سے نہ ہو۔

(گویا امّتِ محمدیہ میں نبی ہونے میں آیت خاتم النبیین مانع نہیں ۔ دوسری اُمّتوں میں نبی ہونے میں مانع ہے یا شارع نبی کے آنے میں مانع ہے۔)

ضعفِ روایت کی تردید

ضعفِ روایت کی تردید میں لکھتے ہیں ۔

لَہٗ طُرُقٌ ثَـلَا ثَۃٌ یُقَوّٰی بَعْضُھَا بِبَعْضٍ۔

(موضوعات کبیر صفحہ 58مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی)

کہ یہ حدیث تین طریقوں سے مروی ہے جو آپس میں ایک دوسرے کو قوت دے رہے ہیں۔

نیز اُوپر کے معنی کو مدّنظر رکھتے ہوئے جن سے امکان نبوّت ثابت ہے ۔ تحریر فرماتے ہیں۔

یُقَوِّیْ حَدِیْثُ لَوْکَانَ مُوْسٰی عَلَیْہِ السَّلَام حَیًّا لَّمَا وَسِعَہٗ اِلَّا اتِّبَاعِیْ۔   (موضوعات کبیر صفحہ 59مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی )

یعنی ان معنی کو قوت وہ حدیث بھی دے رہی ہے جس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے اگر موسیٰ زندہ ہوتا تو اُسے میری پیروی کے بغیر چارہ نہ ہوتا۔

بعض نے راوی ابن ابی شیبہ کو ضعیف قرار دے کراس حدیث کو ردّ کرنے کی کوشش کی ، لیکن تہذیب التہذیب اور اکمال الاکمال میں اس راوی کے متعلق لکھا ہے:

قَالَ یَزِیْدُ ابْنُ ھَارُوْنَ مَاقَضٰی رَجُلٌ اَعْدَلَ فِی الْقَضَائِ مِنْہُ وَقَالَ ابْنُ عَدِیٍّ لَہٗ اَحَادِیْثٌ صَالِحَۃٌ وَھُوَ خَیْرٌ مِنْ اَبِیْ حَیَّۃَ۔

(تھذیب التھذیب جلد ۱ صفحہ35)

ترجمہ  : ’’ابن ہارون نے کہا ہے کہ راوی ابن ابی شیبہ ابراہیم بن عثمان عیسیٰ سے بڑھ کر کسی نے قضاء میں عدل نہیں کیا اور ابن عدی کہتے ہیں کہ اس کی احادیث اچھی ہیں اور وہ  ابی حیّہ سے بہتر راوی ہے۔

ابی حیّہ کے متعلق لکھا ہے:

’’وَثَقَہٗ دَارُ قُطْنِیْ وَقَالَ النَّسَائِیُّ ثقۃٌ۔‘‘                                                    (تھذیب التھذیب جلد 1 صفحہ13)

ترجمہ  :    دارقطنی نے ابی حیّہ کو ثقہ راوی قرار دیا ہے اور نسائی بھی اسے ثقہ کہتے ہیں۔

بیضاوی کے حاشیہ الشھاب علی البیضاوی  میں اس حدیث کے متعلق لکھا ہے:۔

اَمَّا صِحَّۃُ الْحَدِیْثِ فَـلَا شُبْھَۃَ فِیْھَا۔

ترجمہ:    لیکن اس حدیث کی صحت میں شبہ نہیں۔

نوویؒ نے اس حدیث کو باطل قرار دیا تھا لیکن علامّہ شوکانی نووی کے خیال کو یہ کہہ کر ردّ کرتے ہیں:

ھُوَ عَجِیْبٌ مِّنَ النَّوْوِیْ مَعَ وَ رُوْدِہٖ عَنْ ثَلَاثَۃٍ مِّنَ الصَّحَابَۃِ وَکَانَّہٗ لَمْ یَظْھَرْلَہٗ تَأْوِیْلُہٗ۔      (الفوائد المجموعہ صفحہ 141)

ترجمہ:  نووی کا اس حدیث کو باطل قرار دینا حیران کُن بات ہے باوجود یکہ یہ حدیث تین صحابہ سے وارد ہوئی ہے (گویا تین صحابہؓ کے طریق سے ثابت ہے) ایسا معلوم ہوتا ہے کہ نووی پر اس کی تاویل نہیں کھلی۔

 

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ  :۔

آنحضرت  ﷺ نے فرمایا :۔

ابو بکر ٍ افضل ھذہ الامۃ الا ان یکون نبیٌ

(کنوزالحقائق فی حدیث خیر الخلائق جلد اول ص۵ المکتبۃ السلامیہ سمندری لائل پور)

کہ حضرت ابوبکرؓ اس امت میں سب سے افضل ہیں سوائے اس کے کہ آئندہ کوئی نبی( امت میں) ہو جائے تو اس سے افضل نہیں ہوں گے ۔

ایک اور  حدیث میں وارد ہے :۔

اَبُوْبَکرٍ خَیْرُ النَّاسِ بَعْدِیْ اِلَّا اَنْ یَکُوْنَ نَبِیٌ

(کنز العمال جلد۱۱ حدیث نمبر۳۲۵۴۸۔مطبوعہ مکتبۃ التراث اسلامی حلب وطبرانی وابن عدی فی الکامل بحوالہ جامع الصغیر للسیوطی۔ صفحہ ۵)

کہ حضرت ابوبکر میرے بعد سب انسانوں سے بہتر ہیں بجز اس کے کہ آئندہ کوئی نبی ہو۔

ان دونوں حدیثوں میں آنحضرت  ﷺ نے الاان یکون نبیٌ کے الفاظ استعمال فرما کرنبی ہونے کا امکان قرار دیا ہے

اگر امکان نہ ہوتا تو استثناء کرنے کی کوئی ضرورت ہی نہ تھی۔

یہ بھی ملاحظہ فرمائیں

ختم نبوت کے بارہ میں احادیث نبویہ ﷺسے پیش کردہ غیراز جماعت کے دلائل اور ان کا رد

ختم نبوت کے بارہ میں احادیث نبویہ ﷺسے پیش کردہ غیراز جماعت کے دلائل اور ان کا رد لَا نَبِی…