خاتم النبیین کے معنی لغت اور زبان عرب کے محاورہ کی رو سے

امام راغب اصفہانی اپنی اعلیٰ ترین لغت قرآن” المفردات "میں لکھتے ہیں:۔

’’الختم والطبع یقال علیٰ وجھین :مصدر ختمت وطبعت ، وھو تاثیر الشیٔ کنقش الخاتم والطابع ، والثانی الاثر الحاصل من النقش ، ویتجوز بذلک تارۃفی الاستیثاق من الشیٔ والمنع منہ اعتباراً بما یحصل من المنع بالختم علی الکتب والابواب نحو ختم اللہ علی قلوبھم ،وختم علیٰ سمعہ وقلبہ ، وتارۃً فی تحصیل اثر عن شیٔ اعتباراً بالنقش الحاصل  وتارۃً یعتبرمنہ بلوغ الاٰخر، منہ قیل ختمت القراٰن ای انتھیت الیٰ اٰخرہ‘‘(زیر لفظ ختم)

ترجمہ:۔لفظ ختم اور طبع دو طرح استعمال ہوتا ہے (۱)خَتَمتُ اور طَبعت (فعل)کے مصدر کے طور پر۔یعنی کسی چیز کا اثر پیدا کرنا مثلاًمہر یا انگوٹھی کا نشان پیدا کرنا(۲)نقش کرنے سے حاصل ہو نے والا نشان بھی ختم کہلائے گا ۔دروازوں اور خطوط پر مہر لگا دینے سے روکنے کا جو مفہوم پیدا ہوتا ہے اس کا اعتبار کرتے ہوئے لفظ ختم کئی دفعہ کسی چیز کو مضبوط طور پر باندھنے اور روکنے کے لئے بھی بطورمجاز استعمال ہوتا ہے جیسے ختم اللہ علیٰ قلوبھم اور ختم علیٰ سمعہ وقلبہ میں ہوا ہے ۔ پھر حاصل شدہ نقش کے اعتبار سے لفظ ختم اثر پیدا کرنے کے مفہوم میں بھی استعمال کیا جا تا ہے اور کبھی اس لفظ سے آخر تک پہنچنے کا مفہوم بھی معتبر ہوتا ہے کہتے ہیں ختمت القراٰن جس کے معنے ہیں کہ میں اس کے آخر تک پہنچ گیا‘‘

اس حوالہ میں امام راغب نے لفظ ختم کو اثر پیدا کرنے اور پیدا شدہ اثر کے معنے میں اصل اور بالذات قرار دیا ہے اور بند کرنے، روکنے، آخر تک پہنچنے اور تحصیل اثر کے معنوں کو اعتباری اور قیاسی قرار دیا ہے ۔

پس مصدری یعنی لغوی معنی کے لحاظ سے خاتم الانبیاء حقیقی طور پر وہ شخص ہوگا جو اپنے کمالات نبوت میں موثر ہو یعنی اپنے ذریعہ نبوت کا اثر چھوڑے اور اس کے فیض سے لوگوں میں کمالات نبوت پیدا ہوں اور حسب ضرورت نبوت کا منصب بھی مل سکے۔اور چونکہ ایسا صاحب کمال اللہ تعالیٰ نے صرف ایک شخص یعنی آنحضرت ؐ  کو ہی قرار دیا ہے اس لئے لازمی طور پر خاتم الانبیاء کا افضل الانبیاء ہونا اور آخر الانبیاء بمعنی آخری شارع اور مستقل نبی ہونا ضروری ہے ۔ مطلق آخری نبی’’خاتم الانبیاء‘‘کے الفاظ کے صرف مجازی معنی تو ہو سکتے ہیں مگر حقیقی معنی نہیں ۔ اور اگر مجازی معنے لئے جائیں تو خاتم الانبیاء ان معنوں سے ذاتی طور پردوسروں سے کوئی فضیلت نہیں رکھے گا کیونکہ محض آخری ہونا بالذات کسی فضیلت کو نہیں چاہتا ۔

تفسیر بیضاوی کے حاشیہ پر ختم اللہ علی قلوبھم کی تفسیر میں یہ نوٹ دیا گیا ہے:۔

فالطلاق الختم علی البلوغ والاستیثاق  معنیٰ مجازی)حاشیہ تفسیر بیضاوی)

یعنی لفظ ختم کا آخری اور بندش کے معنوں میں استعمال مجازی معنیٰ ہیں۔

مجازی معنے تب مراد ہوتے ہیں جب حقیقی معنے محال ہوں۔

حضرت مولوی محمد قاسم صاحب نانوتوی بانی دارالعلوم دیو بند  فرماتے ہیں:۔

’’جیسے خاتم بفتح  تا کا اثر اور نقش مختوم علیہ میں ہوتا ہے ایسے ہی موصوف بالذات کا اثر موصوف بالعرض میں ہوتا ہے ۔حاصل مطلب آیت کریمہ اس صورت میں یہ ہوگا کہ ابوت معروفہ تو رسول اللہ  ﷺ کو کسی مرد کی نسبت حاصل نہیں پر ابوت معنوی امتیوں کی نسبت بھی حاصل ہے اور انبیاء کی نسبت بھی حاصل ہے ۔انبیاء کی نسبت تو فقط آیت خاتم النبیین شاہد ہے  کیونکہ اوصاف معروض اور موصوف بالعرض (یعنی دوسری نبوتیں اور دوسرے نبی) موصوف بالذات کی (آنحضرت ﷺ)فرع ہوتے ہیں اور موصوف بالذات اوصاف عرضیہ کی اصل ہوتا ہے اور وہ اس کی نسل اور امتیوں کی نسبت لفظ رسول اللہ میں غور کیجئے‘‘

(تحذیر الناس ص۱۰۔۱۱)

خاتم النبیین کے معنوں کا مفاد وہ یہ بتاتے ہیں :۔

’’اس صورت میں فقط انبیاء کے افراد خارجی( جو نبی آچکے) پر آپ کی فضیلت ثابت نہ ہو گی بلکہ افراد مقدرہ (جن کا آنا تجویز کیا جائے)پر بھی آپ کی فضیلت ثابت ہو جائے گی بلکہ اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی صلعم بھی کوئی نبی پیدا ہوتو پھر بھی خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہیں آئے گا‘‘                                                                                            (تحذیر الناس ص ۲۸)

 

محاورہ عرب میں استعمال

لغت سے مراد عربی زبان ہے جس میں مفردات اور مرکبات کا استعمال شامل ہے ۔قوامیس یا کتب لغت کا اصل کام مفرد الفاظ کے معنی بیان کرنا ہے ۔مرکب کے اصل معنے کی تعیین عربی زبان کے محاورات سے ہو اکرتی ہے ۔

لفظ خاتم النبیین مرکب اضافی ہے۔لفظ خاتم مضاف ہے اور النبیین مضاف الیہ ہے۔مرکب اضافی کے معنوں کی تعیین کے صحیح طریق کی وضاحت کے لئے ہم ایک مثال پیش کرتے ہیں ’’ابن السبیل‘‘ ایک مرکب اضافی ہے ۔ابن کے معنے بیٹے کے ہیں اور السبیل راستہ کو کہتے ہیں ۔ابن السبیل کا لفظی ترجمہ ’’راستے کا بیٹا‘‘ ہو گا ۔ مگر کیا مرکب اضافی ’ابن السبیل‘کے معنے اسی طرح بیان کئے جائیں گے یا ابن السبیل سے مراد مسافر لیا جائے گا ؟یہ مثال خاتم النبیین پر پوری طرح منطبق نہیں ہوتی۔کیونکہ خاتم النبیین میں مضاف الیہ صاحب کمال افراد کی جماعت ہے اور اس مرکب اضافی (خاتم النبیین) کاسرور کونین  ﷺ پر اطلاق بطور مدح ہے ۔مدح بھی وہ کہ جس سے بڑھ کرآپؐ کی مدح قرآن مجید میں اور کہیں بیان نہیں ہوئی۔

 

خاتم مرکب اضافی کی مثالیں

عربی زبان میں اور اس کے محاورات میں جب کبھی خاتم النبیین کے طریق پر کوئی مرکب اضافی کسی کی مدح میں استعمال ہوا ہے (جس استعمال کی عربی زبان میں بہت سی مثالیں موجود ہیں) تو ایسے مرکب اضافی کے معنے ہمیشہ اس جماعتِ مضاف الیہ کے اعلیٰ ،کامل اور انتہائی افضل فرد کے ہوتے ہیں اور وہ فرد اپنے کمال میں بے مثال اور عدیم النظیر ہوتا ہے۔ چنانچہ ایسے استعمالات کی مثالیں حسب ذیل ہیں:۔

۱۔ابو تمام شاعر کو خاتم الشعراء لکھا ہے۔(وفیات الاعیان جلدثانی)

۲۔ابو الطیب کو خاتم الشعراء کہا گیا ہے۔)مقدمہ شرح دیوان المتنبی از عبد الرحمٰن البرقوقی ص۱۳ مطبوعہ بیروت ۱۹۸۰ء(

۳۔ابوالعلاء المعری کو خاتم الشعراء قرار دیا گیا ہے (حوالہ مذکورہ حاشیہ صفحہ  ی)

۴۔شیخ علی حزین کو ہندوستان میں خاتم الشعراء سمجھتے ہیں۔(حیات سعدی از خواجہ الطاف حسین حالی ص۱۰۱ناشران شیخ جان محمد اللہ بخش تاجران کتب کشمیری بازار لاہور)

۵۔حبیب شیرازی کو ایران میں خاتم الشعراء سمجھا جاتا ہے۔)حیات سعدی ص۷۴حاشیہ از خواجہ الطاف حسین حالی۔ایضاً(

۶۔حضرت علی ؓ خاتم الاولیاء ہیں ۔)تفسیر صافی سورہ احزاب زیر آیت خاتم النبیین ص۴۳۴از انتشارات کتاب فروشے محمودی(

۷۔ امام شافعی خاتم الاولیاء تھے ۔(التحفۃ السنیہ ص۴۵)

۸۔شیخ ابن العربی خاتم الاولیاء تھے  ۔(سرورق فتوحات مکیہ)

۹۔کافور خاتم الکرام تھا ۔(شرح دیوان المتنبی ص ۳۰۴)

۱۰۔امام محمد عبدہ مصری خاتم الائمہ تھے۔(تفسیر الفاتحہ ص ۱۴۸)

۱۱۔السید احمد السنوسی خاتمۃ المجاہدین تھے )اخبار الجامعۃ الاسلامیہ فلسطین ۲۷محرم ۱۳۵۲؁ھ(

۱۲۔ احمد بن ادریس کو خاتمۃ العلماء المحققین کہا گیا ہے۔(العقد النفیس)

۱۳۔ ابو الفضل الالوسی کو خاتمۃ المحققین کہا گیا ہے۔)سرورق تفسیر روح المعانی طبع اولیٰ بالمکتبۃ الکبریٰ المیریۃببولاق مصر۱۳۰۱ھ(

۱۴۔شیخ الازہر سلیم البشری کو خاتم المحققین  قرار دیا گیا ہے(الحراب ص ۳۷۲)

۱۵۔امام سیوطی کو خاتمۃ المحققین لکھا گیا ہے (سرورق تفسیر اتقان)

۱۶۔حضرت شاہ ولی اللہ صاحب دہلوی کوخاتم المحدثین لکھا جاتا ہے۔)عجالہ نافعہ جلد اول(

۱۷۔الشیخ شمس الدین خاتمۃ الحفاظ تھے(التجریدالصریح مقدمہ ص۴)

۱۸۔سب سے بڑا ولی خاتم الاولیاء ہوتا ہے۔(تذکرۃ الاولیاء حالات حضرت محمد علی حکیم الترمذی باب ۵۸ مترجم مولوی  نذیر احمد سیماب قریشی ص۲۴۹مطبع علمی پرنٹنگ پریس لاہورص ۴۲۲)

۱۹۔ترقی کرتے کرتے ولی خاتم الاولیاء بن جاتا ہے ۔)فتوح الغیب از شیخ محی الدین عبد القادر ص ۲۳مطبع منشی نولکشور(

۲۰۔الشیخ نجیت کو خاتمۃ الفقھاء مانا جاتا ہے۔)اخبار الصراط المستقیم  یا فا ۲۷ رجب  ۱۳۵۴؁ ھ(

۲۱۔شیخ رشید رضا کو خاتمۃ المفسرین قرار دیا گیا ہے۔)الجامعۃ الاسلامیہ ۹جمادی الثانی ۱۳۵۴؁ ھ(

۲۲۔شیخ عبد الحق خاتمۃ الفقہاء تھے ۔                    (تفسیر الاکلیل سرورق)

۲۳۔الشیخ محمد نجیت خاتمۃ المحققین تھے ۔(الاسلام مصر ۔شعبان ۱۳۵۴؁ ھ)

۲۴۔افضل ترین ولی خاتم الولایت ہوتا ہے۔)مقدمہ ابن خلدون ص ۳۲۴ مطبع مصطفی محمدمصر(

۲۵۔شاہ عبد العزیز صاحب خاتم المحدثین والمفسرین تھے۔)ہدیۃ الشیعہ ص۱۰ ادارہ تالیفات اشرفیہ ملتان(

۲۶۔انسان خاتم المخلوقات الجسمانیہ ہے۔)تفسیر کبیر جلد۶ص۲۲مطبوعہ مصر طبع ثانیہ ۱۳۲۴ھ(

۲۷۔الشیخ محمد بن عبد اللہ خاتمۃ الحفاظ تھے۔(الرسائل النادرہ ص۳۰)

۲۸۔علامہ سعد الدین تفتازانی خاتمۃ المحققین تھے۔(شرح حدیث الاربعین ص۱)

۲۹۔ ابن حجر عسقلانی خاتمۃ الحفاظ ہیں۔(طبقات المدلسین سرورق)

۳۰۔مولوی محمدقاسم صاحب کو خاتم المفسرین لکھا گیا ہے ۔(اسرار قرآنی ۔ٹائیٹل پیج)

۳۱۔امام سیوطی خاتمۃ المحدثین تھے ۔)ہدیۃ الشیعہ ص۲۷۴ ادارہ تالیفات اشرفیہ ملتان(

۳۲۔بادشاہ خاتم الحکام ہوتا ہے۔)حجۃ الاسلام از مولانا محمد قاسم نانوتوی ص ۵۳شائع کردہ مدرسہ اسلامیہ دیو بند(

۳۳۔آنحضرت  ﷺخاتم الکاملین ہیں (حجۃ الاسلام ص۳ ۵ایضاً)

۳۴۔انسانیت کا مرتبہ خاتم المراتب ہے اور آنحضرت صلعم خاتم الکمالات ہیں۔(علم الکتاب۔از خواجہ میر درد ص ۱۴۰مطبع انصاری دہلی ۱۳۰۸ھ)    ۳۵۔حضرت عیسیٰؑ خاتم الاصفیاء الائمہ ہیں (بقیۃ المتقدمین ص ۱۸۴)

۳۶۔حضرت علیؓ خاتم الاوصیاء تھے۔)منار الہدٰی از شیخ علی بحرانی ص ۱۰۶و ۱۰۹،۱۱۰مطبع گلزار حسنی بمبئی ۱۳۲۰ھ(

۳۷۔رسول مقبول صلعم خاتم المعلمین تھے۔)الصراط السوی مصنفہ علامہ محمد سبطین ص۴۸ ناشر البرہان بک ڈپو کرشن نگر لاہور (

۳۸۔الشیخ الصدوق کو خاتم المحدثین لکھا ہے ۔)سرورق کتاب من لایحضرہ الفقیہ مطبع جعفریہ لکھنؤ(

۳۹۔عقل انسانی عطیات ِ الٰہیہ وجود، زندگی اور قدرت کی خاتم الخلع ہے۔)تفسیر کبیر رازی جلد ۶ ص۲۲ طبع ثانیہ ۱۳۲۴ھ مطبع مصر(

۴۰۔ابوالفضل شہاب الالوسی کو خاتمۃ الادباء لکھا ہے۔ (سرورق روح المعانی)

۴۱۔ صاحب روح المعانی نے الشیخ ابراہیم الکورانی کو خاتمۃ المتأخرین قرار دیا ہے۔        (تفسیر روح المعانی جلد۵ ص ۴۵۳  )

۴۲۔مولوی انور شاہ صاحب کاشمیری کو خاتم المحدثین لکھا گیا ہے ۔   )کتاب رئیس الاحرار از مولانا حبیب الرحمٰن لدھیانوی ص۹۹(

۴۳۔ مولانا قاری محمد طیب صاحب مہتمم مدرسہ دیو بند لکھتے ہیں:۔

’’آپؐ  ہی منتہائے علوم ہیں کہ آپؐ ہی پر علوم کا کارخانہ ختم ہو جاتا ہے اسلئے آپ کو  خاتم الانبیاء بنایا گیا‘‘      (شان رسالت ص۴۸)

ان استعمالات سے ظاہر ہے کہ اہل عرب اور دوسرے محققین علماء کے نزدیک جب بھی کسی ممدوح کو خاتم الشعراء یا خاتم الفقہاء یا خاتم المحدثین یا خاتم المفسرین کہا جاتا ہے تو اس کے معنے بہترین شاعر ، سب سے بڑا فقیہہ ، سب سے بلند مرتبہ محدث یا مفسر کے ہوتے ہیں۔

۴۴۔امام فخرالدین رازی ؒ فرماتے ہیں:۔

’’والخاتم یجب ان یکون افضل ألا تریٰ ان رسولنا  ﷺ لما کان خاتم النبیین کان افضل الانبیاء علیھم الصلوات والسلام‘‘

)تفسیرکبیر رازی جلد۱۱ ص۳۴ طبع ثانیہ ناشر دارالکتب العلمیہ طہران(

کہ خاتم لازماً افضل ہوتا ہے جس طرح ہمارے نبی  ﷺ کو جب خاتم النبیین قرار دیا گیا تو آپؐ سب نبیوں سے افضل ٹھہرے۔

۴۵۔حضرت فرید الدین عطار حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق کہتے ہیں   :

ختم کردہ عدل و انصاف او بحق                                 تا فراست بردہ از مرداں سبق

) منطق الطیر ص ۲۹مناقب خلیفہ ثانی حضرت عمر رضی اللہ عنہ(

۴۶۔جناب مولانا حالی حضرت شیخ سعدی کے متعلق لکھتے ہیں:۔

’’ہمارے نزدیک جس طرح طعن وضرب اور جنگ و حرب کا بیان فردوسی پر ختم ہے اسی طرح اخلاق،نصیحت وپند،عشق وجوانی ، ظرافت و مزاح ،زہد وریا وغیرہ کا بیان شیخ پر ختم ہے ‘‘    (رسالہ حیات سعدی ص۹۴ناشران شیخ جان محمد اللہ بخش کشمیری بازار لاہور)

۴۷۔حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی تحریر فرماتے ہیں:۔

’’سو جس میں اس صفت کا زیادہ ظہور ہو جو خاتم الصفات ہو یعنی اس سے اوپر اور صفت ممکن الظہور یعنی لائق انتقال وعطائے مخلوقات نہ ہو وہ شخص مخلوقات میں خاتم  المراتب ہو گا اور وہی شخص سب کا سردار اور سب سے افضل ہو گا ‘‘

)رسالہ انتصار الاسلام ص۴۵مطبع مجتبائی دھلی(

ان علماء اور محققین کے بیانات سے قطعی طور پر طے ہوگیا کہ آنحضرت  ﷺ کا خاتم النبیین ہونا بایں معنی ہے کہ آپؐ سب سے افضل ،سب سے بلندمرتبہ اور سب سے زیادہ فیض رساں نبی ہیں ۔

 

شیعوں کے حوالے

۱:شیعہ لغت مجمع البحرین میں لکھا ہے:۔

’’ومحمد خاتم النبیین یجوز فیہ فتح التاء وکسرھا فالفتح بمعنی الزینۃ ماخوذ من الخاتم الذی ھو زینۃ للابسہ‘‘ (زیر لفظ خَتَمَ)

کہ خاتم النبیین میں خاتَم اور خاتِم دونوں جائز ہیں اور خاتَم کے معنے زینت اور خوبصورتی کے ہوں گے ۔یہ انگوٹھی سے ماخوذ ہے جو کہ پہننے والے کے لئے موجب زینت ہوتی ہے ‘‘

۲:حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول ہے کہ آنحضرت  ﷺ کی شان ہے:۔’’الخاتم لما سبق والفاتح لما انفلق‘‘کہ آپؐ کے آنے سے پہلے دور ختم ہوگئے اور اب آپ نئے دور کے کھولنے والے ہیں‘‘

)نہج البلاغہ جلد ۱ ص۱۴۳۔دارالکتب العربیہ الکبرٰی مصر(

۳:آنحضرت  ﷺ نے حضرت علیؓ  کو خاتم الاولیاء قرار دیا۔ )تفسیر صافی از ملامحسن فیض کاشانی ص ۴۳۴ از انتشارات کتاب فروشے محمودی(

۴:علامہ محمد سبطین نے اپنے رسالہ الصراط السوی میں آنحضرت  ﷺ کو خاتم المعلمین قرار دیا  ہے۔ (ص ۴۸ ناشر برہان بک ڈپو لاہور)

۵:حضرت علیؓ نے اپنے آپ کو خاتم الوصیین کہا ہے ۔)منار الہدیٰ از علی بحرانی ص ۱۰۹۔۱۱۰مطبع گلزار حسنی کائنہ  بمبیٔ ۱۳۲۰ ء(

۶: مشہور شیعہ کتاب ’’من لا یحضرہ الفقیہ‘‘ کے ٹائٹل پیج پر الشیخ الصدوق کو خاتم المحدثین لکھا گیا ہے۔

کیا شیعہ صاحبان ماننے کے لئے تیار ہیں کہ آنحضرت  ﷺ کے بعد کوئی معلم نہیں ہوا؟ حضرت علیؓ کے بعد کوئی ولی یا وصی نہیں ہوا؟ یا جناب الشیخ الصدوق کے بعد کوئی محدث نہیں ہوا اور نہ آئندہ ہوگا ؟

 

اس مضمون کی مزید تفصیل کے لئے دیکھیں :

القول المبین فی تفسیر خاتم النبین۔از مولانا ابو العطاء جالندھری صاحب

ختم نبوت پر علمی تبصرہ۔ از قاضی محمد نذیر صاحب فاضل

یہ بھی ملاحظہ فرمائیں

ختم نبوت کے بارہ میں احادیث نبویہ ﷺسے پیش کردہ غیراز جماعت کے دلائل اور ان کا رد

ختم نبوت کے بارہ میں احادیث نبویہ ﷺسے پیش کردہ غیراز جماعت کے دلائل اور ان کا رد لَا نَبِی…