آنے والا موعود مسیح بہرحال نبی اللہ ہے

قارئین کرام!

جماعت احمدیہ اور موجودہ زمانہ کے دیگرتمام  فرقوں کا خادم اسلام نبی کے آنے یا نہ آنے کے بارہ میں کو ئی حقیقی اختلاف نہیں بلکہ سب  اس بات پر متفق ہیں ۔ کیونکہ تقریباً تمام امت مسیح موعودؑ یعنی کم از کم ایک خادم اسلام نبی کی آمد کی قائل ہے۔گویا اس بات پر اجماع ہے کہ مخالف اسلام نبی نہیں آسکتا البتہ خادم اسلام نبی آسکتا ہے اور کم از کم ایک ضرور آئے گا۔

کیا آنے والا موعود مسیح نبی اللہ اسرائیلی ہوگا یا امت محمدیہ کا فرد؟

صرف آنیوالے خادم اسلام نبی کی شخصیت کی تعیین میں اختلاف ہے۔اس کے آنے میں کوئی اختلاف نہیں ۔دیگر فرقے یہ کہتے ہیں کہ جب امت محمدؐیہ کو ایک خادم اسلام نبی کی ضرورت پڑے گی تو اللہ تعالیٰ اسرائیلی امت کے ایک نبی مسیح کو بھیج دیگا۔جماعت احمدیہ کہتی ہے کہ آنیوالا نبی محمدی امت میں سے آئیگا نہ کہ اسرائیلی امت میں سے۔اسرائیلی نبی فوت ہوچکا ہے پس اصل اختلاف حیات و وفاتِ مسیح کا ہے۔اگر حیات مسیح ثابت ہوجائے تو آنیوالا خادم اسلام نبی اسرائیلی مسیح ناصری ہوگا۔اگر حیات مسیح ثابت نہ ہو بلکہ وفاتِ مسیح ثابت ہوجائے تو پھر آنیوالا خادم اسلام نبی اُمتی ہوگانہ کہ اسرائیلی مسیح۔پس آنیوالے کی آمد میں ہمارا دوسروں سے کوئی اختلاف نہیں صرف آنیوالے کی شخصیّت کی تعیین میں اختلاف ہے ۔جبکہ سابقہ مسیح علیہ السلام کے متعلق قرآن پاک فرماتا ہے کہ

1. رَسُولاً إِلَی بَنِیْ إِسْرَائِیْلَ
ترجمہ: اور وہ رسول ہے بنى اسرائىل کى طرف (آل عمران:50)
2. وَإِذْ قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرَاةِ
ترجمہ: اور (ىاد کرو) جب عىسى بن مرىم نے کہا اے بنى اسرائىل! ىقىناً مىں تمہارى طرف اللہ کا رسول ہوں اس کى تصدىق کرتے ہوئے آىا ہوں جو تورات مىں سے مىرے سامنے ہے (الصّف 7)

پس حضرت عیسی بن مریم علیہ السلام  تو، تورات کی تعلیم پھیلانے والے نبی تھے۔خادم قرآن اور اُمتی نبی کیسے  بن سکتے ہیں ؟اور اگر یہ مانا جائے  تو پھر بتائیں کیا اس سے نبوّت کی نئی قسم پیدا ہوگئی یا نہیں؟ پھر تو صرف حضورﷺ نئی قسم کی نبوت کو ختم کرنے والے نہ ہوئے بلکہ صرف پرانی نبوّتوں کو ختم کیا۔

مسیح علیہ السلام ہمیشہ اور ہر حال میں بنی ہی رہینگے۔

حضرت مسیحؑ کی آمد ثانی پر اسے مسلوب النبوۃ قرار نہیں دیا جاسکتا ،کیونکہ کبھی بھی کوئی نبی اپنے منصب نبوت سے معزول نہیں ہوتا۔ عہدہ ٔنبوت کے لئے حکومتوں کے پریزیڈنٹوں کی طرح پانچ یا دس سال کی مدّت مقرر نہیں ہوتی جس کے بعد نبی ’’سابق صدر‘‘ کی اصطلاح کے مطابق ’’سابق نبی‘‘کہلانے لگ جائے ۔نبی ہمیشہ نبی ہوتا ہے اور ہر جگہ نبی ہوتا ہے ۔اور خدا کی قدرت دیکھئے اس بابت کا اعلی اعلان بھی اظہار حضرت مسیح علیہ السلام کی زبان سے تا قیامت اللہ تعالیٰ نے قرآن میں محفوظ رکھا ہے۔

وَجَعَلَنِیْ نَبِیاًّ وَجَعَلَنِیْ مُبَاَرکاً اَیْنَماَ کَنْتُ وَاَوْصَانِیْ بِالصَّلٰوۃِ وَالزَّکوٰۃِ مَادُمْتُ حَیاًّ
ترجمہ:کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے نبی بنایا اور بابرکت بنایا خواہ میں کسی جگہ ہوں اور جب تک میں زندہ رہوں مجھے اس نے نماز پڑھنے اور زکوٰۃ دینے کی وصیت کی ہے (مریم:۳۱۔۳۲)

نیز یاد رہے کہ قرآن کی کوئی آیت قیامت تک منسوخ نہیں ہو سکتی۔ قا ئلین نسخ کے نز دیک بھی اخبار کا نسخ جائز نہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ:

مَا الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ إِلَّا رَسُولٌ
مسىح ابنِ مرىم اىک رسول ہى تو ہے (المائدة 76)

فرمایئے جب آخری زمانہ میں مسیح آئے گا اور بقول آپ کے اس وقت وہ نبی نہیں ہو گا تو کیا یہ آیت منسوخ ہو جائے گی ۔مسیح اس آیت کا کیا ترجمہ کرے گا ؟مسیح تو کہے گا کہ میں رسول نہیں ہوں لیکن قرآن کہے گا کہ نہیں مسیح رسول ہیں تو کتنی عجیب کیفیت پیدا ہو جائیگی۔

قارئین کرام!

یادرہے کہ اگر بظاہر آنحضرت ﷺ بعض احادیث کےمطابق نبوت کا کوئی ایک دروازہ بند کر رہے ہیں ،تو دوسری طرف ایک اور دروازہ کو کھول بھی رہے ہیں،پس جو دروازہ خود حضور اکرم ﷺ نے اپنے دوسرے ہاتھ سے کھول دیا اسے کوئی بند نہیں کرسکتا۔پس یہ ہے اصل بحث ورنہ اس بات میں تو اختلاف ہی کوئی نہیں ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے جس رستے کو بند کر دیا وہ بند ہی رہے گا لیکن جس کو حضور اکرم ؐ نے کھولا ہے وہ بھی تو کھلا رہے گا۔

آخری دور میں آنے والا مسیح بھی لازماً نبی اللہ ہوگا

1.

آنے والے مسیح کو حضرت نواس بن سمعان ؓ کی روایت میں آنحضرت ﷺ نے چار مرتبہ نبی اللہ قرار دیا ہے چنانچہ صحیح مسلم میں درج حدیث میں دجال کے مقابلہ کے لیے آنے والنے مسیح کے متعلق حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے چار مرتبہ ’’نبی اللہ‘‘ ارشاد فرمایا ہےاس لمبی حدیث میں سے متعلقہ حصے حسب ذیل ہیں۔ آنحضور ﷺ فرماتے ہیں:

’’يُحْصَرُ نَبِيُّ اللهِ عِيسَى وَأَصْحَابُهُ‘‘یعنی نبی اللہ عیسی کو گھیر لیا جائے گا اور اس کے صحابہ بھی
پھر فرماتے ہیں:۔ ۔۔۔۔۔ فَيَرْغَبُ نَبِيُّ اللهِ عِيسَى وَأَصْحَابُهُ، پھر وہ توجہ فرمائے گا ۔ خدا تعالیٰ کی طرف یا دعاؤں کی طرف اور اس کے ساتھی رضوان اللہ علیہم بھی
پھر فرماتے ہیں: ۔۔۔۔ ثُمَّ يَهْبِطُ نَبِيُّ اللهِ عِيسَى وَأَصْحَابُهُ، پھر حضرت عیسی نبی اللہ اور آپ کے اصحاب اتریں گے
اور پھر فرماتے ہیں:۔ ۔۔۔ فَيَرْغَبُ نَبِيُّ اللهِ عِيسَى وَأَصْحَابُهُ إِلَى اللهِ، پھر وہ توجہ فرمائے گا ۔ خدا تعالیٰ کی طرف یا دعاؤں کی طرف اور اس کے ساتھی رضوان اللہ علیہم بھی۔ (صحیح مسلم کتاب الفتن باب ذکرالدجال وصفتہ وما معہ)

گویا آنحضرت ﷺ نے چار مرتبہ آنے والے مسیح کو نبی اللہ کہہ کر ذکر فرمایا ہے۔نیز ایک اور بات تو قطعی طور پر ظاہر ہو گئی کہ جتنے چاہیں دجال اور کذاب اور لعنتی اور جھوٹے دنیا میں آ جائیں تیس آئیں یا تیس لاکھ آئیں آنحضرت ﷺ نے آنے والے عیسیٰ یا مسیحؑ کو جو نبی اللہ کا خطاب مرحمت فرمایا ہے اسے دنیا کی کوئی طاقت چھین نہیں سکتی۔ کون ہے جو حضرت اقدس محمد مصطفی کے دیئے ہوئے خطاب کو چھین لے۔

2.

ایک اَور حدیث میں رسول اللہ ﷺنے آنے مسیح موعود کو نبی قرار دیا، اور اسے پہچاننے کی ہدایت کی گئی ہے ۔فرمایا کہ

"لَيْسَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ نَبِيٌّ – يَعْنِي عِيسَى – وَإِنَّهُ نَازِلٌ، فَإِذَا رَأَيْتُمُوهُ فَاعْرِفُوهُ: میرے درمیان اور اس مسیح کے درمیان کوئی نبی نہیں اور وہ آئندہ نازل ہونے والے ہیں۔ جب تم اسے دیکھو تو اس کو ضرورپہچانو۔ (ابوداود کتاب الملاحم،باب خروج الدّجال۔)

یاد رہے کہ اس حدیث میں لیس بینہ وبینی نبی نہیں فرمایا کہ مسیح ناصری اور میرے درمیان نبی نہیں بلکہ پہلے اپنا ذکر فرمایا کہ’’لیس بینی وبینہُ نبی‘‘میرے اور بعد میں آنے والے مسیح کے درمیان نبی نہیں ہے ۔

قارئین کرام! حقیقت یہ ہے کسی بھی صحیح یا ضعیف حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے آنے مسیح کو نبی اللہ کے مقام سے معزول قرار نہیں دیا۔

3.

حضرت موسیٰؑ کی خواہش:

مندرجہ ذیل حدیث میں حضرت موسیٰ ؑ کی امّتِ محمدیہ میں شامل ہونے کی خواہش کا ذکر فرمایا گیا ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اسی بنیاد پر رد فرمادیا کہ وہ پہلے ہوچکے ہیں اور امّت محمدیہ حضرت موسیٰ ؑ کے تقریبًا دو ہزار سال بعد قرآن کے نزول کے ذریعے قائم ہونے والی تھی۔ غور کرنا چاہئے کہ یہی روک جو حضرت موسیٰ ؑ کے نبی اکرمﷺکا امّتی بننے میں ہے، وہی روک حضرت عیسیٰ ؑ کے نبی اکرم ﷺ کا امّتی بننے میں ہے۔

’’وَأخرج أَبُو نعيم فِي الْحِلْية عَن انس قَالَ قَالَ رَسُول اللهﷺ اوحى الله الى مُوسَى نَبِي بني اسرائيل انه من لَقِيَنِي وَهُوَ جَاحد بِأَحْمَد ادخلته النَّار قَالَ يَا رب وَمن أَحْمد قَالَ مَا خلقت خلقا اكرم عَليّ مِنْهُ كتبت اسْمه مَعَ اسْمِي فِي الْعَرْش قبل أَن أخلق السَّمَوَات وَالْأَرْض إِن الْجنَّة مُحرمَة على جَمِيع خلقي حَتَّى يدخلهَا هُوَ وَأمته قَالَ وَمن أمته قَالَ الْحَمَّادُونَ يحْمَدُونَ صعُودًا وهبوطا وعَلى كل حَال يشدون أوساطهم ويطهرون اطرافهم صائمون بِالنَّهَارِ رُهْبَان بِاللَّيْلِ اقبل مِنْهُم الْيَسِير وأدخلهم الْجنَّة بِشَهَادَة ان لَا إِلَه إِلَّا الله قَالَ اجْعَلنِي نَبِي تِلْكَ الْأمة قَالَ نبيها مِنْهَا قَالَ اجْعَلنِي من أمة ذَلِك النَّبِي قَالَ استقدمت واستأخر وَلَكِن سأجمع بَيْنك وَبَينه فِي دَار الْجلَال‘‘ (الخصائص الكبرى،امام جلال الدين السيوطي (المتوفى: 911هـ)زیر عنوان،لَطِيفَة أُخْرَى فِي أَن اخذ الْمِيثَاق من النَّبِيين لنبينا صلى الله عَلَيْهِ وَسلم وَعَلَيْهِم كَإِيمَانِ الْبيعَة الَّتِي تُؤْخَذ للخلفاء۔جلد 1صفحہ 12,11)

ترجمہ:’’ابونعیم نے ”حلیہ“ میں حضرت انسؓ سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بنی اسرائیل کے نبی حضرت موسیٰ علیہ السلام کو وحی فرمائی کہ جو شخص مجھ سے اس حال میں ملے کہ وہ احمد مجتبیٰ کا منکر ہے تو میں اسے جہنم میں داخل کرونگا۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا اے رب! احمد کون ہیں؟ فرمایا:۔ ”میں نے کسی مخلوق کو ان سے بڑھ کر مکرم نہیں بنایا۔ اور میں نے ان کا نام تخلیق زمین و آسمان سے پہلے عرش پر لکھا۔ بلاشبہ میری تمام مخلوق پر جنت حرام ہے جب تک وہ ان کی امت میں داخل نہ ہو۔“ …موسیٰ ؑنے ’’عرض کیا اس امت کا نبی مجھے بنادے؟ فرمایا اس امت کا نبی اُنہیں میں سے ہوگا۔ عرض کیا مجھے اس امت میں سے بنادے! فرمایا تمہارا زمانہ پہلے ہے اور ان کا زمانہ آخر میں، لیکن بہت جلد میں تم کو اور ان کو بیت الجلیل میں یک جا کردونگا۔ “ (الخصائص الکبریٰ از علامہ جلال الدین سیوطیؒ ،جلد اول مترجم حکیم غلام معین الدین ۔ناشر مدینہ پبلشنگ کمپنی کراچی)

بزرگان امت کے اقوال

بزرگان امت بھی اس بات کے قائل رہے ہیں کہ آنےوالا مسیح بہرحال نبی اللہ ہوگا۔

4.

حضرت محی الدین ابن عربی ؒ:

آپ فرماتے ہیں کہ

’’عِیْسٰی عَلَیْہِ السَّلاَمُ یَنْزِلُ فِیْنَا حَکَمًا مِنْ غَیْرِ تَشْرِیْعٍ وَ ھُوَ نَبِیٌّ بِلاَ شَکٍّ‘‘ ترجمہ: یعنی عیسیٰ علیہ السلام ہم میں حَکم کی صورت میں شریعت کے بغیر نازل ہوں گے اور بلا شک نبی ہوں گے۔ (فتوحات مکیہ جلد اول صفحہ۵۴۵۔ مطبع دارالکتب العربیہ۔ الکبری بمصر)

5.

علامہ سفارینیؒ:

حضرت عیسی علیہ السلام کے امت محمدیہ میں بوقت نزول بھی نبوت سے متصف ہونے کا اجماعی عقیدہ بیان کرتے ہوئے معروف بزرگ علامہ سفارینی ؒ فرماتے ہیں کہ

وَأَمَّا الْإِجْمَاعُ فَقَدْ أَجْمَعَتِ الْأُمَّةُ عَلَى نُزُولِهِ وَلَمْ يُخَالِفْ فِيهِ أَحَدٌ مِنْ أَهْلِ الشَّرِيعَةِ، وَإِنَّمَا أَنْكَرَ ذَلِكَ الْفَلَاسِفَةُ وَالْمَلَاحِدَةُ مِمَّنْ لَا يُعْتَدُّ بِخِلَافِهِ، وَقَدِ انْعَقَدَ إِجْمَاعُ الْأُمَّةِ عَلَى أَنَّهُ يَنْزِلُ وَيَحْكُمُ بِهَذِهِ الشَّرِيعَةِ الْمُحَمَّدِيَّةِ وَلَيْسَ يَنْزِلُ بِشَرِيعَةٍ مُسْتَقِلَّةٍ عِنْدَ نُزُولِهِ مِنَ السَّمَاءِ وَإِنْ كَانَتِ النُّبُوَّةُ قَائِمَةً بِهِ وَهُوَ مُتَّصِفٌ بِهَا (لوامع الأنوار البهية،از علامہ السفاريني الحنبلي (المتوفى: 1188هـ)الباب الرابع،فَصْلٌ فِي أَشْرَاطِ السَّاعَةِ وَعَلَامَاتِهَا،الْعَلَامَةُ الثَّالثة نزول عيسى عليه السلام،نزول عيسى عليه السلام ثَابِتٌ بِالْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ وَإِجْمَاعِ الْأُمَّةِ۔جلد دوم ،صفحہ 94,95.الناشر: مؤسسة الخافقين ومكتبتها – دمشق.الطبعة: الثانية – 1402 هـ – 1982 م)

چنانچہ جماعت کے معروف معاند مولوی یوسف لدھیانوی صاحب اپنے رسالہ ’’نزول عیسی علیہ السلام چند شبہات کا جواب‘‘ میں علامہ سفارینی ؒ کی کتب ’’لوامع انوار البہیہ‘‘ کے متذکرہ حوالہ تحریر کرنے سے قبل تعارفی الفاظ میں تحریر کرتے ہیں کہ

’’حضرت عیسی علیہ السلام کے آسمان سے نازل ہونے کا اِنکار دور قدیم میں صرف فلاسفہ اور ملاحدہ نے کیا ،ورنہ کوئی ایسا شخص جو خدا اور رسول پر اِیمان رکھتا ہو،اس عقیدہ سے منکر نہیں ہوا۔چنانچہ علامہ سفارینیؒ (المتوفی ۱۱۸۸ھ) ’’لوامع انوار البہیہ‘‘ میں اس عقیدے کو قرآن کریم ،حدیث اور اِجماع اُمت سے ثابت کرتے ہوئے لکھتے ہیں‘‘ (تحفہ قادیانیت(جلد دوم)حیات و نزول سیدنا عیسی علیہ السلام ۔صفحہ ۴۱۰)

مولانا موصوف اس حوالہ کا ترجمہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ترجمہ:

’’رہا اجماع! تو اُمت کا اجماع ہے کہ عیسی علیہ السلام نازل ہونگے اور جو لوگ شریعت محمدیہ پر ایمان رکھتے ہیں ان میں سے کسی نے بھی اس کے خلاف نہیں کہا۔اس کا انکار صرف فلاسفہ اور بدِینوں نے کیا ہےجن کی مخالفت کا کوئی اعتبار نہیں۔اور اُمت کا اِجماع منعقد ہوچکا ہے کہ وہ نازل ہوکر شریعت محمدیہ کے مطابق عمل کریں گے،اور آسمان سے اُترتے وقت کوئی الگ شریعت لے کر نہیں اُتریں گے،،اگرچہ ان کی نبوت ان کے ساتھ قائم رہے گی اور وہ نبوت کے ساتھ متصف ہوں گے۔ (تحفہ قادیانیت(جلد دوم)حیات و نزول سیدنا عیسی علیہ السلام ۔صفحہ 411)

6.

امام جلال الدین سیوطی ؒ:

مولوی یوسف لدھیانوی صاحب اپنے رسالہ ’’نزول عیسی علیہ السلام چند شبہات کا جواب‘‘ میں اس حوالہ کےسے قبل تعارفی الفاظ میں لکھتے ہیں کہ:

’’چونکہ یہ عقیدہ نماز روزہ اور حج و زکوۃ کی طرح متواتر اور قطعی ہے،اس لئے اس کے منکر کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا گیا ہے۔چنانچہ نویں صدی کے مجدد امام جلال الدین سیوطی(المتوفی ۹۱۱ھ)اپنے رسالہ ’’الاعلام بحکم عیسی علیہ السلام‘‘ میں ایک معترض کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں ‘‘ (تحفہ قادیانیت(جلد دوم)حیات و نزول سیدنا عیسی علیہ السلام ۔صفحہ 412)

آپ کی کتاب’’الحاوی للفتاوی‘‘میں لکھا ہے کہ

لِأَنَّ الْمُرَادَ لَا يَحْدُثُ بَعْدَهُ بَعْثُ نَبِيٍّ بِشَرْعٍ يَنْسَخُ شَرْعَهُ كَمَا فَسَّرَهُ بِذَلِكَ الْعُلَمَاءُ، ثُمَّ يُقَالُ لِهَذَا الزَّاعِمِ: هَلْ أَنْتَ آخِذٌ بِظَاهِرِ الْحَدِيثِ مِنْ غَيْرِ حَمْلٍ عَلَى الْمَعْنَى الْمَذْكُورِ، فَيَلْزَمُكَ عَلَيْهِ أَحَدُ أَمْرَيْنِ: إِمَّا نَفْيُ نُزُولِ عِيسَى، أَوْ نَفْيُ النُّبُوَّةِ عَنْهُ وَكِلَاهُمَا كُفْرٌ‘‘ (الحاوي للفتاوي۔از علامہ جلال الدين السيوطي (المتوفى: 911هـ)الناشر: دار الفكر للطباعة والنشر، بيروت-لبنان۔عام النشر: 1424 هـ – 2004 م۔عدد الأجزاء: 2۔[كِتَابُ الْبَعْثِ] [مَبْحَثُ النُّبُوَّاتِ][كِتَابُ الْإِعْلَامِ بِحُكْمِ عِيسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ]جلد ۲۔صفحہ۱۱۳۔)نیز الحاوی للفتاوی ۔الجزاء الثانی۔دار الفکر۔صفحہ ۱۶۶۔جامعہ لائیبریری)

7.

مولانا محمد یوسف لدھیانوی۔دیوبندی مکتبہ فکر

حضرت امام جلال الدین سیوطی ؒ کے متذکرہ حوالہ کا ترجمہ کرتے ہوئے ،جماعت کے معاند مولوی یوسف لدھیانوی اپنے رسالہ ’’نزول عیسی علیہ السلام چند شبہات کا جواب‘‘ میں تحریر کرتے ہیں کہ۔

’’پھر اس مدعی سے کہا جائے گا کہ کیا تم اس حدیث کے ظاہر کو لیتے ہو؟اور جو مطلب ہم نے اس کا کیا ہے اس پر محمول نہیں کرتے ہو؟ تو اس صورت میں تجھے دو میں سے ایک صورت لازم آئے گی،یا یہ کہ نزول علیہ السلام کی نفی کرو،یا بوقت ِنزول ان سے نبوت کی نفی کرو۔اور یہ دونوں باتیں کفر ہیں۔ (بحوالہ ۔تحفہ قادیانیت جلد دوم ۔حیات و نزول سیدنا عیسی علیہ السلام ۔صفحہ ۴۱۲)

8.

اشرف علی تھانوری۔دیوبندی مکتبہ فکر:

اوپر جو الخصائص الکبری کا حوالہ درج کیا گیا ہے۔اس کا موصوف نے کچھ اس طرح ترجمہ کیا ہے کہ

’’موسی علیہ السلام نے عرض کیا اے رب مجھ کو اس امت کا نبی بنا دیجئے ۔ارشاد ہوا اس امت کا نبی اسی میں سے ہوگا۔عرض کیا کہ تو مجھ کو ان (محمد) کی امت میں سے بنا دیجئے ۔ارشاد ہوا کہ تم پہلے ہوگئے ،وہ پیچھے ہونگے۔البتہ تم کو اور ان کو دارالجلال (جنت)میں جمع کردوں گا۔‘‘ (النشر الطیب فی ذکر النبی الحبیب از اشرف علی تھانوی۔صفحہ ۲۶۱۔۲۶۲۔تاج کمپنی لیمیٹڈ لاہور)

9.

نواب صدیق حسن خان صاحب ۔اہل حدیث مکتبہ فکر

مشہور اہل حدیث عالم نواب صدیق حسن خان صاحب اپنی کتاب حجج الکرامہ میں علماء سلف کے اقوال کی بناء پر یہ اعلان کرتے ہیں کہ:

’’مَنْ قَالَ بِسَلْبِ نُبُوَّتِہِ فَقَدْ کَفَرَ حَقَّا کَمَا صَرَّحَ بِہِ السَّیُوْطِیُّ ،فانہ نبی لایذھب عنہ وصف النبوۃ فی حیاتہ ولا بعد وفاتہ‘‘:ترجمہ:کہ جو شخص یہ عقیدہ رکھے کہ حضرت مسیحؑ نبوت سے علیحدہ ہوکر آئیں گے ۔وہ کھلا کافر ہے جیسا کہ امام سیوطی ؒنے تصریح کی ہے ۔حضرت مسیحؑ بہرحال نبی ہیں ۔وصف نبوت ان سے نہ زندگی میں الگ ہو سکتا ہے اورنہ ان کی وفات کے بعد‘‘ (حجج الکرامہ ص ۴۳۱مطبع شاہ جہان بھوپال)

مسیح موعود ومہدی معہود کو ماننا قرآن و حدیث کے مطابق ضروری ہے۔

اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو بھی مامور اور امام آیا کرتے ہیں ان کو قبول کرنا اور ایمان لانا ضروری ہوتا ہے کیونکہ تمام برکتیں ان سے وابستہ کر دی جاتی ہیں ۔ اور ان کے بغیر ہر طرف تاریکی اور جہالت ہوتی ہے ۔چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ

وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَسُولٍ إِلَّا لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللَّهِ ترجمہ: اور ہم نے کوئى رسول نہىں بھىجا مگر اس لئے کہ اللہ کے حکم سے اس کى اطاعت کى جائے (النساء 65)

اسی طرح اللہ تعالیٰ مؤمنین کی نشانی ہی یہ بیان کی ہے کہ وہ تمام انبیاء پر ایمان لاتے ہیں

آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِ مِنْ رَبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ كُلٌّ آمَنَ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُسُلِهِ وَقَالُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ ترجمہ:رسول اس پر اىمان لے آىا جو اس کے ربّ کى طرف سے اس کى طرف اتارا گىا اور مومن بھى (اُن مىں سے) ہر اىک اىمان لے آىا اللہ پر اور اس کے فرشتوں پر اور اس کى کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر (ىہ کہتے ہوئے کہ) ہم اس کے رسولوں مىں سے کسى کے درمىان تفرىق نہىں کرىں گے اور انہوں نے کہا کہ ہم نے سنا اور ہم نے اطاعت کى تىرى بخشش کے طلبگارہىں اے ہمارے ربّ! اور تىرى طرف ہى لوٹ کر جانا ہے (البقرة 286)

سید الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے فرمایا ہے کہ:

مَنْ مَاتَ بِغَيْرِ إِمَامٍ مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً: جو شخص (خدا کے مقرر کردہ) امام کو قبول کئے بغیر مر گیا اس کی موت جاہلیت کی موت ہے (مسند احمد بن حنبل جلد٤ ص٩٦ مُسْنَدُ الشَّامِيِّينَ۔حَدِيثُ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ)

نیز حضور ﷺ نے اپنی امت کو اس کو قبول کرنے کے لئے پر زور نصیحت فرمائی:۔

إِذَا رَأَيْتُمُوهُ فَبَايِعُوهُ وَلَوْ حَبْوًا عَلَى الثَّلْجِ، فَإِنَّهُ خَلِيفَةُ اللَّهِ الْمَهْدِيُّ ترجمہ: جب تم اسے دیکھو تو اس کی ضرور بیعت کرنا خواہ تمہیں برف کے تودوں پر گھٹنوں کے بل بھی جاناپڑے کیونکہ وہ خدا کا خلیفہ مہدی ہوگا۔ (سنن ابن ماجہ ، کتاب الفتن ، باب خروج المہدی)

آپؐ نے امام مہدی کی بیعت اور اطاعت کرنے کے متعلق تعلیم دیتے ہوئے فرمایا:۔

’’جس نے امام مہدی کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے اس کی نافرمانی کی اس نےمیری نافرمانی کی‘‘ (بحار الانوار از علامہ باقر مجلسی جلد۱۳ ص۱۷)

آنحضرتﷺ فرماتے ہیں کہ:

قَالَ رَسُوْلُ اللہُﷺمَنْ اَنْکَرَ خُرُوْجَ الْمَھْدِیْ فَقَدْ اَنْکَرَبِمَااُنْزِلَ عَلیٰ مُحَمَّد۔نبی کریمﷺ نے فرمایا۔جس نے مہدی کے ظہور کا انکار کیا اس نے ضروران باتوں کا انکار کیا جو محمد ؐپر نازل ہوئیں (ینابیع المودہ الباب الثامن والسبعون ۔از علامہ الشیخ سلیمان بن شیخ ابراہیم ۔المتوفی ۱۲۹۴ء)

اسی طرح آنحضرت ﷺکا یہ فرمان بھی ہے کہ:

مَنْ كَذَّبَ بِالْمَهْدِيِّ فَقَدْ كَفَرَ ۔جس نے مہدی کو جھٹلایا اس نے کفر کیا (حج الکرامہ صفحہ ۳۵۱از نواب سید محمد صدیق حسن خان صاحب۔مطبع شہجہان پریس بھوپال)

پس یہ وہ مبارک زمانہ ہے جس میں عین چودھویں صدی کے سر پر حضرت مرزا غلام احمد قادیانی بانی سلسلہ احمدیہ نے یہ دعویٰ فرمایا۔ کہ میں ہی امام مہدی اور مسیح موعود ہوں۔اور آپ کے حق میں خدا نے بڑے بڑے نشان دکھائے اور سابقہ کتب میں درج پیشگوئیاں پوری کیں۔

یہ بھی ملاحظہ فرمائیں

ختم نبوت کے بارہ میں احادیث نبویہ ﷺسے پیش کردہ غیراز جماعت کے دلائل اور ان کا رد

ختم نبوت کے بارہ میں احادیث نبویہ ﷺسے پیش کردہ غیراز جماعت کے دلائل اور ان کا رد لَا نَبِی…