امکان نبوت از روئے احادیث

صحیح مسلم کی حدیث میں آنے والے مسیح کو چار دفعہ نبی اللہ کہا گیا :۔
رسول اللہ ﷺ نے امت محمدیہ کے مسیح موعود کو چار دفعہ تکرار کے ساتھ نبی اللہ قرار دیا ہے اور اس پر وحی نازل ہونے کا بھی ذکر فرمایا ہے ۔
رسول کریم ﷺ اس حدیث میں فرماتے ہیں:۔
ویحصر نبی اللہ عیسیٰ واصحابہٗ۔۔۔۔۔فیرغب نبی اللہ عیسیٰ واصحابہٗ ۔۔۔۔۔ثم یھبط نبی اللہ عیسیٰ واصحابہٗ ۔۔۔۔۔فیرغب نبی اللہ عیسیٰ واصحابہٗ الی اللہ (صحیح مسلم کتاب الفتن باب ذکر الدجال )
یعنی جب مسیح موعود یاجوج ماجوج کے زور کے زمانہ میں آئے گا تو مسیح نبی اللہ اور اس کے صحابی دشمن کے نرغہ میں محصور ہو جائیں گے ۔۔۔۔تو پھر مسیح نبی اللہ اور اس کے صحابہ خدا کے حضور رجوع کریں گے۔۔۔۔پھر مسیح نبی اللہ اور اس کے صحابی ایک خاص جگہ اتریں گے ۔۔۔۔ پھر مسیح نبی اللہ اور اس کے صحابی خدا تعالیٰ کے حضور تضرع کے ساتھ رجوع کریں گے۔
ہمارا سوال ہے کہ جب اس حدیث میں چار دفعہ تکرار سے رسول اللہ ﷺ نے مسیح موعود کو نبی ا للہ قرار دیا ہے تو کسی کیا حق ہے کہ وہ یہ خیال پیش کریں کہ مسیح موعود نبی کی حیثیت میں نہیں آئے گا ؟
پھر اسی حدیث میں لکھا ہے:۔
اذ اوحی اللہ الیٰ عیسیٰ انی قد اخرجت عباداً لّی لایدان لاحدٍ بقتالھم ۔
کہ خدا تعالیٰ عیسیٰ موعود کو وحی کرے گا کہ میں نے کچھ بندے (یعنی یاجوج ماجوج) نکالے ہیں جن سے کسی کو لڑنے کی طاقت نہیں۔
گویا آنے والے کو اللہ تعالیٰ وحی کرے گا ۔
لیس بینی و بینہ نبی:
متعدد احادیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے امت میں نبی کی آمد کا ذکر فرمایا ہے اور آنے والے موعود مسیح اور مہدی کو نبی قرار دیا ہے۔ اور فرمایا کہ میرے اور اس کے درمیان کوئی نبی نہیں ۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث میں فرمایا:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” لَيْسَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ نَبِيٌّ – يَعْنِي عِيسَى – وَإِنَّهُ نَازِلٌ، فَإِذَا رَأَيْتُمُوهُ فَاعْرِفُوهُ۔
ترجمہ :۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میرے اور عیسیٰ علیہ السلام کے درمیان کوئی نبی نہیں ہے ۔ اور وہ ضرور نازل ہوں گے ۔ پس جب تم انہیں دیکھو تو پہچان لینا ۔
(سنن ابو داؤد کتاب الملاحم ، باب خروج الدجال )
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ: «أَلَا» إِنَّ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ لَيْسَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ نَبِيُّ، أَلَا انہ خَلِيفَتِي فِي أُمَّتِي مِنْ بَعْدِي
(المعجم الصغیر للطبرانی جزء ۱۔ صفحہ۲۵۷۔ بیروت لبنان)
’’سن لو ! میرے اور عیسی بن مریم کے درمیان کوئی نبی نہیں ۔اور سن لو کہ وہ میرے بعد میری امت میں میرا خلیفہ ہے‘‘
لوعاش لکان صدیقا نبیا:
آیت خاتم النبیین ۵ھ؁ میں نازل ہوئی ۹ھ؁ میں آنحضرت ﷺ کے صاحبزادے ابراہیم پیدا ہوئے اور پھر فوت بھی ہو گئے ۔ حدیث میں آتا ہے کہ :۔
عن ابن عباسٍ قال لما مات ابراہیم ابن رسول اللہ ﷺ صلیّٰ رسول اللہ صَلی اللہ علیہ وسلم وقال ان لہٗ مرضعاً فی الجنۃ ولو عاش لکان صدیقاً نبیاً
(ابن ماجہ کتاب الجنائز باب ما جاء فی الصلوٰۃ علی ابن رسول اللہ ﷺ وذکر وفاتہ)
حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ جب ابراہیم فرزند رسول وفات پا گیا تو آنحضرت ﷺ نے اس کی نماز جنازہ پڑھی اور فرمایا کہ جنت میں اس کے لئے ایک دودھ پلانے والی ہے اور فرمایا کہ اگر وہ زندہ رہتا تو ضرور صدیق نبی ہوتا ‘‘
یہ فقرہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت فرمایا جبکہ اس سے پانچ سال پہلے آیت خاتم النبیّین نازل ہو چکی تھی اس فقرہ سے ظاہر ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک آیتِ خاتم النبیّین صاحبزادہ ابراہیم کے بالفعل نبی بننے میں روک نہ تھی۔ بلکہ صاحبزادہ موصوف کی وفات ان کے بالفعل نبی بننے میں روک ہوئی۔ اگر آیت خاتم النبیّین اُن کے نبی بننے میں روک ہوتی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس فقرہ کی بجائے یہ فرماتے : لَوْعَاشَ اِبْرَاھِیْمُ لَمَا کَانَ نَبِیًّا لِاَنِّیْ خَاتَمُ النَّبِیّیْنَ۔
یعنی اگر ابراہیم زندہ بھی ہوتا تو بھی نبی نہ ہوتا کیونکہ میں خاتم النبیین ہوں۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فقرہ لَوْعَاشَ لَکَانَ صِدِّیْقًا نَبِیًّا۔ ظاہر کرتا ہے کہ آیت خاتم النبیین ان کے نبی بننے میں روک نہ تھی۔ دیکھئے اگر بالفرض یونیورسٹی ایم۔ اے کا امتحان بند کردے اور ایک شخص کا لائق لڑکا بی ۔اے تک پہنچ جائے اور وفات پا جائے تو اس وقت اس کا باپ یہ نہیں کہہ سکتا کہ اگر میرا بیٹا زندہ رہتا تو وہ ایم۔اے ہوتا۔ کیونکہ اس صورت میں یہ فقرہ جھوٹ بن جاتا کیونکہ اگر وہ زندہ بھی رہتا تو ایم ۔ اے نہ ہوسکتا۔ پس مخبرِ صادق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فقرہ بھی اسی وجہ سے صحیح قرار پاتا ہے کہ خاتم النبیین کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک نبی کا آنا ممکن تھا اور آیت خاتم النبیین آپ کے ماتحت نبی کے آ نے میں روک نہ تھی۔
حدیث کی صحت و قوت
بعض لوگوں نے اِس حدیث کو ضعیف قرار دے کر ردّ کرنے کی کوشش کی ہے۔ اور بعض نے اس کے یہ معنی لے کر کہ گویا صاحبزادہ ابراہیم اسی لئے فوت ہو گئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا تھا۔ ان معنی میں اسے قبول کیا ہے۔ حضرت امام علی القاریؒ ان لوگوں کے خیالات کو ردّ کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:۔
لَوْعَاشَ وَصَارَ نَبِیًّا وَکَذَالَوْصَارَعُمَرُ نَبِیًّا لَکَانَا مِنْ اَتْبَاعِۃٖ عَلَیْہِ السَّلَامُ۔
ترجمہ : اگر صاحبزادہ ابراہیم زندہ رہتے اور نبی ہو جاتے اور اسی طرح اگر حضرت عمرؓ نبی ہو جاتے تو وہ دونوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متبعین میں سے ہوتے۔
یہ لکھ کر آگے اس اعتراض کا جواب کہ کیا ان کا نبی ہو جانا خاتم النبیین کے خلاف نہ ہوتا یوں دیتے ہیں۔
فَـلَا یُنَا قِضُ قَوْلُہٗ تَعَالٰی خَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ اِذَاالْمَعْنٰی اَنَّہٗ لَا یَأتِیْ نَبِیٌّ بَعْدَہٗ یَنْسَخُ مِلَّتَہٗ وَلَمْ یَکُنْ مِّنْ اُمَّتِہٖ ۔
(موضوعات کبیر صفحہ 58 ،59 مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی)
ترجمہ: صاحبزادہ ابراہیم کا نبی ہو جانا آیتِ خاتم النبیین کے خلاف اس لئے نہ ہوتا کیونکہ خاتم النبیین کے یہ معنی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی ایسا نبی نہیں آسکتا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کو منسوخ کرے اور آپ کی اُمت میں سے نہ ہو۔
(گویا امّتِ محمدیہ میں نبی ہونے میں آیت خاتم النبیین مانع نہیں ۔ دوسری اُمّتوں میں نبی ہونے میں مانع ہے یا شارع نبی کے آنے میں مانع ہے۔)
ضعفِ روایت کی تردید
ضعفِ روایت کی تردید میں لکھتے ہیں ۔
لَہٗ طُرُقٌ ثَـلَا ثَۃٌ یُقَوّٰی بَعْضُھَا بِبَعْضٍ۔
(موضوعات کبیر صفحہ 58مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی)
کہ یہ حدیث تین طریقوں سے مروی ہے جو آپس میں ایک دوسرے کو قوت دے رہے ہیں۔
نیز اُوپر کے معنی کو مدّنظر رکھتے ہوئے جن سے امکان نبوّت ثابت ہے ۔ تحریر فرماتے ہیں۔
یُقَوِّیْ حَدِیْثُ لَوْکَانَ مُوْسٰی عَلَیْہِ السَّلَام حَیًّا لَّمَا وَسِعَہٗ اِلَّا اتِّبَاعِیْ۔ (موضوعات کبیر صفحہ 59مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی )
یعنی ان معنی کو قوت وہ حدیث بھی دے رہی ہے جس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے اگر موسیٰ زندہ ہوتا تو اُسے میری پیروی کے بغیر چارہ نہ ہوتا۔
بعض نے راوی ابن ابی شیبہ کو ضعیف قرار دے کراس حدیث کو ردّ کرنے کی کوشش کی ، لیکن تہذیب التہذیب اور اکمال الاکمال میں اس راوی کے متعلق لکھا ہے:
قَالَ یَزِیْدُ ابْنُ ھَارُوْنَ مَاقَضٰی رَجُلٌ اَعْدَلَ فِی الْقَضَائِ مِنْہُ وَقَالَ ابْنُ عَدِیٍّ لَہٗ اَحَادِیْثٌ صَالِحَۃٌ وَھُوَ خَیْرٌ مِنْ اَبِیْ حَیَّۃَ۔
(تھذیب التھذیب جلد ۱ صفحہ35)
ترجمہ : ’’ابن ہارون نے کہا ہے کہ راوی ابن ابی شیبہ ابراہیم بن عثمان عیسیٰ سے بڑھ کر کسی نے قضاء میں عدل نہیں کیا اور ابن عدی کہتے ہیں کہ اس کی احادیث اچھی ہیں اور وہ ابی حیّہ سے بہتر راوی ہے۔
ابی حیّہ کے متعلق لکھا ہے:
’’وَثَقَہٗ دَارُ قُطْنِیْ وَقَالَ النَّسَائِیُّ ثقۃٌ۔‘‘ (تھذیب التھذیب جلد 1 صفحہ13)
ترجمہ : دارقطنی نے ابی حیّہ کو ثقہ راوی قرار دیا ہے اور نسائی بھی اسے ثقہ کہتے ہیں۔
بیضاوی کے حاشیہ الشھاب علی البیضاوی میں اس حدیث کے متعلق لکھا ہے:۔
اَمَّا صِحَّۃُ الْحَدِیْثِ فَـلَا شُبْھَۃَ فِیْھَا۔
ترجمہ: لیکن اس حدیث کی صحت میں شبہ نہیں۔
نوویؒ نے اس حدیث کو باطل قرار دیا تھا لیکن علامّہ شوکانی نووی کے خیال کو یہ کہہ کر ردّ کرتے ہیں:
ھُوَ عَجِیْبٌ مِّنَ النَّوْوِیْ مَعَ وَ رُوْدِہٖ عَنْ ثَلَاثَۃٍ مِّنَ الصَّحَابَۃِ وَکَانَّہٗ لَمْ یَظْھَرْلَہٗ تَأْوِیْلُہٗ۔ (الفوائد المجموعہ صفحہ 141)
ترجمہ: نووی کا اس حدیث کو باطل قرار دینا حیران کُن بات ہے باوجود یکہ یہ حدیث تین صحابہ سے وارد ہوئی ہے (گویا تین صحابہؓ کے طریق سے ثابت ہے) ایسا معلوم ہوتا ہے کہ نووی پر اس کی تاویل نہیں کھلی۔

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ :۔
آنحضرت ﷺ نے فرمایا :۔
ابو بکر ٍ افضل ھذہ الامۃ الا ان یکون نبیٌ
(کنوزالحقائق فی حدیث خیر الخلائق جلد اول ص۵ المکتبۃ السلامیہ سمندری لائل پور)
کہ حضرت ابوبکرؓ اس امت میں سب سے افضل ہیں سوائے اس کے کہ آئندہ کوئی نبی( امت میں) ہو جائے تو اس سے افضل نہیں ہوں گے ۔
ایک اور حدیث میں وارد ہے :۔
اَبُوْبَکرٍ خَیْرُ النَّاسِ بَعْدِیْ اِلَّا اَنْ یَکُوْنَ نَبِیٌ
(کنز العمال جلد۱۱ حدیث نمبر۳۲۵۴۸۔مطبوعہ مکتبۃ التراث اسلامی حلب وطبرانی وابن عدی فی الکامل بحوالہ جامع الصغیر للسیوطی۔ صفحہ ۵)
کہ حضرت ابوبکر میرے بعد سب انسانوں سے بہتر ہیں بجز اس کے کہ آئندہ کوئی نبی ہو۔
ان دونوں حدیثوں میں آنحضرت ﷺ نے الاان یکون نبیٌ کے الفاظ استعمال فرما کرنبی ہونے کا امکان قرار دیا ہے
اگر امکان نہ ہوتا تو استثناء کرنے کی کوئی ضرورت ہی نہ تھی۔

امکان نبوت از بزرگان سلف
ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا :
سب سے پہلا قول ہم ام المومنین حضرت عائشہ الصدیقہ معلمۂِ نصف الدین رضی اللہ عنہا کا پیش کرتے ہیں ۔آپ فرماتی ہیں:۔
قُوْلُوْا اِنَّہٗ خَاتَمُ الْاَنْبِیَاءِ وَلَا تَقُوْلُوْا لَا نَبِیَّ بَعْدَہٗ (تکملہ مجمع البحار صفحہ۸۵مطبع منشی نول کشور)
یعنی لوگو یہ تو کہو کہ آنحضرت ﷺخاتم الانبیاء ہیں مگر یہ نہ کہو کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں۔
اس سے ظاہر ہے کہ ام المومنین ؓ خاتم النبیین کے معنی محض آخری نبی جو مودودی صاحب کے مد نظر ہیں درست نہیں سمجھتیں بلکہ ان معنی کو اختیار کرنے اور فروغ دینے سے ساری امت کو منع فرماتی ہیں۔
حضرت اُمّ المومنینؓ نے لا نَبِیَّ بَعْدَہٗ کہنے سے اس لئے منع فرمایا کہ تا اُمّت غلط معنوں پر قائم نہ ہو جائے کیونکہ ان الفاظ کا محلِ وقوع مختلف حدیثوں میں یہ ظاہر کرنے کے لئے نہیں آیا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مطلق کوئی نبی نہیں آسکتا۔
نوٹ: تفسیر درمنثور سے ظاہر ہے کہ اس روایت کی تخریج ابن ابی شیبہ محدث نے حضرت اُمّ المومنین عائشہ الصدیقہ رضی اللہ عنہا سے کی ہے۔
اس حدیث کی تشریح میں امام محمد طاہر علیہ الرحمۃ نے لکھاہے:
ھٰذَا نَاظِرٌ اِلٰی نُزُوْلِ عِیْسٰی وَھٰذَا اَیْضًا لَایُنَافِیْ حَدِیْثَ لَانَبِیَّ بَعْدِیْ لِاَنَّہٗ اَرَادَلَا نَبِیَّ یَنْسَخُ شَرْعَہٗ۔
(تکملہ مجمع البحار صفحہ 85 مطبوعہ مطبع نول کشورآگرہ)
ترجمہ : حضرت ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ قول عیسیٰ کے نزول کے پیشِ نظر ہے اور یہ قول حدیث لا نَبِیَّ بَعْدیْ کے بھی خلاف نہیں کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد لا نَبِیَّ بَعْدِیْ سے یہ تھی کہ کوئی نبی آپ کی شریعت کو نسخ کرنے والا نہیں آئے گا۔
حضرت امام محمد طاہر رحمہ اللہ :۔
حضرت امام محمد طاہرؒ (متوفی۹۸۶ھ) بڑے مشہور ومعروف بزرگ تھے انہوں نے حضرت عائشہ ؓ کے اس ارشاد کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا:۔
ھذا ناظر الی نزول عیسی وھذا ایضا لا ینافی حدیث لانبی بعدی لانہ اراد لانبی ینسخ شرعہ۔
(تکملہ مجمع البحار الانوار صفحہ ۸۵)
کہتے ہیں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ قول اس بناء پر ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام نے بحیثیت نبی اللہ نازل ہونا ہے اور یہ قول حدیث لانبی بعدی کے خلاف بھی نہیں کیونکہ آنحضرت ﷺکی مراد اس قول سے یہ ہے کہ آپؐ کے بعد ایسا نبی نہیں ہوگا جو آپؐ کی شریعت منسوخ کرے۔
حضرت ملا علی قاری رحمہ اللہ :
اہل سنت میں حضرت ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ (متوفی ۱۶۰۶ء/۱۰۱۴ھ)بہت بڑے فقیہہ گزرے ہیں۔ آپ حنفی تھے ۔ علم حدیث اور فقہ کے بڑے ماہر تھے ۔مشکوٰۃ کی شرح بھی کی۔ جب ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا بیٹا ابراہیم جب وفات پاگیا تو آپؐ نے فرمایا لَوْ عَاشَ اِبْرَاہِیْمُ لَکَانَ صِدِیْقًا نَّبِیًّا۔ کہ اگر ابراہیم زندہ رہتا تو یقینا صدیق نبی ہوتا۔
(ابن ماجہ کتاب الجنائز باب ماجاء فی الصلاۃ علی ابن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و ذکر وفاتہ)
اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے آپ اپنی کتاب ’’موضوعات کبیر‘‘ کے صفحہ۵۸،۵۹ پر فرماتے ہیں:۔
فَلاَ یُنَاقِضُ قَوْلُہٗ خَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ اِذِ الْمَعْنَی اَنَّہٗ لاَ یَاتِیْ نَبِیٌّ یَنْسَخُ مِلَّتَہٗ وَ لَمْ یَکُنْ مِنْ اُمَّتِہٖ
یعنی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول کہ (ابراہیم زندہ رہتے تو صدیق نبی بنتے) آیت خاتم النبیین کے مناقض نہیں کیونکہ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ کوئی نبی نہیں آسکتا جو (اول) آپ کی ملت کی تنسیخ کرنے والا ہو ۔ (دوم) اور آپ کی امت میں سے نہ ہو۔
حضرت ملا علی قاری (متوفی ۱۶۰۶ء/۱۰۱۴ھ)فرماتے ہیں:۔
’’وَرَدَ ’’لَانَبِیَّ بَعْدِیْ‘‘ مَعْنَاہُ عِنْدَ الْعُلَمَاءِ انہ لَایَحْدُثُ بعدہ نَبِیٌّ بِشَرْعٍ یَنْسَخُ شَرْعَہٗ ‘‘
(الاشاعۃ لاشراط الساعۃ صفحہ ۱۴۹ مطبع دارالکتب العلمیہ بیروت۔ لبنان)
ترجمہ:۔حدیث میں لانبی بعدی کے جو الفاظ آئے ہیں اس کے معنی علماء کے نزدیک یہ ہیں کہ کوئی نبی ایسی شریعت لے کر پیدا نہیں ہوگا جو آنحضرت ﷺ کی شریعت کو منسوخ کرتی ہو۔
حضرت محی الدین ابن عربی رحمہ اللہ:۔
چھٹی صدی ہجری کے ممتاز ہسپانوی مفسر اور پیشوائے طریقت صوفی الشیخ الاکبر حضرت محی الدین ابن عربیؒ (متوفی۱۲۴۰ء/۶۳۸ھ) فرماتے ہیں:۔
’’فَالنُّبُوَّۃُ سَارِیَۃٌ اِلَی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ فِیْ الْخَلْقِ وَ اِنْ کَانَ التَّشْرِیْعُ قَدِ انْقَطَعَ ـ فَالتَّشْرِیْعُ جُزْء مِّنْ اَجْزَاءِ النُّبُوَّۃِ‘‘
(فتوحات مکیہ جلد۲۔ صفحہ۹۰۔ باب ۷۳ نمبر ۸۲۔مطبوعہ مصر)
ترجمہ:۔ کہ نبوت مخلوق میں قیامت کے دن تک جاری ہے گو تشریعی نبوت منقطع ہوگئی ہے۔ پس شریعت نبوت کے اجزاء میں سے ایک جزء ہے۔
حدیث لا نَبِیَّ بَعْدِیْ کی تشریح میں تحریر فرماتے ہیں:۔
فَمَا ارْتَفَعَتِ النُّبُوَّۃُ بِالْکُلِیَّۃِ وَلِھٰذَا قُلْنَا اِنَّمَا ارْتَفَعَتْ نُبُوَّۃُ التَّشْرِیْحِ فَھٰذَا مَعْنٰی لَا نَبِیَّ بَعْدَہ۔
ترجمہ : نبوت کلی طور پر بند نہیں ہوئی اس لئے ہم نے کہا صرف تشریعی نبوت بند ہوئی ہے پس لا نَبِیَّ بَعْدِیْ کے یہی معنی ہے ۔
(فتوحات مکیہ جلد 2صفحہ 58مطبوعہ دار صادر بیروت)
حدیث لا نبی بعدی کی تشریح کرتے ہوئے مزید فرماتے ہیں :۔
اِنَّ النُّبُوَّۃَ الَّتِی انْقَطَعَتْ بِوَجُوْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ اِنَّمَا ھِیَ نُبُوَّۃُ التَّشْرِیْعِ لَا مُقَامُھَا فَلاَ شَرْعَ یَکُوْنُ نَاسِخًا لِشَرْعِہٖ ﷺوَلاَ یَزِیْدُ فِیْ حُکْمِہٖ شَرْعًا اٰخَرَوَھٰذَا مَعْنٰی قَوْلِہٖ ﷺ اِنَّ الرِّسَالَۃَ وَالنُّبُوَّۃَ قَدِانْقَطَعَتْ فَـلَا رَسُوْلَ بَعْدِیْ وَلَا نَبِیَّ اَیْ لَا نَبِیَّ یَکُوْنُ عَلٰی شَرْعٍ یُّخَالِفُ شَرْعِیْ بَلْ اِذَا کَانَ یَکُوْنُ تَحْتَ حُکْمِ شَرِیْعَتِیْ ولا رسول ای لا رسول بعدی الی احدمن خلق اللہ بشرع یدعوھم الیہ فھذا ھوالذی انقطع وسد بابہ لا مقام النبوۃ۔ (فتوحات مکیہ جلد۲باب۷۳ص۳)
ترجمہ :۔ وہ نبوت جو آنحضرت ﷺ کے وجود پر ختم ہوئی وہ صرف تشریعی نبوت ہے نہ کہ مقام نبوت پس آنحضرت ﷺ کی شریعت کو منسوخ کرنے والی کوئی شریعت نہیں آ سکتی اور نہ اس میں کوئی حکم بڑھا سکتی ہے اور یہی معنی ہیں آنحضرت ﷺ کے اس قول کے کہ رسالت اور نبوت منقطع ہو گئی اور لارسول بعدی ولا نبی یعنی میرے بعد کوئی ایسا نبی نہیں جو میری شریعت کے خلاف کسی اور شریعت پر ہو ،ہاں اس صورت میں نبی آ سکتا ہے کہ وہ میری شریعت کے حکم کے ماتحت آئے اور میرے بعد کوئی رسول نہیں یعنی میرے بعد دنیا کے کسی انسان کی طرف کوئی ایسا رسول نہیں آ سکتا جو شریعت لے کر آوے اور لوگوں کو اپنی شریعت کی طرف بلانے والا ہو پس یہ وہ قسم نبوت ہے جو بند ہوئی اور اس کا دروازہ بند کر دیا گیا ورنہ مقام نبوت بند نہیں ہے۔
حضرت سید شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ :۔
حضرت ولی اللہ شاہؒ محدث دہلوی و مجدّد بارھویں صدی تحریر فرماتے ہیں:۔
1۔ خُتِمَ بِہِ النَّبِیُّوْنَ اَیْ لَا یُوْجَدُبَعْدَہٗ مَنْ یَأمُرُہُ اللّٰہُ سُبْحَانَہٗ بِالتَّشْرِیْعِ عَلَی النَّاسِ ۔
ترجمہ : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نبی اس طرح ختم کئے گئے ہیں کہ ایسا شخص نہیں پایا جائے گا جسے اللہ لوگوں پر نئی شریعت دے کر مامور کرے۔
(تفہیمات الٰہیہ تفہیم نمبر ۵۴ ص۸۵شاہ ولی اللہ اکیڈمی حیدر آباد سندھ)
پھر فرماتے ہیں:
اِمْتَنَعَ اَنْ یَّکُوْنَ بَعْدَہٗ نَبِیٌّ مَسْتَقِلٌ بِالتَّلَقِّیْ۔
ترجمہ : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مستقل بالتلقی (یعنی شارع نبی ) نہیں آسکتا۔ (الخیر الکثیر صفحہ 266مطبوعہ مطبع سعیدی کراچی )
حدیث نبوی لَمْ یَبْقَ مِنَ النُّبُوَّۃَ اِلاَّ الْمُبَشِّرَاتُ کی روشنی میں تحریر فرماتے ہیں۔
لِاَنَّ النُّبُوَّۃَ تَتَجَزّٰی وَجُزْءٌ مِّنْھَا بَاقٍ بَعْدَ خَاتَمِ الْاَنْبِیَاءِ۔
ترجمہ: نبوت قابل تقسیم ہے اور نبوت کی ایک جزء (قسم) حضرت خاتم الانبیا کے بعد باقی ہے۔
(المسوّیٰ شرح مؤطّا امام مالکؒ جلد 2 صفحہ216مطبوعہ دہلی)
عارف ربانی سید عبد الکریم جیلانی علیہ الرحمۃ:
عارف ربانی سید عبد الکریم جیلانی علیہ الرحمۃ تحریر فرماتے ہیں:۔
فَانْقَطَعَ حُکْمُ نُبُوَّۃِ التَّشْرِیْعِ بَعْدَہٗ وَکَانَ مُحَمَّدٌ ﷺ خَاتَمَ النَّبِیّیْنَ لِاَنَّہٗ جَآءَ بِالْکَمَالِ وَلَمْ یَجِیئْ اَحَدٌ بِذٰلِکَ۔
ترجمہ: آنحضرت ﷺ کے بعد تشریعی نبوت کا حکم منقطع ہوا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین قرار پائے کیونکہ آپ ایسی کامل شریعت لے کر آئے جو کوئی اور نبی نہیں لایا۔
(الانسان الکامل باب۳۶ جلداول ص۷۵دارالکتب العربیہ الکبریٰ مصر)
حضرت امام عبد الوھاب شعرانی علیہ الرحمۃ:
عبد الوہاب الشعرانی قلقشندہ (مصر) میں 897ھ بمطابق 1493ء میں پیدا ہوئے ۔ عبد الوہاب الشعرانی نے 973ھ بمطابق1565ءقاہرہ میں وفات پائی۔ ؎ حضرت امام عبد الوھاب شعرانی علیہ الرحمۃ (متوفی۹۷۶ھ) واشگاف الفاظ میں لکھتے ہیں:۔
اِعْلَمْ اَنَّ مُطْلَقَ النُّبُـوَّۃِ لَـمْ یَرْتَفِعْ وَ اِنَّمَا ارْتَفَعَ نُبُوَّۃُ التَّشْرِیْعِ فَقَطْ۔
ترجمہ: یاد رکھو کہ مطلق نبوت نہیں اُٹھی، صرف شریعت والی نبوت مقطع ہوئی ہے۔
(الیواقیت والجواہر جلد۲ص ۳۴۶مبحث نمبر۳ ۳داراحیاء التراث العربی بیروت لبنان)
حضرت امام عبدالوہاب شعرانی ؒ(متوفی۹۷۶ھ) حدیث لانبی بعدی کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں :۔
فقولہ ﷺ لانبی بعدی ولارسول بعدی ای ما ثم من یشرع بعدی شریعۃخاصۃ۔ ترجمہ :۔ آنحضرت ﷺ کے قول لانبی بعدی اور لا رسول بعدی سے مراد یہ ہے کہ آپؐ کے بعد شریعت لانے والا نبی نہیں ہوگا۔
(الیواقیت والجواہر جلد۲ صفحہ۳۹)
امام فخر الدین رازی:
آپ ایران میں 1149ء میں پیدا ہوئے ۔ اور 1210 ء میں آپ کی وفات ہوئی ۔ بمطابق ( 544ھ تا ـ – 606هـ)
حضرت امام فخرالدین رازی (متوفی۵۴۴ھ) خاتم النبیین کا ترجمہ افضل الانبیاء کرتے ہیں ۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں :
فالعقل خاتم الکل والخاتم یجب ان یکون افضل الا تری ان رسولنا ﷺلما کان خاتم النبیین کان افضل الانبیاء
ترجمہ :۔ عقل تمام کی خاتم ہے اور خاتم کے لیے واجب ہے کہ وہ افضل ہو دیکھوہمارے رسول ﷺخاتم النبیین ہوئے تو سب نبیوں سے افضل قرار پائے ۔
(تفسیر کبیر رازی جلد ۱۱صفحہ۳۴ طبع ثانیہ دارالکتب العلمیہ طہران)
علامہ ابن خلدون
(پیدائش: 1332ء -وفات: 1406ء) ۔ آپ تیونس میں پیدا ہوئے ۔  ابن خلدون کو تاریخ اور عمرانیات کا بانی تصور کیا جاتا ہے۔  ان کا سب سے بڑا کارنامہ مقدمتہ فی التاریخ ہے جو مقدمہ ابن خلدون کے نام سے مشہور ہے۔
علامہ عبد الرحمٰن بن خلدون المغربی رحمتہ اللہ علیہ (وفات ۱۴۰۶ء/۸۰۸ھ) کے نزدیک ختم ولایت کا وہی مفہوم ہے جو ختم نبوت کا ہے ۔آپ فرماتے ہیں :۔
’’وَیُمَثِّلُوْنَ الْوِلَایَۃَ فِیْ تَفَاوُتِ مَرَاتِبِھَا بِالنُّبُوَّۃِ وَیَجْعَلُوْنَ صَاحِبَ الْکَمَالِ فِیْھَا خَاتَمَ الْاَوْلِیَائِ اَیْ حَائِزَ الرُّتْبَۃِ الَّتِیْ ھِیَ خَاتِمَۃُ الْوِلَایَۃِ کَمَا کَانَ خَاتَمُ الْاَنْبِیَاءِ حَاِئزاً لِلْمَرْتَبَۃِ الَّتِیْ ھِیَ خَاتِمَۃُ النُّبُوَّۃِ۔ ‘‘
(مقدمہ ابن خلدون صفحہ ۳۲۴ مطبع مصطفی محمد ۔مصر)
(مقدمہ ابن خلدون مصر مطبوعہ مطبعتہ الازہریہ۱۳۱۱ھ صفحہ۱۹۲‘۱۹۳)
ترجمہ:۔ولایت کو اپنے تفاوت مراتب میں نبوت کا مثیل قرار دیتے ہیں اور اس میں کامل ولی کو خاتم الاولیاء ٹھہراتے ہیں۔ یعنی اس مرتبہ کا پانے والا جو ولایت کا خاتمہ ہے۔ جس طرح سے حضرت خاتم الانبیاء اس مرتبہ کمال کے پانے والے تھے جو نبوت کا خاتمہ ہے۔
تشریح: زمانی لحاظ سے خاتمہ نہیں بلکہ مرتبہ اور مقام کے لحاظ سے ورنہ تو ولایت کو بھی ہمیشہ کے لئے چھٹی دینی پڑے گی نعوذباللہ من ذالک امت کو ولایت سے محروم ہو جانا پڑے گا ۔
علامہ ابن خلدون کہتے ہیں :۔
یفسرون خاتم النبیین باللبنۃ حتی اکملت البنیان ومعناہ النبی الذی حصلت لہ النبوۃ الکاملۃ
(مقدمہ ابن خلدون جلد اول صفحہ ۲۷۱ مصر مطبعۃ الازہریہ۱۳۴۸)
ترجمہ :۔ لوگ ختم النبیین کی تفسیر اس اینٹ سے کرتے ہیں کہ جس سے عمارت مکمل ہو گئی لیکن اس کے معنے یہ ہیں کہ وہ نبی جس کے لئے نبوت کاملہ حاصل کی گئی۔
حضرت شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانی :
(پیدائش: مئی  1564ء— وفات: 10 دسمبر 1624ء) ۔ پیدائش سر ہند شریف ہندوستان میں ہوئی ۔ 1599 ء میں خواجہ باقی باللہ کے ہاتھ پر بیعت کی ۔ وفات 1034 ھ میں ہوئی۔ مغل بادشاہ جلال الدین اکبر کے دور میں بہت سی ہندوانہ رسوم و رواج اور عقائد اسلام میں شامل ہو گئے تھے۔ آپ نے ان بدعات کو ختم کرنے کی بھرپور کوشش کی ۔ مغل بادشاہ جہانگیر نے اس وجہ سے قید کیا تھا کہ آپ نے بادشاہ کو سجدہ نہ کیا ۔
گیارھویں صدی ہجری کے مجدد حضرت شیخ احمد فاروقی سرہندی (وفات ۱۶۲۴ء /۱۰۳۴ھ) فرماتے ہیں:۔
’’حصول کمالات نبوت مرتابعان رابطریق تبعیت ووراثت بعد از بعثت ختم الرسل علیہ وعلی جمیع الانبیاء والرسل الصلوٰۃ والتحیات منافی خاتمیت اونیست علیہ وعلیٰ آلہ الصلوٰۃ والسلام فلا تکن من الممترین۔‘‘
(مکتوب نمبر ۳۰۱ صفحہ ۴۳۲ جلد اوّل از مکتوبات امام ربانی حضرت مجدد الف ثانیؒ در مطبع نامی منشی نولکشور)
ترجمہ:۔کہ ختم الرسل حضرت محمد مصطفی ﷺ کی بعثت کے بعد آپؐ کے متبعین کا آپؐ کی پیروی اور وراثت کے طور پر کمالات نبوت کا حاصل کرنا آپؐ کے خاتم الرسل ہونے کے منافی نہیں لہذا اے مخاطب تو شک کرنے والوں میں سے نہ ہو۔
مرزا مظہر جان جانان:
(پیدائش: 13 مارچ 1699ء— وفات: 6 جنوری 1781ء) ہندوستان میں پیدا ہوئے ۔ آپ کے والد مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر کے دربار میں صاحب منصب تھے ۔
تصوف اور شعر وادب کے شہسوار نقشبندی بزرگ حضرت مرزا مظہر جان جاناں علیہ الرحمتہ (وفات محرم ۱۷۸۱ء/۱۱۹۵ھ)نے فرمایا:۔
’’ہیچ کمال غیر از نبوت بالا صالہ ختم نہ گردیدہ و در مبداء فیاض بخل ودریغ ممکن نیست۔‘‘
(مقامات مظہری صفحہ ۸۸)
ترجمہ:۔کہ سوائے مستقل نبوت تشریعیہ کے کوئی کمال ختم نہیں ہوا باقی فیوض میں اللہ تعالیٰ کے لئے کسی قسم کا بخل اور تردد ممکن نہیں۔
عبداللہ الحکیم الترمذی (متوفی 308 ھ ) :۔
آج کے مولوی کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ شریعت کے لحاظ سے بھی آپؐ آخری نبی اور زمانی لحاظ سے بھی آپؐ آخری نبی ہیں اور آپؐ کے بعد کسی قسم کا کوئی نبی آ ہی نہیں سکتا یہ لوگ ضد میں آکر آج تو یہ کہتے ہیں مگر امت کے بزرگ کیا کہتے رہے ہیں وہ سنئے۔
حضرت حکیم ترمذی امت میں ایک بہت بڑے بزرگ ، صوفی گزرے ہیں۔ آپ کا سن وفات21 صفر المظفر 255ھ لکھا ہے ۔ یعنی تیسری صدی ہجری۔ ان کی کتاب ہے ’’ختم الاولیاء ‘‘یہ بیروت سے شائع ہوئی ۔ صفحہ نمبر ۳۴۱اور الفصل الثامن ہے ۔ اس فصل میں صفحہ ۳۴۱ پر فرماتے ہیں کہ :۔
فھو خاتم النبیین و معناہ عندنا: ان النبوہ تمت باجمعھا لمحمد ﷺفجعل قلبہ لکمال النبوۃ وعاء علیھا ۔ ثم خُتِم ۔
ترجمہ : حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں۔ اور ہمارے نزدیک خاتم النبیین کا معنی یہ ہے کہ نبوت کے تمام کمالات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں جمع ہوگئے۔ چنانچہ آپ پاکیزہ دل نبوت کے کمالات کے لئے ایک برتن کی طرح قرارپائے پھر مہر لگا کر آپ کے کمالات کو محفوظ کردیا۔
پھر فرماتے ہیں :
فان الذی عمِی عن خبر ھذا یَظُن انَّ خاتمَ النبیین تاویلُہ انہ آخرُھم مبعثا فایُّ مَنْقَبَۃ فی ھذا؟وای عِلم فی ھذا؟ ھذا تاویل البُلہ الجَھلۃ ۔
(کتاب ختم الاولیاء صفحہ۳۴۱ ، فصل الثامن ۔ مطبعۃ الکاثولیکیہ بیروت)
جو لوگ اس بات سے بے خبر ہیں نابینا ہیں وہ خیال کرتے ہیں گمان کرتے ہیں کہ خاتم النبیین کی تاویل یہ ہے کہ آپ مبعوث ہونے کے اعتبار سے آخری نبی ہیں بھلا اس میں آپ کی کیا فضیلت وشان ہے ؟اور اس میں کونسی علمی بات ہے ؟یہ تو احمقوں اور جاہلوں کی تاویل ہے ۔
مولاناجلال الدین رومی رحمہ اللہ :
مولانا رومی 1207ء بمطابق 6 ربیع الاول 604ھ میں بلخ میں پیدا ہوئے۔ قریباً 66 سال کی عمر میں سن 1273ء بمطابق 672ھ میں انتقال کر گئے۔
رئیس الصوفیاء حضرت مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں:۔
مکر کن در راہ نیکو خدمتے تا نبوت یابی اندر امتے
(مثنوی دفتر پنجم ص ۱۳مطبع مجید واقع کانپور) (مثنوی مولانا رومؒ دفتر پنجم صفحہ 57مطبوعہ الفیصل ناشران و تاجران کتب لاہور )
یعنی خدا کی راہ میں نیکی بجا لانے کی ایسی تدبیر کر کہ تجھے امت کے اندر نبوت مل جائے۔
خاتم کے معنے یوں بیان کرتے ہیں:۔
بہرایں خاتم شد است اوکہ بجود مثلِ اونے بُودنے خواہند بود
(مثنوی مولانا رومؒدفتر ششم صفحہ 30مطبع الفیصل اردو بازار لاہور )
ترجمہ: یعنی آپ خاتم اس لئے ہوئے ہیں کہ فیضِ روحانی کی بخشش میں آپ کی مثیل نہ کوئی نبی پہلے ہوا ہے اور نہ ایسا آئندہ ہوگا۔
پھر فرماتے ہیں:۔ چونکہ در صنعت برداستاد دست تو نہ گوئی ختمِ صنعت بر تو است
(مثنوی مولانا رومؒدفتر ششم صفحہ 30مطبع الفیصل اردو بازار لاہور )
ترجمہ: جب کوئی استاد صنعت اوردستکاری میں دوسروں سے سبقت لے جاتا ہے تو کیا اے مخاطب! تو یہ نہیں کہتا کہ تجھ پر صنعت و دستکاری ختم ہے (یعنی تجھ جیسا کوئی صنعت گر اور دستکار نہیں۔)
نواب صدیق حسن خان
نواب صدیق حسن خان صاحب 1248ھ بمطابق 1823ء کو بانس بریلی  میں پیدا ہوئے ۔ آبائی وطن بریلی ۔ یو۔ پی ہندوستان ہے ۔ آپ اہل حدیث کے مشہور عالم تھے ۔ وفات29 جمادى الآخر1307ھ / 1890کو ہوئی۔
آپ فرماتے ہیں:۔
’’حدیث لا وحی بعد موتی بے اصل ہے البتہ لا نبی بعدی آیا ہے جس کے معنی نزدیک اہل علم کے یہ ہیں کہ میرے بعد کوئی نبی شرع ناسخ نہ لاوے گا‘‘۔ (اقتراب الساعۃ از نور الحسن خان ابن نواب صدیق حسن خان صفحہ۱۶۲۔طبع۱۳۰۱ھ۔ مفید عام پریس آگرہ)
نواب صدیق حسن خان صاحب اپنی کتاب ’’حجج الکرامہ فی آثار القیامۃ ‘‘صفحہ۴۳۱ میں علماء سلف کے اقوال کی بناء پر یہ اعلان کرتے ہیں کہ:۔
’’مَنْ قَالَ بِسَلْبِ نُبُوَّتِہِ فَقَدْ کَفَرَ حَقَّا کَمَا صَرَّحَ بِہِ السَّیُوْطِیُّ ؒ‘‘
(حجج الکرامہ صفحہ۴۳۱۔ مطبع شاہجہانی واقع بھوپال)
ترجمہ:۔ کہ جو شخص یہ عقیدہ رکھے کہ حضرت مسیح نبوت سے علیحدہ ہو کر آئیں گے وہ کھلا کافر ہے جیسا کہ امام سیوطیؒ نے تصریح کی ہے۔
مولوی عبدالحی لکھنوی:
آ پ کا نام محمد عبدالحی تھا اور کنیت ابو الحسنات تھی ۔ آپ حنفی تھے ۔ اور بریلوی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ 6 ذوالقعدہ 1264ھ بمطابق 24 اکتوبر 1848ء کو بانڈہ، ہندوستان میں  پیدا ہوئے۔ آپ  ربیع  الاول 1304ھ 1886ء کو 39 سال کی عمر میں وفات پا گئے ۔
بریلوی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے مولوی ابو الحسنات محمد عبدالحی صاحب لکھنوی فرنگی محل اپنی کتاب ”دافع الوساوس”کے صفحہ ١٦ پر اپنا مذہب ختم نبوت کے بارہ میں پیش کرتے ہیں :۔
”بعد آنحضرتؐ کے یا زمانے میں آنحضرتؐ کے مجرد کسی نبی کا ہونا محال نہیں بلکہ صاحب شرع جدید ہونا البتہ ممتنع ہے ”
(دافع الوسواس فی اثر ابن عباس ایڈیشن جدید ص۱۶مطبع یوسفی واقع فرنگی محل لکھنؤ)
پھر یہی مولوی صاحب فرماتے ہیں کہ یہ میرا عقیدہ ہی نہیں بلکہ علمائے اہل سنت بھی اس امر کی تصریح کرتے چلے آئے ہیں چنانچہ فرماتے ہیں :۔
” علمائے اہل سنت بھی اس امر کی تصریح کرتے ہیں کہ آنحضرت ؐ کے عصر میں کوئی نبی صاحب شرع جدید نہیں ہو سکتا اور نبوت آپؐ کی عام ہے اور جو نبی آپ کے ہم عصر ہوگا وہ متبع شریعت محمدیہؐ کا ہوگا ”     ( مجموعہ فتاوٰی جلد١مولوی محمد عبدالحی صاحب صفحہ١٧)
عبدالقادر الکردستانی
آپ کی وفات 1304 ھ میں ہوئی ۔ آپ نے کتاب تقريب المرام في شرح تهذيب الكلام، عربی زبان میں لکھی ۔ جو کہ ’’تهذيب الكلام في تحرير المنطق و الكلام ‘‘ کی شرح ہے ۔ جناب الشیخ عبد القادر الکردستانی تحریر فرماتے ہیں:۔
’’اِنَّ مَعْنَی کَوْنِہٖ خَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ ھُوَ اَنَّہٗ لَایُبْعَثُ بَعْدَہٗ نَبِیٌّ اٰخَرُ بِشَرِیْعَۃٍ اُخْرٰی ‘‘
ترجمہ:۔کہ آنحضرت ﷺ کے خاتم النبیین ہونے کے یہ معنی ہیں کہ آپ کے بعد کوئی نبی نئی شریعت لے کر مبعوث نہ ہوگا۔
(تقریب المرام جلد۲ صفحہ ۲۳۳ مطبع الکبری الامیریہ ببولاق مصر الحمیۃ مطبوعہ ۱۳۱۹ھ)
مولانامحمد قاسم نانوتوی:
حضرت مولوی محمد قاسم صاحب 1248ھ میں پیدا ہوئے اور 1297 ھ میں وفات پائی ۔ آبائی وطن ’’نانوتہ ‘‘ ضلع سہارنپور ، اتر پردیش ہندوستان تھا ۔ آپ نے ہندوستان کے عظیم مدرسہ دارالعلوم دیوبند کی بنیاد رکھی ۔
حضرت مولوی محمد قاسم صاحب نانوتوی بانیٔ مدرسہ دارالعلوم دیو بند اپنی کتاب ’’تحذیر الناس‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں:۔
’’ اوّل معنی خاتم النبیین معلوم کرنے چاہئیں۔ تاکہ فہم جواب میں کچھ دقت نہ ہوکہتے ہیں۔ سوعوام کے خیال میں تو آنحضرت ﷺ کاخاتم ہونا بایں معنی ہے کہ آپ کا زمانہ انبیائے سابق کے زمانہ کے بعد اور آپ سب میں آخری نبی ہیں مگر اہل فہم پر روشن ہوگا کہ تقدم و تأخر زمانی میں بالذات کچھ فضیلت نہیں ۔پھر مقام مدح میں وَلَکِنْ رَّسُوَل اللّٰہ وَخَاتَمَ النَّبِیِّیْن فرمانا کیوں کر صحیح ہو سکتا ہے‘‘
(تحذیر الناس ص ۳)
گویا خاتم النبیین کے معنی محض آخری نبی آپ کے نزدیک عوام کے معنی ہیں نہ کہ اہل فہم کے معنی۔
پھر وہ خاتم النبیین کے معنی یہ بیان فرماتے ہیں:۔
’’آنحضرت ﷺ موصوف بوصف ِ نبوت بالذات ہیں اور سوا آپ کے اور نبی موصوف بوصف ِ نبوت بالعرض ہیں ۔اوروں کی نبوت آپ کا فیض ہے مگر آپ کی نبوت کسی اور کا فیض نہیں ۔اس طرح آپ پر سلسلہ نبوت مختتم ہو جاتا ہے غرض جیسے آپ نبی اللہ ہیں ویسے ہی نبی الانبیاء بھی‘‘ (تحذیر الناس ص ۳،۴)
گویا نبی الانبیاء خاتم النبیین کے معنی ہیں جو اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ خاتم النبیین ﷺ کا وصف نبوت ذاتی ہے اور آپ کے سوا دیگر تمام انبیاء کا وصف نبوت عرضی ہے یعنی آپ کا فیض ہے ۔ان معنوں کا مفاد آپ یہ بیان فرماتے ہیں:۔
’’بالفرض اگر بعد زمانہ نبوی ﷺبھی کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہیں آئے گا ‘‘ (تحذیر الناس ص ۲۸)
قاری محمد طیب صاحب مہتمم دارلعلوم دیو بند :
آپ امام محمد قاسم نانوتوی کے پوتے ہیں اور مولانا محمد احمد نانوتوی کے فرزندِ ارجمند۔ آپ کی پیدائش 1315ھ مطابق 1898ء میں ہوئی۔ اور وفات 17جولائی 1983 مطابق 6شوال 1403ھ کو ہوئی ۔  1931ء میں الامام المجدد حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ سے خلافت بھی حاصل کی ۔
دیو بندی فرقہ کے بانی حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کے پوتے قاری محمد طیب صاحب مہتمم دارالعلوم دیو بند آنے والے مسیح کی شان بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:۔
’’لیکن پھر سوال یہ ہے کہ جب خاتم الدجّالین کا اصلی مقابلہ تو خاتم النبیین سے ہے مگر اس مقابلہ کے لئے حضور کا دنیا میں تشریف لانا مناسب،نہ صدیوں باقی رکھا جانا شایان شان، نہ زمانہ نبوی میں مقابلہ ختم قرار دیا جانا مصلحت اور ادھر ختم دجالیت کے استیصال کے لئے چھوٹی موٹی روحانیت تو کیا بڑی سے بڑی ولایت بھی کافی نہ تھی عام مجدّدین اور اربابِ ولایت اپنی پوری روحانی طاقتوں سے بھی اس سے عہدہ برآ نہ ہوسکتے تھے جب تک کہ نبوت کی روحانیت مقابل نہ آئے۔ بلکہ محض نبوت کی قوت بھی اس وقت تک مؤثر نہ تھی جب تک کہ اس کے ساتھ ختم نبوت کا پاور شامل نہ ہو تو پھر شکست دجّالیت کی صورت بجز اس کے اور کیا ہو سکتی تھی کہ اس دجاّل اعظم کو نیست ونابود کرنے کے لئے امت میں ایک ایسا خاتم المجددین آئے جو خاتم النبیین کی غیر معمولی قوت کو اپنے اندر جذب کئے ہوئے ہو اور ساتھ ہی خاتم النبیین سے ایسی مناسبتِ تامہ رکھتا ہو کہ اس کا مقابلہ بعینہ خاتم النبیین کا مقابلہ ہو۔ مگر یہ بھی ظاہر ہے کہ ختم نبوت کی روحانیت کا انجذاب اسی مجدد کا قلب کر سکتا تھا جو خود بھی نبوت آشنا ہو محض مرتبۂ ولایت میں یہ تحمل کہاں کہ وہ درجۂ نبوت بھی برداشت کر سکے۔چہ جائیکہ ختم نبوت کا کوئی انعکاس اپنے اندر اتار سکے۔ نہیں بلکہ اس انعکاس کے لئے ایک ایسے نبوت آشنا قلب کی ضرورت تھی جو فی الجملہ خاتمیت کی شان بھی اپنے اندر رکھتا ہو ۔ تاکہ خاتم مطلق کے کمالات عکس اس میں اتر سکے۔ اور ساتھ ہی اس خاتم مطلق کی ختم نبوت میں فرق بھی نہ آئے۔ اس کی صورت بجز اس کے اور کیا ہو سکتی تھی کہ انبیائے سابقین میں سے کسی نبی کو جو ایک حد تک خاتمیت کی شان رکھتا ہو اس امت میں مجدد کی حیثیت سے لایا جائے جو طاقت تو نبوت کی لئے ہوئے ہو مگر اپنی نبوت کا منصب تبلیغ اور مرتبہ تشریح لئے ہوئے نہ ہو بلکہ ایک امتی کی حیثیت سے اس امت میں کام کرے اور خاتم النبیین کے کمالات کو اپنے واسطے سے استعمال میں لائے۔‘‘
(تعلیمات اسلام اور مسیحی اقوام صفحہ ۲۲۸،۲۲۹ از قاری محمد طیب مہتمم دارالعلوم دیو بند پاکستانی ایڈیشن اول مطبوعہ مئی ۱۹۸۶ء نفیس اکیڈمی کراچی)

یہ بھی ملاحظہ فرمائیں

ختم نبوت کے بارہ میں احادیث نبویہ ﷺسے پیش کردہ غیراز جماعت کے دلائل اور ان کا رد

ختم نبوت کے بارہ میں احادیث نبویہ ﷺسے پیش کردہ غیراز جماعت کے دلائل اور ان کا رد لَا نَبِی…