حضرت بانی جماعت احمدیہ کی دعوت مقابلہ تفسیر نویسی اور پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی کی اصل واقعاتی حقیقت

قارئین کرام!آجکل سوشل میڈیا پر احمدیوں کے خلاف اشتعال انگیزمنفی مہم میں الزام تراشیوں کا ایک سلسلہ حسب دستور مخالفینِ صالحین جاری ہے۔ جس کی تردید ہراحمدی کی ذمہ داری ہے۔تاکہ ماحول میں فتنہ و فساد کی بجائے امن قائم رہے،اور حقیقت حال سب پر روشن رہے۔چنانچہ حال ہی میں ہمارے ملک میں ایک کانفرنس بظاہر ’’امن ‘‘ کے نام پر منعقد کی گئی ۔لیکن افسوس کہ جس میں سابقہ روش کے مطابق حضرت اقدس مسیح موعود ؑ کے خلاف منفی پروپیگنڈا کیا گیا۔اس کانفرس میں متفرق اعتراضات دہرائے گئے ،جو پچھلے سوا سو سال سے دہرائے جارہے ہیں۔اورجن کا ہر فورم خواہ تحریر ہو یا تقریر کا میدان، انتہائی مسکت جوابات دیئے جاتے ہیں۔لیکن اس کے برعکس مخالفین توقع کیے بیٹھے ہیں کہ لگاتارجھوٹ بھولتے جاؤ،شاید کسی نہ کسی دن یہ جھوٹ لوگوں کو سچ نظر آنے لگ جائے۔
اس کانفرنس میں کیے گئے مزعومہ بڑے اعتراضات کا دوبارہ جواب اعتراضات کومدنظر رکھ کر دہرانا مقصود ہے ، تاکہ کہی کسی کم علم کے ذہن میں یہ بات نہ آجائے کہ شاید اہل باطل کے اعتراضات میں اَب کچھ وزن پیدا ہوگیا ہو!
اس نام نہاد امن کانفرس میں صدر مقرر نے ،پیرمہر علی شاہ آف گولڑہ کی متفرق کرامات جماعت کے خلاف بیان کرکے یہ اعتراض اٹھایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تفسیر نویسی کا چیلنج دیا تھا۔ اور جب پیر صاحب گولڑوی مقابلہ میں آئے تو آپؑ نے گویا مقابلہ سے راہ ِ فرار اختیار کی۔نعوذ باللہ من ذالک
قارئین محترم یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے۔لَقَدْ کَانَ فِی قَصَصِہِمْ عِبْرَۃٌ لِّاُوْلِی الْاَلْبَابِ (یوسف:112) کہ انبیاء کے واقعات میں عقلمندوں کے لئے عبرت ہے ۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ سچی تاریخ اہل قلب و نظر کیلئے سبق اور نصیحت ہوتی ہے۔ مگر بُرا ہو اہل باطل کا جو ،اسے مسخ کرنے کی ہمیشہ ناکام کوشش کرتے رہتے ہیں۔ خدا کے ہر فرستادے کے ساتھ الٰہی تائید ونصرت کی یہ تاریخ اس زمانہ کے مامور مسیح و مہدی کے عہد میں بھی دہرائی گئی۔ ایسے بے شمار واقعات میں سے ایک مثال پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی کے مقابل پر تفسیر نویسی کا عظیم الشان اور زندہ جاوید نشان ہے،جسے مٹانے کی مذموم سعی کرنے والے آج بھی یہ دروغ بے فروغ پھیلانے سے باز نہیں آتے کہ پیر صاحب تومقابلہ کیلئے لاہور پہنچ گئے مگر مرزا صاحب نہ پہنچے اور یوں گویا انہیں شکست ہوئی۔ مگر حقائق تلخ ہوتے ہیں فی الواقع ایسا نہیں ،بلکہ معاملہ اسکے بالکل برعکس ہے۔
امر واقعہ یہ ہے کہ جب حضرت بانی جماعت احمدیہ نےخدا تعالیٰ سے الہام پا کر یہ دعویٰ فرمایا کہ آپ ہی وہ مسیح اور مہدی ہیں جن کے ظہور کی پیشگوئی آنحضرت ﷺ نے فرمائی تھی اور جس کے ذریعہ آخری زمانہ میں دین حق کا غلبہ مقدر تھا آپ نے اپنے دعویٰ کے حق میں قرآن و حدیث سے روشن دلائل پیش فرمائے اورکئی کامیاب مناظرے اور مباحثے کئے اور مخالف علماء کے تمام اعتراضات کے کافی و شافی جوابات پیش فرمائے۔ لیکن مخالف علماء کی بڑھتی ہوئی اشتعال انگزیوں خصوصاً مباحثوں اور مناظروں میں شرارتوں اور شرانگیز کارروائیوں اور بعض قانونی وجوہات کی بناء پر آپ نے 1896ء میں اپنی کتاب’’ انجام آتھم ‘‘میں یہ عہد کیا کہ آئندہ آپ مناظروں اور مباحثوں میں حصہ نہیں لیں گے۔
البتہ صوفیاء او ر اہل اللہ کہلانے والوں کیلئے روحانی مقابلہ کا میدان کھلا رکھا،یعنی مخالف علماء کے سامنے حق و صداقت میں فیصلہ کے لئے مباھلہ کا طریق پیش فرمایا۔چنانچہ آپ نے جن علماء اور سجادہ نشینوں کو اسی کتاب میں مباھلہ کی طرف بلایا ،ان میں گولڑہ ضلع راولپنڈی کے ایک مشہور پیر مہر علی شاہ صاحب بھی تھے۔
(اس مقابلہ کی تفصیل ساتھ ساتھ الحکم اخبار میں شائع ہوتی رہی۔یکجائی معلومات تاریخ احمدیت جلد دوئم اور حیات طیبہ از شیخ عبدالقادر صاحب سابق سوداگرمَل وغیرہ میں مرقوم ہیں۔جبکہ تفصیلی معلومات پر مبنی اصل حقائق اُسی وقت نومبر 1900ء میں ہی جبکہ ابھی عملاً’’ اعجاز المسیح‘‘ بھی تصنیف نہیں ہوئی تھی ۔اور اُس وقت تک ابھی پیر صاحب کی طرف منسوبہ کتاب ’’سیف چشتیائی‘‘بھی منظر عام پر نہیں آئی تھی،حضرت مفتی محمد صادق صاحب نےکتاب بعنوان’’واقعات صحیحہ‘‘میں درج کر کے اصل اشہتارات اور خطوط شائع کردیئے تھے۔ذیل میں درج مضمون بھی بنیادی طور پر انہی کتب سے مأخوذ ہے)
پیر مہر علی شاہ صاحب کا مختصر تعارف:
پیر صاحب کے سوانح نگار مکرم فیض احمد فیض صاحب کے مطابق پیر مہر علی شاہ صاحب یکم رمضان 1275ھ بمطابق 4اپریل 1859ء بروز سوموار پیدا ہوئے۔اور 29صفر1356ھ بمطابق 11مئی 1937ء وفات ہوئی۔
(مہر منیر ۔سوانح حیات پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑہ شریف ضلع راولپنڈی۔تألیف فیض احمد فیض۔پیدائش صفحہ 61۔وفات صفحہ335۔بار ہشتم ۔مقام اشاعت گولڑہ شریف ،ضلع اسلام آباد۔تاریخ اشاعت۔اگست 1997ء)
پیر صاحب صوفیا ء کے چشتی سلسلہ سے تعلق رکھتے تھے۔یاد رہے کہ پیر صاحب ابتداً حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بارہ میں حُسن ظنی اور عقیدت کے جذبات رکھتے تھے چنانچہ آپ کے ایک مرید بابو فیروز علی صاحب اسٹیشن ماسٹر گولڑہ نے (جو بعد میں بیعت کر کے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہو گئے) 1896 یا1897 میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بارہ میں دریافت فرمایا تو پیر صاحب نے بلاتامل جواب دیا کہ:۔
”امام جلال الدین سیوطی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ بعض اوقات منازل سلوک میں ایسے ہیں کہ وہاں اکثر بندگان خدا پہنچ کر مسیح و مہدی بن جاتے ہیں ۔بعض ان کے ہم رنگ ہوجاتے ہیں۔یہ مَیں نہیں کہہ سکتا کہ یہ شخص منازل سلوک میں اس مقام پر ہے یا حقیقتاً وہی مہدی ہے۔جس کا وعدہ جناب سرور کائنات علیہ الصلوۃ والسلام نے اس امت سے کیا ہے۔ مذاہب باطلہ کے واسطے یہ شخص شمشیر براں کا کام کر رہا ہے اور یقینا تائید یافتہ ہے” (الحکم ٢٤ جون ١٩٠٤ء ص٥ کالم ٣-۲)
اس بات کی مزید تائید کہ اس زمانہ میں پیر صاحب حضرت مسیح موعود کی نسبت نیک خیالات رکھتے تھے ،اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ موصوف کی سیرت وسوانح پر منبی کتاب ’’مہر منیر‘‘ میں لکھا ہے کہ:۔
’’مرزا غلام احمد۔۔۔بعدہ ملازمت چھوڑ کر اپنے والد ِ محترم کا ہاتھ بٹانا شروع کیا ۔ساتھ ساتھ مذہبی کتب کا مطالعہ بھی جاری رکھااور مذہبی مناظرات میں حصہ لیتے۔جہاں تک معلوم ہوسکا ہے اُن کے آباواجداد حنفی مسلمان تھے اَور خُود مرزا صاحب بھی اپنی اوائل زندگی میں اُنہی کے قدم بہ قدم چلتے رہے۔سن 1879میں اُنہوں نے ایک اشتہار شائع کیا کہ مَیں ایک کتاب براہین احمدیہ لکھنے کا ارادہ رکھتا ہُوں جو پچاس جلدوں پر مشتمل ہوگی اَور جس میں اسلام کی حقانیت اَور دیگر مذاہب کی تردید میں قوی اَور محکم عقلی دلائل پیش کیے جائیں گے۔۔۔۔1886ء مرزا صاحب نے اپنی دوسری کتاب سُرمہ چشم آریہ تصنیف کی اور ہوشیار پور میں آریہ سماجیون کے ساتھ مناظرہ بھی کیا۔اس طرح ایک مناظر ِاسلام اَور مُدّعی الہام کی حیثیت سے شہرت حاصل کرکے اپنے گرد عقیدت مندوں کا ایک گروہ پیدا کیا۔ جس میں حکیم نورالدین شاہی طبیب ریاست جمّوں وکشمیر جیسے بارسُوخ مشیر ومعاون شامل تھے ‘‘
(مہر منیر صفحہ 165-166)
گویا دوسرے لفظوں میں وہی اظہار ہے جو حضرت صالح علیہ السلام کو اُن کی قوم نے کہا تھا کہ:قَالُوا يَا صَالِحُ قَدْ كُنْتَ فِينَا مَرْجُوًّا قَبْلَ هَذَا: انہوں نے کہا اے صالح! ىقىناً تُو اس سے پہلے ہمارے اندر امىدوں کا مرجع تھا (هود 63)
پیر صاحب کا مخالفانہ روّیہ
کچھ عرصہ کے بعد پیر صاحب لوگوں کے کہنے کہلوانے پر مولویانہ ڈگر پر چل پڑے اورجنوری 1900ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف اُردو میں ایک کتاب ”شمس الھدایہ فی اثبات حیات المسیح” شائع کی۔ جب پیر مہر علی شاہ صاحب نے یہ کتاب شائع کی اورحضرت مولاناحکیم نورالدین صاحب رضی اللہ عنہ نے ان سےاس کتاب میں درج محوّلہ کتب کے بارہ میں بعض استفسار کئے تو پتہ چلا کہ دراصل کتاب مذکور اِن کے مرید مولوی محمد غازی کی تالیف ہے جسے پیر صاحب سے منسوب کردیا گیا ہے۔چنانچہ حضرت حکیم نورالدین رضی اللہ عنہ نے پیر صاحب کے نام ١٨ فروری ١٩٠٠ء کو ایک خط میں یہ دریافت فرمایا:۔
”کیا آپ نے اپنی کتاب شمس الھدایہ میں لکھے گئے حوالہ جات اصل کتب سے چیک کئے ہیں اور کیا یہ کُتب آپ کے کُتب خانے میں موجود ہیں؟‘‘
اس پر پیر صاحب نے ٢٨ مارچ ١٩٠٠ء کو جو جواب لکھا اس سے یہ حقیقت واضح ہو گئی کہ یہ کتاب ان کے مرید مولوی محمد غازی کی تالیف کردہ ہے اور مرید نے یہ کتاب پیر صاحب کی طرف منسوب کر دی ہے۔ چنانچہ پیر صاحب نے لکھا کہ
”مولوی محمد غازی صاحب کتب حدیث و تفسیر اپنی معرفت سے پیدا کر کے ملاحظہ فرماتے رہے ہیں مولوی صاحب موصوف آج کل دولت خانہ کو تشریف لے گئے ہیں۔۔۔۔مولوی صاحب نے اپنی سعی اور اہتما م سے کتاب شمس الہدایۃ کو مطبوع اور تالیف فرمایا۔ ہاں احیاناً اس بے ہیچ سے بھی اتفاق استفسار بعض مضامین ہوا۔ جس وقت مولوی صاحب واپس آئیں گے کیفیت کتب مسئولہ اور جواب سرافرازنامہ اگر اجازت ہوئی تو لکھیں گے۔ اللہ تعالیٰ جانبین کو صراط مستقیم پر ثابت رکھے۔” (الحکم ٢٤ اپریل ١٩٠٠ء صفحہ٧)
پس پیر صاحب نے اپنے اس خط میں نہایت سادگی سے حقیقت کھول دی کہ یہ کتاب ان کی تالیف کردہ نہیں بلکہ ان کے مرید مولوی محمد غازی کی ہے۔مزید اسی الحکم کے شمارہ میں مولوی صاحب کے اپنی مریدوں کے نام جو خطوط اس کتاب کے بارے لکھے تھے وہ بھی شائع کردیئے گئے تھے۔مثلاً موصوف اپنی ساخت بچانے کےلیے میاں غلام محمد کو لکھتے ہیں کہ
’’۔۔۔۔۔ اور کتاب کے بارے میں مولوی محمد غازی صاحب جب واپس آئے تو لکھیں گے کیونکہ کتابوں کی تجسس اور دیکھنا ان کے متعلق تھا میں مضامین غیر مترتبہ بسا اوقات اُن کو دیتا رہا اور تالیف یعنی جمع ترتیب و طبع کرانا یہ سب ان کے متعلق تھی۔ جناب مولوی نور الدین صاحب نے تالیف سے جو منسوب مولوی محمد غازی صاحب کی طرف کی گئی تھی اور فی الواقع یوں ہی تھا ،یہ سمجھ لیا کہ موجد مضامین اور مصنف مولوی صاحب ہیں۔ فلاں نے یعنی میں نے اس کی تصنیف اور ایجاد سے انکار کیا محباً کبھی مؤلف اور موجد ایک ہی ہوتا ہے اور کبھی مختلف۔ میں نے بباعث کم فرصتی کے جمع اور ترتیب بمعہ مطالع کتب ان کے ذمہ پر رکھا تھا۔ الغرض جو مطلب تھا یعنی لوگوں کا دھوکا نہ کھانا وہ تو بفضل خدا بخوبی حاصل ہو گیا ،بذریعہ خطوط روزمرہ مقبولیت کتاب معلوم ہوتی رہتی ہے۔ باقی زید و عمر سے کچھ غرض نہیں۔‘‘
(الحکم ٢٤ اپریل ١٩٠٠ء صفحہ7۔نیز واقعات صحیحہ۔از مفتی محمد صادق صاحبؓ ۔صفحہ 8-9۔بمطابق طبع دوئم 2011ء۔)
غور کریں کہ پیر صاحب مولوی صاحب کو تو یہ لکھتے ہیں کہ کتاب مولوی غازی نے تالیف کی ہے ہاں احیاناً اس بے ہیچ سے بھی اتفاق استفسار بعض مضامین ہوا اور میاں غلام محمد کو لکھتے ہیں کہ میں مضامین غیر مرتبہ بسا اوقات اُن کو دیتا رہا۔
نیز ’’مہر منیر ‘‘میں اس اعتراض کا یہ جواب دے کر بری ہونے کی ناکام کوشش کی گئی ہے کہ
’’افسوس اِن لوگوں نے حضرت کی تصانیف کو آپ کے تلامزہ اور مستفیدین کے ساتھ منسوب کرتے وقت یہ بھی خیال نہ کیا کہ اس منطق کا نتیجہ تو خود ان کے خلاف جاتا ہے۔یعنی جب حضرت کے بحر علم وعرفان سے پیاس بُجھانے والوں کی تحریرات نے عالم مرزئیت میں اِس قدر تہلکہ مچا دیا تو اگر آپ بنفس نفیس قلم اٹھاتے تو کیا حشر برپا ہوتا۔اور یہی وجہ تھی کہ مرزا صاحب حضرت قبلہ عالم قدس سرہ کے سامنے آنے کی جرأت نہ کرسکے ‘‘
(مہر منیر صفحہ 256طبع ہشتم)
گویا کس قدر بدحواسی کے عالم میں تراشا ہوا یہ جواب ہے۔ پیرصاحب کی اس دو رخی چال کے اختیار کرنے پر نہایت مناسب ریمارکس کے ساتھ ،حضرت مولوی عبدالکریم صاحب نے ایک زبر دست مضمون اخبار الحکم میں اسی وقت شائع کر دیا تھا۔
کتاب شمس الھدایہ کا جواب:۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک مخلص رفیق حضرت سید محمد احسن صاحب امروہوی صاحبؓ نے پیر صاحب کے نام سے شائع شدہ کتاب ”شمس الھدایہ” کے رد میں ایک معرکۃ الآراء کتاب لکھی جس کا نام ”شمس بازغہ” رکھا۔ جس میں مولوی محمد غازی صاحب کے پیش کردہ دلائل کا بودا ہونا ثابت کیا۔
چونکہ کتاب شمس الھدایہ کے مصنف نے اس کے آخری صفحہ پر حضرت اقدس کو ”بشرط کافی انتظام و اطمینان” مباحثہ کی دعوت بھی دی تھی ،اس لئے سید محمد احسن صاحب نے بتاریخ ٩ جولائی ١٩٠٠ء پیر صاحب کو بذریعہ اشتہار اطلاع دے دی کہ میں مباحثہ کے لئے تیار ہوں آپ اپنی طرف سے آمادگی کا اعلان فرمائیں۔ (الحکم ٩ جولائی ١٩٠٠ء صفحہ١٠)
پیر مہر علی شاہ صاحب نے حضرت سید محمد احسن صاحب امروہویؓ کی طرف سے مباحثہ کی دعوت کا کوئی جواب نہ دیا اور چپ سادھ لی ۔
تفسیر نویسی کے مقابلہ کا چیلنج
چونکہ  کتاب کی عبارت غیر سلیس تھیں جب توجہ دلائی گئی ،تو ’’دعویٰ‘‘ پیر صاحب کی سیرت وسوانح ’’مہر منیر‘‘ میں یہ لکھا ہے کہ:
’’حضرت قبلہ قدس سرّہ کے ملفوظات ،محاورات اَور انداز تحریر سلف ِصالحین کے رنگ میں ہیں۔آپ سوچتے ہی عربی زبان میں ہیں ۔اَور یہی آپ کا اصل اور حقیقی فضل وکمال ہے۔پھر اپنی عربی کی سوچ کو حسب ضرورت اُرود یا فارسی کے ترجمہ کا لباس پہناتے ہیں۔‘‘ (مہر منیر صفحہ 256طبع ہشتم)
جبکہ دوسری طرف کتاب شمس الھدایہ میں ان (پیر صاحب) کا یہ دعویٰ درج ہے کہ قرآن مجید کی سمجھ ان کو عطا کی گئی ہے۔چنانچہ ٢٠ جولائی ١٩٠٠ء کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک اشتہار کے ذریعہ پیر صاحب کو براہ راست مخاطب کیا اور لکھا کہ ۔یہ امور کہاں تک درست ہیں؟ اس کے فیصلہ کے لئے ایک سہل طریق رکھتا ہوں کہ
”قرآن شریف کی کوئی سورۃنکالیں اور اس میں سے چالیس آیات یا ساری سورۃ (اگر چالیس آیت سے زیادہ نہ ہو) لے کر فریقین یہ دعا کریں کہ یا الٰہی ہم دونوں میں سے جو شخص تیرے نزدیک راستی پر ہے اس کو تو اس جلسہ میں سورۃ کے حقائق اور معارف فصیح اور بلیغ عربی میں اسی جلسہ میں لکھنے کے لئے اپنی طرف سے ایک روحانی قوت عطا فرما۔۔۔ اس تفسیر کے لکھنے کے لئے ہر ایک فریق کو پورے سات گھنٹے مہلت دی جائے گی۔ زانو بہ زانو لکھنا ہوگا۔۔۔۔ ہر ایک فریق کو اختیار ہوگا کہ اپنی تسلی کے لئے فریق ثانی کی تلاشی کرے۔۔۔۔ جب فریقین لکھ چکیں تو وہ دونوں تفسیریں بعد دستخط تین اہل علم کو جن کا اہتمام حاضری و انتخاب پیر مہر علی شاہ کے ذمہ ہوگا سنائی جائیں گی ۔۔۔ وہ تینوں مولوی صاحبان حلفاً یہ رائے ظاہر کریں کہ دونوں عربی عبارتوں میں سے کونسی تفسیر۔۔۔ تائید روح القدس میں سے لکھی گئی ہے۔۔۔ پس اس طرز کے مباحثہ اور اس طرز کے تین مولویوں کی گواہی سے اگر ثابت ہو گیا کہ درحقیقت پیر مہر علی شاہ صاحب تفسیر اور عربی نویسی میں تائید یافتہ لوگوں کی طرح ہیں اورمجھ سے یہ کام نہ ہو سکا یا مجھ سے ہو سکا اور انہوں نے بھی میرے مقابلہ پر ایسے ہی کر دکھایا۔۔۔ تو میں اقرار کروں گا کہ حق پیر مہر علی شاہ کے ساتھ ہے۔۔۔ اپنی تمام کتابیں جو اس دعویٰ کے متعلق ہیں جلا دونگا۔ اور اپنے تئیں مخذول اور مردود سمجھونگا۔۔۔ لیکن اگر میرے خدا نے اس مباحثہ میں مجھے غالب کر دیا۔۔۔ تو۔۔۔ وہ توبہ کر کے مجھ سے بیعت کریں”۔
(مجموعہ اشتہارات جلد٣ صفحہ٣٢٥ تا ٣٣١)
مقابلہ تفسیر نویسی سے پیر صاحب کا فرار
پیر صاحب کو چونکہ علمی میدان میں مقابلہ کی تاب نہ تھی اور انکار کر کے اپنی حقیقت بھی واضح نہیں کرنا چاہتے تھے اس لئے پیر صاحب نے ٢٥ جولائی ١٩٠٠ء کو ایک اشتہار دیا جس میں حضرت مسیح موعود کی پیش کردہ تجویز مقابلہ تفسیر نویسی کو قبول کرنے کا اقرار کیا لیکن یہ شرط عائد کر دی کہ قبل از بحث تحریری مذکورہ مجوزہ مرزاصاحب ایک بحث تقریری دعویٰ مسیحیت و مہدویت وغیرہ عقائد مرزا صاحب پر جو تعداد میں تخمیناً 136 کے قریب ہیں اور ان کے الہامی کتب میں درج ہیں بپابندی امور ذیل ہو جائے۔ اور اگر مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اور ان کے دو ساتھیوں نے یہ رائے ظاہر کر دی کہ اس بحث میں وہ حق پر نہیں تو انہیں میری بیعت کرنا ہوگی اس کے بعد مقابلہ تفسیر نویسی کی اجازت ہوگی۔
(واقعات صحیحہ صفحہ٢٥۔٢٦ از مفتی محمد صادق صاحب انوار احمدی لاہور نومبر ١٩٠٠ء)نیز(مہر منیر طبع ہشتم صفحہ 219تا 221)
پیر صاحب کا یہ اشتہار مقابلہ تفسیر نویسی سے گریز کی محض ایک چال تھی۔ جس کا پول کھولتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا۔ جس کا خلاصہ یہ ہے ۔بھلا بیعت کر لینے کے بعد اعجازی مقابلہ کرنے کے کیا معنی؟ نیز فرمایا کہ انہوں نے تقریری مباحثہ کا بہانہ پیش کر کے تفسیری مقابلہ سے گریز کی راہ نکالی ہے اور لوگوں کو یہ دھوکا دیا ہے کہ گویا وہ میری دعوت قبول کرتاہے۔ میں انجام آتھم میں یہ مستحکم عہد کر چکا ہوں کہ آئندہ ہم مباحثات نہیں کریں گے۔ لیکن انہوں نے اس خیال سے تقریری بحث کی دعوت دی کہ اگر وہ مباحثہ نہیں کریں گے تو ہم عوام میں فتح کا ڈنکا بجائیں گے۔ اور اگر مباحثہ کریں گے تو کہہ دیں گے کہ اس شخص نے خدا تعالیٰ کے ساتھ عہد کر کے توڑا ۔
(تحفہ گولڑویہ۔ روحانی خزائن جلد١٧ صفحہ٨٨ تا ٩٠)
پیر صاحب کی لاہور میں اچانک آمد
مولوی محمد احسن صاحب امروہی ؓنے اپنے اشتہار مؤرخہ ۱۴؍ اگست ۱۹۰۰ء میں پیر صاحب کی اور آپ کے شاگرد مولوی غازی کی تمام باتوں کا مفصل جواب دے کر پیر صاحب پر آخری حجت اس طرح سے قائم کر دی ہے کہ یہ طریق پیر گولڑوی کے فرار اور انکار کا ثبوت ہے۔ اور اگر یہ اس کا بھاگ جانا نہیں تو وہی تین علماء جو تفسیر قرآن کے واسطے حکم مقرر کئے گئے تھے اُن کے پاس جائیں اور اُن سے اسی طرح کی قسم کے ساتھ جس کا ذکرحضرت مرزا صاحبؑ نے کیا ہے یہ شائع کرا دیں کہ پیر صاحب گولڑوی تفسیر لکھنے سے ہراساں و ترساں نہیں ہیں۔ اور انکار کا یہ طریق اُن کی طرف سے بہ سبب اُس خوف کے نہیں ہے کہ وہ مرزا صاحب کے مقابل تفسیر لکھنے سے عاجز ہیں۔ تو ایسی قسم کے بعد اگر ایک سال کے اندر مرزا صاحب کی تائید میں کوئی نشان ظاہر نہ ہوا تو پھر بھی ہم ہی مغلوب سمجھے جائیں گے۔ (واقعات صحیحہ ۔بعنوان فرار و انکار پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی۔صفحہ 30،31)
حضرت مسیح موعود کی طرف سے مندرجہ بالا وضاحت کے باوجود پیر صاحب مباحثہ پر اصرار کرتے رہے۔ اور ۲۲\٢١۔ اگست ١٩٠٠ء کو ایک اشتہار دیا جس میں مقابلہ تفسیر نویسی کو ٹالنے کے لئے سارا زور مباحثہ پر دیا اور خود ہی مباحثہ کی تاریخ ٢٥ اگست ١٩٠٠ء مقرر کر لی۔ پیر صاحب کی ہوشیاری دیکھئے، انہوں نے۲۲\ ٢١۔ اگست کو یہ اشتہار دیا اور یہ انتظار کئے بغیر کہ حضرت اقدس کی طرف سے اس کا کیا جواب دیا جاتا ہے وہ دو تین روز بعد ہی اپنے مریدوں کی ایک بڑی جمعیت لے کر ٢٤۔ اگست بروز جمعہ (لاہور) پہنچ گئے۔
اس حقیقت کا اقرار کرتے ہوئے پیر صاحب کے سیرت وسوانح’’مہر منیر‘‘ میں لکھا ہے کہ۔
’’ان کے ایک حواری سیّد محمد احسن امروہی نے تاریخ مباحثہ سے صرف چار یوم پہلے ایک مطبوعہ خط گولڑہ شریف پہنچایا ،جس میں لکھّا تھا کہ اُنہیں تقریری مباحثہ کی شرط منظور نہیں۔اگر تفسیر نویسی میں مقابلہ کرنا ہوتو پیر صاحب آجائیں۔اس پر حضرت قبلہ عالم قدس سرہ کی طرف سے آپ کے ایک مخلص حکیم سُلطان محمود سکنہ راولپنڈی نے ۲۱ یا ۲۲ اگست کو یہ اعلان شائع کرادیا کہ حضرت قبلہ عالم قدس سرّہ ۲۵اگست کو مرزا صاحب کی اپنی شرائط کے مُطابق تحریری مباحثہ کے لیے لاہور تشریف لے جارہے ہیں ۔اِس اعلان کی ایک کاپی بذریعہ رجسٹر ڈ پوسٹ اُنہوں نے قادیان بھی بھجوادی۔مگر وقت کی تنگی کے باعث تمام ملک میں اس کا پوری طرح اعلان نہ ہوسکا‘‘
(مہر منیر صفحہ 229-230۔ہشتم)
بلکہ اس سے بھی بڑھ کر بدحواسی کا خود اقرار ہےگویا دروگوع حافظہ نہ باشند والی صورت ،کہ ایک طرف تو کہہ رہے ہیں کہ اطلاع بھجوادی اور دوسری طرف یہ بھی اقرار ہے کہ ،وہ بھی ایسی صورت میں کہ اس وقت تار گھر کا انتظام قادیان میں نہ تھا۔چنانچہ لکھا کہ :۔
’’۲۴ اگست کو گولڑہ شریف سے روانگی پر حضرت نے مرزا صاحب کو ایک تار کے ذریعہ پہلے راولپنڈی ریلوے اسٹیشن سے ،اَور پھر اثنائے سفر لالہ موسی جنکشن سے اطلاع دی کہ میں لاہور پہنچ رہا ہوں ۔جب آپ کی ٹرین لاہور پہنچی تو پہلا سوال جو آپ نے دریافت فرمایا مرزا صاحب کی آمد کے متعلق تھا۔‘‘
(مہر منیر صفحہ 231)
پیر صاحب کو میدان تفسیر نویسی میں لانے کیلئے مخلصانہ کوشش
لاہور کے مخلص احمدیوں نے پیر صاحب کی آمد کی اطلاع ملتے ہی یہ مخلصانہ سعی اور جدوجہد شروع کر دی کہ پیر صاحب مقابلہ تفسیر نویسی کے لئے تیار ہو جائیں اور فوراًایک اشتہار دیا کہ ۔
’’ہم لاہور جماعت مریدان حضرت اقدس مسیح موعود حضرت مرزا غلام احمد صاحب (موسومہ بہ انجمن فرقانیہ لاہور) اللہ جل شانہ کی قسم کھا کر صحیح اقرار کرتے ہیں کہ اگر پیر مہر علیشاہ صاحب گولڑوی حضرت مرزا غلام احمد صاحب مسیح موعود کے مقابل ایک جگہ بیٹھ کر بغیر مدد دیگرے بعد دعا سات گھنٹہ کے اندرحضرت مرزا صاحب کے مجوزہ اشتہار کے موافق تفسیر عربی لکھ کر اپنا غلبہ دکھائیں تو ہم ایک ہزار روپیہ نقد بلا عذر اُن کی خدمت میں پیش کر دیں گے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ پیر مہر علیشاہ صاحب کے مرید خصوصاً حافظ محمد الدین صاحب تاجر کتب ضرور پیر صاحب کو آمادہ کریں گے۔ کیونکہ دعا کی قبولیت کے دیکھنے کا یہ بے نظیر موقع انہیں دیا گیا ہے۔ اب اس سے فائدہ اٹھانا یا نہ اٹھانا ان کا اختیار ہے۔ بر رسولاں بلاغ باشد وبس۔(:ازجماعت مریدان حضرت اقدس مسیح موعود و مہدی معہودؑ از لاہور ۱۹؍اگست ۱۹۰۰ء)
(واقعات صحیحہ بعنواں؛اتمام حجت۔صفحہ 31)
اس کے علاوہ ٢٥ اگست کو پیر صاحب کی خدمت میں نہایت ادب سے ایک دستی خط بھیجا تا وہ تفسیر نویسی کےلئے تیار ہوں۔
یہ خط لیکر چار غیر از جماعت افراد کا وفد پانچ بجے ان کی قیام گاہ پہنچا تو ان کے مریدوں نے وفد کو اندر نہ جانے دیا اور باہر ہی سے یہ کہہ کر واپس کر دیا کہ پیر صاحب اس خط کا کوئی جواب نہیں دیتے۔ (واقعات صحیحہ ص ٤۰تا ٤٧ )
افہام و تفہیم کی یہ سب صورتیں جب یکسر ناکام رہیں تو حکیم فضل الٰہی صاحب اور میاں معراج الدین صاحب نے دوسرے دن (٢٦ اگست ١٩٠٠ء) کو پیر صاحب کے نام ایک رجسٹری خط میں یہ درخواست کی کہ وہ اپنی دستخطی تحریر سے اشتہارات شائع فرماویں کہ مجھے ٢٠ جولائی ١٩٠٠ء کی دعوت تفسیر نویسی بلا کم و کاست منظور ہے۔ لیکن افسوس پیر صاحب نے رجسٹری لینے سے صاف انکار کر دیا۔
(واقعات صحیحہ صفحہ٤۲ )
غرضیکہ لاہور کے احمدی احباب کی مسلسل کوششوں کے باوجود پیر صاحب مقابلہ تفسیر نویسی کے لئے آمادہ نہ ہوئے اور اصل واقعات پر پردہ ڈالنے کے لئے ٢٥ اگست کو صبح شاہی مسجد میں ایک جلسہ منعقد کیا اور اپنے مریدوں کو گفتگو کرنے سے پرہیز کی تلقین کی۔
(اشاعۃ السنہ جلد ١٩ صفحہ١٣٢)
نیز ایک خود ساختہ اتفاق رائے بیان کیا گیا ۔اور بعد میں پھر اسی اتفاق رائے کی خود ہی خلاف ورزی بھی کرتے رہے۔
’’آئیندہ کوئی اہل اسلام مرزا قادیانی اَور اُس کے حواریوں کی کِسی تحریر کی پرواہ نہ کریں ۔اور نہ اِن سے مخاطب ہوں،اور نہ ہی کچھ جواب دیں ۔‘‘ (مہر منیر صفحہ 237)
بعد ازاں پیر صاححب لاہور میں اپنے قیام کے پروگرام کو مختصر کر کے واپس چلے گئے۔
پیر مہر علی شاہ گولڑوی کی جھوٹی فتح کی حقیقت
حضرت مسیح موعودؑ اس واقعہ کا ذکر کرتے ہو ئے فرما تے ہیں:۔
’’لاہور میں جو ایک قابل شرم کارروائی پیر مہر علی شاہ صاحب سے ہوئی وہ یہ تھی کہ انہوں نے بذریعہ ایک پُرفریب حیلہ جوئی کے اُس مقابلہ سے انکار کر دیا جس کو وہ پہلے منظور کر چکے تھے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ جب میری طرف سے متواتر دنیا میں اشتہارات شائع ہوئے کہ خدا تعالیٰ کے تائیدی نشانوں میں سے ایک یہ نشان بھی مجھے دیا گیا ہے کہ مَیں فصیح بلیغ عربی میں قرآن شریف کی کسی سُورة کی تفسیر لکھ سکتا ہوں اور مجھے خدائے تعالیٰ کی طرف سے علم دیا گیا ہے کہ میرے بالمقابل اور بالمواجہ بیٹھ کر کوئی دُوسرا شخص خواہ وہ مولوی ہو یا کوئی فقیر گدی نشین ایسی تفسیر ہرگز لکھ نہیں سکے گا اور اس مقابلہ کے لئے پیر جی موصوف کو بھی بُلایا گیا تا وہ اگر حق پر ہیں تو ایسی تفسیر بالمقابل بیٹھ کر لکھنے سے اپنی کرامت دِکھلاویں یا ہمارے دعویٰ کو قبول کریں۔ تو اوّل تو پِیر جی نے دُور بیٹھے یہ لاف مار دی کہ اِس نشان کا مقابلہ مَیں کر وں گا۔ لیکن بعد اس کے اُن کو میری نسبت بکثرت روائتیں پہنچ گئیں کہ اس شخص کی قلم عربی نویسی میں دریاکی طرح چل رہی ہے اور پنجاب و ہندوستان کے تمام مولوی ڈر کر مقابلہ سے کنارہ کش ہو گئے ہیں تب اُس وقت پیرجی کو سُوجھی کہ ہم بے موقعہ پھنس گئے۔ آخر حسب مثل مشہور کہ مرتاکیا نہ کرتا انکار کے لئے یہ منصوبہ تراشا کہ ایک اشتہار شائع کر دیا کہ ہم بالمقابل بیٹھ کر تفسیر لکھنے کے لئے تیار تو ہیں مگر ہماری طرف سے یہ شرط ضروری ہے کہ تفسیر لکھنے سے پہلے عقائد میں بحث ہو جائے کہ کس کے عقائد صحیح اور مسلّم اور مدلّل ہیں اور مولوی محمد حسین بٹالوی کہ جو نزول مسیح میں انہیں کے ہم عقیدہ ہیں اس تصفیہ کے لئے منصف مقرر کئے جائیں پھر اگر مولوی صاحب موصوف یہ کہہ دیں کہ پیر جی کے عقائد صحیح اور مسیح ابن مریم کے متعلق جو کچھ انہوں نے سمجھا ہے وُہی ٹھیک ہے تو فی الفور اُسی جلسہ میں یہ راقم ان کی بیعت کرے اور اُن کے خادموں اور مُریدوں میں داخل ہو جائے اور پھر تفسیر نویسی میں بھی مقابلہ کیا جائے۔ یہ اشتہار ایسا نہ تھا کہ اُس کا مکر اور فریب لوگوں پر کُھل نہ سکے آخر عقلمند لوگوں نے تاڑ لیا کہ اس شخص نے ایک قابلِ شرم منصوبہ کے ذریعہ سے انکار کر دیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس کے بعد بہت سے لوگوں نے میری بیعت کی اور خود اُن کے بعض مُرید بھی اُن سے بیزار ہو کر بیعت میں داخل ہوئے۔ یہاں تک کہ ستّر ہزار کے قریب بیعت کرنے والوں کی تعداد پہنچ گئی اور مولویوں اور پیرزادوں اور گدی نشینوں کی حقیقت لوگوں پر کُھل گئی کہ وہ ایسی کارروائیوں سے حق کو ٹالنا چاہتے ہیں۔ ‘‘
(نزول المسیح ۔روحانی خزائن جلد18حاشیہ ص431تا432)
ایک دوسرے موقع پر آپؑ فرماتے ہیں:۔
’’چونکہ میں اپنی کتاب انجام آتھم کے آخیر میں وعدہ کر چکا ہوں کہ آئندہ کسی مولوی وغیرہ کے ساتھ زبانی بحث نہیں کرونگا اس لئے پیر مہر علی شاہ صاحب کی درخواست زبانی بحث کی جو میرے پاس پہنچی میں کسی طرح اس کو منظور نہیں کر سکتا افسوس کہ انہوں نے محض دھوکا دہی کے طور پر باوجود اس علم کے کہ میں ایسی زبانی بحثوں سے برکنار رہنے کے لئے جن کا نتیجہ اچھا نہیں نکلا خدا تعالیٰ کے سامنے وعدہ کر چکا ہوں کہ میں ایسے مباحثات سے دور رہونگا پھر بھی مجھ سے بحث کرنے کی درخواست کردی ۔ میں یقینا جانتا ہوں کہ یہ ان کی درخواست محض اس ندامت سے بچنے کے لئے ہے کہ وہ اس اعجازی مقابلہ کے وقت جو عربی میں تفسیر لکھنے کا مقابلہ تھا اپنی نسبت یقین رکھتے تھے۔ گویا عوام کے خیالات کو اور طرف الٹا کر سُرخرو ہو گئے اور پردہ بنا رہا۔
ہر ایک دل خدا کے سامنے ہے اور ہر ایک سینہ اپنے گناہ کو محسوس کر لیتا ہے۔ لیکن میں حق کی حمایت کی وجہ سے ہر گز نہیں چاہتا کہ یہ جھوٹی سُرخروی بھی اُن کے پاس رہ سکے اس لئے مجھے خیال آیا کہ عوام جن میں سوچ کا مادہ طبعًا کم ہوتا ہے وہ اگرچہ یہ بات تو سمجھ لیں گے کہ پیر صاحب عربی فصیح میں تفسیر لکھنے پر قادر نہیں تھے اسی وجہ سے توٹال دیا لیکن ساتھ ہی انکو یہ خیال بھی گذریگا کہ منقولی مباحثات پر ضرور وہ قادر ہونگے تبھی تو درخواست پیش کر دی۔ اور اپنے دلوں میں گمان کریں گے کہ اُن کے پاس حضرت مسیح کی حیات اور میرے دلائل کے رد میں کچھ دلائل ہیں اور یہ تو معلوم نہیں ہوگا کہ یہ زبانی مباحثہ کی جرأت بھی میرے ہی اس عہد ترک بحث نے اُن کو دلائی ہے جو انجام آتھم میں طبع ہو کر لاکھوں انسانوں میں مشتہر ہو چکا ہے۔ لہذا میں یہ رسالہ لکھ کر اس وقت اقرار صحیح شرعی کرتا ہوں کہ اگر وہ اس کے مقابل پر کوئی رسالہ لکھ کر میرے ان تمام دلائل کو اول سے آخر تک توڑ دیں۔ اور پھر مولوی ابو سعید محمد حسین صاحب بٹالوی ایک مجمع بٹالہ میں مقرر کرکے ہم دونوں کی حاضری میں میرے تمام دلائل ایک ایک کرکے حاضرین کے سامنے ذکر کریں اور پھر ہر ایک دلیل کے مقابل پر جس کو دہ بغیر کسی کمی بیشی اور تصرف کے حاضرین کو سُنا دیں گے۔ پیر صاحب کے جوابات سُنا دیں اور خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہیں کہ یہ جوابات صحیح ہیں اور دلیل پیش کردہ کی قلع قمع کرتے ہیں تو میں مبلغ پچاس روپیہ انعام بطور فتحیابی پیر صاحب کو اسی مجلس میں دے دونگا۔اگر پیر صا حب تحر یر فر ما ئیں تو میں یہ مبلغ روپیہ پہلے سے مولو ی محمد حسین صا حب کے پا س جمع کر ا دوں گا مگر یہ پیر صاحب کا ذمہ ہوگا کہ وہ مولوی محمد حسین صاحب کو ہدایت کریں کہ تا وہ مبلغ پچاس روپیہ اپنے پاس بطور امانت جمع کرکے باضابطہ رسید دیدیں اور مندرجہ بالا طریق کی پابندی سے قسم کھا کران کو اختیار ہوگا کہ وہ بغیر میرے اجازت کے پچاس روپیہ پیر صاحب کے حوالہ کر دیں۔ قسم کھانے کے بعد میری شکایت اُن پر کوئی نہیں ہوگی۔ صرف خدا پر نظر ہوگی جس کی وہ قسم کھائیں گے۔ پیر صاحب کا یہ اختیار نہیں ہوگا کہ یہ فضول عذرات پیش کریں کہ میں نے پہلے سے ردّ کرنے کے لئے کتاب لکھی ہے۔ کیونکہ اگر انعامی رسالہ کا انہوں نے جواب نہ دیا تو بلا شبہ لوگ سمجھ جائیں گے کہ وہ سیدھے طریق سے مباحثات پر بھی قادر نہیں۔‘‘
(تحفہ گولڑویہ روحانی خزائن جلد 17ص36)

حضرت مسیح موعودؑ نے اپنے ایک اشتہار 15دسمبر 1900 میں بالقاء ربانی تفسیر لکھنے کی ایک اَور تجویز پیش کی اور فرما یا:۔
پیر صاحب کے لاہور میں مقابلہ تفسیر نویسی سے گریزکے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ١٥ دسمبر ١٩٠٠ء کو اپنی کتاب اربعین نمبر٤ میں پیر صاحب کو یہ چیلنج دیا کہ ٧٠ دن کے اندر اندر (یعنی ٢٥ فروری ١٩٠١ء) فصیح و بلیغ عربی زبان میں چار جلدوں پر مشتمل سورۃ فاتحہ کی تفسیر میرے مقابل پر لکھیں اور اس سلسلہ میں عرب و عجم کے علماء سے بھی مدد لے لیں اور پھر دیکھیں گے کہ حق کس کے ساتھ ہے۔چنانچہ اس کی تفصیل حضرت مسیح موعودؑ نے اپنے ایک اشتہار 15دسمبر 1900 میں بالقاء ربانی تفسیر لکھنے کی ایک اَور تجویز پیش کو اس طرح پیش فرما یا:۔
’’افسوس کہ علمی نشان کے مقابلہ میں نادان لوگوں نے پیر مہر علی شاہ گولڑوی کی نسبت ناحق جھوٹی فتح کا نقارہ بجا دیا اور مجھے گندی گالیاں دیں اور مجھے اس کے مقابلہ پر جاہل اور نادان قرار دیا۔ گویا مَیں اس نابغہ وقت اور سحبان زمان(معنی, فصیح و بلیغ لوگ.ناقل) کے رعب کے نیچے آکر ڈر گیا ورنہ وہ حضرت تو سچے دل سے بالمقابل عربی تفسیر لکھنے کے لئے طیّار ہو گئے تھے اور اسی نیت سے لاہور تشریف لائے تھے۔ پر مَیں آپ کی جلالتِ شان اور علمی شوکت کو دیکھ کر بھاگ گیا اے آسمان جھوٹوں پر لعنت کر آمین۔ پیارے ناظرین کاذب کے رسوا کرنے کے لئے اسی وقت جو ۷/دسمبر۱۹۰۰ءء روز جمعہ ہے خدا نے میرے دل میں ایک بات ڈالی ہے اور مَیں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کا جہنم جھوٹوں کے لئے بھڑک رہا ہے کہ مَیں نے سخت تکذیب کو دیکھ کر خود اس فوق العادت مقابلہ کے لئے درخواست کی تھی۔ اور اگر پیر مہر علی شاہ صاحب مباحثہ منقولی اور اس کے ساتھ بیعت کی شرط پیش نہ کرتے جس سے میرا مدعا بکلّی کالعدم ہو گیا تھا تو اگر لاہور اور قادیاں میں برف کے پہاڑ بھی ہوتے اور جاڑے کے دن ہوتے تو مَیں تب بھی لاہور پہنچتا اور ان کو دکھلاتا کہ آسمانی نشان اس کو کہتے ہیں۔ مگر انہوں نے مباحثہ منقولی اور پھر بیعت کی شرط لگا کر اپنی جان بچائی اور اس گندے مکر کے پیش کرنے سے اپنی عزت کی پرواہ نہ کی۔ لیکن اگر پیرجی صاحب حقیقت میں فصیح عربی تفسیر پر قادر ہیں اور کوئی فریب انہوں نے نہیں کیا تو اب بھی وہی قدرت اُن میں ضرور موجود ہوگی۔ لہٰذا مَیں اُن کو خدا تعالیٰ کی قسم دیتا ہوں کہ اسی میری درخواست کو اس رنگ پر پورا کر دیں کہ میرے دعاوی کی تکذیب کے متعلق فصیح بلیغ عربی میں سورة فاتحہ کی ایک تفسیر لکھیں جو چار ۴ جز سے کم نہ ہو اور مَیں اسی سورة کی تفسیر بفضل اللہ وقوتہ اپنے دعویٰ کے اثبات کے متعلق فصیح بلیغ عربی میں لکھوں گا۔ انہیں اجازت ہے کہ وہ اس تفسیرمیں تمام دنیا کے علماء سے مدد لے لیں۔ عرب کے بلغاء فصحاء بلالیں۔ لاہور اور دیگر بلاد کے عربی دان پروفیسروں کو بھی مدد کے لئے طلب کر لیں۔ 15دسمبر1900 سے ستر70 دن تک اس کام کے لئے ہم دونوں کو مہلت ہے ایک دن بھی زیادہ نہیں ہوگا۔ اگر بالمقابل تفسیر لکھنے کے بعد عرب کے تین نامی ادیب ان کی تفسیر کو جامع لوازم بلاغت و فصاحت قرار دیں اور معارف سے پُر خیال کریں تو مَیں پانسو رو 500رو پیہ نقد ان کو دوں گا۔ اور تمام اپنی کتابیں جلا دوں گا اور ان کے ہاتھ پر بیعت کر لوں گا۔ اور اگر قضیہ برعکس نکلا یا اس مدت تک یعنی ستر۷۰ روز تک وہ کچھ بھی لکھ نہ سکے تو مجھے ایسے لوگوں سے بیعت لینے کی بھی ضرورت نہیں اور نہ روپیہ کی خواہش صرف یہی دکھلاؤں گا کہ کیسے انہوں نے پیر کہلاکر قابل شرم جھوٹ بولا اور کیسے سراسر ظلم اور سفلہ پن اور خیانت سے بعض اخبار والوں نے ان کی اپنی اخباروں میں حمایت کی۔ مَیں اس کام کو انشاء اللہ تحفہ گولڑویہ کی تکمیل کے بعد شروع کر دوں گااور جو شخص ہم میں سے صادق ہے وہ ہر گز شرمندہ نہیں ہوگا۔ اب وقت ہے کہ اخباروں والے جنہوں نے بغیر دیکھے بھالے کے ان کی حمایت کی تھی ان کواس کام کیلئے اٹھاویں۔ ستر70 دن میں یہ بات داخل ہے کہ فریقین کی کتابیں چھپ کر شائع ہو جائیں۔ (اربعین روحانی خزائن جلد 17 ص 448تا450)
اس اعلان کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے معینہ مدت کے اندر23فروری1901ء کو عربی زبان میں سورۃ الفاتحہ کی تفسیر پر مشتمل کتاب اعجاز المسیح شائع کر دی یہ ایک لاجواب کتاب ہے اس کتاب کے سرورق پر آپ نے بطور پیشگوئی لکھا’’ اِنَّہ، کِتَابُ، لَیْسَ لَہ، جَوَابُ، وَ مَنْ قَامَ لِلْجَوَابِ وَ تَنَمَّرَ فَسَوْفَ یَری اَنَّہ، تَنَدَّمَ وَ تَذَمَّرَ‘‘یعنی یہ ایک لاجواب کتاب ہے جو بھی اس کتاب کا جواب لکھنے کے لئے کھڑا ہوگا وہ نادم ہوگا اور حسرت کے ساتھ اس کا خاتمہ ہوگا۔
نیز اس تفسیر کے لکھنے کی غرض یہ بیان فرما ئی کہ تا پیر مہر علی شاہ صا حب کا جھوٹ ظاہر ہو کہ وہ قرآن کا علم رکھتا ہے۔لیکن پیر صا حب کو گھر بیٹھ کر بھی بالمقابل تفسیر لکھنے کی جرات نہ ہوئی.
مولوی محمد حسن فیضی کی جواب کیلئے کوشش اور ان کا انجام
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ٢٣ فروری ١٩٠١ء کو کتاب ”اعجاز المسیح” شائع کر دی جو پیر صاحب کو بھی پہنچائی گئی۔ اس کتاب میں پیر صاحب کے علاوہ علماء عرب و عجم کو بھی تفسیر نویسی کے لئے مقابلہ کی کھلی دعوت دی گئی تھی۔ اس دعوت مقابلہ کو قبول کرتے ہوئے ایک مولوی محمد حسن فیضی ساکن موضع بھیں تحصیل چکوال ضلع جہلم مدرس مدرسہ نعمانیہ واقع شاہی مسجد لاہور نے عوام میں شائع کیا کہ وہ اس کا جواب لکھے گا چنانچہ اس نے جواب کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب اعجاز المسیح اور حضرت مولوی محمد احسن صاحب امروہوی کی کتاب شمس بازغہ پر نوٹ لکھنے شروع کئے۔ ان نوٹوں میں اس نے ایک جگہ لعنۃ اللّٰہ علی الکاذبین بھی لکھ دیا جس پر ابھی ایک ہفتہ بھی نہ گذرا تھا کہ خدا تعالیٰ کی تقدیر خاص کے تحت وہ ہلاک ہو گیا۔
ادھر حضرت بانی جماعت احمدیہ اس انتظار میں تھے کہ پیر صاحب مقابلہ میں عربی زبان میں تفسیر لکھ کر شائع کرنے کی ضرور کوشش کریں گے لیکن افسوس کہ معینہ مدت گزرنے کے تقریباً ڈیڑھ دو سال بعد یکم جولائی ١٩٠٢ء کو پیر صاحب موصوف کی طرف سے کتاب ”سیف چشتیائی” آپ کو ملی جو عربی کی بجائے اُردو زبان میں تھی اور سورہ فاتحہ کی تفسیر کی بجائے ہر دو کتب اعجاز المسیح اور شمس بازغہ پر بے بنیاد اعتراضات اور بے سروپا نکتہ چینیوں پر مشتمل تھی۔حالانکہ بظاہر اتفاق تو یہ تھا کہ
’’آئیندہ کوئی اہل اسلام مرزا قادیانی اَور اُس کے حواریوں کی کِسی تحریر کی پرواہ نہ کریں ۔اور نہ اِن سے مخاطب ہوں،اور نہ ہی کچھ جواب دیں ۔‘‘ (مہر منیر صفحہ 237)
اس طرح پیر صاحب کا تفسیر نویسی کے مقابلہ میں عجز اور عربی دانی میں نااہل ہونا دنیا پر واضح ہو گیا اور حضرت مسیح موعو دعلیہ السلام کا اپنی کتاب ”اعجاز المسیح” کے بارہ میں یہ الہام بڑی شان کے ساتھ پورا ہوا۔’’ مَنَعَہ، مَانِعُ، مِنْ السَّمَاءِ‘‘کہ آسمان سے ایک روکنے والے نے اسے روک دیا۔ یعنی کوئی بھی مدمقابل اس کتاب کی نظیر پیش نہیں کر سکا۔پیر صاحب کے مقابلہ تفسیر نویسی سے مختلف حیلوں اور بہانوں سے گریز کی بناء پر ان کے بعض قریبی مریدوں نے احمدیت قبول کر لی اور بعض معتبر لوگوں نے پیر صاحب سے تفسیر لکھنے کا مطالبہ کیا۔ تو پیر صاحب نے اپنے عجز اور ناکامی کو چھپانے کے لئے فرمایا۔
”میرے خیال تفسیر نویسی پر ’’میرے قلب پر معانی و مضامین کی اس قدر بارش ہو گئی ہے جسے ضبط تحریر میں لانے کے لئے ایک عمر درکار ہوگی اور کوئی دوسرا کام نہ ہو سکے گا‘‘         ( مہر منیر صفحہ٢٤٥۔طبع ہشتم)
کاش پیر صاحب دوسرے کاموں کی بجائے تفسیر ہی لکھ دیتے تو انہیں ہزیمت اور شرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑتا اور نہ یہ بودا عذر پیش کرنے کی نوبت آتی۔
جبکہ اس کے برعکس بزعم خود پیر صاحب کا قلم ہی اس قابل تھا کہ وہ توجہ کرنے پر خود بخود لکھ سکتا تھا۔تو کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ قلم کو یہ حکم دے کر باقی زندگی اپنے دیگر کام کرتے رہتے۔چنانچہ پیر صاحب کی جب ابتدائی طور پرسیر ت وسوانح ’’مہر منیر ‘‘ سے لکھی گئی تو اس وقت پیر صاحب کے قلم کے متعلق یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ
’’حضرت قبلہ عالم قدس سرّہ نے اِس موقعہ پر(یعنی تفسیر نویسی کے مقابلہ ۔ناقل) ایک اَور بات بھی فرمائی تھی جو بہت مشہور ہوئی اور مدّت تک اِس کا چرچا رہا۔آپ(یعنی پیر مہر علی شاہ۔ناقل) نے۔۔۔ فرمایا کہ علمائے اسلام کا اصل مقصود تحقیق حق اَور علاء کلمۃ اللہ ہوا کرتے ہے۔فخر و تعلّی مقصود نہیں ۔ورنہ جناب نبی کریمﷺ کی اُمت میں اِس وقت بھی ایسے خادم دین موجود ہیں کہ اگر قلم پر توجہ ڈالیں تو وہ خُود بخود کا غذ پر تفسیر قرآن لکھ جائے‘‘ (مہر منیر صفحہ 234۔طبع ہشتم)
اب جبکہ موصوف کی طرف منسوب کتاب ’’سیف چشتیائی‘‘ کا طبع ہفتم 2011ء میں شائع ہوئی،تو پہلی روایت میں تبدیلی کردی گئی اورلکھا کہ اس وقت باقاعدہ دعوت دی گئی تھی کہ ’’ اس معاملہ میں اختلاف کرنے والے بھی سفید کاغذ میدان میں رکھ دیں اَور میں بھی رکھ دیتا ہوں ۔جس کے کاغذ پر خودبخود غیبی تحریر ہوجائے وہی سچا سمجھا جائے گا۔دنیا جانتی ہے کہ آپ کے اس واضح چیلنج کو سن کر مخالفین دم بخود رہ گئے اور میدان ِمناظرہ میں آنے تک کی جرأت بھی نہ کرسکے۔‘‘
(سیف چشتیائی ۔بار ہفتم ۔مطبوعہ ایم ایم پرنٹرز لاہور۔ضیاء القرآن پبلی کیشنز ۔صفحہ IX)
سبحان اﷲ!وہ قلم تو اپنے پیر صاحب سے بھی زیادہ مستعد نکلا کہ جو کام پیر صاحب نہ کر سکے ان کے قلم نے کر دکھایا، وہ قلم تو ضرور کسی عجائب گھر کی زینت ہوگا۔کم از کم گولڑہ شریف یا ملک کے کسی اَور تاریخی عجائب گھر میں۔مگر حقائق تلخ ہوتے ہیں فی الواقع ایسا نہیں بلکہ معاملہ اسکے بالکل برعکس ہے۔
لیکن مثل مشہور ہے کہ ’’درگوہ حافظہ نہ باشند‘‘پس وہ قلم جس کے بارے ابتداً کہا گیا تھا کہ اگر ضرورت پڑتی تو لکھ بھی سکتا تھا، چند سال بعد اب یاد آیا کہ نہ صرف وہ بہت کچھ لکھ سکتا تھا۔بلکہ اس بابت تو باقاعدہ مرزا صاحب کو دعوت بھی دی گئی تھی۔اچھا ہوتا کہ کاش جو معارف پیر صاحب کو ملے تھے اور جس کے لیے ایک عمر چاہیے تھی وہ قلم کو حکم دے کر خود باقی کاموں میں مصروف رہتے ۔تاکہ دنیا ان معارف کو دیکھ سکتی !نیز یاد رہے کہ جس نبی کے اسوہ حسنہ کی پیروی کا اُمت کو حکم ہے اس کا توایک عظیم وصف یہ بھی بیان کیا گیا کہ :۔
وَمَا هُوَ عَلَى الْغَيْبِ بِضَنِينٍ :اور وہ غىب (کے بىان) پر بخىل نہىں (التكوير 25)
لیکن افسوس صد افسوس ایسا نہ ہوسکا،باقی ہوتا بھی کیوں جب تھا ہی کچھ نہیں۔
سرقہ کا چرچہ اور اصل مجرم
حضرت مسیح موعود علیہ السلام ابھی پیر صاحب کی کتاب ”سیف چشتیائی” میں مذکور نکتہ چینوں کا جواب اپنی کتاب نزول المسیح میں لکھ ہی رہے تھے کہ ٢٠ جولائی ١٩٠٢ء کو موضع بھیں سے مولوی محمد حسن صاحب فیضی کے دوست میاں شہاب الدین کا خط آپ کو ملا جس سے یہ حقیقت واضح ہو گئی کہ کتاب ”سیف چشتیائی” پیر صاحب کی تصنیف نہیں بلکہ سرقہ ہے وہ لکھتے ہیں:۔
”محمد حسن فیضی کا مسودہ علیحدہ خاکسار کو نہیں دکھایا گیا۔۔۔۔۔۔ البتہ شمس بازغہ اور اعجاز المسیح پر جو مذکور نے نوٹ کئے تھے وہ دیکھے ہیں۔ گولڑوی ظالم نے وہی نوٹ کتابیں منگوا کر درج کر دیئے ہیں۔ اپنی لیاقت سے کچھ نہیں لکھا”۔
اس طرح مولوی کرم دین صاحب آف بھیں چکوال نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی خدمت میں اپنے خط محررہ ٢١ جولائی ١٩٠٢ء میں لکھا۔
”مرحوم (مولوی محمدحسن فیضی) نے کتاب اعجاز المسیح اور شمس بازعہ کے حواشی پر اپنے خیالات لکھے تھے یہ دونوں کتابیں پیر صاحب نے مجھ سے منگوائی تھیں اور اب واپس آ گئی ہیں۔ مقابلہ کرنے سے وہ نوٹ باصلہٖ درج کتاب پائے گئے یہ نہایت سارقانہ کارروائی ہے”۔
بعد میں مولوی محمد حسن فیضی متوفی کی دستخطی نوٹوں والی کتابیں اعجاز المسیح اور شمس بازغہ بھی حاصل کر لی گئیں اور سیف چشتیائی سے ان نوٹوں کا موازنہ کر کے پیر صاحب کا قطعی چور ہونا مشاہدہ کر لیا گیا اور پیر صاحب رنگے ہاتھوں پکڑے گئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اپنی کتاب اعجاز المسیح کے بارہ میں یہ پیشگوئی بڑی شان کے ساتھ پوری ہوئی کہ جو شخص اس کتاب کا جواب لکھنے کے لئے کھڑا ہوگا وہ نادم ہوگا۔اس بابت تفصیل حضور علیہ السلام کی کتاب نزول المسیح میں موجود ہے۔خلاصہ کلام یہ کہ
١۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پیر صاحب کو مباہلہ کی دعوت دی جسے پیر صاحب نے قبول نہ کیا۔
٢۔ پیر صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف ایک کتاب شمس الھدایہ لکھی جو بعد میں ان کے مرید مولوی محمد غازی صاحب کی تالیف کردہ ثابت ہوئی۔
٣۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے پیر صاحب کو مقابلۃً تفسیر لکھنے کا چیلنج دیا لیکن پیر صاحب کو تفسیر لکھنے کی جرأت نہ ہوئی۔
٤۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پیر صاحب کو عربی زبان میں سورہ فاتحہ کی چار جلدوں پر مشتمل تفسیر ٧٠ دن میں لکھنے کا چیلنج دیا لیکن پیر صاحب کو اس مدت کے اندر تفسیر لکھنے کی جرأت نہ ہوئی۔
٥۔ پیر صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب اعجاز المسیح اور مولوی محمداحسن صاحب امروہوی کی کتاب شمس بازغہ پر بے جا نکتہ چینیاں اور بے بنیاد اعتراضات کرتے ہوئے اردو زبان میں ایک کتاب ”سیف چشتیائی” اپنی طرف منسوب کر کے شائع کروائی جو بعد میں سرقہ ثابت ہوئی۔
اب قارئین خود ہی فیصلہ فرمائیں کہ کامیابی کسے نصیب ہوئی اور ناکامیوں کا منہ کس کو دیکھنا پڑا۔
مقدمہ کرم الدین کی مختصر تفصیل :
جیسا کہ اُوپر تذکرہ کیا گیا ہے کہ جب پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی نے جو اپنی کتاب ’’سیف چشتیائی‘‘مولوی محمد حسن سکنہ بھیں کے نوٹوں کو نقل کرکے لکھی تھی ۔اور اس غریب کا نام تک بھی اپنی کتاب میں نہ لیا تھا ۔اس سلسلہ میں جو خط وکتابت حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام ، حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی ؓ اور حضرت فضل دین بھیروی صاحب کے ساتھ میاں شہاب الدین صاحب اور مولوی کرم الدین صاحب سکنہ بھیں نے کی تھی ۔اسے حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب ایڈیٹر الحکم نے شائع کردیا تھا ۔ اورچونکہ کرم الدین ایک کمزور طبیعت کا شخص تھا،وہ پیر مہر علی شاہ صاحب کے مریدوں کا سامنا نہ کرسکا۔اور اپنی ساخت کو بچانے کے لیے ’’سراج الاخبار‘‘جہلم میں پیر صاحب کے مُریدوں کو خوش کرنے کے لیے یہ شائع کروا دیا کہ مَیں نے ہرگز مرزا صاحب کو کوئی خط نہیں لکھا۔بلکہ کسی بچہ سے لکھواکر مَیں نے مرزا صاحب کے ملہم ہونے کا امتحان لیا تھا۔وغیرہ وغیرہ ۔اس مقدمہ کے حالات متفرق جماعتی کتب میں تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں۔(تفصیل کے لیے تاریخ احمدیت جلد دوم بعنوان متذکرہ۔حیات طیبہ۔سیر ت احمد وغیرہ۔)اس مقدمہ کو خلاصۃً حضرت مرزا بشیر احمد ایم اے صاحب رضی اللہ عنہ نے سلسلہ احمدیہ حصہ اوّل میں درج کیا ہے۔چنانچہ آپ فرماتے ہیں کہ:۔
’’ یہ بتایا جا چکا ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ کے دشمنوں کا ایک حربہ یہ بھی تھا کہ آپ پر جھوٹے مقدمات کھڑے کر کے نقصان پہنچایا جاوے۔ چنانچہ ۱۹۰۳ء کے شروع میں آپ کے خلاف پھر ایک فوجداری مقدمہ قائم کیا گیا۔ یہ مقدمہ ایک شخص مولوی کرم دین ساکن بھیں ضلع جہلم کی طرف سے تھا جس میں مولوی کرم دین نے یہ استغاثہ دائر کیا تھا کہ مرزا صاحب نے میرے متعلق اپنی کتاب ’’مواہب الرحمن‘‘ میں جھوٹے اور کمینہ کے الفاظ لکھے ہیں جو میری ازالہ حیثیت عرفی کا موجب ہوئے ہیں۔ اس مقدمہ کی بنا یہ تھی کہ مولوی کرم دین نے حضرت مسیح موعودؑ کو ایک خط لکھا تھا جس میں یہ ظاہر کیا تھا کہ میں آپ کا ہمدرد ہوں اور اس میں یہ اطلاع دی تھی کہ پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی جو کتاب آپ کی کتاب ’’ اعجاز المسیح‘‘ کے مقابلہ پر لکھ رہے ہیں اس میں انہوں نے ایک دوسرے شخص کی کتاب کے مسودہ سے سرقہ کیا ہے۔ مولوی کرم دین کا یہ خط اخبار الحکم قادیان میں چھاپ دیاگیا تا کہ یہ ظاہر ہو کہ سلسلہ کے مخالفین کس اخلاق اور کس ذہنیت کے لوگ ہیں۔اس پر مولوی کرم دین نے بر افروختہ ہو کرایک مضمون شائع کیا کہ میں نے یونہی ہنسی اور امتحان کے خیال سے یہ ساری بات لکھی تھی ورنہ پیر مہر علی شاہ صاحب نے کوئی سرقہ نہیں کیا جب حضرت مسیح موعود ؑ کو مولوی کرم دین کے اس مضمون کی اطلاع ہوئی تو آپ کو اپنے مخالف مولویوں کی حالت پر سخت افسوس ہوا اور آپ نے اپنی عربی کتاب ’’ مواہب الرحمن‘‘ میں جو ان ایام میں زیر تصنیف تھی مولوی کرم دین کے متعلق لکھا کہ یہ شخص کذاب اور لئیم ہے یعنی جھوٹ بولنے والا اور کمینہ مزاج شخص ہے کہ ایسے سنجیدہ معاملات میں بھی اس نے جھوٹ اور کمینگی سے کام لیا ہے۔ اس پر مولوی کرم دین نے حضرت مسیح موعود ؑ کے خلاف ازالہ حیثیت کا دعویٰ دائر کر دیا جس کے جواب میں دفاع کے خیال سے ایک مقدمہ ایڈیٹر اخبار الحکم کی طرف سے مولوی کرم دین کے خلاف بھی دائر کر دیا گیا۔
حضرت مسیح موعود ؑ کے خلاف مقدمہ کی پہلی پیشی جنوری ۱۹۰۳ء میں جہلم میں ہوئی چنانچہ آپ وہاں تشریف لے گئے۔ اس سفر میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودؑ کو ایسی قبولیت عطا فرمائی اور لوگوں کا ایسا رجوع ہوا کہ راستہ میں ہر سٹیشن پر زائرین کا اتنا ہجوم ہوتا تھا کہ پولیس اور محکمہ ریلوے کو انتظام کرنا مشکل ہو جاتا تھا اور جہلم میں تو لوگوں کی اتنی کثرت تھی کہ جہاں تک نظر جاتی تھی آدمی نظر آتے تھے اور حضرت مسیح موعود کی زیارت کے لئے دور دراز سے لوگ اکٹھے ہو گئے تھے۔ ان میں ایک حصہ اشد مخالف اور دشمن بھی تھا لیکن اکثر لوگ عقیدت اور زیارت کے لئے آئے تھے۔ چنانچہ اس موقعہ پر جہلم میں قریباً ایک ہزار آدمیوں نے بیعت کی۔ اور لوگوں کی توجہ سے صاف نظر آتا تھا کہ جماعت کی ترقی میں ایک نئے دور کا آغاز ہو چکا ہے۔
اس کے بعد یہ مقدمہ جہلم میں ختم ہو کر گورداسپور میں جاری ہو گیا جو اس ضلع کا صدر مقام ہے جس میں قادیان واقع ہے اور پھر قریباً دو سال تک جاری رہا جس کے لئے حضرت مسیح موعودؑ کو بعض اوقات لمبے لمبے عرصہ کے لئے گورداسپور میں جا کر ٹھہرنا پڑا کیونکہ مجسٹریٹ صاحب عموماً اتنی اتنی قریب کی تاریخیں مقرر کرتے تھے کہ قادیان آنا جانا باعثِ تکلیف تھا۔ اس مقدمہ میں اوپر تلے دو مجسٹریٹ بدلے اور اتفاق سے دونوں ہندو تھے اور ان ایام میں یہ افواہ بہت گرم تھی کہ آریہ لوگ ان مجسٹریٹوں کے کان بھرتے رہتے ہیں کہ مرزا صاحب نعوذ باللہ لیکھرام کے قاتل ہیں اور اب اپنا قومی بدلہ اتارنے کا اچھا موقعہ ہے۔ اور مجسٹریٹوں کے تیور بھی بدلے ہوئے نظر آتے تھے ۔ انہی ایام میں ایک دفعہ حضرت مسیح موعود ؑ کو یہ اطلاع پہنچی کہ بعض آریوں نے مجسٹریٹ سے کہا ہے کہ اس وقت یہ شخص آپ کے ہاتھ میں ایک شکار ہے اسے اب بچ کر نہیں جانے دینا چاہئے۔ اس وقت حضرت مسیح موعود ؑ چارپائی پر لیٹے ہوئے تھے اور طبیعت کچھ خراب تھی مگر یہ بات سن کر آپ جوش کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوئے اور آپ کا چہرہ سرخ ہو گیا اور آپ نے جوش کے ساتھ فرمایا ۔ ’’ کیا یہ لوگ مجھے شکار سمجھتے ہیں؟ میں شکار نہیں ہوں۔ میں تو خدا کا شیر ہوں اور خدا کے شیر پر کوئی ہاتھ تو ڈال کر دیکھے! ‘‘ پھر تھوڑی دیر تک خاموش رہنے کے بعد فرمایا۔ ’’ میں کیا کروں میں نے تو خدا سے کئی دفعہ عرض کیا ہے کہ میں تیرے دین کی خاطر اپنے ہاتھوں میں لوہے کے کڑے پہننے کے لئے تیار ہوں مگر وہ مجھے باربار یہی کہتا ہے کہ نہیں نہیں میں ایسا ہرگز نہیں ہونے دوں گا۔ میں تیری حفاظت میں کھڑا ہوں اور کوئی شخص تجھ پر ہاتھ نہیں ڈال سکتا۔ انہی دنوں میں حضرت مسیح موعود ؑ نے یہ بھی کہا کہ خدا نے مجھے بتایا ہے کہ اس عدالت میں سزا ہو جائے گی مگر عدالتِ اپیل میں بریت ہو گی۔
الغرض یہ مقدمہ دو سال تک چلتا رہا ۔ اور اس عرصہ میں حضرت مسیح موعود ؑ کا بہت سا قیمتی وقت ضائع ہوا اور بالآخر مجسٹریٹ نے ۱۹۰۴ء کے آخر میں آپ کو پانچ سو روپیہ جرمانہ کی سزا دے دی اور دوسرے مقدمہ میں جو ایڈیٹر الحکم کی طرف سے تھا مولوی کرم دین کوپچاس روپے جرمانہ کیا گیا۔ حضرت مسیح موعود ؑ کی طرف سے جرمانہ فوراً ادا کر دیا گیا اور سشن جج کے پاس اپیل کی گئی سشن جج نے جو ایک انگریز افسر تھا پہلی ہی پیشی میں جو جنوری ۱۹۰۵ء میں ہوئی اپیل کو منطور کر لیا بلکہ افسوس ظاہر کیا کہ ایسا معمولی سا مقدمہ اتنے لمبے عرصہ تک چلتا رہا ہے اور لکھا کہ کرم دین نے جن گرے ہوئے اخلاق کا اظہار کیا ہے اس کے پیش نظر جو الفاظ اس کے متعلق مرزا صاحب نے لکھے ہیں وہ بالکل جائز اور واجبی ہیں اور ان سے اس کی قطعاً کوئی ہتک نہیں ہوئی بلکہ صرف امر واقع کا اظہار ہوا ہے جو حالات کے ماتحت ضروری تھا۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود ؑ خدائی وعدہ کے مطابق بری کئے گئے اور آپ کا جرمانہ واپس ہوا۔ مگر مولوی کرم دین کا جرمانہ قائم رہا اور اس کے جھوٹ اور کمینگی پر ہمیشہ کے لئے مہر تصدیق ثبت ہو گئی۔
(سلسلہ احمدیہ حصہ اوّل۔از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب۔صفحہ نمبر 133تا 135۔دسمبر 1939ء)

یہ بھی ملاحظہ فرمائیں

دعویٰ مسیحت حضرت خلیفۃ الاول کے مشورہ سے کیے جانے کے الزام کی حقیقت

حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے دعاوی کے بارے جاویدغامدی صاحب کے کچھ نظریات کا تاریخی تجزیہ مکرم …