لفظی تحریف قرآن کے الزام کی تردید

آجکل سوشل میڈیا پر احمدیوں کے خلاف اشتعال انگیز مہم میں الزام تراشیوں کا ایک سلسلہ، یعنی پُرانے اعتراضات کو نئے الفاظ میں پیش کرنے کی ناکام کوشش کے ساتھ جاری ہے ،اگرچہ اِس قسم کے تمام اعتراضات رد شدہ ہیں،لیکن پھر بھی ناظرین و سامعین کے لیے ان بے بنیاد اعتراضات کی دوبارہ مناسب تردید ضروری ہے۔تاکہ ماحول میں فتنہ و فساد کی بجائے،مناسب جوابات کا علم حاصل کرکے امن قائم رہے۔
چنانچہ حال ہی میں سوشل میڈیا وغیرہ پر جب بکثرت لوگوں نے اس بات کو اٹھایا کہ ہمارے ملک پاکستان میں جب ایک طرف یہ کہا جاتا ہے ہر مسلک و مذہب کومکمل مذہبی آزادی حاصل ہے تو پھر احمدی احباب کے لیے دوہرا میعار کیوں ہے؟تو مخالفین نے اس کی وضاحت انتہائی بودے انداز میں اس طرح کرنے کی کوشش کی ہے کہ
’’جماعت احمدیہ کی کتابیں ہم اس لئے پاکستان میں بین کر رہے ہیں کہ جماعت احمدیہ نے قرآن کریم میں تحریف کی ہے ؟ جس سے قرآن اور بانی اسلام محمد ﷺ کی توہین ہوتی ہے ۔ ‘‘نعوذباللہ من ذالک
قارئین کرام اس بہتان عظیم پر ہم لعنة اللہ علی الکاذبین کے سوا کیا کہہ سکتے ہیں۔کیونکہ ہمارا مسلک تو حضرت بانیٔ جماعت احمدیہ کے مطابق لفظاً و عملاً یہی ہے ،کہ
’’قرآن مجید خاتم الکتب ہے۔اس میں اب ایک شعشہ یا نقطہ کی کمی بیشی کی گنجائش نہیں ہے۔‘‘
(لیکچر لدھیانہ روحانی خزائن جلد20 ص279)
اعتراض کرنے والے بطور ثبوت کوئی بھی معین حوالہ پیش کرنے کی بجائے ،عوام الناس کو دھوکہ دینے کے لیے صرف جماعتی لٹریچر کا محض نام لے دیتے ہیں۔
حالانکہ جماعت احمدیہ کی کسی ایک کتاب میں بھی ایسی کوئی بات موجود نہیں۔جس کی تحقیق ہماری آفیشل ویب سائیٹAlislam.orgپر موجود کتب سے بھی کرسکتے ہیں۔
سورة فاتحہ سے سورة الناس تک تیس پاروں اور 114 سورتوں پرمشتمل ہمارا تو وہی قرآن ہے جس کی ہم روزمرّہ پانچ فرض نمازوں کے علاوہ گھروں میں بھی تلاوت کرتے ہیں۔اور یہی قرآن لاکھوں کی تعداد میں ساری دنیا میں شائع کرتے ہیں۔75سے زبانوں میں اس کا ترجمہ بھی شائع کرچکے ہیں۔
ہم یہ واضح کر دینا ضروری سمجھتے ہیں کہ کتابت کی غلطیاں کسی بھی ضابطے کے تحت تحریف نہیں کہلاتیں۔ یہ بات علمائے فن کے مسلّمہ اصولوں میں سے ہے ۔ تحریف کرنے والا اگراصل متن کے الفاظ کو جانتے بوجھتے ہوئے تبدیل کرے اور پھر تبدیل کردہ الفاظ کے مطابق اپنا عقیدہ یا مؤقف بنائے تو وہ تحریف کہلاتی ہے۔ اس لئے کسی بھی کتاب یا تحریر میں خصوصاً الہٰی کتب میں تحریف ایک بڑا گناہ ہے۔باقی یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اُردو کے کاتب عموماً عربی زبان اور علم الاعراب سے ناواقف ہوتے ہیں اس لئے اگر ان کی کتابت کی غلطیاں ہوں اور باوجود سو احتیاط کے پروف ریڈنگ میں بھی وہ نہ پکڑی جا سکیں ، انہیں تحریف قرار دینا سخت ناانصافی ہی نہیں صریح زیادتی بھی ہے۔
اسی طرح اگر جماعت احمدیہ کی طرف سے شائع شدہ کسی کتاب میں بھی معدودے چند جگہ کتابت کی غلطیاں رہ گئیں ہوں تو وہ غیر ممکن نہیں۔ لیکن کسی بھی جگہ ایسا نہیں ہوا کہ استدلال اصل آیات کے مخالف تھا۔ ۔مزید برآں یہ کہ جب کبھی بھی علم ہوا کہ کسی جگہ سہوِ کتابت ہوئی ہے تو اگلے ایڈیشن میں اس کو درست کر دیا گیا۔ اس لیے معترض احباب کو بیان کرنا چاہیے کہ ،پہلے ایڈیشن میں اگر کسی جگہ سہواً لفظی غلطی ہوگئی تو دوسرے ایڈیشن میں اسے درست کر دیا گیا۔
یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ الانسان مرکب السھو والنسیان۔انسان سہو اور بھول چوک کا مرکب ہے۔ اور انبیاء بھی بشر رسول ہی ہوتے ہیں ، سہو و نسیان ہر انسان سے ہوسکتا حتیٰ کہ انبیاء سے بھی ۔ اللہ تعالیٰ حضرت آدمؑ کے بارہ میں فرماتا ہے:
فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْمًا        : کہ وہ بھول گئےمگر ان کا ایسا کرنے کا ارادہ نہ تھا۔
(طہ:115)
نیز اگر صرف سہو و نسیان کی بنا پر زبانی یا کتابت کی کسی غلطی کی وجہ سے یہ خوف ناک الزام یعنی ’’تحریف قرآن ‘‘ لگائیں گے تو پھر یاد رہے کہ آپ یہ الزام مرزا صاحب پر تو لگا ہی رہے تھے ،تو پھر اس سے نہ بزرگان سلف و خلف بچیں گے اور نہ کوئی اَور۔ سہو و نسیان کے متعلق رسول اللہﷺ نے فرمایا تھا کہ :
إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ،أَنْسَى كَمَا تَنْسَوْنَ، فَإِذَا نَسِيتُ فَذَكِّرُونِي: یقیناً میں بھی تمہاری طرح کا بشر ہوں، میں بھی بھولتا ہوں جیسے تم بھولتے ہو۔پس جب میں کچھ بھول جاؤں تو مجھے یاد کروا دیا کرو۔
(بخاری ،کتاب الصلاۃ۔ابواب القبلة باب التوجه نحو القبلة حيث كان) (اص سکین)(1)
سہو کو لے کر اعتراض کرنا نہایت نادانی ہے۔اگر نبی کریمﷺ سے سہو و نسیان ہو سکتا ہے تو کسی اَورکیونکر نہ ممکن ہے ۔پس نادانستہ بُھول اللہ کے نزدیک قابل معافی ہے مگرلگتا ہے کہ معترض کے نزدیک نہیں۔
نیز سہو نسیان پر مبنی لفظی غلطیاں تو حفاظ قرآن سے بھی ہوجاتی ہیں ، سہو کوتحریف قرار دینا انتہائی ظلم ہے۔ بخاری شریف میں حضرت عائشہؓ کی روایت ہے کہ
عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: سَمِعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا يَقْرَأُ فِي سُورَةٍ بِاللَّيْلِ، فَقَالَ: «يَرْحَمُهُ اللَّهُ لَقَدْ أَذْكَرَنِي كَذَا وَكَذَا، آيَةً كُنْتُ أُنْسِيتُهَا مِنْ سُورَةِ كَذَا وَكَذَا»حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ حضرت رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو رات کے وقت ایک سورۃ پڑھتے سنا۔ آپ ﷺنے فرمایا۔ اللہ اس پر رحم کرے۔ اس نے تو مجھے فلانی فلانی آیت یاد دلادی ہے جو مجھے فلانی فلانی سورۃ سے بھول گئی تھی۔
(صحيح البخاري۔كِتَابُ فَضَائِلِ القُرْآنِ۔بَابُ نِسْيَانِ القُرْآنِ، وَهَلْ يَقُولُ: نَسِيتُ آيَةَ كَذَا وَكَذَا)(اصل سکین) (2)
اگر صرف سہو و نسیان کی بنا پر زبانی یا کتابت کی کسی غلطی کی وجہ سے ’’تحریف قرآن ‘‘ کا خوف ناک الزام لگانا شروع کردیا جائے تو پھر یاد رہے کہ اس الزام سے کوئی بھی بزرگان سلف و خلف میں سے نہیں بچیں گے جو اس الزام کے نیچے نہ آئیں ۔
1974ء میں جب پاکستان کی قومی اسمبلی میں اسی قسم کے لایعنی اعتراض کو فلمی منظر کشی کے رنگ میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی تو اُس وقت بھی جماعت کی طرف سے اس الزام کی مدلل ترید کی گئی اور باقاعدہ ایک کتابچہ بعنوان’’ حضرت بانیِ سلسلہ پر تحریفِ قرآن کے بہتان کی تردید‘‘
(اصل سکین) (3)
کے نام سے اسمبلی ممبران کے سامنے پیش کیا گیا ،اور بیسوں کتب سے قرآنی آیات کو تحریر کرتے ہوئے سہو کتاب واقع ہوجانے کی مثالیں اس کتابچہ میں پیش کی گئی تھیں۔ نیز حضرت خلیفہ المسیح الثالث رحمہ اللہ نے زبانی بھی اس تردید فرمائی تھی۔
قارئین کرام ! اَور تو اَور اب جو اس سپیشل کمیٹی کی کارروائی حکومت پاکستان نے شائع کی ہے ، اس میں بھی مثلاً 7؍اگست کی کارروائی کے صفحہ402پر سورۃ بقرہ کی آیت 112 کا پہلا لفظ یعنی ’’ بَلٰى مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ (البقرة 113) میں لفظ’’بَلٰى‘‘غلط لکھا ہوا ہے
(اصل سکین کاروائی ۔اور اصل قرآن کا صفحہ) (4)
ظاہر ہے کہ یہ سہوِ کتابت ہے اس سے کارروائی شائع کرنے والوں پر تحریفِ قرآن کا الزام تو نہیں لگایا جاسکتا ۔
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ کتب احادیث میں سے بھی ایک مثال پیش کر دی جائے۔سنن أبو داؤد کتاب النکاح میں اعلان نکاح کے وقت جو آیات بیان ہوئی ہیں ،ان میں سے سورۃ النساء کی آیت اس طرح لکھی ہے کہ
” عَلَّمَنَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ خُطْبَةَ الْحَاجَةِ أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ نَسْتَعِينُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ وَنَعُوذُ بِهِ مِنْ شُرُورِ أَنْفُسِنَا، مَنْ يَهْدِ اللَّهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ، وَمَنْ يُضْلِلْ فَلَا هَادِيَ لَهُ، وَأَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا ۔۔۔۔۔ (سنن أبو داؤد،کتاب النکاح،بَابٌ فِي خُطْبَةِ النِّكَاحِ)
(اصل سکین) (5)
سنن ابو داؤد شائع کردہ المکتبۃ العصریۃ بیروت میں یہی حدیث سورۃ النساء کے ان الفاظ میں لکھی ہے
” عَلَّمَنَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ خُطْبَةَ الْحَاجَةِ أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ نَسْتَعِينُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ وَنَعُوذُ بِهِ مِنْ شُرُورِ أَنْفُسِنَا، مَنْ يَهْدِ اللَّهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ، وَمَنْ يُضْلِلْ فَلَا هَادِيَ لَهُ، وَأَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا (النساء) ۔۔۔۔۔ (سنن أبو داؤد،کتاب النکاح،بَابٌ فِي خُطْبَةِ النِّكَاحِ)
(اصل سکین) (6)
نیز یاد رہے کہ حضرت مرزا صاحب تو آپﷺ کے امتی  ہیں ،اور رسول اللہ ﷺنے خود فرمایا:
«إِنَّ اللَّهَ قَدْ تَجَاوَزَ عَنْ أُمَّتِي الْخَطَأَ، وَالنِّسْيَانَ ۔ اللہ تعالیٰ نے میری امت کے خطا و نسیان کو معاف کردیا ہے
(ابن ماجہ ،کتاب النکاح، بَابُ طَلَاقِ الْمُكْرَهِ وَالنَّاسِي)
ہمارا تو یہی عقیدہ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ
’’ یاد رہے کہ قرآن کا ایک نقطہ یا شعشہ بھی اوّلین اور آخرین کے فلسفہ کے مجموعی حملہ سے ذرہ سے نقصان کا اندیشہ نہیں رکھتا وہ ایسا پتھر ہے کہ جس پر گرے گا اُس کو پاش پاش کرے گا اور جو اِس پر گرے گا وہ خود پاش پاش ہوجائے گا‘‘
(آئینہ کمالات اسلام۔ روحانی خزائن جلد 5صفحہ257حاشیہ)

یہ بھی ملاحظہ فرمائیں

حضرت بانیٔ جماعت احمدیہ کاعشق رسول ﷺ – آپؑ کی تحریرات اور آپؑ کے واقعات کی روشنی میں

ذیل میں حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ علیہ السلام کی تحریرات سے کچھ اقتباس پیش ہیں ۔یہ تحریرات ا…