مختصر سوانح: حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ

دور خلافتِ اُولیٰ۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ(1841ء تا 1914)

حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ (1841ء تا1914ء) کی ابتدائی زندگی:
’’حاجی الحرمین حضرت حافظ مولوی نورالدین صاحب خلیفۃ المسیح الاوّل1841ء میں پنجاب کے ایک قدیم شہر بھیرہ میں پیدا ہوئے۔ آپ رضی اللہ عنہ کے والد کا نام حافظ غلام رسول اور والدہ کا نام نور بخت تھا۔ 32ویں پشت میں آپ رضی اللہ عنہ کا شجرۂ نسب حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے آپ رضی اللہ عنہ کے خاندان میں بہت سے اولیا اور مشائخ گزرے ہیں۔ گیارہ پشت سے تو حفاظ کا سلسلہ بھی برابر چلا آتا ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ اس مقدس خاندان کو ابتدا سے ہی قرآن کریم سے والہانہ شغف رہا ہے۔ ابتدائی تعلیم تو ماں باپ سے حاصل کی پھر لاہور اور راولپنڈی میں تعلیم پائی۔ نارمن سکول سے فارغ ہو کر چار سال پنڈدادنخاں میں سکول کے ہیڈ ماسٹر رہے پھر ملازمت ترک کردی اورحصول علم کے لئے رامپور، لکھنؤ، میرٹھ اور بھوپال کے سفر اختیار کئے ان ایام میں آپ رضی اللہ عنہ نے عربی، فارسی، منطق، فلسفہ ، طب غرض ہر قسم کے مروّجہ علوم سیکھے۔ قرآن کریم سے قلبی لگائو تھا اور اس کے معارف آپ رضی اللہ عنہ پر کھلتے رہتے تھے۔ توکل علی اللہ کا اعلیٰ مقام حاصل تھا، دعائوں سے ہر کام لیتے تھے، جہاں جاتے غیب سے آپ رضی اللہ عنہ کے لئے سہولت کے سامان پیدا ہو جاتے اور لوگ آپ رضی اللہ عنہ کے گرویدہ ہو جاتے۔ ایک مرتبہ ایک رئیس زادہ کا علاج کیا تو اس نے اس قدر روپیہ دیا کہ آپ رضی اللہ عنہ پر حج فرض ہو گیا۔ چنانچہ آپ رضی اللہ عنہ مکہ اور مدینہ منورہ کی زیارت کے لیے تشریف لے گئے، حج بھی کیا اور وہاں کئی اکابر علما اور فضلا سے حدیث پڑھی۔ اس وقت آپ کی عمر چوبیس پچیس برس تھی۔
بلاد عرب و ہند سے واپس آ کر بھیرہ میں درس وتدریس اور مطب کا آغاز کیا۔ مطب کی شان یہ تھی کہ مریضوں کیلئے نسخے لکھنے کے دوران احادیث وغیرہ بھی پڑھاتے ۔1877ء میں لارڈ لٹن (Lord Litton)وائسرائے (Viceroy) ہند کے دربار میں شرکت کی کچھ عرصہ بھوپال میں قیام کیا۔ پھر ریاست جموںو کشمیر میں 1876ء سے1892ء تک شاہی طبیب رہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت:
گورداسپور کے ایک شخص کے ذریعہ آپ رضی اللہ عنہ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا غائبانہ تعارف ہوا اور حضور علیہ السلام کا ایک اشتہار بھی نظر سے گزرا۔ مارچ1885ء میں قادیان پہنچ کر حضور علیہ السلام سے ملاقات کی۔ اس وقت تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیعت نہ لیتے تھے تاہم فراستِ صدیقی سے آپ رضی اللہ عنہ نے حضرت صاحب علیہ السلام کو شناخت کیا اور حضرت صاحب رضی اللہ عنہ کے گرویدہ ہو گئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشاد پر آپ رضی اللہ عنہ نے پادری تھامس ہاول (Thomas Howell)کے اعتراضات کے جواب میں کتاب فصل الخطاب اور پنڈت لیکھرام کی کتاب ’’تکذیب براہین احمدیہ کے جواب میں ’’تصدیق براہین احمدیہ‘‘ تصنیف فرمائی۔
23مارچ1889ء میں جب لدھیانہ میں بیعت اُولیٰ ہو ئی تو سب سے اوّل آپ رضی اللہ عنہ کو بیعت کا شرف حاصل ہوا۔ ستمبر1892ء میں ریاست کشمیر سے آپ رضی اللہ عنہ کا تعلق منقطع ہو گیا تو بھیرہ میں مطب جاری کرنے کے لئے ایک بڑا مکان تعمیر کرایا ابھی وہ مکمل نہیں ہوا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشاد کے بموجب قادیان میں دھونی رَما کر بیٹھ رہے۔ قادیان میں ایک مکان بنوا کر اس میں مطب شروع کیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ دربارِ شام میں نیز سیر و سفر میں ہمرکاب رہتے، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مقدس اولاد کو قرآن وحدیث پڑھاتے، صبح سویرے بیماروں کو دیکھتے پھر طالب علموں کو درس حدیث دیتے اور طب پڑھاتے بعد نماز عصر روزانہ درس قرآن کریم دیتے، عورتوں میں بھی درس ہوتا، مسجد اقصیٰ قادیان میں پنجوقتہ نماز اور جمعہ کی امامت کراتے، جب قادیان میں کالج قائم ہوا تو اس میں عر بی پڑھاتے رہے، دسمبر1905ء میں انجمن کارپرداز مصالح قبرستان کے امین مقرر ہوئے جب صدر انجمن بنی تو اس کے پریذیڈنٹ (President) مقرر ہوئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو حوالہ جات نکالنے میں مدد دیتے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصانیف کی پروف ریڈنگ (proof reading) کرتے، مباحثات میں مدد دیتے، اخبار الحکم اور البدر کی قلمی معاونت فرماتے، قرآن کریم کا مکمل ترجمہ کیا اور چھپوانے کے لئے مولوی محمد علی صاحب کو دیا لیکن صرف پہلا پارہ چھپ سکا۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کا دور خلافت اور کارہائے نمایاں:
27مئی1908ء کو جب کہ آپ کی عمر 67 سال تھی آپ رضی اللہ عنہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پہلے خلیفہ منتخب ہوئے۔ قریباً بارہ سو افراد نے بیعت خلافت کی۔ مستورات میں سب سے پہلے حضرت اماں جان ……نے بیعت کی۔ صدر انجمن کی طرف سے اخبار الحکم اور البدر میں اعلان کرایا گیا کہ:
’’آپ (یعنی حضرت اقدس علیہ السلام)کے وصایا مندرجہ رسالہ الوصیت کے مطابق حسب مشورہ معتمدین صدر انجمن احمدیہ موجودہ قادیان و ا قربا حضرت مسیح موعود علیہ السلام و باجازت حضرت (اماں جان) کل قوم نے جو قادیان میں موجود تھی اور جس کی تعداد اس وقت بارہ سو تھی والا مناقب حضرت حاجی الحرمین شریفین جناب حکیم نورالدین صاحب سلمہ کو آپ علیہ السلام کا جانشین اور خلیفہ قبول کیا اور آپ (رضی اللہ عنہ) کے ہاتھ پر بیعت کی۔ معتمدین میں سے ذیل کے اصحاب موجود تھے۔
حضرت مولوی سیّد محمد احسن صاحب، صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب، جناب نواب محمد علی خاں صاحب، شیخ رحمت اللہ صاحب، مولوی محمد علی صاحب ،ڈاکٹر مرز یعقوب بیگ صاحب، ڈاکٹر سیّد محمد حسین صاحب، خلیفہ رشید الدین و خاکسار (خواجہ کمال الدین)…….‘‘
اور سلسلہ کے سب ممبران کو ہدایت کی گئی کہ وہ فی الفور حکیم الامت خلیفۃ المسیح والمہدی کی بیعت کریں۔ چنانچہ اس کے مطابق عمل ہو اور حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کا انتخاب حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی طرح اجماع قوم سے خاص خدائی تصرف سے ہوا اور کسی قسم کا اختلاف اس وقت نہ ہوا۔
1) واعظین کا سلسلہ:
شروع خلافت سے ہی واعظین سلسلہ کا تقرر ہوا۔ شیخ غلام احمد صاحب، حافظ غلام رسول صاحب وزیر آباد ی، حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکی اوّلین واعظ مقرر ہوئے جنہوں نے ملک کے طول و عرض میں پھر کر سلسلہ کی خدمات سر انجام دیں بے شمار تقاریر کیں۔ مباحثات کئے اور متعدد مقامات پر جماعتیں قائم کیں۔
2) مساجد، مدرسہ احمدیہ، گرلز سکول، بورڈنگ اور اخبار نور کا اجرا
اور انجمن انصار اللہ کا قیام:
آپ رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں گرلز سکول اور اخبار نور کا 1909ء میں اجرا ہوا۔ نیز مدرسہ احمدیہ کا قیام عمل میں آیا۔ 1910ء میں مسجد نور کی بنیاد رکھی گئی۔ اسی طرح مدرسہ تعلیم الاسلام ہائی سکول اور اس کے بورڈنگ کی بنیاد رکھی گئی۔ مسجد اقصیٰ کی توسیع ہوئی، حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب (خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ)کی کوششوں سے انجمن انصار اللہ کا قیام عمل میں آیا اور اخبار الفضل جاری ہوا۔ 1913ء میں یورپ میں سب سے پہلا احمدیہ مشن قائم ہوا۔
منکرین خلافت کا پہلا فتنہ اور اس کا تدارک:
ایک عظیم کارنامہ:
مولوی محمد علی صاحب اور خواجہ کمال الدین صاحب جو صدر انجمن احمدیہ کے سرکردہ ممبر تھے ابتدا سے ہی مغربیت زدہ تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں ہی ان کی یہ خواہش تھی کہ جماعت کا نظام اسی رنگ میں چلائیں۔ جیسے دنیاوی انجمنیں چلاتی ہیں۔ اسی وجہ سے وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں ہی لنگر خانہ کے انتظام اور سلسلہ کے دوسرے کاموں پر اعتراض کرتے رہتے تھے اور اخراجات کے بارے میں حضور کی ذات پر بھی نکتہ چینی کرنے سے گریز نہیں کرتے تھے۔ حضور کی زندگی میں تو ان کی کچھ پیش نہیں گئی لیکن حضرت خلیفۃ المسیح الاول کی زندگی میں انہوں نے پَر پرزے نکالنے شروع کئے۔ خلافت کے دور میں جو پہلا جلسہ سالانہ دسمبر1908ء میں ہوا اس میں ایسی تقاریر کا انتظام کیا جس سے مقصود جماعت میں خیال پیداکرنا تھا کہ دراصل صدر انجمن احمدیہ ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جانشین اور خلیفہ ہے لیکن حضرت خلیفہ اوّل نے ان خیالات کی تردید کرتے ہوئے ضرورتِ خلافت اورا طاعت ِ خلیفہ پر زوردیا اور فرمایا:
’’تم نے خود میری بیعت کی بلکہ میرے مولیٰ نے تمہارے دلوں کو میری طرف جھکا دیا۔ پس تمہیں میری فرمانبرداری ضروری ہے۔‘‘
خواجہ صاحب اور مولوی محمد علی صاحب کے خیالات کی وجہ سے جماعت میں جو انتشار پیدا ہونے لگا تھا اس کے ازالہ کے لئے حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ نے 31جنوری1909ء کو نمائندگانِ جماعت کو قادیان میں طلب کیا اور واضح الفاظ میں یہ فیصلہ فرمایا کہ صدر انجمن تو محض ایک تنظیمی ادارہ ہے، جماعت کا اِمام اور مطاع تو صرف خلیفہ ہی ہے۔ اس اجتماع میں مندرجہ بالا دونوں حضرات سے جن میں سرکشی پائی جاتی تھی، حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ نے دوبارہ بیعت ِ اطاعت لی لیکن بیعت کر لینے اور اقرارِ اطاعت کے باوجود ان حضرات کے دل صاف نہ ہوئے اور وہ تمر د اور سرکشی میں بڑھتے گئے یہاں تک کہ کھلم کھلا مخالفت پر اتر آئے اور آپ کی شان میں گستاخانہ باتیں کرنے لگے۔
1910ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ گھوڑے سے گر گئے اور بہت چوٹیں آئیں۔ علالت کا سلسلہ طویل ہو گیا۔ اس دوران ایک مرتبہ حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ نے وصیت تحریر فرمائی جو صرف دو الفاظ پر مشتمل تھی یعنی ’’خلیفہ محمود‘‘۔ اس سے ظاہر ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ اپنے بعد حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب کو خلیفہ نامزد کرنا چاہتے تھے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ نے اپنی علالت کے دوران حضرت صاحبزادہ صاحب موصوف کو اپنی جگہ امام الصلوٰۃ مقرر فرمایا۔ یوں بھی حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ ان (یعنی حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ) کی بہت تعظیم و تکریم کرتے تھے اور برملا اس امر کا اظہار کرتے تھے کہ اپنے تقویٰ و طہارت، اطاعت امام اور تعلق باللہ میں ان کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔ جب حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ کی علالت کا سلسلہ طویل ہو گیا تو منکرینِ خلافت نے گمنام ٹریکٹ لاہور سے شائع کئے جن میں اس امر کا اظہار کیا گیا کہ قادیان میں پیر پرستی شروع ہو گئی ہے اور مرزا محمود احمد صاحب کو خلافت کی گدی پر بٹھانے کی سازشیں ہو رہی ہیں، حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ کے بارے میں لکھا گیا کہ ایک عالم دین نے ایڈیٹر پیغام صلح اور دوسرے متعلقین کو ذلیل و خوار کرنا شروع کر دیا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اہل بیت کے متعلق تحریر کیا کہ وہ بزرگان سلسلہ (مراد خواجہ صاحب اور مولوی محمد علی صاحب) کو بدنام کر رہے ہیں اسی طرح ان لوگوں نے حضرت خلیفۃ المسیح اول رضی اللہ عنہ کی دو مرتبہ بیعت اطاعت کرنے کے باوجود آپ رضی اللہ عنہ کو بدنام کرنے اور خلافت کے نظام کو مٹانے کی پوری کوشش کی لیکن وہ اپنے مذموم ارادوں میں ناکام رہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کا سب سے بڑا یہی کارنامہ ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے خلافت کے نظام کو مضبوطی سے قائم کر دیا اور خلافت کی ضرورت و اہمیت کو جماعت کے سامنے بار بار پیش کر کے اس عقیدہ کو جماعت میں راسخ کر دیا کہ خلیفہ خدا ہی بناتا ہے۔ انسانی منصوبوں سے کوئی شخص خلیفہ نہیں بن سکتا۔ خلافت کے الٰہی نظام کو مٹانے کے لئے منکرینِ خلافت نے جو فتنہ و فساد برپا کیا اور لوگوں کو ورغلا نے اور اپنا ہم خیال بنانے کی جو کارروائیاں کی گئیں آپ نے ان کا تار و پود بکھیر کر رکھ دیا۔ منکرینِ خلافت نے اپنے خیالات کی ترویج کے لئے لاہور سے ایک خاص اخبار جاری کیا جس کا نام پیغام صلح رکھا۔ یہ اخبار حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ کے نام بھی ارسال کیا جانے لگا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اس کے مضامین کو پڑھ کر فرمایا۔ یہ تو ہمیں پیغامِ جنگ ہے اور آپ رضی اللہ عنہ نے بیزار ہو کر اس اخبار کو وصول کرنے سے انکار کر دیا۔
(تاریخ احمدیت جلد 3۔صفحہ329،474)
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کی وفات:
غرض حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ اپنی خلافت کے سارے دور میں جہاں قرآن وحدیث نبویؐ کے درس و تدریس میں منہمک اور کوشاں رہے وہاں خلافت کے مسئلہ کو بار بار تقریروں اور خطبات میں واضح کیا یہاں تک کہ جماعت کی غالب اکثریت نے اس حبل اللہ کو مضبوطی سے پکڑ لیا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے13مارچ1914ء بروز جمعہ داعی اجل کو لبیک کہا اور اپنے مولائے حقیقی سے جاملے اور بہشتی مقبرہ قادیان میں اپنے محبوب آقا کے پہلو میں دفن ہوئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔‘‘
(تاریخ احمدیت جلد3صفحہ511جدید ایڈیشن)