’’مرزا صاحب ’’ابن مریم‘‘ کس طرح ہو گئے آپ کی والدہ کا نام تو چراغ بی بی تھا۔‘‘

بخاری میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی حدیث ہے:
مَا مِنْ مَوْلُوْدٍیُّؤلَدُ إِلَّا وَ الشَّيْطَانُ یَمَسُّہُ حِيْنَ يُؤلَدُ، فيستهلُّ صارخًا من مسِّ الشيطان ، ایَّاہ الَّا مريم وابنھا
(بخاری کتاب التفسیر باب و إنی اعیذھابک۔۔۔ کتاب بدء الخلق باب قول اللّٰہ تعالیٰ و اذکر فی الکتاب مریم)
کہ ہر چیز پیدا ہونے والے بچے کو بوقتِ ولادت شیطان مس کرتا ہے اور بچہ جب اسے مسِ شیطان ہوتا ہے تو وہ چیختا ہے، چلاتا ہے مگر مریم اور ابن مریم کو مسِ شیطان نہیں ہوتا۔
اس پر طبعًا سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب صرف مریمؑ اور ابن مریمؑ ہی مسِّ شیطان سے پاک ہیں تو پھر کیا باقی انبیاء کو عموماً اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو خصوصاً مسِّ شیطان ہوا تھا؟ اس کا جواب علامہ زمخشری نے اپنی تفسیر کشاف میں یہ دیا ہے:
مَعْنَاهُ أَنَّ كُلَّ مَوْلُوْدٍ يَّطْمَعُ الشَّيْطَان فِي إغْوائِهِ إلَّا مَرْيَم وَابْنَهَا، فَإنَّهُمَا كَانَا مَعْصُوْمَينِ، وَكَذٰلِكَ مَنْ كَانَ فِي صِفَتِهِمَا
(تفسیر کشاف زیر آیت واذکر فی الکتاب مریم)
کہ اس حدیث کے معنی یہ ہیں کہ شیطان ہر بچہ کو گمراہ کرنا چاہتا ہے۔ سوائے مریم اور ابن مریم کے۔ کیونکہ وہ دونوں پاک تھے اور اسی طرح ہو وہ بچہ (بھی اس میں شامل ہے) کو مریم اور ابن مریم کی صفت پر ہے۔ گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی حدث میں ’’مریم‘‘ اور ’’ابن مریم‘‘ سے صرف 2 انسان ہی مراد نہیں بلکہ 2 قسم کے انسان مراد ہیں۔ گویا جو مریمی صفت میں اور ابن مریمی صفت میں مومن اور انبیاء ہوں وہ سب ’’مریم‘‘ اور ’’ابن مریم‘‘ کے نام سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان مبارک پر یاد کئے گئے ہیں۔
ان صفات کی مزید تشریح قرآن مجید میں ہے:
وَ ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا لِّلَّذِیۡنَ اٰمَنُوا امۡرَاَتَ فِرۡعَوۡنَ ۘ اِذۡ قَالَتۡ رَبِّ ابۡنِ لِیۡ عِنۡدَکَ بَیۡتًا فِی الۡجَنَّۃِ وَ نَجِّنِیۡ مِنۡ فِرۡعَوۡنَ وَ عَمَلِہٖ وَ نَجِّنِیۡ مِنَ الۡقَوۡمِ الظّٰلِمِیۡنَ oوَ مَرۡیَمَ ابۡنَتَ عِمۡرٰنَ الَّتِیۡۤ اَحۡصَنَتۡ فَرۡجَہَا فَنَفَخۡنَا فِیۡہِ مِنۡ رُّوۡحِنَا وَ صَدَّقَتۡ بِکَلِمٰتِ رَبِّہَا وَ کُتُبِہٖ وَ کَانَتۡ مِنَ الۡقٰنِتِیۡنَ
(التحریم: 12۔13)
ترجمہ: اور اللہ نے اُن لوگوں کے لئے جو ایمان لائے فرعون کی بیوی کی مثال دی ہے۔ جب اس نے کہا اے میرے ربّ! میرے لئے اپنے حضور جنت میں ایک گھر بنادے اور مجھے فرعون سے اور اس کے عمل سے بچالے اور مجھے ان ظالم لوگوں سے نجات بخش۔
اور عمران کی بیٹی مریم کی (مثال دی ہے) جس نے اپنی عصمت کو اچھی طرح بچائے رکھا تو ہم نے اس (بچے) میں اپنی روح میں سے کچھ پھونکا اور اس (کی ماں) نے اپنے ربّ کے کلمات کی تصدیق کی اور اس کی کتابوں کی بھی اور وہ فرمانبرداروں میں سے تھی۔
ان آیات سے ما قبل کی ملحقہ آیات میں کافر مردوں کو 2عورتوں نوحؑ اور لوطؑ کی بیویوں سے تشبیہ دی گئی ہے کیونکہ ان کے خاوند مومن تھے مگر وہ دونوں کافرہ تھیں۔ مندرجہ بالا آیات سے ثابت ہوا کہ مومن 2 قسم کےہوتے ہیں: (1) آسیہ (زوجہ فرعون) صفت (2) مریمی صفت۔ پہلے وہ مومن جو کفر کے غلبہ کے نیچے دب چکے ہوں اور وہ اس سے نجات پانے کے لئے دست بدعا ہوں۔ اور دوسرے وہ مومن جن پر روزِ ازل سے ہی بدی غلبہ نہ پا سکی۔
وَ الَّتِیۡۤ اَحۡصَنَتۡ فَرۡجَہَا (الانبیاء: 92) یہ دوسری قسم کا مومن قرآنی اصطلاح میں ’’مریم‘‘ کہلاتا ہے۔ پھر وہ مریمی حالت سے ترقی کر کے فَنَفَخۡنَا فِیۡہَا مِنۡ رُّوۡحِنَا (الانبیاء:92) کے مطابق “ابن مریم” کی حالت میں چلا جاتا ہے کیونکہ مقام ِمریمی صدیقیت ہے اور مقام ِابنِ مریم مقامِ نبوت۔ گویا ہر نبی پر 2 زمانے آتے ہیں۔ پہلے وہ مقامِ مریمی میں ہوتا ہے اور اسی حالت کے متعلق قرآن مجید نے اشارہ کیا۔
فَقَدۡ لَبِثۡتُ فِیۡکُمۡ عُمُرًا مِّنۡ قَبۡلِہٖ
’’پس میں اس (رسالت) سے پہلے بھی تمہارے درمیان ایک لمبی عمر گزار چکا ہوں۔‘‘
اور ان دونوں حالتوں یعنی صدیقیت اور نبوت کی حالتوں میں وہ مسِّ شیطان سے پاک ہوتا۔
سورۃ تحریم کی آیات سے ثابت ہوا کہ جس طرح حضرت مریم صدیقہؑ اپنی پاکیزگی کے انتہائی مقام پر پہنچ کر حاملہ ہوئیں اور اس حمل سے حضرت عیسیٰ ؑ جو خدا کے نبی تھے پیدا ہوئے۔ اسی طرح ایک مومن مرد بھی پہلے مریمی حالت میں ہوتا ہے اور پھر ایک روحانی اور مجازی حمل سے گزرتا ہوا مجازی ’’ابن مریم‘‘ کی ولادت کا باعث ہوتا ہے۔ وہ مومن مرد مجاز اور استعارہ کے رنگ میں ’’مریم‘‘ ہوتا ہے اور اور مجاز اور استعارہ ہی کے رنگ میں حمل سے گزرتا ہے۔ اور مجاز اور استعارہ ہی کے رنگ میں ‘‘ابنِ مریم’’ کی ولادت کا باعث ہوتا ہے۔ خدا تعالیٰ نے تمام کافروں اور مومنوں کو 4 عورتوں ہی سے تشبیہ دی ہے۔ مرد عورتیں تو نہیں ،ہاں استعارہ اور مجاز کے رنگ میں ان کو عورتیں قرار دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت شیخ فرید الدین عطاؒ نے حضرت عباسیہ طوسیؒ کا یہ قول نقل کیا:
’’قیامت کے دن جب آواز آئے گی کہ اے مردو! تو مردوں کی صفت میں سے سب سے پہلے حضرت مریم ؑ کا قدم پڑے گا۔‘‘
(تذکرۃ الاولیاء ذکر حضرت رابعہ بصری نواں باب صفحہ51 شائع کردہ شیخ برکت علی اینڈسنز لاہور و ظہیر الاصفیاء ترجمہ اردو تذکرۃ الاولیاء صفحہ 55)
جواب نمبر2
اِطْلاقُ اِسْمِ الشَّیْءِ عَلٰی مَا یُشَابِھُہُ فِیْ اَکْثَرِخَوَاصِہ جَائِزٌ حَسنٌ
(تفسیر کبیر جلد2صفحہ689)
کہ ایک چیز کا نام دوسری چیز کو (جو اکثر خواص میں اس سے ملتی ہو) دینا جائز ہے۔
جواب نمبر3
اسم علم بھی بطور مجاز دوسرے کے لئے بولا جاتا ہے۔ چنانچہ بلاغت کی کتاب تلخیص المفتاح صفحہ 59، 60 میں لکھا ہے ’’ولا تَکُونُ عَلَمًا۔۔۔ اِلاَّ اِذا تُضَمَّنَ نُوْعٌ وَّ صَفیَّۃٌ کَحَاتَمٍ …… کہ عَلَم استعارہ استعمال نہیں ہوتا ہاں جب کوئی صفت پائی جائے تب اسم علم بھی استعمال ہو سکتا ہے۔ جیسے حاتم ہے۔‘‘
(تلخیص المفتاح از محمد عبد الرحمٰن قزوینی صفحہ59مطبع مجتبائی دہلی)
جواب نمبر4
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
’’مَنْ اَحَبَّ اَنْ یَّنْظُرَ اِلٰی عِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ فِیْ زُھْدِہ فِلْیَنْظُرُ اِلٰی اَبی الدَّرْدَاءِ‘‘
(منصب امامت صفحہ 53 مصنفہ سید اسمٰعیل شہیدؒ)
کہ تم میں سے جو شخص عیسٰی بن مریم کو زہد کی حالت میں دیکھنا چاہے وہ حضرت ابو درداء کو دیکھے۔
(تمام جوابات کے حوالہ جات از مکمل تبلیغی پاکٹ بک صفحہ504۔602 اور صفحہ 807، مرتّبہ: جناب ملک عبد الرحمٰن خادم)

یہ بھی ملاحظہ فرمائیں

حضرت بانی جماعت احمدیہ کی دعوت مقابلہ تفسیر نویسی اور پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی کی اصل واقعاتی حقیقت

قارئین کرام!آجکل سوشل میڈیا پر احمدیوں کے خلاف اشتعال انگیزمنفی مہم میں الزام تراشیوں کا ا…