کثرت پیشاب کا علاج

جواب:۔یہ تو’’بسااوقات‘‘ ’’بعض‘‘ مواقع کا ذکر ہے۔ ور نہ عام طور پر حضرت اقدس ؑ کو ۱۵،۲۰مرتبہ پیشاب آتا تھا۔
(حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ ۳۶۴ و نسیم دعوت صفحہ ۶۹ طبع اوّل)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کے ساتھ ہی ذکر فرمایا ہے :۔
’’وہ بیماری ذیابیطس ہے کہ ایک مدت سے دامنگیر ہے اور بسااوقات سو۱۰۰ سو۱۰۰ دفعہ رات کو یا دن کو پیشاب آتا ہے اور اس قدر کثرت پیشاب سے جس قدر عوارض ضعف وغیرہ ہوتے ہیں وہ سب میرے شامل حال رہتے ہیں۔ بسااوقات میرا یہ حال ہوتا ہے کہ نماز کے لئے جب زینہ چڑھ کر اوپر جاتا ہوں تو مجھے اپنی ظاہر حالت پر امید نہیں ہوتی کہ زینہ کی ایک سیڑھی سے دوسری سیڑھی پر پاؤں رکھنے تک مَیں زندہ رہوں گا۔‘‘
(اربعین نمبر۴۔ روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۴۷۱)
باقی رہا کثرت پیشاب اور اس پر مضحکہ اور اسہتزاء! تو اس کے جواب میں ذرا مندرجہ ذیل حوالہ جات پڑھ لو :۔
(1)۔ حضرت امام رازی رحمۃ اﷲ علیہ حضرت ایوب علیہ السلام کے ابتلاء کی تفصیل دیتے ہوئے لکھتے ہیں:۔
’’فَانْقَضَ عَدُوُّ اللّٰہِ سَرِیْعًا فَوَجَدَ اَیُّوْبَ عَلَیْہِ السَّلَامُ سَاجِدًا لِلّٰہِ تَعَالٰی فَاَتَاہُ مِنْ قِبَلِ الْاَرْضِ فَنَفَخَ فِیْ مَنْخَرِہٖ نَفْخَۃً اِشْتَعَلَ مِنْھَا جَسَدُہٗ وَ خَرَجَ بِہٖ مِنْ فَرْقِہٖ اِلٰی قَدَمِہٖ ثَالَیْلُ وَ قَدْ وَقَعَتْ فِیْہِ حِکَّۃٌ لَا یَمْلِکُھَا وَ کَانَ یَحِکُّ بِاَظْفَارِہٖ حَتّٰی سَقَطَتْ اَظْفَارُہٗ ثُمَّ حَکَّھَا بِالْمَسُوْحِ الْخُشْنَۃِ ثُمَّ حَکَّھَا بِالْفَخَّارِ وَالْحِجَارَۃِ وَ لَمْ یَزَلْ یَحُکُّھَا حَتّٰی تَقَطَّعَ لَحْمُہٗ وَ تَغَیَّرَ وَ نَتَنَ فَاَخْرَجَہٗ اَھْلُ الْقَرْیَۃِ وَجَعَلُوْہُ عَلٰی کُنَاسَۃٍ وَ جَعَلُوْا لَہٗ عَرِیْشًا وَ رَفَضَہُ النَّاسُ کُلُّھُمْ غَیْرُ امْرَءَ تِہٖ……اِنَّ اَیُّوْبَ عَلَیْہِ السَّلَامُ اَقْبَلَ عَلَی اللّٰہِ تَعَالٰی مُسْتَغِیْثًا مُتَضَرِّعًا اِلَیْہِ۔ فَقَالَ یَا رَبِّ لِاَیِّ شَیْءٍ خَلَقْتَنِیْ…یَالَیْتَنِیْ کُنْتُ عَرَفْتُ الذَّنْبَ الَّذَیْ اَذْنَبْتُہٗ وَالْعَمَلَ الَّذِیْ عَمِلْتُ حَتّٰی صَرَّفْتَ وَجْھَکَ الْکَرِیْمَ عَنِّیْ……اِلٰھِیْ اَنَا عَبْدٌ ذَلِیْلٌ اِنْ اَحْسَنْتَ فَالْمَنُّ لَکَ وَ اِنْ اَسَأْتَ فَبِیَدِکَ عُقُوْبَتِیْ……اِلٰھِیْ تَقَطَّعَتْ اَصَابِعِیْ وَ تَسَاقَطَتْ لَھْوَاتِیْ وَتَنَاثَرَ شَعْرِیْ وَ ذَھَبَ الْمَالُ وَ صِرْتُ اَسْأَلُ الْلُقْمَۃَ فَیُطْعِمُنِیْ مَنْ یَمُنُّ بِھَا عَلَیَّ وَ یُعَیِّرُنِیْ بِفَقْرِیْ وَ ھَلَاکِ اَوْلَادِیْ……وَ رَوَی اِبْنُ شِھَابٍ عَنْ اَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ اِنَّ اَیُّوْبَ عَلَیْہِ السَّلَامُ بَقِیَ فِی الْبَلَاءِ ثَمَانِیَ عَشَرَۃَ سَنَۃً فَرَفَضَہُ الْقَرِیْبُ وَالْبَعِیْدُ اِلَّا رَجُلَیْنِ مِنْ اِخْوَانِہٖ۔ ‘‘
(تفسیر کبیر زیر [سورة الأنبياء (21) : الآيات 83 الى 84]وَأَيُّوبَ إِذْ نَادَى رَبَّهُ أَنِّي مَسَّنِيَ الضُّرُّ وَأَنْتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ (83) فَاسْتَجَبْنا لَهُ فَكَشَفْنا مَا بِهِ مِنْ ضُرٍّ وَآتَيْناهُ أَهْلَهُ وَمِثْلَهُمْ مَعَهُمْ رَحْمَةً مِنْ عِنْدِنا وَذِكْرى لِلْعابِدِينَ (84)الْقِصَّةُ السَّادِسَةُ، قصة أيوب عليه السلام)
ترجمہ :۔ یعنی دشمن خدا( ابلیس)لپک کر حضرت ایوب علیہ السلام کے پا س پہنچا۔ دیکھا تو حضرت ایوب علیہ السلام سجدے میں گرے ہوئے تھے پس شیطان نے زمین کی طرف سے اس کی ناک میں پھونک ماری جس سے آپ کے جسم پر سر سے پاؤں تک زخم ہوگئے اور ان میں ناقابل برداشت کھجلی شروع ہو گئی۔ حضرت ایوب علیہ السلام اپنے ناخنوں سے کھجلاتے رہے یہا ں تک کہ آپ کے ناخن جھڑ گئے پھر اسے کھردرے کمبل سے جسم کو کھجلاتے رہے پھر مٹی کے ٹھیکروں اور پتھروں وغیرہ سے کھجلاتے رہے۔ یہاں تک کہ ان کے جسم کا گوشت علیحدہ ہو گیا اور اس میں بدبو پڑ گئی۔ پس گاؤں والوں نے آپ کو باہر نکال کر ایک روڑی پر ڈال دیا اور ایک چھوٹا سا عریش ان کو بنا دیا۔ آ پ کی بیوی کے سوا باقی سب لوگوں نے آپ سے علیحدگی اختیار کر لی……حضرت ایوب علیہ السلام نے درگاہِ خداوندی میں نہایت تضرع سے یہ دعاکی کہ اے میرے رب! مجھے تو نے کس لیے پیدا کیا تھا؟ اے کاش! مجھے اس گناہ کاعلم ہو سکتا جو مجھ سے سر زد ہوا اور اس عمل کاپتہ لگ سکتا جس کی پاداش میں تونے اپنی توجہ مجھ سے ہٹا لی…………الٰہی میں ایک ذلیل انسان ہوں اگر تومجھ پرمہربانی فرمائے تو یہ تیراحسان ہے۔اور اگر تکلیف دینا چاہے تو تو میری سزا دہی پر قادر ہے………… الٰہی میری انگلیاں جھڑ گئی ہیں۔ اور میرے حلق کا کوا بھی گر چکا ہے۔ میرے سب بال جھڑ گئے ہیں۔ میرا مال بھی ضائع ہو چکا ہے اور میرا یہ حال ہو گیاہے کہ میں لقمے کے لئے سوال کرتا ہوں تو کوئی مہربان مجھے کھلا دیتا ہے اور میری غربت اور میری اولاد کی ہلاکت پر مجھے طعنہ دیتا ہے…………ابن شہاب حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ حضرت ایوب علیہ السلام اس مصیبت میں اٹھارہ سال تک مبتلا رہے۔ یہاں تک کے سوائے دو بھائیوں کے باقی سب دور و نزدیک کے لوگوں نے آپ سے علیحدگی اختیار کر لی۔‘‘
(2) تفسیر حسینی المعروف تفسیر قادری میں ہے:۔
’’حقیقت یہ ہے کہ حق تعالیٰ نے انواع واقسام کی مصیبتیں ان (حضرت ایوب علیہ السلام) پر مقدر فرمائیں۔ تو بلائیں ان پر ٹوٹ پڑیں۔ غرضیکہ ان کے اونٹ بجلی گرنے سے ہلاک ہوئے اور بکریاں بہیّا آنے سے ڈوبیں۔ اور کھیتی کو آندھی نے پرا گندہ کر دیا۔ اور سات بیٹے تین بیٹیاں دیوار کے نیچے دب کر مر گئے۔ اور ان کے جسم مبارک پر زخم پڑ گئے۔ اور متعفن ہوئے اور ان میں کیڑے پڑ گئے۔ جو لوگ ان پر ایمان لائے تھے مرتد ہو گئے۔ جس گاؤں اور مقام میں حضرت ایوب علیہ السلام جاتے وہاں سے وہ مرتد انہیں نکال دیتے ۔ ان کی بی بی رحیمہ نام…………حضرت ایوب علیہ السلام کی خدمت میں رہیں۔ سات برس۔ سات مہینے۔ سات دن۔ سات ساعت۔ایوب علیہ السلام اس بلامیں مبتلا رہے اور بعضوں نے تیرہ یا اٹھارہ برس بھی کہے ہیں…………عشرات حمیدی میں لکھا ہے کہ جو لوگ ایوب علیہ السلام پر ایمان لائے تھے ان میں سے بعض نے کہا کہ اگر ان میں کچھ بھی بھلائی ہوتی تو اس بلا میں نہ مبتلا ہوتے۔ اس سخت کلام نے ان کے دل مبارک کو زخمی کر دیا اور انہوں نے جناب الٰہی میں(الانبیاء:۸۴)عرض کیا۔ یا اس قدر ضعیف اور ناتواں ہو گئے تھے کہ فرض نماز اور عرض نیاز کے واسطے کھڑے نہ ہوسکتے تھے۔ تو یہ بات ان کی زبان پر آئی۔ یا کیڑوں نے دل و زبان میں نقصان پہنچانے کا ارادہ کیا اور یہ دونوں عضو توحید اور تمجید کے محل ہیں۔ ان کے ضائع ہونے سے ڈر کر یہ کلمہ زبان مبارک پر لائے۔ یا ان کی بی بی کمال تہی د ستی اور بے چارگی کی وجہ سے اپنا گیسو بیچ کر ان کے واسطے کھانا لائیں۔ ایوب علیہ السلام نے اس حال سے مطلع ہو کر کی آواز نکالی۔ اور بعضوں نے کہا ہے کہ ان کے جسم مبارک میں جو کیڑے پڑتے تھے۔ ان میں سے ایک کیڑا زمین پر آگرا ا ور جلتی ہوئی خاک پر تڑپنے لگا۔ تو ایوب علیہ السلام نے اسے اٹھا کر پھر اسی جگہ پر رکھ دیا۔ چونکہ یہ کام اختیار سے واقع ہوا۔ تو اس نے ایسا کاٹا کہ ایوب علیہ السلام تاب نہ لاسکے اور یہ کلمہ ان کی زبان مبارک پر جاری ہو۔
(تفسیر حسینی مترجم اردو الموسومہ بہ تفسیر قادری زیر آیت الانبیاء: ۸۴)
(3) حضرت ابو اسحاق ابراہیم بن احمد الخواص رحمۃ اﷲ علیہ جن کو حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اﷲ علیہ نے ’’سر ہنگ متوکلان اور سالار مستسلمان‘‘ قرار دیا ہے اور فرمایا ہے کہ ان کا توکل میں بڑا شاندار اور بلند درجہ تھا اس کے نشا ن اور کرامتیں بہت ہیں‘‘
( تلخیص از کشف المحجوب مترجم اردو باب ۱۸ فضل ۵۴ ذکر ابواسحاق……)
ان کی نسبت حضرت شیخ فرید الدین عطار رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں :۔
’’آخر عمر میں آپ کو دستوں کی بیماری لگ گئی دن رات میں ساٹھ بار غسل کرتے جب حاجت سے فارغ ہوتے غسل کر لیتے۔‘‘
)تذکرۃ الاولیاء مترجم اردو باب نمبر۸۱ صفحہ ۳۰۳ و ۳۰۴ و تلخیص از کشف المحجوب اردو صفحہباب ۱۸ فصل ۵۴ ذکر ابواسحاق(
(4) یہی حضرت ابراہیم الخواص رحمۃ اﷲ علیہ اپنا ایک واقعہ یوں بیان کرتے ہیں :۔
’’ایک روز میں نواحی ٔ شام میں جا رہا تھا تو انار کے درخت دیکھے۔ میرے نفس نے انار کی آرزو کی۔ مگر چونکہ ترش تھے اس لیے میں نے نہ کھائے جنگل میں پہنچ کر ایک شخص کو دیکھا کہ بے دست و پا اور ضعیف ہے۔ اس کے بدن میں کیڑے پڑ گئے ہیں اور بھڑیں اس کو کاٹ رہی ہیں مجھ کو اس پر شفقت آئی اور کہا کہ اگر تو کہے تو میں تیرے لیے دعا کروں تا کہ اس بلا سے تو رہا ئی پائے۔‘‘
جواب دیا ۔’’میں نہیں چاہتا‘‘ میں نے پوچھا۔ کیوں؟جواب دیا۔ ’’اس واسطے کہ مجھے عافیت پسند ہے اور اس کو بلا۔ مگر میں اس کی پسند کو اپنی پسند پر ترجح دیتا ہوں۔‘‘ میں نے کہا اگر تم چاہو کہ ان بھڑوں کو میں تم سے علیحدہ سے رکھوں۔ جواب دیا۔ ’’اے خواص! اپنے آپ سے شیریں انار کی آرزو علیحدہ رکھو۔ تو میر ی سلامتی چاہنا اپنے لیے ایسادل چاہو جو کچھ آرزو نہ کرے۔‘‘ میں نے کہا کہ تم نے کیسے جانا کہ میں خواص ہوں اور انار شیریں کی آرزورکھتا ہوں؟‘‘ جوب دیا کہ ’’جو حقِ تعالیٰ کو پہچانتا ہے اس سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں رہتی۔‘‘میں نے کہا ’’تمہا ری حالت ان بھڑوں اور کیڑو ں کے ساتھ کیا ہے؟‘‘جواب دیا ’’میری بھڑیں ڈنگ مارتی ہیں اور کیڑے کھا تے ہیں مگر جب وہ ایساہی چاہتاہے تو بہت اچھا ہے۔‘‘
(ظہیر الاصفیا ء ترجمہ اردو تذکرۃ الاولیاء باب ۸۱ شائع کردہ حاجی چراغدین سراجدین لاہور بارسوم ۴۹۶، ۴۹۷)
(5) حضرت پیرانِ پیر غوث الاعظم سید عبد القادر جیلانی رحمۃ اﷲ علیہ کے متعلق لکھا ہے :۔
’’ایک دفعہ آپ کوکچھ خلل اسہال کا ہوااور رات بھر باون مرتبہ اتفاق جانے بیت الخلاء کا عمل میں آیا……تو آپ نے باون مرتبہ ہی غسل تازہ کیا۔‘‘
) گلدستہ ٔ کرامات صفحہ ۳۶۴ نیز کتاب مناقب تاج الاولیاء مطبوعہ مصر صفحہ ۳۶(

یہ بھی ملاحظہ فرمائیں

حضرت مرزا صاحب کے سامنے نامحرم عورتیں چلتی پھرتی رہتی تھیں،وغیرہ وغیرہ۔

جواب:۔ اس اعتراض کی بنیاد حضرت مسیح موعود ؑ یا حضور ؑ کے خلفاء کی کسی تحریر پر نہیں بلکہ ز…