اجرائے وحی و الہام کے ثبوت از قرآن کریم

خدا تعالیٰ کی تمام صفات خداتعالیٰ کی طرح ازلی ابدی ہیں اور اس کی کسی صفت پر بھی انسان یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ ختم ہوگئی ہے۔ انہی صفات میں اس ایک صفت خدا تعالیٰ کی صفت تکلّم ہے یعنی وہ اپنے پیاروں سے پہلے بھی کلام کرتا تھا اور اب بھی کلام کرتا ہے اور تاقیامت یہ سلسلہ جاری و ساری رہے گا۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے متعدد مقامات پر اپنی صفت تکلّم کے جاری رہنے کا ذکر فرمایا ہے۔ خدا تعالیٰ اپنے انبیاء کو غیب کی خبروں کی کثرت عطا فرماتا ہے جبکہ اولیاءاللہ پر بھی وحی و الہام کا سلسلہ جاری رہتا ہے البتہ کثرت صرف انبیاء علیھم السلام ہی کو نصیب ہوتی ہے ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
عٰلِمُ الۡغَیۡبِ فَلَا یُظۡہِرُ عَلٰی غَیۡبِہٖۤ اَحَدًا۔ اِلَّا مَنِ ارۡتَضٰی مِنۡ رَّسُوۡلٍ
(سورۃ الجن آیات 27 اور 28)
ترجمہ : وہ غیب کا جاننے والا ہے پس وہ کسی کو اپنے غیب پر غلبہ عطا نہیں کرتا۔ بجز اپنے برگزیدہ رسول کے۔
جماعت احمدیہ مسلمہ کا یہ عقیدہ ہے کہ شریعت آنحضور ﷺ پر مکمل ہوچکی ہے اور اب تاقیامت قرآن کریم ہی لوگوں کی ہدایت کا حقیقی سرچشمہ ہے۔ اور جو اس دائمی ہدایت کی پیروی کرے گا وہ بھی خدا تعالیٰ کا محبوب بن کر اس سے مکالمہ و مخاطبہ کا شرف پائے گا۔ اس مؤقف کے ثبوت میں چند آیات قرآنیہ پیش خدمت ہیں۔

1۔ خدا تعالیٰ کا انسان سے کلام کرنے کے 3 طریق
اللہ تعالیٰ سورۃ الشوریٰ کی آیت نمبر 52 میں فرماتا ہے:
وَ مَا کَانَ لِبَشَرٍ اَنۡ یُّکَلِّمَہُ اللّٰہُ اِلَّا وَحۡیًا اَوۡ مِنۡ وَّرَآیِٔ حِجَابٍ اَوۡ یُرۡسِلَ رَسُوۡلًا فَیُوۡحِیَ بِاِذۡنِہٖ مَا یَشَآءُ ؕ اِنَّہٗ عَلِیٌّ حَکِیۡمٌ
یعنی : اور کسی انسان کے لئے ممکن نہیں کہ اللہ اس سے کلام کرے مگر وحی کے ذریعہ یا پردے کے پیچھے سے یا کوئی پیغام رساں بھیجے جو اُس کے اِذن سے جو وہ چاہے وحی کرے ۔ یقیناً وہ بہت بلند شان (اور) حکمت والا ہے۔
مذکورہ بالا آیت میں اللہ تعالیٰ نے انسان سے کلام کرنے کے 3 ذرائع بیان فرمائے ہیں۔ یہاں لفظ ’’بشر‘‘ استعمال ہوا ہے نبی نہیں۔ پس وحی و الہام کو صرف نبیوں تک محدود نہیں رکھا جاسکتا۔ اسی طرح لفظ یُکَلِّمُ استعمال ہوا ہے جو مضارع کا صیغہ ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کلام کرتا ہے اور کرتا رہے گا۔یہ اللہ تعالیٰ کی ازلی ابدی صفت ہے جو موقوف نہیں ہوسکتی۔
الہام اور خواب دراصل وحی کی ہی اقسام ہیں۔ اس بارہ میں حضرت امام فخرالدین رازی ؒ لفظ وَحْیاً کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
وَہُوَ الْاِلْہَامُ وَالقَذْفُ فیِ الْقَلْبِ اَوِالْمَنَامِ
( التفسیر الکبیر ۔سورۃ الشورٰی ۔زیر آیت وَمَا کَانَ لِبَشَرٍ أَنْ یُکَلِّمَہُ اللّٰہُ جلد 27صفحہ160)
یعنی: الہام اور بات کا دل میں ڈالنا یا خواب میں کسی چیز کے بارہ میں علم حاصل کرنے سے مراد وحی ہے۔
حضرت امام رازی رحمہ اللہ خدا تعالیٰ کا انسان سے کلام کرنے کے ان تینوں طریقوں کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
وُ صُوْ لُ الْوَ حِیْ مِنَ اللّٰہِ اِلَی الْبَشَرِ اِمَّا اَنْ یَکُوْنَ مِنْ غَیْرِ وَاسِطَۃِ مُبَلِّغٍ اَوْ یَکُوْنُ بِوَاسِطَۃِ مُبَلِّغٍ ۔۔۔۔۔۔۔ اَمَّا الْاَوَّلُ وَہُوَ اَنَّہٗ وَصَلَ اِلَیْہِ الْوَحْیُ لَا بِوَاسِطَۃِ شَخْصٍ اٰخَرَ وَمَا سَمِعَ عَیْنَ کَلَامِ اللّٰہِ فَہُوَ الْمُرَادُ بِقَوْلِہٖ اِلَّا وَحْیًا وَ اَمَّا الثَّانِیْ وَہُوَ اَنَّہٗ وَصَلَ اِلَیْہِ الْوَحْیُ لَا بِوَاسِطَۃِ شَخْصٍ اٰخَرَ وَ لٰکِنَّہٗ سَمِعَ عَیْنَ کَلَامِ اللّٰہِ فَہُوَالْمُرَادُ مِنْ قَوْلِہٖ اَوْ مِنْ وَرَآئِ حِجَابٍ وَ اَمَّا الثَّالِثُ وَہُوَ اَنَّہٗ وَصَلَ اِلَیْہِ بِوَاسطَۃِ شَخْصٍ اٰخَرَ فَہُوَ الْمُرَادُ بِقَوْلِہٖ اَوْ یرسِلَ رَسُوْلًا فَیُوحِیَ بِاِذْنِہٖ۔
( التفسیر الکبیر ۔سورۃ الشورٰی ۔زیر آیت وَمَا کَانَ لِبَشَرٍ أَنْ یُکَلِّمَہُ اللّٰہُ جلد 27صفحہ160)
یعنی :خدا تعالیٰ کی وحی کسی انسان تک یا تو بغیر کسی مبلغ کے پہنچتی ہے یا کسی مبلغ (پہنچانے والے فرشتے )کے ذریعہ سے پہنچتی ہے۔۔۔۔۔۔
اگر تو وہ وحی کسی شخص تک بغیر کسی مبلّغ (یعنی فرشتے) کے پہنچے اور وہ شخص اللہ تعالیٰ کے کلام کے الفاظ بھی نہ سنے تو وہ وحی کہلائے گی۔
اور اگر وہ وحی کسی مبلّغ (یعنی فرشتے) کے بغیر انسان تک پہنچے لیکن اس میں انسان خدا کے الفاظ سن لے تو وہ مِنْ وَرَاء ِحِجَابٍِ میں داخل ہوگی۔
اور اگر وہ لفظی وحی کسی مبلّغ (یعنی فرشتے) کے ذریعہ سے انسان تک پہنچے تو وہ یُرْسِلَ رَسُوْلاً کی شق میں شامل ہوگی۔
آخر میں حضرت امام رازی ؒ نے ایک ایسی بات لکھی ہے جسے خوب یاد رکھنا چاہئے۔آپ فرماتے ہیں :
وَاعْلَمْ اَنَّ کُلَّ وَاحِدٍ مِنْ ہٰذِہِ الْاَقْسَامِ الثَّلٰثَۃِ وَحْیٌ اِلَّا اَنَّہٗ تَعَالٰی خَصَّصَ الْقِسْمَ الْاَوَّلَ بِاسْمِ الْوَحْیِ لِاَنَّ مَا یَقَعُ فِی الْقَلْبِ عَلیٰ سَبِیْلِ الْاِلْہَامِ فَہُوَ یَقَعُ دَفْعَۃً فَکَانَ تَخْصِیْصُ لَفْظِ الْوَحْیِ بِہٖ اَوْلٰی
( التفسیر الکبیر ۔سورۃ الشورٰی ۔زیر آیت وَمَا کَانَ لِبَشَرٍ أَنْ یُکَلِّمَہُ اللّٰہُ جلد 27صفحہ160)
یعنی معلوم ہونا چاہئے کہ یہ تینوں قسم کا کلام وحی کہلاتا ہے ۔ البتہ خدا تعالیٰ نے صرف پہلی قسم کو وحی قرار دیا ہے کیونکہ جو کلام بذریعہ الہام آتا ہے وہ دفعۃًدل میں پڑتا ہے اس لئے وحی کا نام بالخصوص اسے دینا زیادہ مناسب ہے ( یعنی اس کے لغوی معنوں سے زیادہ مناسبت ہے )
تقریباً یہی مضمون تفسیر الخازن جزء 6صفحہ 701 میں بیان ہوا ہے اور یہی مفہوم تفسیر ابن کثیر جلد 4صفحہ 121 ، 122 میں بھی مذکور ہے اور اسی طرح دیگر کتب تفاسیر بھی کم و بیش یہی مضمون بیان کرتی ہیں۔
2۔ لیلۃ القدر میں فرشتوں اور حضرت جبریل علیہ السلام کا نزول
ہر سال رمضان المبارک میں کثرت کے ساتھ خوش نصیب افراد لیلۃ القدر پاتے ہیں۔ لیلۃ القدر کی فضلیت قرآن کریم میں کچھ اس طرح مذکور ہے:
تَنَزَّلُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ وَ الرُّوۡحُ فِیۡہَا بِاِذۡنِ رَبِّہِمۡ ۚ مِنۡ کُلِّ اَمۡرٍ۔ سَلٰمٌ ۟ۛ ہِیَ حَتّٰی مَطۡلَعِ الۡفَجۡرِ
(سورۃ القدر آیت 5اور 6)
یعنی : بکثرت نازل ہوتے ہیں اُس میں فرشتے اور روح القدس اپنے ربّ کے حکم سے ۔ ہر معاملہ میں۔سلام ہے۔ یہ (سلسلہ) طلوعِ فجر تک جاری رہتا ہے۔
پس فرشتوں کا نزول اور روح القدس کا نازل ہونا اور نیک بخت مومنوں پر اللہ تعالیٰ کی سلامتی کا پیغام پہنچانا اس بات کا ثبوت ہے کہ اللہ تعالیٰ اب بھی جس سے وہ محبت کرتا ہے اسے کلیم بنادیتا ہے۔ لیلۃ القدر میں جبریل امین ؑ کے نزول کے بارہ میں حضرت امام فخرالدین رازی ؒ بیان فرماتے ہیں:
’’قَالَ الْمُفَسِّرُوْنَ اِنَّہٗ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ خَافَ عَلٰی اُمَّتِہٖ اَنْ یَّصِیْرُوْا مِثْلَ اُمَّۃِ مُوْسٰی وَ عِیْسٰی عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَ السَّلاَمُ فَقَالَ اللّٰہُ لَا تَہْتَمَّ لِذٰلِکَ فَاِنِّیْ وَ اِنْ اُخْرَجْتُکَ مِنَ الدُّنْیَا اِلَّا اَنِّیْ جَعَلْتُ جِبْرِیْلَ خَلِیْفَۃً لَّکَ یَنْزِلُ اِلیٰ اُمَّتِکَ کُلَّ لِیْلِۃٍ قَدْرٍ وَ یُبَلِّغُہُمُ السَّلَامَ مِنِّیْ۔‘‘
(التفسیر الکبیر جزء 3صفحہ 277 )
یعنی: مفسرین کہتے ہیں کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ڈر لاحق ہوا کہ آپ کی امت موسیٰ اور عیسٰی علیہماالسلام کی امت کی طرح گمراہ ہو جائیگی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تجھے اس بات کا فکر نہیں ہونا چاہئے کیونکہ اگر میں نے تجھے وفات دیدی تو میں جبرئیل کو تیرا خلیفہ مقرر کر دونگا جو ہر لیلتہ القدر میں تیری امت کی طرف آیا کریگا اور انہیں میری طرف سے سلامتی کا پیغام پہنچایا کریگا۔‘‘
3۔ خدا تعالیٰ کے لئے استقامت دکھانے والوں پر فرشتوں کے نزول کا ذکر
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
اِنَّ الَّذِیۡنَ قَالُوۡا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسۡتَقَامُوۡا تَتَنَزَّلُ عَلَیۡہِمُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ اَلَّا تَخَافُوۡا وَ لَا تَحۡزَنُوۡا وَ اَبۡشِرُوۡا بِالۡجَنَّۃِ الَّتِیۡ کُنۡتُمۡ تُوۡعَدُوۡنَ
(سورۃ حم سجدہ آیت 31)
ترجمہ: یقیناً وہ لوگ جنہوں نے کہا اللہ ہمارا ربّ ہے پھر استقامت اختیار کی اُن پر بکثرت فرشتے نازل ہوتے ہیں کہ خوف نہ کرو اور غم نہ کھاؤ اور اس جنت (کے ملنے) سے خوش ہو جاؤ جس کا تم وعدہ دیئے جاتے ہو۔
پس مذکورہ بالا آیت میں خدا تعالیٰ نے یہ وعدہ کیا ہے کہ جو بھی اللہ تعالیٰ کے لئے استقامت دکھائے گا خداتعالیٰ اپنے فرشتوں کے ذریعہ سےان کا خوف اور غم دور کردے گا اور انہیں جنت کی بشارت عطا کرے گا۔ پس اگر تو یہ وعدہ صرف ماضی سے تعلق رکھتا تھا اور آئندہ امت مسلمہ میں اس کا وجود باقی نہیں رہنا تھا تو خدا تعالیٰ کا قرآن کریم میں اس بات کو پیش کرنے کا کوئی مقصد باقی نہیں رہتا اور یہ معاذاللہ ایک لا یعنی سی بات ہوتی۔
اس آیت سے متعلق حضرت علامہ الوسی ؒ تحریر فرماتے ہیں:
وَالْاَخْبَارُ طَافِحَۃٌ بِرُؤْیَۃِ الصَّحَابَۃِ لِلْمَلَکِ وَسِمَاعِہِمْ کِلاَ مَہٗ وَ کَفٰی دَلِیْلاً لِمَا نَحْنُ فِیْہِ قَوْلُہٗ سُبْحَانَہٗ اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْہِمُ الْمَلٰئِکَۃُ اَنْ لاِّ تَخَافُوْا وَلاَ تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّۃِ الَّتِیْ کُنْتُمْ تُوْ عَدُوْنَ فَاِنَّ فِیْہَا نُزُوْلَ الْمَلَکِ عَلٰی غَیْرِ الْاَنْبِیَاءِ فِی الدُّنْیَا وَ تَکْلِیْمَہٗ اِیَّاہُ وَلَمْ یَقُلْ اَحَدٌ مِنَ النَّاسِ اَنَّ ذَالِکَ یَسْتَدْعِی النَّبُوَّۃَ وَکَوْنَ ذٰلِکَ لِاَنَّ النُّزُوْلَ وَالتَّکْلِیْمَ قُبَیْلَ الْمَوْتِ غَیْرُ مُفِیْدٍ کَمَا لاَ یَخْفٰی۔
(تفسیر روح المعانی جزء 22 صفحہ40 زیر آیت خاتم النبیّن )
یعنی روایات بھری پڑی ہیں اس بات سے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے فرشتےکو دیکھا اور اس کا کلام سنا اور اس کے لئے بطور دلیل ایک آیت ہی کافی ہے جس میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ یقیناً وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ ہمارا رب صرف اللہ ہی ہے اور پھر وہ اس پر مضبوطی سے قائم رہے ان پر فرشتوں کا نزول ہوتا ہے جو انہیں کہتے ہیں کہ تم نہ ڈرو اور نہ غم کھاؤ اور خوشی مناؤ اس جنت کی وجہ سے جس کا تمہیں وعدہ دیا جاتا ہے۔ سو اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ جو لوگ نبی نہیں ان پر بھی فرشتے اُترتے اور ان سے کلام کرتے ہیں اور کوئی شخص اس بات کا قائل نہیں کہ یہ امر نبوۃ خاصہ کو ہی چاہتا ہے ہاں یہ کہنا کہ فرشتوں کا یہ نزول اور انکاکلام موت سے ذرا پہلے ہوتا ہے بے فائدہ سا قول ہے جیسے کہ واضح ہی ہے ۔
4۔ اَلرُّوْح کے نزول کا وعدہ
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
رَفِیۡعُ الدَّرَجٰتِ ذُو الۡعَرۡشِ ۚ یُلۡقِی الرُّوۡحَ مِنۡ اَمۡرِہٖ عَلٰی مَنۡ یَّشَآءُ مِنۡ عِبَادِہٖ لِیُنۡذِرَ یَوۡمَ التَّلَاقِ
(سورۃ المؤمن آیت 16)
یعنی : وہ بلند درجات والا صاحبِ عرش ہے۔ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہے اپنے امر سے روح کو اُتارتا ہے تاکہ وہ ملاقات کے دن سے ڈرائے۔
مذکوہ بالا آیت کریمہ میں لفظ یُلۡقِیْ استعمال ہوا ہے جو مضارع کا صیغہ ہے ۔ یعنی اللہ پاک نازل فرماتا ہے اور نازل فرماتارہے گا۔اسی طرح روح سے مراد روح القدس بھی ہیں اور وحی بھی اس کے ایک معنیٰ ہیں۔ الروح کی تفسیر کرتے ہوئے امام رازی لکھتے ہیں :
اِنَّ الْمُرَادَ مِنَ الرُّوْحِ اَلْوَحْیُ وَھُوَ کَلاَمُ اللّٰہِ
(التفسیر الکبیر جزء 19 صفحہ 175 )
یعنی روح سے مراد وحی اور خدا کا کلام ہے۔
5۔ غزوات میں صحابہ کرام ؓ پر ملائکۃ اللہ کے نزول کی آیات
قرآن کریم میں متعدد مقامات پرجنگوں کے دوران اللہ تعالیٰ کی فرشتوں سے نصرت و مدد کا ذکر ملتا ہے۔ احادیث کی کتب اور تفاسیر میں کثرت کے ساتھ درج ہے کہ صحابہ ؓ کو دوران جنگ فرشتوں کا نزول اور ان کی معیت نہ صرف محسوس ہوتی تھی بلکہ کشفاً بھی وہ ان فرشتوں کو دیکھا کرتے تھے۔ اس ضمن میں چند ایک آیات کریمہ ملاحظہ ہوں:
اِذۡ تَقُوۡلُ لِلۡمُؤۡمِنِیۡنَ اَلَنۡ یَّکۡفِیَکُمۡ اَنۡ یُّمِدَّکُمۡ رَبُّکُمۡ بِثَلٰثَۃِ اٰلٰفٍ مِّنَ الۡمَلٰٓئِکَۃِ مُنۡزَلِیۡنَ ۔ بَلٰۤی ۙ اِنۡ تَصۡبِرُوۡا وَ تَتَّقُوۡا وَ یَاۡتُوۡکُمۡ مِّنۡ فَوۡرِہِمۡ ہٰذَا یُمۡدِدۡکُمۡ رَبُّکُمۡ بِخَمۡسَۃِ اٰلٰفٍ مِّنَ الۡمَلٰٓئِکَۃِ مُسَوِّمِیۡنَ۔
(سورۃ آل عمران آیات 125 اور 126)
یعنی : جب تو مومنوں سے یہ کہہ رہا تھا کہ کیا تمہارے لئے کافی نہیں ہوگا کہ تمہارا ربّ تین ہزار اتارے جانے والے فرشتوں سے تمہاری مدد کرے؟ کیوں نہیں۔ اگر تم صبر کرو اور تقویٰ اختیار کرو جبکہ وہ اپنے اسی جوش میں (کھولتے ہوئے) تم پر ٹوٹ پڑیں تو تمہارا ربّ پانچ ہزار عذاب دینے والے فرشتوں کے ساتھ تمہاری مدد کرے گا۔
اسی طرح ایک موقعہ پر فرمایا:
اِذۡ تَسۡتَغِیۡثُوۡنَ رَبَّکُمۡ فَاسۡتَجَابَ لَکُمۡ اَنِّیۡ مُمِدُّکُمۡ بِاَلۡفٍ مِّنَ الۡمَلٰٓئِکَۃِ مُرۡدِفِیۡنَ
(سورۃ الانفال آیت 10)
یعنی : (یاد کرو) جب تم اپنے ربّ سے فریاد کر رہے تھے تو اس نے تمہاری التجا کو قبول کرلیا (اس وعدہ کے ساتھ) کہ میں ضرور ایک ہزار قطار در قطار فرشتوں سے تمہاری مدد کروں گا۔
6۔ کلام نہ کرنا جھوٹے معبودوں کی نشانی قرار دی گئی ہے
قرآن کریم میں خدا تعالیٰ جھوٹے معبودوں کی ایک بڑی نشانی یہ بیان فرماتا ہے کہ وہ کلام نہیں کرتے۔ پس اگر یہی عقیدہ خدا تعالیٰ کے بارہ میں اپنالیا جائے تو معاذاللہ خود اللہ تعالیٰ کی ذات پر اعتراض کاباعث ہوگا۔ حضرت موسیٰ ؑ کی قوم کا بچھڑے کو معبود بنانے اور اس کے جھوٹے ہونے کی دلیل دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَ اتَّخَذَ قَوۡمُ مُوۡسٰی مِنۡۢ بَعۡدِہٖ مِنۡ حُلِیِّہِمۡ عِجۡلًا جَسَدًا لَّہٗ خُوَارٌ ؕ اَلَمۡ یَرَوۡا اَنَّہٗ لَا یُکَلِّمُہُمۡ وَ لَا یَہۡدِیۡہِمۡ سَبِیۡلًا ۘ اِتَّخَذُوۡہُ وَ کَانُوۡا ظٰلِمِیۡنَ
(سورۃ الاعراف آیت 146)
یعنی: اور موسیٰ کی قوم نے اس کے بعد اپنے زیورات سے ایک ایسے بَچھڑے کو (معبود) پکڑ لیا جو ایک (بے جان) جسم تھا جس سے بچھڑے کی سی آواز نکلتی تھی۔ کیا انہوں نے غور نہیں کیا کہ وہ نہ ان سے بات کرتا ہے اور نہ انہیں (سیدھی) راہ کی ہدایت دیتا ہے۔ وہ اُسے پکڑ بیٹھے اور وہ ظلم کرنے والے تھے۔
اسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی قوم کے بتوں کے جھوٹا ہونے کی دلیل دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
قَالُوۡۤا ءَاَنۡتَ فَعَلۡتَ ہٰذَا بِاٰلِہَتِنَا یٰۤـاِبۡرٰہِیۡمُ۔ قَالَ بَلۡ فَعَلَہٗ ٭ۖ کَبِیۡرُہُمۡ ہٰذَا فَسۡـَٔلُوۡہُمۡ اِنۡ کَانُوۡا یَنۡطِقُوۡنَ
(سورۃ الانبیاء آیت 63 اور64)
یعنی انہوں نے کہا کیا تو نے ہمارے معبودوں سے یہ کچھ کیا ہے؟ اے ابراہیم!۔ اس نے کہا بلکہ ان کے اس سردار نے یہ کام کیا ہے۔ پس ان سے پوچھ لو اگر وہ بول سکتے ہیں۔
7۔ خدا تعالیٰ کا کسی سے کلام نہ کرنا خداتعالیٰ کی ناراضگی کی دلیل ہوتی ہے
دوزخیوں اور جہنمیوں کے بارہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نہ تو ان سے کلام کروں گا اور نہ ہی ان کی طرف دیکھوں گا۔ اگر تو یہ عقیدہ اپنالیا جائے کہ خدا تعالیٰ امت محمدیہ ﷺ میں اب کسی سے کلام نہیں کرتا تو اس سے یہ احتمال پیدا ہوگا کہ خدا تعالیٰ اس امت سےبھی خوش نہیں ہےجبکہ یہ امت تو خیر امم قرار دی گئی ہے۔ پس ممکن نہیں کہ جو سلوک خدا تعالیٰ بدکار لوگوں سے کرتا ہو وہی سلوک نیک لوگوں کے ساتھ کرے۔ دوزخیوں کے بارہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
اِنَّ الَّذِیۡنَ یَشۡتَرُوۡنَ بِعَہۡدِ اللّٰہِ وَ اَیۡمَانِہِمۡ ثَمَنًا قَلِیۡلًا اُولٰٓئِکَ لَا خَلَاقَ لَہُمۡ فِی الۡاٰخِرَۃِ وَ لَا یُکَلِّمُہُمُ اللّٰہُ وَ لَا یَنۡظُرُ اِلَیۡہِمۡ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ وَ لَا یُزَکِّیۡہِمۡ ۪ وَ لَہُمۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ
(سورۃ آل عمران آیت78 )
یعنی :یقیناً وہ لوگ جو اللہ کے عہدوں اور اپنی قَسموں کو معمولی قیمت میں بیچ دیتے ہیں یہی ہیں جن کا آخرت میں کوئی حصہ نہ ہوگا اور اللہ نہ ان سے کلام کرے گا اور نہ قیامت کے دن ان پر نظر ڈالے گا اور نہ انہیں پاک کرے گا۔ اور ان کے لئے دردناک عذاب (مقدر) ہے۔
اسی طرح جب بدکار لوگ جہنم سے نکالے جانے کے بارہ میں خدا تعالیٰ کے حضور فریاد کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان کی بداعمالیوں کی وجہ سے انہیں فرمائے گا:
قَالَ اخۡسَـُٔوۡا فِیۡہَا وَ لَا تُکَلِّمُوۡنِ
(سورۃ المؤمنون آیت 109)
یعنی : وہ کہے گا اسی میں دفع ہوجاؤ اور مجھ سے کلام نہ کرو۔
8۔ خیر امم ہونے کا اعزاز مکالمہ و مخاطبہ ٔ الہٰی کا متقاضی ہے
جیسا کہ ذکر کیا جاچکا ہے کہ کلام نہ کرنا خدا تعالیٰ کی ناراضگی کی دلیل ہے جبکہ اس امت کے بارہ میں خدا تعالیٰ کا ارشاد ہے:
کُنۡتُمۡ خَیۡرَ اُمَّۃٍ اُخۡرِجَتۡ لِلنَّاسِ
(سورۃ آل عمران آیت 111)
یعنی تم بہترین امت ہو جو تمام انسانوں کے فائدے کے لئے نکالی گئی ہے۔
پس یہ امت کس طرح سے بہترین امت کہلا سکتی ہے جبکہ اس سے پہلی امتوں میں تو خدا تعالیٰ لوگوں پر وحی کرتا ہویہاں تک کہ ان کی عورتیں بھی مکالمہ و مخاطبہ سے مشرف ہوتی ہوں لیکن یہ امت اس انعام سے محروم رکھی جائے؟
قرآن کریم میں حضرت مریم علیھا السلام اور حضرت موسیٰ ؑ کی والدہ پر وحی کے نزول کا ذکر ہے ۔ اسی طرح حضرت مسیح ناصریؑ کے حواریوں پر بھی وحی کے نزول کا ذکر قرآن میں موجود ہے یہاں تک کہ شہد کی مکھی اور زمین کو بھی وحی ہونے کی بات قرآن میں بیان ہوئی ہے مگر یہ امت اس عظیم انعام سے محروم رہ کر کس طرح بہترین امت ہونے کا اعزاز پاسکتی ہے؟
درج ذیل آیات ملاحظہ فرمائیں:
وَأَوْحَیْنَا إِلَی أُمِّ مُوسَی أَنْ أَرْضِعِیْہِ فَإِذَا خِفْتِ عَلَیْہِ فَأَلْقِیْہِ فِیْ الْیَمِّ وَلَا تَخَافِیْ وَلَا تَحْزَنِیْ إِنَّا رَادُّوہُ إِلَیْکِ وَجَاعِلُوہُ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ
(سورہ القصص آیت 7 )
یعنی ہم نے موسٰی ؑ کی ماں کو وحی کی کہ اسکو دودھ پلا پھر جب تجھے اس کے متعلق کوئی خوف لاحق ہو تواسے دریا میں ڈال دے اور خوف نہ کھانا اور نہ غم کرناہم اسے ضرورتیرے پاس واپس لوٹادینگے اوراسے اپنا رسول مقرر کرینگے۔
فَاتَّخَذَتْ مِن دُونِہِمْ حِجَاباً فَأَرْسَلْنَا إِلَیْہَا رُوحَنَا فَتَمَثَّلَ لَہَا بَشَراً سَوِیّاً۔ قَالَتْ إِنِّیْ أَعُوذُ بِالرَّحْمَن مِنکَ إِن کُنتَ تَقِیّاً۔ قَالَ إِنَّمَا أَنَا رَسُولُ رَبِّکِ لِأَہَبَ لَکِ غُلَاماً زَکِیّاً۔
(سورۃ مریم : 18 تا 21)
یعنی ہم نے اس کی طرف اپنا( فرشتہ ) جبرئیل بھیجا جو ایک مردِکامل کی صورت میں اس کے سامنے آیا ۔مریم نے اسے کہا کہ اگر تو واقعی متقی ہے تو میں تجھ سے خدا کی پناہ مانگتی ہوں۔ جبرئیل نے جواب دیاکہ میں تیرے ربّ کا ایلچی(فرشتہ) ہوں تاکہ تجھے خبر دوں کہ تجھے ایک پاک لڑکا عطا کیا جائیگا۔
وَإِذْ أَوْحَیْتُ إِلَی الْحَوَارِیِّیْنَ أَنْ آمِنُوْا بِیْ وَبِرَسُولِیْ قَالُوْا آمَنَّا وَاشْہَدْ بِأَنَّنَا مُسْلِمُونَ
(سورۃ المائدۃ : 112)
یعنی یاد کرو جب میں نے حواریوں کو وحی کی کہ تم مجھ پر بھی ایمان لاؤ اور میرے رسول (عیسیٰؑ) پر بھی۔ انہوں نے کہا کہ ہم ایمان لائے اور (اے رسول!) تو گواہ رہ کہ ہم فرمانبردار ہیں ۔
وَ اَوۡحٰی رَبُّکَ اِلَی النَّحۡلِ اَنِ اتَّخِذِیۡ مِنَ الۡجِبَالِ بُیُوۡتًا وَّ مِنَ الشَّجَرِ وَ مِمَّا یَعۡرِشُوۡنَ
(سورۃ النحل آیت 69)
یعنی اور تیرے ربّ نے شہد کی مکھی کی طرف وحی کی کہ پہاڑوں میں بھی اور درختوں میں بھی اور ان (بیلوں) میں جو وہ اونچے سہاروں پر چڑھاتے ہیں گھر بنا۔
یَوۡمَئِذٍ تُحَدِّثُ اَخۡبَارَہَا۔ بِاَنَّ رَبَّکَ اَوۡحٰی لَہَا
(سورۃ الزلزال آیت 5 تا 6)
یعنی: اُس دن وہ(یعنی زمین) اپنی خبریں بیان کرے گی۔ کیونکہ تیرے ربّ نے اسے وحی کی ہوگی۔
9۔ خدا تعالیٰ پکارنے والے کی پکار کا جواب دیتا ہے
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں اپنی ہستی کی دلیل دیتے ہوئے مؤمنوں کو حکم دیتا ہے کہ مجھے پکارو میں تمہیں جواب دوں گا۔ فرمایا:
وَ قَالَ رَبُّکُمُ ادۡعُوۡنِیۡۤ اَسۡتَجِبۡ لَکُمۡ
(سورۃ المؤمن آیت 60)
یعنی اور تمہارے ربّ نے کہا مجھے پکارو میں تمہیں جواب دوں گا۔
پس کس طرح ممکن ہے کہ یہ عقیدہ رکھا جائے کہ خدا تعالیٰ آنحضور ﷺ کے بعد کسی کو شرف مکالمہ و مخاطبہ سے مشرف نہیں فرمائے گا جبکہ خدا تعالیٰ تو خود لوگوں کو دعوت دےرہا ہے کہ مجھے پکارو ، میں جواب دوں گا ۔ پس تاقیامت خدا تعالیٰ کا یہ دعویٰ لوگوں کو خداتعالیٰ کی ہستی کا ثبوت دیتی رہے گی کہ جو خدا کو پکارے گا خدا تعالیٰ اسے جواب دے گااور کہتا رہے گا کہ میں قریب ہوں اور جواب دیتا ہوں۔ اسی بات کو اللہ تعالیٰ نے سورۃ البقرۃ کی آیت 187 میں ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے:
وَ اِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیۡ عَنِّیۡ فَاِنِّیۡ قَرِیۡبٌ ؕ اُجِیۡبُ دَعۡوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ
یعنی اور جب میرے بندے تجھ سے میرے متعلق سوال کریں تو یقیناً میں قریب ہوں۔ میں پکارنے والے کی پکار کا جواب دیتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے۔
10۔ آنحضورﷺ کی کامل اتباع کی وجہ سے مکالمہ و مخاطبۂ الٰہیہ نصیب ہوتا ہے
اس زمانے کے امام حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام خدا تعالیٰ سے مکالمہ و مخاطبہ کا شرف پانے کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’۔۔۔اورمیں اسی کی قسم کھا کر کہتاہوں کہ جیسا کہ اس نے ابراہیم ؑ سے مکالمہ و مخاطبہ کیا اور پھر اسحقؑ سے اوراسمعیلؑ سے اور یعقوب ؑ سے اور یوسفؑ سے اورموسیٰ ؑ سے اور مسیحؑ ابن مریم سے اور سب کے بعد ہمارے نبی ﷺ سے ایسا ہمکلام ہواکہ آپؐ پر سب سے زیادہ روشن اور پاک وحی نازل کی، ایساہی اس نے مجھے بھی اپنے مکالمہ مخاطبہ کا شر ف بخشا ۔ مگریہ شرف مجھے محض آنحضرت ﷺ کی پیروی سے حاصل ہوا۔ اگر میں آنحضرت ﷺکی امت نہ ہوتا اورآپؐ کی پیروی نہ کرتا تو اگردنیا کے تمام پہاڑوں کے برابر میرے اعمال ہوتے تو پھر بھی میں کبھی یہ شرف مکالمہ و مخاطبہ ہرگز نہ پاتا ۔ کیونکہ اب بجز محمدی نبوت کے سب نبوتیں بند ہیں ۔ شریعت والا نبی کوئی نہیں آ سکتا اوربغیر شریعت کے نبی ہو سکتاہے مگروہی جو پہلے امّتی ہو۔ پس اسی بناء پرمیں امتی بھی ہوں اورنبی بھی اور میر ی نبوت یعنی مکالمہ مخاطبہ الٰہیہ آنحضرتﷺ کی نبوت کا ایک ظل ہے اور بجز اس کے میری نبوت کچھ بھی نہیں ۔ وہی نبوت محمدیہ ہے جو مجھ میں ظاہرہوئی ہے۔ اور چونکہ میں محض ظلّ ہوں اور امّتی ہوں اس لئے آنجناب ؐ کی اس سے کچھ کسرِ شان نہیں۔۔۔‘‘
(تجلیات الٰہیہ ۔ روحانی خزائن جلد 20 صفحہ ،411 تا 412)