صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم پر وحی و الہام کے نزول کا ذکر

جیسا کہ قرآن کریم اور احادیث بنویہ ﷺ سے ثابت کیا جاچکا ہے کہ وحی و الہام کا دروازہ تاقیامت جاری و ساری رہے گا لیکن ایسی وحی جو شریعت کے ساتھ تعلق رکھتی ہے وہ ختم ہوچکی ہے۔ ذیل میں آنحضور ﷺ کے بعض صحابہ کرام ؓ کی وحی کا ذکر درج کیا جاتا ہے۔
1۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ پر وحی و الہام کا ذکر
حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے بارہ میں کتاب اللمع میں لکھا ہے :
کَانَتْ لِاَبِیْ بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ جَارِیَۃٌ حُبْلٰی فَقَالَ اُلْقِیَ فِیْ رَوْعِیْ اَنَّھَا اُنْثیٰ فَوَلَدَتْ اُنْثیٰ۔
(کتاب اللمع لابی نصر عبد اللہ علی السراج القوسنی باب ذکر ابی بکر الصدیق ؓ صفحہ 123 )
یعنی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی لونڈی حاملہ تھی۔ آپؓ فرماتے ہیں کہ مجھے الہام ہوا کہ حمل میں لڑکی ہے تو اس کے ہاں لڑکی ہی پیدا ہوئی۔
2۔ حضرت عمر ؓ کا وحی و الہام سے مشرف ہونے کی روایات
حضرت علامہ ابن حجر الہیثمیؒ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں نبی کریم ﷺْ کا ایک ارشاد بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’ اِنَّہُ مِنَ الْمُحَدَّثِیْنَ بِفَتْح الدَّالِ اَیْ اَلْمُلْھَمِیْنَ‘‘
(الفتاوی الحدیثیہ۔ مصنفہ علامہ ابن حجر الہیثمی صفحہ 395 مطلب: فی کلام علی کرامات الاولیاء علی اکمل الوجہ)
یعنی وہ محدَّثین ( یعنی ملھَمین ) میں سے ہے۔
اور یہ بات بالکل درست ہے کہ آنحضور ﷺ کی زندگی میں بھی اللہ تعالیٰ حضرت عمر ؓ کو اپنے کلام سے مشرف کرتا رہا تھا اور بعد میں جب آپ خلیفۃ الرسولﷺ کے منصب پر فائز ہوئے ہیں تب بھی وحی و الہام اور کشوف کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ آپ پر غیب کی خبریں ظاہر فرماتا رہا ہے۔
چنانچہ اذان کے الفاظ جب رؤیا الصادقہ کے ذریعہ حضرت عبداللہ بن زیدؓ کو سکھائے گئے تو حضرت عمرؓ کو بھی اللہ تعالیٰ نے الہاماً ایسے ہی الفاظ القاء فرمائے تھے۔اس بات کو ذکر احادیث کی کئی مشہور کتب میں مذکور ہے۔
اسی طرح آپؓ کے عہد خلافت کا ایک مشہور واقعہ درج ذیل ہے:
عن ابن عمر قال: وجه عمر جيشا وأمر عليهم رجلا يدعى سارية فبينما عمر يخطب يوما جعل ينادي: يا سارية الجبل – ثلاثا، ثم قدم رسول الجيش فسأله عمر، فقال: يا أمير المؤمنين! لقينا عدونا فهزمنا، فبينا نحن كذلك إذ سمعنا صوتا ينادي: يا سارية الجبل – ثلاثا، فأسندنا ظهورنا إلى الجبل فهزمهم الله، فقيل لعمر: إنك كنت تصيح بذلك. "ابن الأعرابي في كرامات الأولياء والديرعاقولي في فوائده وأبو عبد الرحمن السلمي في الأربعين وأبو نعيم عق معا في الدلائل واللالكائي في السنة، كر، قال الحافظ ابن حجر في الإصابة: إسناده حسن”.
ترجمہ :حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے آپ نے فرمایاکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک لشکر کو روانہ فرمایا اور حضرت ساریہ رضی اللہ عنہ کو اُس لشکر کا سپہ سالار بنایا ۔ ایک دن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے خطبہ کے درمیان یہ نداء دی کہ یا ساریۃ الجبل یعنی اے ساریہ !پہاڑ کے دامن میں ہوجاؤ ۔ یہ آپ نے تین دفعہ فرمایا ۔ جب لشکر کی جانب سے قاصد آیاتو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے وہاں کا حال دریافت کیا ؟ اُس نے کہا کہ اے امیر المؤمنین! ہم نے دشمن سے مقابلہ کیا تو وہ ہمیں شکست دے ہی چکے تھے کہ اچانک ہم نے ایک آواز سنی کہ اے ساریہ !پہاڑ کے دامن میں ہوجاؤ ۔ پس ہم نے اپنی پیٹھ پہاڑ کی جانب کرلی تو اللہ تعالیٰ نے دشمنوں کو شکست دے دی ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے یہ بھی عرض کیا گیا کہ بیشک وہ آواز دینے والے آپ ہی تھے۔
اس روایت کوحافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب الإصابة في معرفة الصحابة میں ذکر کرنے کے بعد اس کی سند کو حسن قرار دیا ہے ۔
یہ واقعہ کئی کتب میں درج ہے جن میں سے چند ایک کا ذکر حسب ذیل ہے۔
(كنز العمال في سنن الأقوال والأفعال لعلي المتقي الهندي،حرف الفاء ، كنز العمال في سنن الأقوال والأفعال، حديث نمبر:35788)
(دلائل النبوة للبيهقي،حديث نمبر:2655)
(جامع الأحاديث للسيوطي،حرف الياء ،فسم الافعال،مسند عمر بن الخطاب، حديث نمبر:28657)
(الإصابة في معرفة الصحابة،لابن حجر العسقلاني،القسم الأول ،السين بعدها الألف)
اسی طرح ایک روایت میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نےحضرت سعدؓ بن ابی وقاص کو ایرانیوں سے جنگ کے دوران جو تحریری فرمان بھجوایا اس میں یہ درج تھا کہ مجھے القاء ہوا ہے کہ تمہارے مقابلہ میں دشمن کو شکست ہوگی۔
(الوثائق العباسیہ مرتبہ ڈاکٹر حمید اللہ حیدر آبادی فرمان بنام سعد ؓ بن ابی وقاص صفحہ 303 )
شیخ عبدالرحمان الصفوری اپنی کتاب نزھۃ المجالس جزء اول صفحہ 207 باب الحلم والصفح میں لکھتے ہیں :
’’قَالَ عُمَرُ رَأَیْتُ رَبِّیْ فِی الْمَنَامِ فَقَالَ یَا ابْنَ الْخَطَّابِ تَمَنَّ عَلَیَّ فَسَکَتُّ فَقَالَ فِی الثَّا نِیَۃِ یَا ابْنَ الْخَطَّابِ اَعْرِضُ عَلَیْکَ مُلْکِیْ وَ مَلَکُوْتِیْ وَاَقُوْلُ لَکَ تَمَنَّ عَلَیَّ وَ اَنْتَ فِیْ ذٰلِکَ تَسْکُتُ فَقُلْتُ یَا رَبِّ شَرَّفْتَ الْاَنْبِیَاءَ بِکُتُبٍ اَنْزَلْتَھَا عَلَیْھِمْ فَشَرِّفْنِیْ بِکَلَامٍ مِنْکَ بِلَا وَاسِطَۃٍ فَقَالَ یَا ابْنَ الْخَطَّابِ: مَنْ اَحْسَنَ اِلٰی مَنْ أَسَاءَ اِلَیْہِ فَقَدْ اَخْلَصَ لِیْ شُکْرًا وَ مَنْ أَسَاءَ اِلٰی مَنْ اَحْسَنَ اِلَیْہِ فَقَدْ بَدَّلَ نِعْمَتِیْ کُفْرًا۔‘‘
یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے اپنے رب کو خواب میں دیکھا تو اس نے فرمایا کہ اے ابن الخطاب ! کچھ مانگ !! میں چُپ رہا تو اس نے دوبارہ فرمایا : اے ابن الخطاب ! میں تیرے سامنے اپنا ملک اور حکومت پیش کر رہا ہوں اور کہہ رہا ہوں کہ مجھ سے کسی چیز کی خواہش کر اور تو خا مو ش بیٹھا ہے ؟ ا س پر میں نے عرض کی کہ اے میرے ربّ! تو نے انبیاء کو ان پر کتابیں نازل فرما کر ( اپنے کلام سے)مشرّف کیا ہےپس مجھے بھی اپنے ِ بلا واسطہ کلام سے نواز ۔اس پر خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ اے ابن الخطاب ! جو شخص بھلا کرے اس انسان سےجس نے اسے دُکھ دیا ہو تو یقیناً اس شخص نے میرا حقیقی اور خالص شکر ادا کیا اور جو انسان اس شخص کو دکھ دے جس نے اس سے بھلا ئی کا سلوک کیا ہو تو اس نے میری نعمت کو کفر سے تبدیل کر دیا۔
اس واقعہ سے ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے بندوں سے خواہ وہ نبی نہ بھی ہوں کس طرح محبت سے کلام کرتا ہے ۔
3۔ حضرت علی ؓ پر خداتعالیٰ کی وحی کا ذکر
روایات میں ذکر ہے کہ آنحضورﷺ کی تجہیزوتکفین کے موقعہ پر اللہ تعالیٰ نے حضرت علیؓ کو وحی کے ذریعہ معاملات سمجھائے چنانچہ ایک روایت میں ذکر ہے:
کَانَ عَلِی والفضل یَغْسِلَانِ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلیَّ اللّٰہُ عَلَیہِ وَسَلَّمَ فَنُوْدِیَ عَلِیُّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ اِرْفَعْ طَرْفَکَ اِلَی السَّمَاءِ۔
( الخصائص الکبریٰ للسیوطی صفحہ 482 باب ما وقع فی غسلہٖؐ من الآیات)
یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ اور الفضلؓ دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو غسل دے رہے تھے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو آواز دی گئی کہ تواپنی نگاہ آسمان کی طرف اُٹھا ۔
4۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر واقعۂ افک کے ایام میں خدائی بشارت کا واقعہ
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو خدا تعالیٰ نے جس قدر علم و اخلاص سے نوازا تھا وہ ظاہروباہر ہے ۔ابھی آپؓ 18 یا 20 برس کی عمر کو بھی نہ پہنچی تھیں کہ ایک واقعہ میں منافقین کو آپؓ پر بدظنی کرنے بلکہ جھوٹا اتہام لگانے کا موقع ہاتھ آگیا ۔ اس واقعہ کو واقعۂ افک کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس واقعہ کی تفصیل روایات میں درج ہے کہ جب آپؓ کو یہ خبر پہنچی کہ بعض منافقین آپ کی ذات بابرکت پر گندے الزام لگا رہے ہیں تو آپ کو بہت رنج پہنچا اور آپؓ سے کھا نا پینا چھوٹ گیا اور زندگی تلخ ہو گئی۔ آپؓ اپنے رب کے سامنے گڑ گڑاتی رہیں اور مدد کی درخواست کرتی رہیں۔آپؓ کے درد اور دُکھ کو دیکھ کر خواب میں ایک فرشتہ ایک نوجوان کی شکل میں آپؓ کے سامنے آیا اور کہا:
’’فَقَالَ لِیْ: مَا لَکِ ؟؟ فَقُلْتُ خَزِیْنَۃٌ مِمَّا ذَکَرَ النَّاسُ فَقَالَ: اُدْعِیْ بِھٰذَہٖ یُفَرَّجْ عَنْکِ فَقُلْتُ مَا ھِیَ؟ فَقَالَ: قُوْلِیْ یَا سَابِغَ النِّعَمِ وَ یَا دَافِعَ النِّقَمِ! وَ یَا فَارِجَ الْغَمَمِ وَ یَا کَاشِفَ الظُّلَمِ یَا اَعْدَلَ مَنْ حَکَمَ وَ یَا حَسِیْبَ مَنْ ظَلَمَ! یَا اَوَّلُ بِلَابِدَایَۃٍ وَ یَا اٰخِرُ بِلاَ نِھَا یَۃٍ وَ یَا مَنْ لَّہٗ اِسْمٌ بِلاَ کُنْیَۃٍ اللّٰھُمَّ اجْعَلْ لِّیْ مِنْ اَمْرِی فَرْجًا وَمُخْرَجًا قَالَتْ فَانْتَبَھْتُ وَ اَنَا رَیَّانَۃٌ شَبْعَانَۃٌ وَ قَدْ اَنْزَلَ اللّٰہُ مِنْہُ فَرْجِیْ۔
( الدّرّ المنثور للسیوطی جزء 5 صفحہ 38 )
یعنی اس نے مجھے کہا کہ تجھے کیا ہو گیا ہے ؟ میں نے کہا کہ لوگوں کی باتیں سنکر مجھے سخت غم لاحق ہے ۔اس نے کہا کہ ان کلمات کے ذریعہ دعا کرو گی تواللہ تعالیٰ تمہارے غم کو دور فرمادےگا۔ میں نے کہا کہ کون سے کلمات؟اس نے کہاکہ یوں کہوکہ اے جو تمام نعمتیں عطا فرماتا ہے ،تمام مصیبتیں دفع کردیتا ہے،تما م غموں کو دور کرتا ہے، تمام اندھیروں کو نابود کر دیتا ہے اور اے جو سب حاکموں سے زیادہ عادل ہے اور جو سب ظالموں کا احتساب کرنیوالا ہے اور اے خدا جو اول ہے اور تیری ابتداء نہیں اور آخر ہے اور تیری کوئی انتہا نہیں اور اے جس کا نام ہے اورکوئی کنیت نہیں۔میرے لئے اس غم سے چھٹکارے کا کوئی انتظام فرمادے۔
حضرت عائشہ ؓفرماتی ہیں کہ اس کے بعدمیں جاگ اُٹھی تو میں نے دیکھا کہ میں سَیر ہوں ۔ نہ پیاس تھی اور نہ بھوک اور نیز خدا تعالیٰ نے میری براء ۃ کے بارے میں اپنا ارشاد بھی نازل فرما دیا۔
5۔ آنحضورﷺ کی تجہیزوتکفین کے موقعہ پر صحابہ ؓ پر وحی کا ذکر
آنحضورﷺ کی تجہیزوتکفین کے موقعہ پر جب صحابہؓ میں اختلاف ہوا کہ آپ ﷺ کو کس طرح غسل دیا جائے تو اس بارہ میں حضرت عائشہ ؓ بیان فرماتی ہیں:
عَنْ عَائِشَۃَ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنھا قَالَتْ لما اَرَادُوْا غُسْلَ النَّبِیِّ صلی اللّٰہ علیہ و سلم قَالُوْا وَاللّٰہِ لَا نَدْرِیْ اَنُجَرِّدُ رَسُوْلَ اللّٰہِ عَنْ ثِیَابِہٖ کَمَا نُجَرِّدُ مَوْتٰی اَمْ نَغْسِلَہٗ وَ عَلَیْہِ ثِیَابُہٗ فَلَمَّا اخْتَلَفُوْا اَلْقَی اللّٰہُ عَلَیْھِمُ النَّوْمَ حَتّٰی مَا مِنْھُمْ رَجُلٌ اِلَّا وَ ذَقْنُہٗ فِیْ صَدْرِہٖ ثُمَّ کَلَّمَھُمْ مُکَلِّمٌ مِنْ نَاحِیَۃِ الْبَیْتِ لَا یَدْرُوْنَ مَنْ ھُوَ اَنْ اغْسِلُوا النَّبِیَّ صلی اللّٰہ علیہ و سلم وَ عَلَیْہِ ثِیَابُہٗ۔ اخرضہ ابو داود والحاکم والبیھقی و حیلۃ ابو نعیم۔
( الخصائص الکبریٰ للسیوطی صفحہ 483 باب ما وقع فی غسلہٖؐ من الآیات)
ترجمہ:حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ آپؓ نے بیان کیا کہ جب صحابہ ؓ نے نبی کریم ﷺْ کو غسل دینے کا ارادہ کیا تو کہنے لگے کہ خدا کی قسم! ہم نہیں جانتے کہ رسول کریم ﷺْ کے کپڑے اتارلیں جیسا کہ ہم مرُدوں کے کپڑے اتار لیتے ہیں یا آپؐ کو آپؐ کے کپڑوں میں ہی غسل دیں ۔ پس جب انہوں نے اختلاف کیا تو خدا تعالیٰ نے سب پر نیند وارد کردی یہاں تک کہ ان میں سے کوئی آدمی نہ رہا مگر اس کی ٹھوڑی اس کے سینے کو جا لگی۔ پھر ان سے ایک کلام کرنے والے نے گھر کی ایک طرف سے کلام کیا۔صحابہؓ نے نہ جاناکہ وہ کون تھا۔اس نے کہا کہ نبی کریم ﷺْ کو کپڑوں سمیت غسل دو ۔(اس روایت کی تخریج ابوداؤد ، الحاکم اور بیہقی نے کی ہے اور ابو نعیم نے اسے صحیح قرار دیا ہے)
یہ ایک ایسی شان اور طاقت کی وحی تھی کہ تمام صحابہ ؓنے بغیر کسی شک اور شبہ کے اس آواز کو سچا یقین کیا اور اسے خدائی آواز اور الہٰی فیصلہ تسلیم کرتے ہوئے اس پر عمل کیا۔
6۔ حضرت ابی ّ بن کعبؓ کا اپنے حق میں حضرت جبریل علیہ السلام کی دعا سننے کا واقعہ
حضرت ابیّ بن کعبؓ خدا تعالیٰ کی حمد کے جواب میں حضرت جبریل علیہ السلام کے نزول اور ان کی دعا کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
عَنْ اَنَسٍ قَالَ قَالَ اُبَیُّ ابْنُ کَعْبٍ لَاَدْخُلَنَّ الْمَسْجِدَ فَلَأُصَلِّیَنَّ وَ لَأَحْمِدَنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی بِمُحَامِدٍ لَمْ یَحْمِدْ بِھَا اَحَدٌ فَلَمَّا صَلّٰی وَ جَلَسَ یَحْمِدُ اللّٰہَ تَعَالٰی وَیُثْنِیْ عَلَیْہِ اِذَا ھُوَ بِصَوْتٍ عَالٍ مِنْ خَلْفٍ یَقُوْلُ اللّٰھُمَّ لَکَ الْحَمْدُ کُلُّہٗ وَلَکَ الْمُلْکُ بِیَدِکَ الْخَیْرُ کُلُّہٗ وَاِلَیْکَ یَرْجِعُ الْاَمْرُ کُلُّہٗ عَلَانِیَتُہٗ وَسِرُّہٗ لَکَ الْحَمْدُ اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ اِغْفِرْلِیْ مَا مَضٰی مِنْ ذُنُوْبِیْ وَاعْصِمْنِیْ فِیْھَا بَقِیَ مِنْ عُمْرِیْ وَارْزُقْنِیْ اَعْمَالاً رَاکِیَۃً تَرْضٰی بِھَا مِنِّیْ وَتُبْ عَلَیَّ۔ فَأَتٰی رَسُوْلَ اللّٰہِ فَقَصَّ عَلَیْہِ فَقَالَ جِبْرِیْلُ علیہ السلام۔
( روح اؔلمعانی جلد 22 صفحہ 40 زیر تفسیر آیت خاتم ا لنبیّن )
ترجمہ : حضرت انس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ مجھے ابی ّ بن کعب نے کہا میں مسجد میں ضرور داخل ہوں گا پھر ضرور نماز پڑھوں گا اور ضرور اللہ تعالیٰ کی ایسے محامدکے ساتھ حمد کروں گا کہ کسی نے ایسی حمد نہ کی ہو ۔جب انہوں نے نماز پڑھی اور خدا کی حمد کرنے کے لئے بیٹھ گئے تو ناگاہ انہوں نے پیچھے سے ایک شخص کوبلند آواز سے یہ کہتے سنا ۔ ’’اے اللہ! سب حمد تیرے لئے ہے ۔ ملک تیرا ہے۔ سب بھلائی تیرے ہاتھ میں ہے۔ سب امور کا مرجع تو ہے خواہ وہ امور ظاہری ہوں یا باطنی حمد تیرے لئے ہی ہے۔ بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے ۔میرے گزشتہ گناہوں کومعاف کردے اور مجھے باقی عمر محفوظ رکھ اور مجھے ایسے پاکیزہ اعمال کی توفیق دے کہ تو ان کے ذریعہ مجھ سے راضی ہو جائے ۔مجھ پر رحمت سے رجوع کر۔‘‘ پھر حضرت ابی ّ بن کعبؓ رسول اللہ ﷺْ کے پاس حاضر ہوئے اور سارا واقعہ بیان کیا تو حضور ﷺْ نے فرمایا کہ وہ جبرائیل علیہ السلام تھے۔
7۔ حضرت عبداللہ بن زیدانصاریؓ کو اذان کے الفاظ سکھائے جانے کی روایت کا بیان
جیسا کہ متعدد کتب احادیث ﷺ میں وحی کے جاری ہونے اور اس کے الفاظ سکھائے جانے کی بارے میں قوی روایات موجود ہیں۔ حضرت عبداللہ بن زیدؓ کو خدا تعالیٰ نےاذان کے الفاظ سکھائے تھے اور یہی الفاظ حضرت عمرؓ کو بھی اللہ تعالیٰ نے سکھائے تھے۔ روایات میں یہ بھی ذکر ہے کہ جب آنحضورﷺ کی خدمت اقدس میں اذان کے الفاظ کا ذکر کیا گیا تو آپﷺ کو اس بارہ میں پہلے سے ہی وحی ہوچکی تھی۔
حضرت عبداللہ بن زیدؓ کو اذان کے الفاظ سکھائے جانے کے واقعہ کو سنن ابن ماجہ میں درج ذیل روایت بیان ہوئی ہے:
عن محمد بن عبد اللّٰه بن زيد ، عن ابيه ، قال: كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم قد هم بالبوق وامر بالناقوس فنحت، فاري عبد اللّٰه بن زيد في المنام، قال: رايت رجلا عليه ثوبان اخضران، يحمل ناقوسا، فقلت له: يا عبد اللّٰه تبيع الناقوس؟، قال: وما تصنع به؟، قلت: انادي به إلى الصلاة، قال:” افلا ادلك على خير من ذلك؟ قلت: وما هو؟ قال: تقول: اللّٰه اكبر، اللّٰه اكبر، اللّٰه اكبر، اللّٰه اكبر، اشهد ان لا إلٰه إلا اللّٰه، اشهد ان لا إلٰه إلا اللّٰه، اشهد ان محمدا رسول اللّٰه، اشهد ان محمدا رسول اللّٰه، حي على الصلاة، حي على الصلاة، حي على الفلاح، حي على الفلاح، اللّٰه اكبر، اللّٰه اكبر، لا إلٰه إلا اللّٰه، قال: فخرج عبد اللّٰه بن زيد حتى اتى رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فاخبره بما راى، قال: يا رسول اللّٰه رايت رجلا عليه ثوبان اخضران يحمل ناقوسا، فقص عليه الخبر، فقال رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم:” إن صاحبكم قد راى رؤيا، فاخرج مع بلال إلى المسجد فالقها عليه وليناد بلال، فإنه اندى صوتا منك”، قال: فخرجت مع بلال إلى المسجد فجعلت القيها عليه وهو ينادي بها، فسمع عمر بن الخطاب بالصوت فخرج، فقال: يا رسول اللّٰه، واللّٰه لقد رايت مثل الذي راى، قال ابو عبيد فاخبرني، ابو بكر الحكمي، ان عبد اللّٰه بن زيد الانصاري، قال في ذلك: احمد اللّٰه ذا الجلال وذا الإكرام حمدا على الاذان كثيرا إذ اتاني به البشير من اللّٰه فاكرم به لدي بشيرا في ليال والى بهن ثلاث كلما جاء زادني توقيرا.
(سنن ابن ماجہ کتاب الاذان والسنۃ فیہ باب بدءِ الاذان۔ حدیث نمبر 706)
حضرت عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بگل بجوانے کا ارادہ کیا تھا تاکہ لوگ نماز کے لیے جمع ہو جائیں۔ لیکن یہود سے مشابہت کی وجہ سے اسے چھوڑ دیا۔ پھر ناقوس تیار کئے جانے کا حکم دیا اور وہ تراشا گیا لیکن اسے بھی نصاریٰ سے مشابہت کی وجہ سے چھوڑ دیا۔ اسی اثناء میں عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ کو خواب دکھایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے خواب میں دو سبز کپڑے پہنے ایک آدمی کو دیکھا جو اپنے ساتھ ناقوس لیے ہوئے تھا۔ میں نے اس سے کہاکہ اےاللہ کے بندے! کیا تو یہ ناقوس بیچے گا؟ اس شخص نے کہاکہ تم اس کا کیا کرو گے؟ میں نے کہاکہ میں اسے بجا کر لوگوں کو نماز کے لیے بلاؤں گا۔ اس پر اس شخص نے کہاکہ کیا میں تمہیں اس سے بہتر چیز نہ بتا دوں؟ میں نے پوچھا کہ وہ بہتر چیز کیا ہے؟ اس نے کہاکہ تم یہ کلمات کہو:
’’اللّٰه أكبر۔اللّٰه أكبر۔اللّٰه أكبر۔اللّٰه أكبر۔أشهد أن لا إلٰه إلا اللّٰه۔ أشهد أن لا إلٰه إلا اللّٰه۔ أشهد أن محمدا رسول اللّٰه۔ أشهد أن محمدا رسول اللّٰه۔ حي على الصلاة۔ حي على الصلاة۔ حي على الفلاح۔ حي على الفلاح۔ اللّٰه أكبر۔اللّٰه أكبر۔ لا إلٰه إلا اللّٰه۔‘‘
راوی کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن زیدؓ نکلے اور رسول اللہﷺ کے پاس آ کر پورا خواب بیان کیاکہ اے اللہ کے رسولﷺ! میں نے ایک آدمی کو دو سبز کپڑے پہنے دیکھا جو ناقوس لیے ہوئے تھا۔ اور آپ ﷺ سے پورا واقعہ بیان کیا تو رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایاکہ تمہارے ساتھی نے ایک خواب دیکھا ہے۔ پھرحضرت عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ سے فرمایاکہ تم بلال کے ساتھ مسجد میں جاؤ اور انہیں اذان کے کلمات بتاتے جاؤ اور وہ اذان دیتے جائیں کیونکہ ان کی آواز تم سے بلند تر ہے۔ حضرت عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں بلال رضی اللہ عنہ کے ساتھ مسجد گیا اور انہیں اذان کے کلمات بتاتا گیا اور وہ انہیں بلند آواز سے پکارتے گئے۔ حضرت عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے جوں ہی یہ آواز سنی تو فوراً گھر سے نکل آئے اور آ کر عرض کیاکہ اے اللہ کے رسولﷺ! میں نے بھی یہی خواب دیکھا ہے جو عبداللہ بن زید نے دیکھا ہے۔
ابوعبید کہتے ہیں کہ مجھے ابوبکر حکمی نے خبر دی کہ عبداللہ بن زید انصاری رضی اللہ عنہ نے اس بارے میں چند اشعار کہے ہیں جن کا ترجمہ یہ ہے کہ میں بزرگ و برتر اللہ کی خوب خوب تعریف کرتا ہوں جس نے اذان سکھائی۔ جب اللہ کی جانب سے میرے پاس اذان کی خوشخبری دینے والا فرشتہ آیا۔ وہ خوشخبری دینے والا میرے نزدیک کیا ہی باعزت تھا۔ وہ مسلسل تین رات تک میرے پاس آتا رہا۔ جب بھی وہ میرے پاس آیا اس نے میری عزت بڑھائی۔
8۔ آنحضورﷺ کے صاحبزادے حضرت ابراہیمؑ پر وحی الہٰی کے نزول کے بارہ میں حضرت علامہ ابن حجر الہیثمیؒ کا قول
حضرت علامہ ابن حجر الہیثمی ؒکہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کا بیٹا ابراہیم ؑ (جو آیت خاتم النّبین کے نزول کے بعد پیدا ہوئے ) نبی تھا اور پھر یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ ان کی طرف حضرت جبرئیل علیہ السلام وحی لیکر نازل ہوئے ۔جس طرح حضرت جبرئیل ؑ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ماں کی گود میں وحی لے کر نازل ہوئے اور حضرت یحیٰ علیہ السلام پر تین سال کی عمر میں نازل ہوئے۔ آپؒ لکھتے ہیں :
’’وَلَا بُعْدَ فِیْ اِثْبَاتِ النُّبُوَّۃِ لَہٗ مَعَ صِغْرِہٖ لِاَنَّہٗ کَعِیْسَی الْقَائِلِ یَوْمَ وُلِدَ اِنِّیْ عَبْدُ اللّٰہِ اٰتَانِیَ الْکِتَابَ وَجَعَلَنِیْ نَبِیًّا وَ کَیَحْیَ الَّذِیْ قَالَ تَعَالٰی فِیْہِ وَ اٰتَیْنٰہُ الْحُکْمَ صَبِیًّا۔‘‘
(الفتاویٰ الحدیثیہ مصنفہ امام ابن حجر الہثیمی۔ باب مطلب ما ورد فی حق ابراہیم ابن نبیناﷺصفحہ 236 )
یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے حضرت ابراہیم ؑچھوٹی عمر میں ہی نبی ہو گئے تھے ۔ اس میں کوئی بعید از عقل بات نہیں ہے کیونکہ وہ حضرت عیسیٰ ؑکی طرح ہیں جنہوں نے پیدائش کے دن کہا تھا کہ میں خدا کا بندہ ہوں ۔ مجھے اللہ نے کتاب دی ہے اور نبی بنایا ہے نیز وہ حضرت یحیٰ کی طرح ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے ان کو بچپن ہی کی عمر میں حکمت عطا فرمائی تھی ۔
آپؒ مزید فرماتے ہیں :
’’وَ اِحْتَمَالُ نُزُوْلِ جِبْرِیْلَ بِوَحْیٍ لِعِیْسٰی اَوْ یَحْیٰ یَجْزِیْ فِیْ اِبْرَاھِیْمَ وَ یُرَجِّحُہٗ اَنَّہٗ صلی اللّٰہ علیہ و سلم صَوَ مَّہٗ یَوْمَ عَاشُوْرَائَ اَوْ عُمُرُہٗ ثَمَانِیَۃَ اَشْھُرٍ۔‘‘
(الفتاویٰ الحدیثیہ مصنفہ امام ابن حجر الہثیمی۔ باب مطلب ما ورد فی حق ابراہیم ابن نبینا ﷺ صفحہ 236 )
یعنی: جس طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور یحیٰ علیہ السلام پر بچپن میں حضرت جبرئیل ؑ وحی لے کر نازل ہوئے اس طرح احتمال ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ ابن النبی ؐپر جبرئیل وحی لے کربچپن کی عمر میں نازل ہوئے اور یہ بات بدیں وجہ وزنی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے اپنے بچہّ ابراہیم ؑ کو عاشورہ کے روز ے رکھوائے حالانکہ ان کی عمر ابھی صرف آٹھ ماہ کی تھی۔
9۔ حضرت معاذ بن جبل ؓ کو وفات رسولﷺ کے بارہ میں خبر بذریعہ وحی
حضرت معاذ بن جبل ؓ کو آنحضورﷺ نے اپنی وفات سے کچھ عرصہ قبل یمن اور حضر موت کی جانب بطور معلّم، قاضی ، امام الصلوٰۃ اور عامل بناکر بھجوایا تھا۔ جب آنحضورﷺ کی وفات کا وقت قریب آیا تو آپؓ اس وقت صنعاءکے علاقہ میں تھے۔ ایک رات آپؓ کو ایک غیبی آواز کے ذریعہ آنحضرت ﷺ کے وصال کی خبر دی گئی۔آپؓ نےیہ الفاظ سنے:
’’کَیْفَ یَھْنَأُ لَکَ الْعَیْشُ وَ مُحَمَّدٌ ﷺ فِی سَکَرَاتِ الْمَوْتِ‘‘
یعنی : تمہاری زندگی کیسے پُر لطف ہو سکتی ہے جبکہ محمد ﷺحالتِ نزع میں ہیں۔
اس آوازسے آپؓ گھبرا کر اُٹھ کھڑے ہوئے۔ آپؓ نےفوراً تعوّذ پڑھا ۔سارا دن غم اوربے چینی میں گزرا۔ اگلی رات پھر غیبی آواز کے ذریعہ آپؓ کو اطلاع دی گئی کہ آنحضرت ﷺ وفات پا چکے ہیں۔آپؓ نے یہ سنتے ہی فرطِ غم میں ’’یا محمّداہ، یا محمّداہ‘‘ پکارنا شروع کر دیا۔صبح ہوتے ہی آپؓ نے سواری تیّار کی۔ایک تھیلے میں ستّو بھرا،پانی کا ایک برتن لیا اور اراداہ کیا کہ سوائے نماز اور رفع حاجت کے اپنی سواری سے نہیں اتریں گے۔ یعنی دن رات مسلسل سفر کر کے مدینہ پہنچیں گے۔
آپؓ ابھی مدینہ سے تیس مراحل کے فاصلہ پر تھے کہ رات کی تاریکی میں آپؓ نے ’’یا محمّداہ‘‘ کی آواز سنی۔ آپؓ نے یہ سنتے ہی پکارا کہ اے رات کی تاریکی میں آواز دینے والے! اللہ تعالیٰ تم پر رحم فرمائے۔ تم کون ہو؟ اُدھر سے جواب ملا کہ میں عمار بن یاسر ؓہوں اور میرے پاس حضرت ابو بکر ؓ کی طرف سے معاذ بن جبلؓ کے نام خط ہے تاکہ انہیں علم ہوجائے کہ آنحضرت ﷺ کا وصال ہو چکا ہے۔ حضرت عمار بن یاسر ؓ کو علم ہوا کہ جس شخص سے وہ مخاطب ہیں وہ حضرت معاذ بن جبلؓ ہیں تووہ آگے بڑھ کر ان سے ملے اور وہاں کے حالات کی بابت گفت و شنید کرتے ہوئے مدینہ کی جانب روانہ ہو گئے۔
(تاریخ الخمیس بعث الیٰ موسیٰ الاشعریؓ و معاذبن جبلؓ الی الیمن، ذکر معاذبن جبلؓ)
10۔ دور نبویﷺ کی نسبت بعد میں امت محمدیہﷺ پر وحی و الہام کی کثرت کی حکمت
گو کہ صحابہ کرام ؓ پروحی و الہام کے نزول کا سلسلہ تواتر کے ساتھ ثابت ہے لیکن بعد میں جس کثرت کے ساتھ خداتعالیٰ نے اپنے اولیاء و اصفیاء کو شرف مکالمہ و مخاطبہ عطاکیا ہے اس بارہ میں کوئی شک نہیں۔
دور نبویﷺ میں صحابہ ؓ پر وحی و الہام کی کثرت نہ ہونے کی حکمت کے بارہ میں حضرت علامہ ابن حجر عسقلانی ؒصحیح بخاری کی شرح میں لکھتے ہیں:
وَکَانَ السِّرُّ فِیْ نُدُوْرِ الِالْھَامِ فِیْ زَمَنِہٖ وَ کَثْرَتِہٖ مِنْ بَعْدِہٖ۔۔۔۔لِمَنِ اخْتَصَّہٗ اللّٰہُ بِہٖ لِلاَمْنِ مِنَ الْلَّبْسِ فِی ذٰلِکَ۔
( فتح الباری شرح البخاری کتاب التعبیر باب المبشرّات )
یعنی یہ بات کہ آنحضرتﷺ کے قریب کے زمانہ میں الہام کی وہ کثرت نہیں پائی جاتی جو بعد کے زمانہ میں پائی جاتی ہے اس میں تقدیر الہٰی کا یہ راز مخفی تھا کہ تا قرآنی وحی کے ساتھ کسی دوسری وحی کا خلط نہ واقع ہو۔

یہ بھی ملاحظہ فرمائیں

حضرت مسیح موعودعلیہ السلام پر نزول وحی کے دلائل

حضرت مسیح موعودعلیہ السلام پر اللہ تعالیٰ وحی نازل فرمائے گا۔ آنحضورﷺ کا قطعی فیصلہ حضرت ا…