مختصر سوانح: حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ

دور خلافتِ ثالثہ:حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ(1909ء تا1982ء)

سلسلہ عالیہ احمدیہ میں پیشگوئی مصلح موعود کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ اس کے مصداق حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ ہیں اسی طرح حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نافلہ موعود کی پیشگوئی کے مصداق تھے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو موعود بیٹے اور پوتے کی یہ خبر ان حالات میں دی گئی جب کہ حضور علیہ السلام کے خلاف تکفیر کا بازار گرم تھا اور معاندین ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے تھے۔ حضور علیہ السلام نے فرمایا:
’’خدا جیسے پہلے تھا اب بھی ہے اور اس کی قدرتیں جیسے پہلے تھیں اب بھی ہیں اور اس کو نشان دکھانے پر جیسا کہ پہلے اقتدار تھا وہ اب بھی ہے پھر تم کیوں صرف قصوں پر راضی ہرتے ہو۔‘‘
چنانچہ نافلہ موعود کے بارہ میں جو بشارات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دی گئیں وہ یہ ہیں:
’’تَرٰی نَسْلاً بَعِیْدًا-اِنَّا نُبَشِّرُکَ بِغُلاَمٍ مَظْھَرِ الْحَقِّ وَ الْعُلٰی کَاَنَّ اللّٰہَ نَزَلَ مِنَ السَّمَائِ-اِنَّا نُبَشِّرُکَ بِغُلاَمٍ نَافِلَۃٍ لَکَ۔
اور تو اپنی ایک دور کی نسل کو دیکھ لے گا ہم ایک لڑکے کی تجھے بشارت دیتے ہیں جس کے ساتھ حق کا ظہور ہو گا گویا آسمان سے خدا اترے گا ۔ہم ایک لڑکے کی تجھے بشارت دیتے ہیں۔جو تیرا پوتا ہو گا۔‘‘
ایک اور جگہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا: ’’چند روز ہوئے یہ الہام ہوا تھا: اِنَّا نُبَشِّرُکَ بِغُلاَمٍ نَافِلَۃً لََکَ۔ ممکن ہے کہ اس کی یہ تعبیر ہو کہ محمود کے ہاں لڑکا ہو کیونکہ نافلہ پوتے کو بھی کہتے ہیں یا بشارت کسی اور وقت تک موقوف ہو۔‘‘
پس پوتے کے لئے بیٹے کا لفظ بکثرت ہر زبان میں استعمال ہوتا ہے۔اور یہ عجیب بات ہے کہ حضرت ام المومنینؓ نے اپنے تمام پوتوں میں سے صرف حضرت مرزا ناصر احمد صاحب خلیفۃ المسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ کو ہی اپنے بیٹوں کی طرح پالا اور ان کی تربیت فرمائی۔
(حیات ناصر جلد1 صفحہ9۔از محمود مجیب اصغر صاحب)
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ (1909ء تا1982ء) ابتدائی زندگی:
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کو بھی اللہ تعالیٰ نے ایک خاص فرزند کی بشارت دی تھی۔چنانچہ آپ رضی اللہ عنہ اپنے ایک مکتوب میں فرماتے ہیں:
’’مجھے بھی خدائے تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ میں تجھے ایک ایسا لڑکا دوں گا جو دین کا ناصر ہو گا اور اسلام کی خدمت پر کمر بستہ ہو گا‘‘۔
(تاریخ احمدیت جلد 4 صفحہ320)
غرض حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ بھی ایک رنگ سے موعود خلیفہ ہیں۔ ان پیش خبریوں کے مطابق حضرت ناصر احمد صاحب خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ 16نومبر1909ء کو بوقت شب قادیان میں پیدا ہوئے۔ 17اپریل1922ء کو جب کہ آ پ رحمہ اللہ تعالیٰ کی عمر 13سال تھی حفظ قرآن کی تکمیل کی توفیق ملی۔ بعد ازاں حضرت مولانا سیّد محمد سرور شاہ صاحب رضی اللہ عنہ سے عربی اور اُردو پڑھتے رہے۔ پھر مدرسہ احمدیہ میں دینی علوم کی تحصیل کیلئے باقاعدہ داخل ہوئے اورجولائی1929ء میں آپ رحمہ اللہ تعالیٰ نے پنجاب یونیورسٹی سے ’’مولوی فاضل‘‘کا امتحان پاس کیا۔ اس کے بعد میٹرک کاا متحان دیا اور پھر گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل ہو کر1934ء میں بی ۔اے کی ڈگری حاصل کی۔ اگست 1934ء میں آپ رحمہ اللہ تعالیٰ کی شادی ہوئی۔ 6ستمبر1934ء کو بغرض تعلیم انگلستان کیلئے روانہ ہوئے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی سے ایم۔اے کی ڈگر ی حاصل کر کے نومبر1938ء میں واپس تشریف لائے۔ یورپ سے واپسی پر جون1939ء سے اپریل1944ء تک جامعہ احمدیہ کے پرنسپل رہے۔ فروری1939ء میں مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے صدر بنے۔ اکتوبر1949ء میں جب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے بنفس نفیس خدام الاحمدیہ کی صدارت کااعلان فرمایا تو نومبر1954ء تک بحیثیت نائب صدر مجلس کے کاموں کو نہایت عمدگی سے چلاتے رہے۔ مئی1944ء سے لے کر نومبر1965ء تک (یعنی تا انتخاب خلافت) تعلیم الاسلام کالج کی پرنسپلی کے فرائض سر انجام دیئے۔ جون1948ء سے جون1950ء تک فرقان بٹالین کشمیر کے محاذ پر دادِ شجاعت دیتے رہے۔ آپ رحمہ اللہ تعالیٰ اس بٹالین کی انتظامی کمیٹی کے ممبر تھے۔ 1953ء میں پنجاب میں فسادات ہوئے اور مارشل لا(Martial Law) کا نفاذ ہوا تو اس وقت آپ رحمہ اللہ تعالیٰ کو گرفتار کر لیا گیا۔ اس طرح سنت یوسفی کے مطابق آپ رحمہ اللہ تعالیٰ کو کچھ عرصہ قید و بند کی صعوبتیں جھیلنا پڑیں۔1954 ء میں مجلس انصار اللہ کی زمامِ قیادت آپ رحمہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کی گئی۔ مئی 1955ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے آپ رحمہ اللہ تعالیٰ کو صدر انجمن احمدیہ کا صدر مقرر فرمایا۔ کالج کی پرنسپلی کے علاوہ صدر انجمن احمدیہ کے کاموں کی نگرانی بھی تا انتخاب خلافت آپ رحمہ اللہ تعالیٰ کے ہی سپرد رہی۔ تقسیم ملک سے قبل بائونڈری کمیشن (Boundary Commision)کیلئے مواد فراہم کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا اور حفاظت مرکز(قادیان)کے کام کی براہ راست نگرانی کرتے رہے۔
(دینی معلومات کا بنیادی نصاب صفحہ 184 تا 186 شائع کردہ مجلس انصار اللہ پاکستان)
انتخاب خلافت ثالثہ:
مئورخہ7نومبر1965ء کو بعد نماز عشاء مسجد مبارک ربوہ میں سیّدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی مقرر کردہ مجلس انتخاب کا اجلاس بہ صدرات جناب حضرت مرزا عزیز احمد صاحب رضی اللہ عنہ ناظر اعلیٰ صدر انجمن احمدیہ منعقد ہوا جس میں حسب قواعد ہر ممبر نے خلافت سے وابستگی کا حلف اٹھایا اور اس کے بعد حضرت مرزا ناصر احمد صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کو آئندہ کے لئے خلیفۃ المسیح اور امیر المؤمنین منتخب کیا۔ اراکین مجلس انتخاب نے اسی وقت آپ رحمہ اللہ تعالیٰ کی بیعت کی جس کے بعد آپ رحمہ اللہ تعالیٰ نے خطاب فرمایا اور پھر تمام موجود احباب نے جن کی تعداد اندازاً پانچ ہزار تھی رات کے ساڑھے دس بجے آپ رحمہ اللہ تعالیٰ کی بیعت کی۔
(حیات ناصرؒجلد 1 صفحہ358)
انتخاب خلافت سے اگلے روز مؤرخہ9 نومبر1965ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ ہزاروں سوگوار احباب جماعت کے جلوس کے ساتھ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا تابوت لے کر بہشتی مقبرہ پہنچے اور پچاس ہزاراحباب جماعت کے ساتھ آپ رحمہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی نماز جنازہ پڑھائی۔ چھ تکبیرات کہیں اور تدفین کے بعد لمبی پُرسوز دعا کروائی۔
(حیات ناصر جلد 1 صفحہ362،363)
خلافت ثالثہ کی چند بابرکت تحریکات:
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنے دور خلافت میں متعدد تحریکیں جاری فرمائیں جن کا مختصر ذکر درج ذیل ہے:
پہلی تحریک:
17دسمبر1965ء کو جب ملک میں غلّہ کی کمی محسوس ہو رہی تھی۔ آپ رحمہ اللہ تعالیٰ نے جماعت کے امرا اور خوشحال طبقہ کو تحریک کی کہ وہ غربا، مساکین اور یتامیٰ کے لئے مناسب بندوبست کریں اور کوئی احمدی ایسا نہ ہو جو بھوکا سوئے اس پر جماعت نے بصدشوق عمل کیا اور کر رہی ہے۔
دوسری تحریک:
1965ء میں اس تعلق اور محبت کے اظہار کے لئے جو جماعت کو حضرت فضل عمر سے ہے، آپ رحمہ اللہ تعالیٰ نے 25لاکھ روپیہ کے سرمایہ سے فضل عمر فائونڈیشن قائم کر نے کی تحریک فرمائی۔ جماعت نے بفضلِ ایزدی 36 لاکھ سے زائد رقم اس مدمیں پیش کی۔ اس فنڈ سے فضل عمر لائبریری قائم ہو چکی ہے۔ نیز علمی اور تحقیقی شوق پیدا کرنے کے لئے ہزا ر ہزار رپے کے 5 انعامات ہر سال بہتر ین مقالہ نگاروں کو پیش کئے جاتے ہیں۔
تیسری تحریک:
تعلیم القرآن کے بارے میں ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ جماعت میں کوئی فرد بھی ایسا نہ رہے جو قرآن کریم ناظرہ نہ جانتا ہو۔ جو ناظرہ پڑھ سکتے ہوں وہ ترجمہ سیکھیں اور قرآنی معارف سے آگاہ ہوں۔
چوتھی تحریک:
وقفِ عارضی کی ہے۔ اس تحریک کے تحت واقفین دو سے چھ ہفتوں تک اپنے خرچ پر کسی مقررہ مقام پر جا کر قرآن کریم پڑھاتے اور تربیت کا کام کرتے ہیں۔
پانچویں تحریک:
مجلس موصیان کا قیام ہے۔ موصیوں کے لئے یہ ضروری قرار دیا گیا ہے کہ وہ اپنے گھروں میں تعلیم القرآن کا انتظام کریں اور نگرانی کریں کہ کوئی فرد ایسا نہ رہے کہ جو قرآن کریم نہ جانتا ہو۔
چھٹی تحریک:
بد رسوم کو ترک کرنے کی جاری فرمائی۔
ساتویں تحریک:
چندہ وقف جدید اطفال کی ہے جس کے تحت احمدی طفل کے لئے لازمی قرار دیا کہ وہ 50پیسے ماہوار وقفِ جدید کا چندہ ادا کر کے اس کے مالی جہاد ی میں شریک ہو۔
آٹھویں تحریک:
جلسہ سالانہ1973ء میں صد سالہ جوبلی کے روحانی پروگرام کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا:
’’تسبیح و تحمید اور درود شریف کا بالا لتزام وِرد کرنا ہے۔ بڑے کم از کم 200 مرتبہ سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْم-اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّاٰلِ مُحَمَّدٍ کا ورد کریں اور 100 بار استغفار کریں۔ 15سے25سال عمر والے100بار تسبیح پڑھیں اور33مرتبہ استغفار۔ 7سے15سال تک عمر والے 33مرتبہ تسبیح پڑھیں اور 11مرتبہ استغفار ۔ 7سال سے کم عمر والے بچوں کو والدین 3 بار تسبیح اور استغفار پڑھائیں۔

نویں تحریک ’’نصرت جہاں ریزرو فنڈ (Reserve Fund)سکیم:
1967ء میں حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے یورپ کے متعدد ممالک کا دورہ کیا اور ڈنمارک (Denmark) کے دارالسلطنت کوپن ہیگن (Copenhagen)میں مسجد نصرت جہاں کے افتتاح کے علاوہ اقوامِ مغرب کو جلد آنے والی تباہیوں کے متعلق انذار فرمایا۔ پھر1970ء میں حضور نے مغربی افریقہ کے سات ممالک نائیجیریا، گھانا، آئیوری کوسٹ، لائیبیریا، گیمبیا اور سیرالیون کا دورہ فرمایا۔ اس دورہ میں منشائے الٰہی سے ایک خاص پروگرام کا اعلان فرمایا جس کا نام حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے’’لیپ فارورڈ پروگرام(Leap Forward Programme) ‘‘تجویز کیا اور اس پروگرام کو عملی جامہ پہنانے کیلئے ایک لاکھ پونڈ (One hundred thousand Pounds Sterling)کا ’’نصرت جہاں ریزرو فنڈ‘‘ قائم کرنے کی تحریک فرمائی۔اس تحریک کا مقصد افریقہ میں اسلام کا قیام و استحکام تھا۔اس فنڈ سے افریقہ کے ممالک میں مزید تعلیمی سنٹر کھولے گئے۔اس کے علاوہ وہاں طبی مراکز بھی قائم ہوئے۔اسی فنڈ سے افریقہ کسی ملک میں ایک طاقتور ریڈیو سٹیشن قائم کرنے کی تجویز تھی۔اسی طرح ایک بڑا پریس مرکز میں قائم کرنے کی تجویز تھی جس کے ذریعہ مختلف زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم اور دوسرا اسلامی لٹریچر شائع کا جانا تھا۔
دسویں تحریک ’’صد سالہ احمدیہ جوبلی فنڈ سکیم‘‘:
اللہ تعالیٰ کے منشا اور حکم کے مطابق جماعت احمدیہ کی بنیاد 1889ء میں رکھی گئی۔ اس لحاظ سے 1989ء میں اس کے قیام پر سو سال پورے ہوئے اس سال سے جماعت کی دوسری صدی شروع ہوگی جو اللہ تعالیٰ کی بشارات کے مطابق انشاء اللہ غلبہاسلام کی صدی ہو گی۔ اس دوسری صدی کے استقبال کے لئے جس کے شروع ہونے میں ابھی سولہ سال باقی تھے حضرت خلیفۃ امسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے حسب منشاء الٰہی جلسہ سالانہ 1973ء کے موقع پر جماعت ہائے بیرون کی تربیت، اشاعت اسلام کے کام کو تیز سے تیز تر کرنے، غلبۂ اسلام کے دن کو قریب سے قریب تک لانے اور نوع انسان کے دل خدا اور اس کے رسول حضر ت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جیتنے کیلئے ایک عظیم منصوبے کا اعلان فرمایا۔ اس کے اغراض و مقاصد کی وضاحت اس منصوبے کی تکمیل کیلئے مالی قربانی کے سلسلہ میں حضور نے فرمایا:
’’میں نے مخلصین جماعت سے آئندہ سولہ سال میں ڈھائی کروڑ روپیہ (Rs. 2,50,00,000) جمع کرنے کی اپیل کی تھی اور ساتھ ہی اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے یہ اعلان بھی کر دیا تھا کہ انشاء اللہ یہ رقم پانچ کروڑ(Rs., 5,00,00,000) تک پہنچ جائے گی‘‘۔
قرآن مجید کی عالمی اشاعت:
خلافت ثالثہ کا ایک اہم کارنامہ قرآن کریم کی وسیع اشاعت ہے۔ اس غرض کے لئے حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے یورپ، امریکہ اور افریقہ کے مختلف ممالک میں ہوٹلوں میں قرآن کریم رکھنے کی ایک مہم جاری فرمائی جس کے نتیجہ میں درجنوں ممالک کے ہوٹلوں (Hotels)میں کلام پاک کے ہزارہا نسخے رکھوائے گئے اور یہ سلسلہ برابر جاری اور ترقی پذیر ہے۔
مسجد بشارت کی تاسیس:
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کا ایک کارنامہ مسجد بشارت کا سنگِ بنیاد رکھنا ہے۔ چنانچہ آپ رحمہ اللہ تعالیٰ جون تا اکتوبر1980ء یورپ کے سفر کے دوران سپین (Spain)تشریف لے گئے اور قرطبہ (Cordoba) سے بائیس تئیس میل دور قصبہ میں پیدور آباد (Pedro Abad)میں ایک مسجد کی بنیاد رکھی جو 44 سال بعد تعمیر ہونے والی سپین میں پہلی مسجد ہے۔
(حیات ناصر جلد 1 صفحہ441تا446۔ از محمود مجیب اصغر صاحب)
1974ء کا پر آشوب دور:
1974ء کا سال ایک عظیم ابتلا لے کر آیا۔اس وقت کی حکومت کی شہ پر پاکستان میں احمدیوں کے قتل و غارت اور لوٹ گھسوٹ کا بازار گرم رہا۔ معاندین نے احمدیوں کی مساجد، قرآن کریم کے نسخے اور کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور احمدیوں کے گھر نذر آتش کئے، احمدیوں کی دکانیں اور کاروبار تباہ کر دئیے گئے، فیکٹریوں کو آگ لگائی گئی، کئی احمدی شہید کر دیئے گئے، غرضیکہ احمدیوں کو بڑی قربانیاں دینا پڑیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کو پہلے تحقیقاتی ٹربیونل میں بیان دینے کے لئے لاہور طلب کیا گیا اور پھر جرح کے لئے پاکستان قومی اسمبلی میں اسلام آباد بلایا گیا۔ کئی روز کی جرح کے دوران حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کے عقائد کی خوب ترجمانی فرمائی۔
جماعت کے لئے یہ بہت نازک وقت تھا۔ حضور رحمہ اللہ تعالیٰ جماعت کی دلداری فرماتے رہے اور اللہ تعالیٰ کے حضور مسلسل کئی کئی راتیں جاگ کر مناجات کرتے رہے اور مخالفت اور ظلم و تشدد کے طوفان کے آگے ایک مضبوط چٹان کی طرح کھڑے ہوگئے اور اپنی دعائوں اور اُولوالعزمی سے اس طوفان کا رُخ موڑ دیا۔ پاکستان کی قومی اسمبلی نے جماعت احمدیہ کو آئینی اغراض کی خاطر غیر مسلم قرار دیا ۔ حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کو اللہ تعالیٰ نے الہاماً بتایا: ’’وَسِّعْ مَکَانَکَ اِنَّا کَفَیْنَکَ الْمُسْتَھْزِئِ ْینَ‘‘ کہ تم اپنے مکان وسیع کرو۔ میں ان استہزا کرنے والوں کے لئے کافی ہوں۔ چنانچہ حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کے پاس جو بھی مصیبت زدہ احمدی ملاقات کے لئے آتا حضور رحمہ اللہ تعالیٰ سے مل کر وہ تمام دُکھ بھول جاتا اور تعلق باللہ اور توکل اور اللہ تعالیٰ کی بتائی ہوئی بشارتوں کے نتیجہ میں حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کے چہرے پر جو بشاشت تھی وہ ملاقات کے بعد ان کے چہروں پر بھی منتقل ہو جاتی اور وہ ہنستے مسکراتے باہر جاتے اور جو قربانیاں اللہ تعالیٰ ان سے لے رہا تھا ان پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے۔
پاکستان قومی اسمبلی کے اس فیصلے کی کئی مسلمان حکومتوں نے توثیق کی اور عالمی سطح پر اس مسئلہ کو پہنچانے کی کوشش کی،اس موقع پر آپ حضرت مصلح موعود کو دی جانے والی اس خدائی بشارت کے مصداق ہوئے جس میں کہا گیا تھا کہ:
’’میں تجھے ایسا لڑکا دوں گا جو دین کا ناصر ہو گا اور اسلام کی خدمت پر کمر بستہ ہو گا۔‘‘
1974ء کے مصائب سے اس طرح بچ نکلنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس دعا کا ثمرہ لگتا ہے جس میں حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے انصار دین کے لئے اپنے مولیٰ کے حضور جیسا کہ عرض کرتے ہیں۔
کریما صد کرم کن ،بر کسے کو ناصر دیں است
بلائے او بگرداں، گر گہے آفت شود پیدا
اس طرح 1974ء سے جماعت احمدیہ کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔
(حیات ناصر جلد 1 صفحہ398،399از محمود مجیب اصغر صاحب)
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کی وفات کا سانحہ:
آخری خطاب:
6مئی1982ء کو حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کی پندرہ روزہ تربیتی کلاس کے اختتامی خطاب فرمایا جو کسی جماعتی تنظیم سے حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کا آخری خطاب ہے۔
ربوہ میں آخری خطبہ جمعہ:
21مئی1982ء کو حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے ربوہ میں آخری خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا اور 23مئی کو حضور اسلام آباد تشریف لے گئے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کی علالت اور انتقال پُر ملال:
قیام اسلام آباد کے دوران26مئی1982ء کو حضور پُر نور رحمہ اللہ تعالیٰ کی طبیعت علیل ہو گئی۔ بروقت علاج سے بفضل تعالیٰ افاقہ ہو گیا لیکن 31مئی کو اچانک طبیعت پھر خراب ہو گئی۔ ڈاکٹری تشخیص سے معلوم ہوا کہ دل کا شدید حملہ ہوا ہے۔ علاج کی ہر ممکن کوشش کی گئی اور 8 جون تک صحت میں بتدریج بہتری پیدا ہوتی گئی لیکن 8 اور 9 جون یعنی منگل اوربدھ کی درمیانی شب پونے بارہ بجے کے قریب دل کا دورہ شدید حملہ ہوا اور بقضائے الٰہی پونے ایک بجے رات ’’بیت الفضل‘‘ اسلام آباد پاکستان میں حضرت حافظ مرزا ناصر احمد صاحب خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ اپنے رب کے حضور حاضر ہو گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
9جون1982ء کو حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کا جسدِ اطہر اسلام آباد سے ربوہ لایا گیا۔ 10جون کو سیّدنا حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے بعد نماز عصر احاطہ بہشتی مقبرہ میں نماز جنازہ پڑھائی جس میں ایک لاکھ کے قریب احباب شریک ہوئے۔ نماز جنازہ کے بعد حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے پہلو میں جانب شرق حضور کی تدفین عمل میں آئی۔حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے73برس کی عمر پائی۔
(حیات ناصر جلد 1صفحہ77،428از محمود مجیب اصغر صاحب)