حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کے ثبوت میں عقلی دلائل

بانی جماعت احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام فرماتے ہیں:

’’اَور کئی طریق سے اُن پرانے خیالات پر سخت سخت اعتراض عقل کے وارد ہوتے ہیں جن سے مَخلصی حاصل کرنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ ازانجملہ ایک یہ ہے کہ قرآن شریف کے کسی مقام سے ثابت نہیں کہ حضرت مسیح اِسی خاکی جسم کے ساتھ آسمان کی طرف اُٹھائے گئے بلکہ قرآن شریف کے کئی مقامات میں مسیح کے فوت ہوجانے کا صریح ذکر ہے اور ایک جگہ خود مسیح کی طرف سے فوت ہوجانے کا اقرار موجود ہے۔

اور وہ یہ ہے۔ كُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيْدًا مَّا دُمْتُ فِيْهِمْ‌ۚ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِىْ كُنْتَ اَنْتَ الرَّقِيْبَ عَلَيْهِمْ‌ وَاَنْتَ عَلٰى كُلِّ شَىْءٍ شَهِيْدٌ‏۔ اب جب کہ فوت ہوجانا ثابت ہوا تو اس سے ظاہر ہے کہ اُن کا جسم اُن سب لوگوں کی طرح جو مرجاتے ہیں زمین میں دفن کیا گیا ہوگا کیونکہ قرآن شریف بصراحت ناطق ہے کہ فقط اُن کی روح آسمان پر گئی نہ کہ جسم۔ تب ہی تو حضرت مسیح نے آیت موصوفہ بالا میں اپنی موت کا صاف اقرار کر دیا اگر وہ زندوں کی شکل پر خاکی جسم کے ساتھ آسمان کی طرف پرواز کرتے تو اپنے مرجانے کا ہرگز ذکر نہ کرتے اور ایسا ہرگز نہ کہتے کہ میں وفات پا کر اس جہان سے رخصت کیا گیا ہوں۔ اب ظاہر ہے کہ جبکہ آسمان پر اُن کی روح ہی گئی تو پھر نازل ہونے کے وقت جسم کہاں سے ساتھ آجائے گا۔

ازانجملہ ایک یہ اعتراض ہے کہ نیا اور پُرانا فلسفہ بالاتفاق اس بات کو محال ثابت کرتا ہے کہ کوئی انسان اپنے اس خاکی جسم کے ساتھ کُرَّۂ زَمْہَرِیْر تک بھی پہنچ سکے بلکہ علم طبعی کی نئی تحقیقاتیں اس بات کو ثابت کر چکی ہیں کہ بعض بلند پہاڑوں کی چوٹیوں پر پہنچ کر اس طبقہ کی ہوا ایسی مُضرِّ صحت معلوم ہوئی ہے کہ جس میں زندہ رہنا ممکن نہیں۔پس اس جسم کا کُرَّۂ ماہتاب یا کُرَّۂ آفتاب تک پہنچنا کس قدر لغو خیال ہے

ازانجملہ ایک یہؔ اعتراض ہے کہ جو لوگ آسمانوں کے وجود کے قائل ہیں وہ البتہ اُن کی حرکت کے بھی قائل ہیں اور حرکت بھی دولابی خیال کرتے ہیں اب اگر فرض کیا جائے کہ حضرت مسیح جسم خاکی کے ساتھ آسمان پر گئے ہیں تو ظاہر ہے کہ وہ ہر وقت اُوپر کی سمت میں ہی نہیں رہ سکتے بلکہ کبھی اُوپر کی طرف ہوں گے اور کبھی زمین کے نیچے آ جاؔ ئیں گے اس صورت میں اس بات پر وثوق بھی نہیں ہو سکتاہے کہ وہ ضرور اُوپر کی ہی طرف سے اُتریں گے کیا یہ ممکن نہیں کہ زمین کے نیچے سے ہی نکل آویں کیونکہ درحقیقت اُن کا ٹھکانہ تو کسی جگہ نہ ہوا اگر صبح آسمان کے اُوپر ہوئے تو شام کو زمین کے نیچے۔ پس ایسی مصیبت اُن کے لئے روا رکھنا کس درجہ کی بے ادبی میں داخل ہے۔

 ازانجملہ ایک یہ اعتراض کہ اگر ہم فرض محال کے طور پرقبول کر لیں کہ حضرت مسیح اپنے جسم خاکی کے سمیت آسمان پر پہنچ گئے تو اس بات کے اقرار سے ہمیں چار ہ نہیں کہ وہ جسم جیساکہ تمام حیوانی و انسانی اجسام کے لئے ضروری ہے آسمان پر بھی تاثیر زمانہ سے ضرور متاثر ہو گا اور بمرور زمانہ لابدی اور لازمی طور پر ایک دن ضرور اس کے لئے موت واجب ہو گی پس اس صورت میں اول تو حضرت مسیح کی نسبت یہ ماننا پڑتا ہے کہ اپنی عمر کا دورہ پوراکر کے آسمان ہی پر فوت ہو گئے ہوں اور کواکب کی آبادی جو آج کل تسلیم کی جاتی ہے اُسی کے کسی قبرستان میں دفن کئےگئے ہوں اور اگر پھر فرض کے طور پراب تک زندہ رہنا اُن کا تسلیم کر لیں تو کچھ شک نہیں کہ اتنی مدت گزرنے پر پِیر فَرتوت ہو گئے ہوں گے اور اس کام کے ہرگز لائق نہیں ہوں گے کہ کوئی خدمت دینی اداکر سکیں پھر ایسی حالت میں اُن کا دنیا میں تشریف لانا بجُز ناحق کی تکلیف کے اور کچھ فائدہ بخش معلوم نہیں ہوتا۔‘‘

(ازالہ اوہام حصہ اول۔ روحانی خزائن جلد 3صفحہ 126)

یہ بھی ملاحظہ فرمائیں

یہود، نصاریٰ اور مسلمانوں کا نظریہ بابت وفات مسیح

یہود کا نظریہ یہود کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ ؑ نعوذ باللہ جھوٹے تھے اس لیے انہوں نے اسے صلیب …