حضرت خواجہ غلام فریدؒ کی گواہی

سرائیکی علاقہ کے ایک مردِ باصفا برگزیدہ خدا حضرت خواجہ غلام فرید صاحب آف چاچڑاں شریف ضلع بہاولپورجو کوٹ مٹھن ضلع راجن پور میں مدفون ہیں کے مرید ، پنجاب اور سندھ میں لاکھوں کی تعداد میں موجود ہیں۔ وہ حضرت بانی جماعت احمدیہ کو مخاطب کر کے اپنے ایک خط میں لکھتے ہیں:۔

حضرت بانی جماعت احمدیہ کی خدمت میں حضرت خواجہ صاحب کا پہلا مکتوب

’’اے میرے عزیز ترین دوست آپ کو معلوم ہو کہ میں حصول ثواب کے لئے ابتدا سے ہی آپ کی تعظیم کرتا ہوں۔ میری زبان سے آپ کے حق میں احترام اور رعایت ادب کے سوا کوئی کلمہ نہیں نکلا میں آپ کو مطلع کرتا ہوں کہ میں بلا شبہ جناب کے نیک حال کا معترف ہوں اور پورا یقین رکھتا ہوں کہ آپ اللہ تعالیٰ کے صالح بندوں میں سے ہیںپس آپ کی قابل قدر مساعی یقینا بار آور ہوں گی آپ کو ملک وہاب کا فضل عطا کیا گیا ہے۔ آپ اللہ تعالیٰ سے میرے حسن عاقبت کی دعا فرمائیں میں آپ کے نیک انجام کی دعا کرتا ہوں‘‘ (اردو ترجمہ از عربی اشارات فریدی جلد3 مقبوس نمبر17ص42 مطبع مفید عام آگرہ 1320ھ)

حضرت بانی جماعت احمدیہ کی خدمت میں حضرت خواجہ صاحب کا دوسرا مکتوب

’’بخدمت جناب عالی مراتب مرزا غلام احمد صاحب جو بے پایاں خوبیوں کا مجموعہ اور غیر محدود اوصاف کے جامع  مکرم ومعظم خدائے احد کے برگزیدہ بندے ہیں اللہ تعالیٰ لوگوں کو آپ کی زندگی سے بہرہ ور فرمائے اور مجھے آپ کی ملاقات کا موقع دے کر مسرور فرمائے اور اللہ آپ کو اپنی نعماء سے نوازے۔۔۔۔۔جس قدرمیں آنمحترم کے کارناموں سے آگاہی پاتاہوں اسی قدر میرا الفت شعار دل آپ کے لئے اخلاص میں بڑھتا جاتا ہے۔

دعا ہے کہ عنایت ایزدی سے ایسے اسباب پیدا ہوں اور وہ نیک ساعت آئے جب بعد مکانی پردے دور ہوں اور لمبی مسافت کا نقاب درمیان سے اٹھ جائے(یعنی آپ سے ملاقات میسر ہو)‘‘ (اردو ترجمہ از فارسی۔ ایضاً مقبوس نمبر59 ص 127-129)

حضرت مرزا صاحب کی سیرت وکردار پر شہادت

’’حضرت مرزا صاحب تمام اوقات خدائے عزوجل کی عبادت میں گزارتے ہیں یا نماز پڑھتے ہیں یا قرآن شریف کی تلاوت کرتے ہیںیا دوسرے ایسے ہی دینی کاموں میں مشغول رہتے ہیں اور دین اسلام کی حمایت پر اس طرح کمر ہمت باندھی ہے کہ ملکہ زمان لنڈن کو بھی دین محمدی(دین حق) قبول کرنے کی دعوت دی ہے۔روس، فرانس اور دیگر ملکوں کے بادشاہوں کو بھی (دین حق) کا پیغام بھیجا ہے اور ان کی تمام تر سعی اور کوشش اس بات میں ہے کہ وہ لوگ عقیدہ تثلیث و صلیب کو جو سراسر کفر ہے چھوڑ دیں اور اللہ تعالیٰ کی توحید کو اختیار کر لیں اور اس وقت کے علماء کا حال دیکھو کہ دوسرے تمام جھوٹے مذاہب کو چھوڑ کر ایسے نیک مرد کے درپے ہو گئے ہیں جو کہ اہل سنت والجماعت میں سے ہے اور صراط مستقیم پر قائم ہے اور ہدایت کا راستہ دکھاتا ہے اور یہ اس پر کفرکا فتوی لگاتے ہیں ۔ان کے عربی کلام کو دیکھو جو انسانی طاقتوں سے بالا ہے۔ اور ان کا تمام کلام معارف وحقائق سے بھرا ہوا ہے وہ اہل سنت والجماعت اور دین کی ضروریات سے ہر گز منکر نہیں۔‘‘ (اردو ترجمہ از فارسی ایضاً  مقبوس نمبر27 ص 69-70)

چاند سورج گرہن کے نشان سے متعلق گواہی

’’حدیث دار قطنی میں حضرت امام محمد باقر سے مروی ہے کہ یقینا ہمارے مہدی کے لئے دو نشان ہیں جب سے زمین وآسمان پیدا ہوئے کسی مدعی کے لئے یہ دو نشان ظاہر نہیں ہوئے یعنی رمضان شریف میں چاند کو اس کی پہلی رات گرہن لگے گا اور سورج کو اس کی درمیانی رات گرہن لگے گا چونکہ ماہ اپریل 1894ء کی چھٹی تاریخ کو خسوف قمر اور کسوف شمس واقع ہو گیا ہے۔پس حضرت مرزا صاحب نے اپنی طرف سے اتمام حجت کے لئے تمام دنیا کے اطراف و اکناف میں ان معنوں کا اشتہار شائع کیا ہے کہ یہ پیشگوئی جو آنحضرتؐ نے مہدی موعود کے ظاہر ہونے کے متعلق بیان فرمائی تھی اب پوری ہو گئی ہے ہر ایک پر واجب ہے کہ میرے مہدی ہونے کو تسلیم کریں اور اقرار کریں مگر اس زمانہ کے مولویوں نے یہ طفلانہ سوال کیا ہے کہ حدیث شریف سے یہ معنے ظاہر ہوتے ہیں کہ رمضان شریف کی پہلی رات کو چاند گرہن ہوگا اور اسی ماہ رمضان میں سورج کو بھی گرہن ہوگا اور یہ چاند گرہن رمضان کی تیرہویں تاریخ کو واقع ہوا ہے اور سورج گرہن رمضان کی اٹھائیسویں تاریخ کو  واقع ہوا ہے اور یہ بات حدیث شریف کے فرمان کے خلاف ہے۔ وہ کسوف وخسوف کوئی اور ہوگا جو کہ مہدی برحق کے زمانہ میں واقع ہوگا اس کے بعد خواجہ صاحب ابقاہ اللہ ببقائہ نے فرمایا سبحان اللہ سنئیے حضرت مرزا صاحب نے مذکورہ حدیث کے کیا معنی کئے ہیں اور منکر مولویوں کو کیا جواب دیا ہے ۔حضرت مرزا صاحب نے فرمایا کہ حدیث شریف کے معنی یہ ہیں کہ ہمارے مہدی کی تائید اور تصدیق کے لئے دو نشان مقرر ہیں۔ اس وقت سے کہ جب سے آسمان و زمین پیدا ہوئے یہ دونوں نشان کسی مدعی کے وقت میں ظاہر نہیں ہوئے اور وہ دو نشان یہ ہیں کہ مہدی موعود کے دعویٰ کے وقت چاند گرہن پہلی رات کو ہوگا اور وہ چاند گرہن کی تین راتوں میں سے پہلی رات یعنی تیرہویں رات ہے۔ اور سورج گرہن اس دن ہوگا کہ سورج گرہن کے دنوں میں سے درمیانہ دن یعنی ماہ رمضان کی اٹھائیسویں تاریخ ہے۔ اس کے بعد حضرت خواجہ صاحب نے فرمایا کہ بے شک حدیث شریف کے معنی اس طرح ہیں جس طرح حضرت مرزا صاحب نے بیان فرمائے‘‘ (اردو ترجمہ از فارسی ایضاً مقبوس نمبر27 ص 70-71)

حضرت مرزا صاحب کے مہدی ہونے کی تصدیق

’’اسی اثناء میں حافظ مگوں سکنہ حدود گڑھی بختیار خان نے حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے متعلق نامناسب اور ناروا باتیں کہنی شروع کیں اس وقت حضرت خواجہ صاحب ابقاہ اللہ تعالیٰ ببقائہ کا چہرہ مبارک متغیر ہو گیا اور آپ نے اس حافظ کو تنبیہ کی اور اسے ڈانٹا اس حافظ نے عرض کی قبلہ! جب کہ مرزا صاحب میں حضرت عیسیٰ بن مریم کے حالات اور صفات اور مہدی موعود کے اوصاف نہیں پائے جاتے تو ہم کس طرح اعتبار کر لیں کہ وہ عیسیٰ اور مہدی ہیں۔حضور خواجہ صاحب ابقاہ اللہ ببقائہ نے فرمایا کہ مہدی کے اوصاف پوشیدہ اور چھپے ہوئے ہیں وہ اوصاف ایسے نہیں جیسے لوگوں کے دلوں میں بیٹھے ہوئے ہیںپس کیا تعجب ہے کہ یہی مرزا غلام احمدصاحب قادیانی مہدی ہوں ۔جیسا کہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ بارہ دجال ہیں ۔پس اسی قدر مہدی ہیں اور ایک حدیث میں آیا ہے کہ عیسیٰ اور مہدی ایک ہی شخص ہے۔ اس کے بعد فرمایا کہ یہ کوئی شرط نہیں ہے ۔کہ مہدی کی تمام علامات جو کہ لوگوں کے دلوں میں ان کے اپنے خیال اور فہم کے مطابق بیٹھی ہوئی ہیں ظاہر ہو جائیں۔بلکہ اے حافظ! بات دوسری طرح ہے اگر اسی طرح ہوتا جیسا کہ لوگ خیال کرتے ہیں تو تمام دنیا مہدی برحق کو جان لیتی اور اس پر ایمان لے آتی ۔جیسا کہ پیغمبر ہیں کہ ہر نبی کی امت کئی گروہ ہو گئی بعض پر اس پیغمبر کا حال ظاہر ہی نہ ہوا ۔اس وجہ سے اس گروہ نے انکار کر دیا اور کافر ہوگیا ۔اگر ہر نبی کی امت پر اپنے وقت کے نبی کا حال منکشف ہوجاتا تو تمام مسلمان ہو جاتے جیسا کہ آنحضرت  ﷺ ہیں کہ آنحضرت  ﷺ کے اوصاف و علامات کتب سماویہ میں لکھے ہوئے تھے اور جب آنحضرت  ﷺ ظاہر ہوئے اور مبعوث ہوگئے تو انہوں نے بعض علامات کو اپنی سمجھ اور فہم اور خیال کے مطابق نہ پایا پس جن لوگوں پر آنحضرت  ﷺ کا معاملہ ظاہر ہوگیا تو وہ ایمان لے آئے جس گروہ پر آپ کا حال نہ کھلا انہوں نے انکار کر دیا ۔اسی طرح مہدی کا حال ہے ۔ پس اگر مرزا صاحب مہدی ہوں تو کونسی بات مانع ہے۔‘‘ (ترجمہ از فارسی ایضاً مقبوس نمبر56 ص 123-124)

فتویٰ کفر  پر دستخط کرنے سے انکار

مولوی غلام دستگیرصاحب قصوری اور دیگر علماء حضرت خواجہ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حضرت بانی جماعت احمدیہ کے خلاف جاری کردہ فتویٰ کفر پر دستخط کرنے کی درخواست کی جس پر حضرت خواجہ صاحب نے علماء کا مطالبہ رد کرتے ہوئے فرمایا:۔

’’مرزا غلام احمد صاحب قادیانی حق پر ہیں اور اپنے معاملہ میں صادق اور راستباز ہیں ۔وہ تو آٹھوںپہراللہ تعالیٰ حق سبحانہ کی عبادت میں مستغرق رہتے ہیں اور ترقی اسلام اور دین کی سربلندی کے لئے بدل وجان کوشاں رہتے ہیں ۔ ان میں کوئی بات ناپسندیدہ اور قابل مذمت نہیں ۔اگر انہوں نے مہدی اور عیسیٰ ہونے کا دعویٰ کیا ہے تو یہ بھی جائز بات ہے۔‘‘ (ایضاً مقبوس نمبر83ص 179)

اشارات فریدی میں افسوسناک تحریف

افسوس کہ حضرت خواجہ صاحبؒ کی اس گواہی سے فائدہ اٹھانے کی بجائے آج اشارات فریدی مقابیس المجالس اردو ترجمہ مطبوعہ 1979ء سے یہ اقتباسات خارج کر دئیے گئے ہیں اور ان اقتباسات کو خارج کرنے کے لئے کتاب کے مترجم کپتان واحد بخش صاحب سیال نے متضاد پالیسی اختیار کی ۔ ایک طرف تو یہ عذر پیش کیا ہے کہ حضرت خواجہ صاحب کے یہ خطوط و ارشادات جعلی ہیں اور دوسری طرف اس سے متضاد دوسرا عذر یہ پیش کیا ہے کہ حضرت خواجہ صاحب کے یہ خطوط وارشادات اگر چہ درست ہیں لیکن کچھ عرصہ بعد حضرت خواجہ صاحب نے اپنی یہ رائے تبدیل کر لی تھی۔

جب کہ امر واقعہ یہ ہے کہ حضرت خواجہ صاحب وہ عظیم شخصیت تھے جن کی خدمت میں کثرت کے ساتھ علماء بھی حاضر ہوتے تھے اور عوام بھی آپ سے فیض پاتے تھے جس کے نتیجہ میں آپ کو حضرت بانی جماعت احمدیہ کے دعویٰ اور کتب سے واقفیت تھی۔

ابتداء میں حضرت بانی جماعت احمدیہ کا یہ تاثر تھا کہ شاید حضرت خواجہ صاحب بھی دیگر علماء کی طرح آپ کو کافر اور مرتد سمجھتے ہیں۔چنانچہ حضرت بانی جماعت احمدیہ نے اس تاثر کے تحت اپنے الہامات اور دعوت مباہلہ پر مشتمل مضمون حضرت خواجہ صاحب کی خدمت میں ارسال فرمایا جسے پڑھ کر حضرت خواجہ صاحب نے حضرت بانی جماعت احمدیہ کی خدمت میں متعدد خطوط لکھے ۔یہ خطوط حضرت بانی جماعت احمدیہ نے1897ء میں اپنی کتاب ضمیمہ انجام آتھم اور سراج منیر میں شائع کر دئیے ۔حضرت خواجہ صاحب نے ان خطوط کی اشاعت کے بعد 1901ء میں وفات پائی اور آپ مختلف مجالس میں جو ارشادات فرماتے آپ کے مخلص مرید اور ڈائری نویس مولوی غلام احمد صاحب اختر انہیں ضبط تحریر میں لے آتے تھے۔ حضرت خواجہ صاحب اپنی مجالس میں حضرت بانی جماعت احمدیہ کے بارہ میں جن تاثرات کا اظہار فرماتے رہے وہ ساتھ ساتھ تحریراً محفوظ کئے جاتے رہے۔

مولوی غلام احمد اختر صاحب نے آپ کے انہیں تاثرات سے متاثر ہو کر 1905ء میں جماعت احمدیہ میں شمولیت اختیار کر لی۔ حضرت خواجہ صاحب کی زندگی میں ہی آپ کے ان تمام خطوط اور ملفوظات کو آپ کے مخلص مرید اور خلیفہ’’ علوم ظاہری وباطنی کے جامع‘‘مولانا رکن الدین صاحب نے دس سال تک آپ کی خدمت میں رہ کر چار جلدوں میں اشارات فریدی کے نام سے مرتب کیا۔ اور حضرت بانی جماعت احمدیہ سے متعلق حضرت خواجہ صاحب کے خطوط و ملفوظات اشارات فریدی جلد سوم میں شامل کئے اور یہ جلد مولانا رکن الدین صاحب نے لفظاً لفظاً پڑھ کر آپ کو سنائی اور آپ نے سننے کے بعد اس میں بعض مقامات پر ضروری اصلاح فرمائی۔(ایضاً ص 187)

حضرت خواجہ صاحب کے ملفوظات ومکتوبات کو مرتب کرنے کا یہ کام آپ کی زندگی کے آخری ایام میں ہوا ۔ حضرت خواجہ صاحب نے حضرت بانی جماعت احمدیہ کے بارے میں ان خطوط اور آراء کو سننے کے بعد انہیں برقرار رکھا اور اشاعت کے لئے اس کتاب میں شامل فرمایا۔ اگر حضرت خواجہ صاحب کی رائے بدل چکی ہوتی یا خطوط جعلی ہوتے تو آپ انہیں اپنی کتاب میں شامل کرنے سے منع فرما دیتے۔

حضرت خواجہ صاحب کی وفات کے بعدآپ کے صاحبزادہ اور خلیفہ خواجہ محمد بخش صاحب نے آپ کے تصحیح شدہ مجموعہ کی پہلی تین جلدیں 1902ء میں مطبع مفید عام آگرہ سے شائع فرما دیں۔مگر افسوس کہ آج پون صدی گزرنے کے بعد 1979ء میں صوفی فاؤنڈیشن بہاولپور کی طرف سے شائع ہونے والے اردو ترجمہ میں سے مترجم نے یہ خطوط و ارشادات کتاب سے خارج کر دئیے ہیں۔

انا للہ وانا الیہ راجعون

اے فرید وقت در صدق و صفا
باتو باد آں روکہ بام اُو خدا

بر تو بارد  رحمت  یار  ازل
در  تو  تابد نور  دلدار ازل

از تو جان من خوش است اے خوشخصال
دیدمت مردے دریں قحط الرجال

اے مرا روئے محبت سوئے تو
بوئے انس آمد مرا از کوئے تو

(سراج منیر روحانی خزائن جلد۱۲ ص۹۴)

یہ بھی ملاحظہ فرمائیں

مسیح اور مہدی کا زمانہ اور بزرگان

(۱) صاحب کشف بزرگ حضرت نعمت اللہ ولی (۷۲۹تا ۸۳۴ھ) آپ نے اپنے مشہور فارسی قصیدہ میں آخری زم…