یہود، نصاریٰ اور مسلمانوں کا نظریہ بابت وفات مسیح

یہود کا نظریہ

یہود کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ ؑ نعوذ باللہ جھوٹے تھے اس لیے انہوں نے اسے صلیب دے کر مار دیا اور انہیں بائبل کے مطابق لعنتی ثابت کر دیا کیونکہ لکھا ہے ”جو کوئی لکڑی پر لٹکایاگیا وہ لعنتی ہے‘‘ (گلتیوں 3/13) قرآن کریم ان کی تردید فرماتا ہے۔

عیسائیوں کا نظریہ

عیسائی کہتے ہیں کہ اگرچہ یہودیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو صلیب تو دی تھی مگر وہ بنی آدم کے گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کے لیے تین دن دوزخ میں رہے۔ پھر واپس دنیا میں آئے اور جسم سمیت آسمان پر اٹھائے گئے۔ اب وہ قیامت سے قبل دوبارہ واپس آئیں گے اور ساری دنیا کو عیسائی بنا دیں گے۔ اب وہی نجات یافتہ ہو گا جو ان کے کفارے پر ایمان لائے یعنی اس عقیدے پر کہ دوزخ میں جا کر انہوں نے ہمارے گناہوں کا کفارہ ادا کر دیا۔ قرآن کریم اس کی بھی تردید فرماتا ہے۔

غیر احمدی مسلمانوں کا نظریہ اور اسکی تردید

غیر احمدی مسلمانوں کا یہ نظریہ ہے کہ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو یہود صلیب دینے کے لئے لے جارہے تھے تو انہیں ایک کمرے میں بند کر دیا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے رات کے اندھیرے میں روشن دان کے ذریعے عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر اٹھا لیا۔ اور ایک یہودی دشمن کی شکل تبدیل کر کے عیسیٰ علیہ السلام کی شکل بنا دی جسے کمرے میں بند کر دیا۔ صبح یہودیوں نے اس شخص کو جس کی شکل عیسیٰ علیہ السلام سے ملتی تھی ،کو صلیب پر لٹکا دیا مگر دراصل وہ انہی کا ایک یہودی بھائی تھا جس کو صلیب دی گئی جبکہ عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر بیٹھے ہیں ۔

اس جگہ اس تیسرے نظریہ پر غور کرنا مقصود ہے۔

پس واضح ہو کہ اس کہانی کا نہ قرآن میں ذکر ہے نہ احادیث میں یہ ایک من گھڑت کہانی ہے جونہ صرف عقل کے خلاف ہے بلکہ خدا کی شان کے بھی خلاف ہے۔ مثلاً…

1۔ اس یہودی نے شور کیوں نہ ڈالا کہ میں تو یہودی تمہارا بھائی ہوں میرا یہ نام ہے میرا فلاں جگہ گھر اور بیوی بچے ہیں۔ کوئی دنیا کا عقل مند انسان اسے قبول نہیں کر سکتا کہ وہ خاموشی سے ان کے ساتھ چلتا گیا اورصلیب پر لٹک کر نہایت دردناک طریق پر مارا گیا اور اُف تک نہ کی۔ اگروہ شور ڈال دیتا تو یہودی کبھی بھی اسے صلیب پر نہ لٹکاتے بلکہ اصلی مسیح کی تلاش میں نکل پڑتے۔ اور اسے مسیح کا جادو سمجھ لیتے۔

2۔ اگر خداتعالیٰ نے اٹھانا ہی تھا تو رات کی تاریکی میں کیوں اٹھایا دن کے اجالے میں کیوں نہ اٹھایا تاکہ سب پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی صداقت ثابت ہو جاتی۔

3۔ کیا ہم اس بات کو گوارا کر سکتے ہیں کہ ہماری شکل فرعون یا ابوجہل یا یزید کے چہرے پر لگ جائے اور وہ ہمارا ہم شکل ہو جاتا اگر نہیں تو اللہ تعالیٰ نے کیوں اپنے مقدس نبی کی شبیہ یہود پر ڈال دی؟

4۔ عیسائی اسی واقعہ کو جواز بنا کر ثابت کرتے ہیں کہ نعوذباللہ حضرت عیسیٰ ؑ کی شان تمام انبیاء سے بڑھ کر تھی کہ ان کو کوئی تکلیف نہ پہنچنے دی گئی جبکہ آنحضورؐ نے طائف میں پتھر بھی کھائے اور احد میں آپؐ کے دانت تک شہید ہوئے۔

5۔ اگر یہ قصہ مان لیں تو گویا قیامت تک کے لئے نعوذباللہ اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کو گمراہ کر دیا کیونکہ وہ قیامت کے دن کہہ دیں گے کہ اے خدا تو نے بائبل میں تعلیم نازل کی تھی کہ جسے صلیب دی جائے وہ لعنتی ہوتا ہے ہم اسے جھوٹا سمجھتے تھے اور تیری تعلیم کے مطابق اسے صلیب دے کر لعنتی ثابت کر دیا پھر ہم کیوں اس پر ایمان لاتے؟

جماعت احمدیہ کا نظریہ اور اسکے دلائل

جماعت احمدیہ کے نزدیک اگر چہ عیسیٰ علیہ السلام کو یہود نے صلیب پر لٹکایا ضرور تھا مگر وہ بے ہوشی کی حالت میں زندہ صلیب سے اتار لئے گئے تھے۔ اس کے بعد وہ لمبا سفر کر کے افغانستان کے راستے ہندوستان اور کشمیر میں پہنچے اور وہاں0 12 سال کی عمر میں وفات پائی۔ آج بھی ان کا مزار کشمیر کے محلہ خانیار میں یوز آصف کے نام سے مشہور ہے۔ (ذیل میں تصویر ملاحظہ کریں۔)

1۔ جمعہ کے روز سہ پہر انہوں صلیب پر لٹکایا گیا۔ تقریباًدو اڑھائی گھنٹے بعد اُنہیں اتار لیا گیا۔ اس دوران انسان صلیب پر جان نہیں دیتا بلکہ وہ بے ہوش ہو جاتا ہے کیونکہ صلیب میں دونوں ہاتھوں اور پاؤں کی ہڈیوں کے درمیان میخیں گاڑی جاتی ہیں۔ اس سے اتنا خون نہیں نکلتا کہ انسان مر جائے۔

2۔ اتارنے سے قبل جب وہ بے ہوش ہو چکے تھے ایک رومن سپاہی نے ان کی پسلی میں بھالا ماراجس سے خون اور پانی فی الفور بہہ نکلا (یوحنا 19/34)۔ یہ بات قطعیت سے ثابت کرتی ہے کہ وہ اس وقت زندہ تھے اور دل کی دھڑکن جاری تھی اور خون رگوں میں گردش کر رہا تھا۔ورنہ مردہ جسم سے خون تیزی سے نہیں نکلتا کیونکہ دل کی دھڑکن رک جاتی ہے اور خون جم جاتا ہے۔

3۔ صلیب سے اتارنے کے بعد ہڈیاں توڑ دی جاتی تھیں تب صلیب کا عمل مکمل ہوتا تھا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ دو چوروں کو بھی صلیب دی گئی۔ ان دونوں چوروں کی تو ہڈیاں توڑی گئیں مگر حضرت عیسیٰ ؑ کی ہڈیاں نہیں توڑی گئیں۔

4۔ صلیب سے اتارنے کے فوراً بعد انہیں حواری لے گئے اور ایک خفیہ تہہ خانے میں جا کر رکھا۔ ان کے جسم پر مرہم لگائی گئی جو اس وقت سے آج تک طب کی کتابوں میں ”مرہم عیسیٰ” کے نام سے مشہور ہے۔ جو زخموں کو بہت جلد ٹھیک کرتی ہے۔ جسم پر ایک چادر لپیٹ دی گئی۔ تین دن تک عیسیٰ ؑ اسی تہہ خانے میں رہے۔ اس کے بعد وہ نکلے اور رات کے وقت ایک حواری کے گھر جا کر سب حواریوں سے ملے۔ اورپھر ایک لمبے سفر کا آغاز کر دیا ۔

5۔ جو چادر ان پر لپیٹی گئی جسے کفن مسیح کہا جاتا ہے وہ آج بھی اٹلی کے ایک گرجا گھر میں موجود ہے۔ اس پر حضرت عیسیٰ ؑ کی تصویر (image) بنی ہوئی ہے۔ کیمرے کی ایجاد کے بعد جب اس کی تصویر لی گئی تو وہ ڈارک روم میں negative کی بجائے positive بن کر ابھری اس سے معلوم ہوا کہ کپڑے پر ان کی تصویر کا negative بنا ہوا ہے جو اس بات کو قطعیت سے ثابت کرتا ہے کہ یہ تصویر جعلی نہیں اصلی ہے۔ اس تصویر میں بہت سے زخموں کے نشانات ہیں جن سے خون نیچے کی طرف رستا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس کپڑے میں لپٹے جانے کے بعد بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ تھے اور ان کے زخموں سے خون رِس رہا تھا۔

6۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے افغانستان ، ہندوستان اور کشمیر کی طرف سفر اس لئے اختیار کیا کیونکہ وہ بنی اسرائیل کے 12 قبائل کی طرف مبعوث ہوئے تھے۔ ان میں سے صرف 2 قبائل فلسطین میں آباد تھے باقی 10 قبائل 300 سال قبل ہجرت کر کے ان علاقوں میں آ کر آباد ہوگئے تھے۔ چنانچہ مورخ اس بات پر قریباً متفق ہیں کہ ان علاقوں میں بنی اسرائیل کے گمشدہ قبائل آ کر آباد ہوئے تھے۔ اسی لئے آج بھی یہاں کے قبیلوں کے نام موسیٰ خیل عیسیٰ خیل وغیرہ ملتے ہیں۔آپ کی ہجرت اور کشمیر میں آنے کا ذکر قرآن کریم میں بھی ہے۔ فرمایا وَاٰوَیْنٰھُمَا اِلٰی رَبْوَۃٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَّ مَعِیْنٍ (المومنون:51) (ترجمہ:۔ اور ان دونوں کو ہم نے ایک مرتفع مقام کی طرف پناہ کی جوپُر امن اور چشموں والا تھا)اور کشمیر کی تاریخ میں بھی ملتا ہے۔ اس وقت کا راجہ شالباھن سے حضرت عیسیٰ کی ملاقات کا تذکرہ ملتا ہے جس میں عیسیٰ ؑنے بتایا میں بنی اسرائیل کا نبی ہوں اور کنواری کے بطن سے پیدا ہوا اور میری تعلیم محبت کی ہے ۔ میں اپنی قوم کے گمشدہ قبائل کی تلاش میں یہاں آیا ہوں۔

7۔ سری نگر کے محلہ خانیار میں آپؑ کا مزار یوز آصف کے نام سے مشہور ہے۔ ” یوز ‘‘ یسوع سے بگڑا ہوا لفظ ہے اور آصف کے معنی ہیں متلاشی یعنی آپ اپنی قوم کی تلاش میں یہاں پہنچے۔ قبر کے پاس پتھر کی تختی ہے جس پر دو قدموں کے نشان بنے ہوئے ہیں۔ ان میں سوراخ یعنی زخموں کے نشان دکھائے گئے ہیں ۔ یہ بھی اس بات کی تائید کرتی ہے کہ اس قبر میں مدفون ہونے والے کے قدموں میں کیل لگائے گئے تھے جو صلیبی واقعہ پر دلالت کرتا ہے۔

یہ بھی ملاحظہ فرمائیں

وفات مسیح اور بزرگان امت

سابقہ نبی کی آمد کی کتب سابقہ کا اجماع گذشتہ اکابر قابل مواخذہ نہیں ہوں گے امت محمدیہ کے …