ثبوت وفات مسیح از سورۃ الانبیاء آیت 9

وَمَا جَعَلْنَا ھُمْ جَسَدًا لَّایَاْکُلُوْنَ الطَّعَامَ وَمَا کَانُوْا خَالِدِیْنَ۔ (الانبیاء:9)

ترجمہ :اور ہم نے انہیں ایسا جسم نہیں بنایا تھا کہ وہ کھانا نہ کھاتے ہوں اوروہ ہمیشہ رہنے والے نہیں تھے ۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فر ماتے ہیں:۔

وَمَا جَعَلْنَا ھُمْ جَسَدًا لَّایَاْکُلُوْنَ الطَّعَامَ۔ اس آیت کا پہلی آیت کے ساتھ ابھی بیان ہوچکا ہے اور درحقیقت یہی اکیلی آیت کافی طور پر مسیح کی موت پر دلالت کررہی ہے کیونکہ جبکہ کوئی جسم خاکی بغیر طعام کے زندہ نہیں رہ سکتا یہی سُنّت اللہ ہے تو پھرحضرت مسیح کیونکر اب تک بغیرطعام کے زندہ موجود ہیں اور اللہ جلّ شانُہ، فرماتاہے وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِہ اللّٰہِ تَبْدِیلًا۔ اور اگر کوئی کہے کہ اصحاب کہف بھی تو بغیر طعام کے زندہ موجود ہیں۔ تو میں کہتا ہوں کہ اُن کی زندگی بھی اس جہان کی زندگی نہیں۔ مسلم کی حدیث سو برس والی اُن کو بھی مار چکی ہے۔ بیشک ہم اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ اصحاب کہف بھی شہداء کی طرح زندہ ہیں۔ اُن کی بھی کامل زندگی ہے۔ مگر وہ دنیا کی ایک ناقصہ کثیفہ زندگی سے نجات پاگئے ہیں۔ دنیا کی زندگی کیا چیز ہے اور کیا حقیقت۔ ایک جاہل اِسی کو بڑی چیز سمجھتا ہے اور ہر یک قسم کی زندگی کو جو قرآن شریف میں مذکور و مندرج ہے اِسی کی طرف گھسیٹتا چلاجاتا ہے۔ وہ یہ خیال نہیں کرتا کہ دنیوی زندگی تو ایک ادنیٰ درجہ کی زندگی ہے جس کے ارذل حصہ سے حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی پناہ مانگی ہے اور جس کے ساتھ نہایت غلیظ اور مکروہ لوازم لگے ہوئے ہیں۔ اگر ایک انسان کو اس سفلی زندگی سے ایک بہتر زندگی حاصل ہوجائے اور سُنّت اللہ میں فرق نہ آوے تو اس سے زیادہ اور کونسی خوبی ہے۔

(ازالہ اوہام۔ روحانی خزائن جلد 3صفحہ 426تا427)

’’جب ہم اس آیت پر بھی نظر ڈالیں کہ جو اللہ جلّشانُہ’ قرآن شریف میں فرماتا ہے کہ کوئی جسم کسی بشر کا ہم نے ایسا نہیں بنایا کہ بغیر روٹی کے زندہ رہ سکے تو ہمارے مخالفوں کے عقیدہ کے موافق یہ بھی لازم آتا ہے کہ وہ آسمان پر روٹی بھی کھاتے ہوں پاخانہ بھی پھرتے ہوں اور ضروریات بشر ّیت جیسے کپڑے اور برتن اورکھانے کی چیزیں سب موجود ہوں۔مگر کیا یہ سب کچھ قرآن اور حدیث سے ثابت ہوجائے گا؟ ہرگزنہیں۔ آخر ہمارے مخالف یہی جواب دیں گے کہ جس طرز سے وہ آسمان پر زندگی بسرکرتے ہیں وہ انسان کی معمولی زندگی سے نرالی ہے اور وہ انسانی حاجتیں جو زمین پر زندہ انسانوں میں پائی جاتی ہیں وہ سب اُن سے دورکردی گئی ہیں اور اُن کا جسم اب ایک ایسا جسم ہے کہ نہ خوراک کا محتاج ہے اور نہ پوشاک کااورنہ پاخانہ کی حاجت انہیں ہوتی ہے اور نہ پیشاب کی۔ اورنہ زمین کے جسموں کی طرح اُن کے جسم پر زمانہ اثر کرتاہے اورنہ وہ اب مکلّف احکام شرعیہ ہیں۔ تو اس کا یہ جواب ہے کہ خدائے تعالیٰ تو صاف فرماتا ہے کہ ان تمام خاکی جسموں کے لئے جب تک زندہ ہیں۔ یہ تمام لوازم غیر منفک ہیں جیسا کہ اس نے فرمایا وَمَا جَعَلْنَا ھُمْ جَسَدًا لَّایَاْکُلُوْنَ الطَّعَامَ۔ ظاہر ہے کہ اس آیت میں جُز کے ذکر سے کُل مرادہے یعنی گو ؔاُتنا ہی ذکر فرمایا کہ کسی نبی کا جسم ایسا نہیں بنایا گیا جو بغیر طعام کے رہ سکے۔ مگر اس کے ضمن میں ُکل وہ لوازم ونتائج جو طعام کو لگے ہوئے ہیں سب اشارۃ النص کے طور پر فرما دئے۔ سو اگر مسیح ابن مریم اسی جسم خاکی کے ساتھ آسمان پر گیا ہے تو ضرور ہے کہ طعام کھاتا ہو اورپا خانہ اور پیشاب کی ضروری حاجتیں سب اس کی دامنگیرہوں کیونکہ کلام الٰہی میں کذب جائز نہیں۔اور اگر یہ کہو کہ دراصل بات یہ ہے کہ مسیح اس جسم کے ساتھ آسمان پر نہیں گیا بلکہ یہ جسم تو زمین میں دفن کیا گیا اورایک اَور نورانی جسم مسیح کو مِلا جو کھانے پینے سے پاک تھا اس جسم کے ساتھ اُٹھایا گیا تو حضرت یہی تو موت ہے جس کا آخر آپ نے اقرارکرلیا۔ ہمارابھی تو یہی مذہب ہے کہ مقدس لوگوں کو موت کے بعد ایک نورانی جسم ملتا ہے اوروہی نورجو وہ ساتھ رکھتے ہیں جسم کی طرح اُنکے لئے ہو جاتا ہے سو وہ اس کے ساتھ آسمان کی طرف اُٹھائے جاتے ہیں اسی کی طرف اشارہ ہے جو اللہ جلَّ شَانُہ، فرماتاہے اِلَیْہِ یَصْعَدُ الْکَلِمُ الطَّیِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُہٗ یعنی پاک روحیں جو نورانی الوجودہیں خدائے تعالیٰ کی طرف صعود کرتی ہیں اور عمل صالح اُن ؔکارفع کرتا ہے یعنی جس قدرعمل صالح ہو اُسی قدرروح کا رفع ہوتاہے۔ اس جگہ خدائے تعالیٰ نے روح کا نام کلمہ رکھا۔ ‘‘

(ازالہ اوہام۔ روحانی خزائن جلد 3صفحہ332تا333)

یہ بھی ملاحظہ فرمائیں

ثبوت وفات مسیح از سورۃ الحشر آیت 8

مَآ اٰتٰکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَا نَھٰکُمْ عَنْہُ فَانْتَھُوْا۔ (الحشر:8) ترجمہ: ا…