ثبوت وفات مسیح از سورۃ المآئدۃ آیت 118

وَکُنْتُ عَلَیْھِمْ شَھِیْدًا مَّا دُمْتُ فِیْھِمْ فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ کُنْتَ اَنْتَ الرَّقِیْبَ عَلَیْھِمْ (المائدہ :118)

ترجمہ: اور تھا میں ان پر گواہ جب تک ان کے اندر رہا۔ پس جس وقت تو نے مجھے وفات دی تو پھر تو ہی ان کو دیکھنے والا تھا۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں:۔

فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ کُنْتَ اَنْتَ الرَّقِیْبَ عَلَیْھِمْ یعنی جب تُو نے مجھے وفات د ی تو تُو ہی اُن پر نگہبان تھا۔ ہم پہلے ثابت کر آئے ہیں کہ تمام قرآن شریف میں توفّٰی کے معنے یہ ہیں کہ روح کو قبض کرنا اور جسم کو بیکار چھوڑ دینا۔ جیسا کہ اللہ جلَّ شَانُہ، فرماتا ہے کے قُلْ یَتَوَفّٰکُمْ مَّلَکُ الْمَوْتِ الَّذِیْ وُکِّلَ بِکُمْ(السجدۃ :12) اور پھر فرماتاہے وَلٰکِنْ اَعْبُدَ اللّٰہَ الَّذِیْ یَتَوَفّٰکُمْ(یونس:105) اور پھر فرماتا ہے حَتّٰی یَتَوَفّٰھُنَّ الْمَوْتُ(النساء :16) اور پھر فرماتا ہے حَتّٰی اِذَا جَآءَتْھُمْ رُسُلُنَایَتَوَفَّوْنَھُمْ (الجز و نمبر ٨ سورۃ الاعراف:38) اور پھر فرماتا ہے تَوَفَّتْہُ رُسُلُنَا(الانعام :62)۔ ایسا ہی قرآن شریف کے تیئیس مقام میں برابر توفّی کے معنے اماتت اور قبض روح ہے۔لیکن افسوس کہ بعض علماء نے محض الحاد اور تحریف کی رُو سے اس جگہ تَوَفَّیْتَنِیْ سے مراد رَفَعْتَنِیْ لیا ہے اور اس طرف ذرہ خیال نہیں کیا کہ یہ معنے نہ صرف لغت کے مخالف بلکہ سارے قرآن کے مخالف ہیں۔ پس یہی تو الحاد ہے کہ جن خاص معنوں کا قرآن کریم نے اوّل سے آخر تک التزام کیاہے انکو بغیر کسی قرینہ قویہ کے ترک کردیا گیا ہے۔ توفی کا لفظ نہ صرف قرآن کریم میں بلکہ جابجا احادیث نبویہ میں بھی وفات دینے اور قبض روح کے معنوں پر ہی آتا ہے۔ چنانچہ جب میں نے غور سے صحاح سِتّہ کو دیکھا تو ہریک جگہ جو توفّی کا لفظ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مُنہ سے نکلا ہے یا کسی صحابی کے مُنہ سے تو انہیں معنوں میں محدود پایاگیا۔ میں دعوے سے کہتا ہوں کہ کسی ایک صحیح حدیث میں بھی کوئی ایسا توفّی کا لفظ نہیں ملے گا جس کے کوئی اَور معنے ہوں۔ میں نے معلوم کیا ہے کہ اسلام میں بطور اصطلاح کے قبض روح کے لئے یہ لفظ مقرر کیا گیا ہے تا روح کی بقاء پر دلالت کرے۔

افسوس کہ بعض علماء جب دیکھتے ہیں کہ توفّی کے معنے حقیقت میں وفات دینے کے ہیں تو پھر یہ دوسری تاویل پیش کرتے ہیں کہ آیت فلمّا توفّیتنی میں جس توفّی کا ذکرہے وہ حضرت عیسیٰ کے نزول کے بعد واقع ہوگی۔ لیکن تعجب کہ وہ اس قدر تاویلات رکیکہ کرنے سے ذرہ بھی شرم نہیں کرتے۔ وہ نہیں سوچتے کہ آیت فلمّا توفیتنی سے پہلے یہ آیت ہے وَاِذْ قَالَ اللہُ یٰعِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ ءَ اَنْتَ قُلْتَ لَلنَّاسِ الخ اور ظاہر ہے کہ قَال کا صیغہ ماضی کا ہے اور اس کے اوّل اذ موجود ہے جو خاص واسطے ماضی کے آتا ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ قصہ وقت نزول آیت زمانہ ماضی کا ایک قصہ تھانہ زمانہ استقبال کا اور پھر ایسا ہی جوجواب حضرت عیسیٰ کی طرف سے ہے یعنی فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ وہ بھی بصیغہ ماضی ہے اور اس قصہ سے پہلے جو بعض دوسرے قصّے قرآن کریم میں اسی طرز سے بیان کئے گئے ہیں وہ بھی انہیں معنوں کے مؤید ہیں۔ مثلًا یہ قصہ  وَاِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلٰئِکۃِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃً (البقرۃ :31) کیا اس کے یہ معنے کرنے چاہیئے کہ خدائے تعالیٰ کسی استقبال کے زمانہ میں ملائکہ سے ایسا سوال کرے گا ماسوا اس کے قرآن شریف اس سے بھرا پڑا ہے اور حدیثیں بھی اس کی مصدّق ہیں کہ موت کے بعد قبل از قیامت بھی بطور باز پُرس سوالات ہواکرتے ہیں۔‘‘

(ازالہ اوہام۔ روحانی خزائن جلد 3صفحہ 424تا425)

تشریح از حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؓ

یہ ٹکڑ ایک لمبی آیت کا ہے اس سے پہلے یہ مضمون ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن عیسٰی بن مریم ؑ سے پوچھے گا کہ کیا تُو نے لوگوں سے کہا تھا کہ تم مجھے اور میری ماں کو دو خدا مانو اللہ کے سوا؟ تو اس پر حضرت عیسیٰ ؑ جواب دیں گے ۔ ’’پاک ہے تیری ذات مجھے زیبا نہیں کہ کہوں وہ بات جس کا مجھے کوئی حق نہیں ۔ اگر میں نے کوئی ایسی بات کہی ہے تو تُو اُسے جانتا ہے ۔ تو جانتا ہے جو میرے جی میں ہے لیکن مَیں نہیں جانتا جو تیرے جی میں ہے تو بیشک سب غیبوں کو جاننے والا ہے ۔ مَیں نے ان کو اس بات کے سوا جس کا تُو نے مجھ کو حکم دیا تھا اور کچھ نہیں کہا۔ اور وہ یہ کہ عبادت کرو اس کی جو میرا اور تمہارا دونوں کا پروردگار ہے اور مَیں ان پر نگران رہا جب تک کہ مَیں  ان کے درمیان رہا۔ لیکن اے خدا ! جب تُو نے مجھے وفات دے دی تو پھر تو تُو ہی ان کو دیکھنے والا تھا اور تو ہر ایک چیز پر نگران ہے ۔‘‘

یہ آیت مسیح ؑ کی وفات پر ایک واضح دلیل پیش کرتی ہے ۔ یہاں مسیح صرف دو زمانوں کا ذکر کرتے ہیں ۔ پہلا زمانہ وہ جس میں مسیح  ؑ  ان کے اندر موجود تھے۔ اور دوسرا زمانہ وفات کے بعد کا زمانہ ۔ مسیح کہتے ہیں کہ میری قوم میں شرک کا دور میری وفات کے بعد شروع ہوا۔ اب ہم دیکھتےہیں کہ عیسائی کئی صدیوں سے شرک میں گرفتار چلے آتے ہیں ۔ اورمسیح اقرار کرتے ہیں کہ شرک میری وفات کے بعد شروع ہوا۔ پس معلوم ہوا کہ مسیح ؑ مدت سےوفات پا چکے ہیں۔

دُوسرا استدلال یہ ہے کہ اگر بالفرض مان لیا جائے کہ مسیح ؑ اب تک آسمان پر زندہ موجود ہیں ۔ اور آخری زمانہ میں قیامت سے پہلے زمین پر نازل ہونگے تولا محالہ وہ سب عیسائیوں کا شرک اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے اور اپنی امت کے بگاڑ سے پُورے واقف ہو جائیں گے اور انہیں معلوم ہو جائے گا کہ میری امت مجھ کو خدا بنا رہی ہے تو اس صورت میں وہ کس طرح اپنی ناواقفیت کا اظہارکر سکتے ہیں۔ یقینًا مسیح ؑ کی طرف سے یہ نعوذباللہ ایک غلط بیانی ہو گی  اگر وہ باوجود علم رکھنے کے پھر لاعلمی کا اظہار کریں۔

حدیث میں اس آیت کی تفسیر                                            

حدیث میں آتا ہے کہ قیامت کے دن آنحضرت ﷺ کے سامنے کچھ لوگ جہنم کی طرف چلائے جائیں گے ۔ حضور ؐ فرماتے ہیں مَیں ان کو دیکھ کر چلا اٹھوں گا۔ ’’اُصَیْحَابِیْ۔اُصَیْحَابِیْ‘‘۔ یہ تو میرےصحابہ ہیں یہ تو میرے صحابہ ہیں ۔ اس پر فرشتے کہیں گے :۔

’’آپ نہیں جانتے یہ لوگ تو آپ کے بعد اپنی ایڑیوں کے بل پھر گئے تھے ۔‘‘

نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ یہ سُن کر مَیں وہی کہوں گا جو ایک نیک بندے عیسیٰ بن مریم ؑ نے کہا:

’’وَکُنْتُ عَلَیْھِمْ شَھِیْدًا مَّا دُمْتُ فِیْھِمْ فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ کُنْتَ اَنْتَ الرَّقِیْبَ عَلَیْھِمْ‘‘ (المائدہ :118)

(صحیح بخاری کتاب التفسیر باب قولہ ما جعل اللہ من بحیرۃ ولا سائبۃ)

یعنی جب تک مَیں ان کے درمیان رہا مَیں ان کی نگرانی کرتا رہا ۔ لیکن جب اے خدا تو نے مجھ کووفات دے دی تو پھر تُو ہی انکو دیکھنے والا تھا۔

دیکھئے نبی کریم ﷺ نے وہی الفاظ اپنے متعلق استعمال کئے جو حضرت عیسیٰ ؑ نے کئے تھے ۔ اب یہ ظاہر ہے کہ نبی کریم ﷺ آسمان پر نہیں اٹھائے گئے ۔ بلکہ موت نے ہی آپ ؐ کو اپنے متبعین سے الگ کیا تھا۔ یہی معنے عیسٰی ؑ کے متعلق لینے چاہئیں۔

یہ بھی ملاحظہ فرمائیں

ثبوت وفات مسیح از سورۃ الحشر آیت 8

مَآ اٰتٰکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَا نَھٰکُمْ عَنْہُ فَانْتَھُوْا۔ (الحشر:8) ترجمہ: ا…