ثبوت وفات مسیح از سورۃ آل عمران آیت 145

وَمَامُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ اَفَاِنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلیٰ اَعْقَابِکُمْ۔ (اٰل عمران :145)

ترجمہ : اور نہیں محمد ؐ مگر رسول۔ یقینًا فوت ہو گئے آپؐ سے پہلے تمام رسول ۔ کیا پس اگر وہ مر گئے یا قتل ہو گئے تو تم اپنی ایڑیوں کے بل پھر جاؤ گے ؟

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتےہیں:

’’وَمَامُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ اَفَاِنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلیٰ اَعْقَابِکُمْ یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم صرف ایک نبی ہیں ان سے پہلے سب نبی فوت ہوگئے ہیں۔اب کیا اگر وہ بھی فوت ہوجائیں یامارے جائیں تو ا ن کی نبوت میں کوئی نقص لازم آئے گا جس کی وجہ سے تم دین سے پھرجاؤ۔ اس آیت کا ماحصل یہ ہے کہ اگر نبی کے لئے ہمیشہ زندہ رہنا ضروری ہے تو ایسانبی پہلے نبیوں میں سے پیش کرو جو اب تک زندہ موجود ہے اور ظاہر ہے۔کہ اگر مسیح ابن مریم زندہ ہے تو پھر یہ دلیل جو خدائے تعالیٰ نے پیش کی صحیح نہیں ہوگی۔‘‘

(ازالہ اوہام۔ روحانی خزائن جلد 3صفحہ 427)

“خداوند عزوجل نےعام اورخاص دونوں طورپر مسیح کا فوت ہوجانا بیان فرمایا ہے عام طورپرجیساکہ وہ فرماتا ہے وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ ۚ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ‌ؕ اَفَا۟يِٕنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰٓى اَعْقَابِكُمْ یعنی محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) صرف ایک رسول ہے اور اسؔ سے پہلے ہریک رسول جو آیا وہ گذرگیا اورانتقال کرگیا اب کیا تم اس رسول کے مرنے یا قتل ہوجانیکی وجہ سے دین اسلام چھوڑدوگے ؟ اب دیکھو یہ آیت جو استدلالی طورپرپیش کی گئی ہے صریح دلالت کرتی ہے کہ ہر یک رسول کو موت پیش آتی رہی ہے خواہ وہ موت طبعی طورپر ہو یا قتل وغیرہ سے اور گذشتہ نبیوں میں سے کوئی ایسا نبی نہیں جو مرنے سے بچ گیا ہو۔سو اس جگہ ناظرین ببداہت سمجھ سکتے ہیں کہ اگر حضرت مسیح جو گذشتہ رسولوں میں سے ایک رسول ہیں اب تک مرے نہیں بلکہ زندہ آسمان پر اُٹھائے گئے تو اس صورت میں مضمون اس آیت کا جو عام طورپرہر یک گذشتہ نبی کے فوت ہونے پر دلالت کررہا ہے صحیح نہیں ٹھہر سکتا بلکہ یہ استدلال ہی لغو اورقابلِ جرح ہوگا۔ “

(ازالہ اوہام۔ روحانی خزائن جلد 3صفحہ265)

”اورؔ منجملہ افادات امام بخاری کے جن کا ہمیں شکر کرنا چاہیئے یہ ہے کہ انہوں نے صرف اسی قدرثابت نہیں کیا کہ حضرت مسیح علیہ السلام فوت ہوچکے ہیں بلکہ احادیث نبویہ کی رو سے یہ بھی ثابت کر دیا ہے کہ جو شخص فوت ہوجائے پھر دنیا میں آ نہیں سکتا۔ چنانچہ بخاری کے صفحہ ۶۴۰ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے یہ روایت کی گئی ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوگئے تو بعض آدمی یہ گمان کرتے تھے کہ آنحضرت فوت نہیں ہوئے اور بعض کہتے تھے کہ فوت ہوگئے۔ مگر پھردنیا میں آئیں گے۔ اس حالت میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ حضرت عائشہ کے گھر گئے اور دیکھاجو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوگئے ہیں تب وہ چادر کاپردہ اُٹھا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ کی طرف جھکے اور چومااور کہا کہ میرے ماں باپ تیرے پر قربان مجھے خدا تعالیٰ کی قسم ہے کہ خدا تیرے پر دوموتیں جمع نہیں کرے گا۔ پھرلوگوں میں آئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فوت ہوجانا ظاہر کیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فوت ہونے اور پھر دنیا میں نہ آنے کی تائید میں یہ آیت پڑھی وَمَامُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ یعنی محمد اس سے زیادہ نہیںؔ کہ وہ رسول اللہ ہے اور اس سے پہلے تمام رسول اس دنیا سے ہمیشہ کے لئے گذرچکے ہیں۔ یاد رہے کہ من قبلہ الرسل کا الف لام استغراق کا ہے جو رسولوں کی جمع افراد گذشتہ پر محیط ہے اور اگرایسا نہ ہو تو پھر دلیل ناقص رہ جاتی ہے کیونکہ اگرایک فرد بھی باہر رہ جائے تو وہ پھر وہ استدلال جو مدعاقرآن کریم کا ہے اس آیت سے پیدانہیں ہو سکتا۔ اس آیت کے پیش کرنے سے حضرت ابو بکر صدیق نے اِس بات کا ثبوت دیاکہ کوئی نبی ایسا نہیں گذراکہ جو فوت نہ ہوا ہو اور نیز اس بات کا ثبوت دیا کہ جو فوت ہوجائے پھر دنیا میں کبھی نہیں آتا۔ کیونکہ لغت عرب اور محاورہ اہل عرب میں خَلَا یا خَلَتْ ایسے لوگوں کے گذرنے کو کہتے ہیں جو پھر آنیوالے نہ ہوں۔ پس تمام رسولوں کی نسبت جو آیت موصوفہ بالا میں خَلَتْ کا لفظ استعمال کیاگیا وہ اسی لحاظ سے استعمال کیا گیاتااس بات کی طرف اشارہ ہو کہ وہ لوگ ایسے گئے ہیں کہ پھر دنیا میں ہرگز نہیں آئیں گے۔ چونکہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال یافتہ ہونے کی حالت میں آپ کے چہرہ مبارک کو بوسہ دے کر کہا تھا کہ تُو حیات اور موت میں پاک ہے تیرے پر دوموتیں ہرگز وارد نہیں ہوں گی یعنی تو دوسری مرتبہ دنیا میں ہرگز نہیں آئے گا۔اس لئے صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اپنے قول کی تائید میں آیت قرآن کریم کی پیش کی۔ جس کا خلاصہ مطلب یہ ہے کہ سب رسول جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے تھے گذرچکے ہیں اور جو رسول اس دنیا سے گذر گئے ہیں پھر اس دنیا میں ہرگز نہیں آئیں گے۔ کیونکہ جیساکہ قرآن شریف میں اَور فوت شدہ لوگوں کی نسبت خَلَوْایا خَلَتْ کا لفظ استعمال ہواہے۔ ایساہی یہی لفظ نبیوں کے حق میں بھی استعمال ہواہے۔اور یہ لفظ موت کے لفظ سے اخص ہے کیونکہ اس کے مفہوم میں یہ شرط ہے کہ اس عالم سے گذر کر پھر اس عالم میں نہ آوے۔غرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس جگہ فوت شدہ نبیوں کے دوبارہ نہ آنے کے بارے میں اوّل قول ابوبکر صدیق کا پیش کیا جس میں یہ بیان ہے کہ خدا تیرے پر دوموتیں جمع نہیں کرے گا۔ کیونکہ دوبارہ آنا دوموتوں کو مستلزم ہے۔ اور پھر اس بارے میں قرآن کریم کی آیت پیش کی اور یہ ثبوت دیاکہ خَلَا اس گذرنے کو کہتے ہیں کہ پھر اس کے بعد عود نہ ہو۔ اس تحقیق وتدقیق سے کمالاتِ امام بخاری ظاہر ہیں۔ جزاہ اللّٰہ خیرالجزاء وادخلہ اللّٰہ فی الجنّات العلیا۔‘‘

(ازالہ اوہام۔ روحانی خزائن جلد 3صفحہ588-589)

استدلال از حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ

یہ آیت صاف طور پر بتاتی ہے کہ نبی کریم ﷺ سے پہلے گذرے سب نبی فوت ہو چکے ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ مسیح ناصری ؑ بھی ایک رسول تھے جو چھ سو سال نبی کریم ﷺ سے پہلے مبعوث کئے گئے تھے۔ پس لامحالہ ماننا پڑتا ہے کہ وہ بھی اس آیت کی رو سے فوت ہوچکے ہیں۔

سوال: اگر کوئی اعتراض کرے کہ لفظ قَدْ خَلَتْ کا ترجمہ ہے ’’گزر گئے ‘‘نہ کہ ’’فوت ہو گئے ‘‘تو اس کا پہلا جواب یہ ہے کہ لغت عربی کی مسند کتاب تاج العروس میں لکھاہے کہ خَلَا فُلَانٌ: اِذَا مَاتَ ۔ یعنی فلاں شخص گزر گیا کا معنی ہے وہ فوت ہو گیا۔

دوسرا جواب یہ ہے کہ اس آیت میں خود اللہ تعالیٰ نے خَلَا کے معنوں کی تعیین کر دی ہے جیسا کہ فرمایا :۔ ’’اَفَاِنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ‘‘۔ یعنی اگر محمدر سول اللہ ﷺ طبعی موت سے مرجائیں یا قتل کر دیئے جائیں۔ تو گویا اس جگہ لفظ خَلَتْ کے معنی لازمی طور پر ان دو صورتوں میں سے ایک ہونے چاہئیں ۔ یعنی یا تو یہ کہ وہ طبعی موت سے مرگئے اور یا وہ قتل ہوئے ۔ الفاظ ’’اَفَاِنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ‘‘ صاف بتا رہے ہیں کہ گذشتہ انبیاء کا گذر جانا دو صورتوں میں ہوا ۔یا قتل سے یا طبعی موت سے ۔ اب جبکہ حضرت مسیح ؑ کے بارے میں خُدا تعالیٰ نے دوسری جگہ ’’وَمَا قَتَلُوْہُ‘‘ فرما کہ فیصلہ کر دیا کہ وہ قتل نہیں ہوئے لہٰذا ایک ہی صورت رہ گئی کہ وہ طبعی موت مر گئے ۔

اس آیت کے معنی اور بھی زیادہ واضح ہو جاتے ہیں جب ہم ایک مشہور تاریخی واقعہ کی روشنی میں دیکھتے ہیں۔ بخاری شریف میں لکھاہے کہ جب نبی کریم ﷺ فوت ہوئے تو ایسا اتفاق ہوا کہ حضرت عمر ؓ ابھی تک آپ ؐ کو زندہ ہی سمجھ رہے تھے اور کہتے تھے کہ آپ ؐ پھر واپس آجائیں گے اور کفاراور منافقین کا قلع قمع کریں گے وہ اپنے اس خیال پر اس قدر جمے ہوئے تھے کہ انہوں نے تلوار کھینچ کر اعلان شروع کیا کہ جو کوئی بھی نبی کریم ﷺ کو فوت شدہ کہے گا مَیں اس کی گردن اڑا دوں گا۔ اس وقت حضرت ابو بکر صدیق ؓ کھڑے ہو گئے اور صحابہ ؓ کے سامنے یہی آیت پڑھی کہ

وَمَامُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ اَفَاِنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلیٰ اَعْقَابِکُمْ (اٰل عمران 145)

یعنی محمد ؐ تو صرف ایک رسول تھے ان سے پہلے جو رسول گذرے ہیں وہ سب فوت ہو چکے ہیں۔الخ۔ لکھا ہے کہ حضرت عمر ؓ پر اس بات کے سننے سے اس قدر غم طاری ہوا کہ وہ زمین پر گر گئے ۔ کیونکہ انہوں نے اس وقت محسوس کر لیا کہ انکے پیارے آقا بھی اللہ کے صرف ایک رسول تھے جنہو ں نے گذشتہ انبیاء کی طرح موت کے دروازے سے گزرنا تھا۔

اب سوال یہ ہے کہ اگر کوئی گذشتہ نبی اس وقت تک زندہ ہوتا تو حضرت ابو بکر ؓ کے اس استدلال پر کہ چونکہ پہلے سب نبی فوت ہو چکے ہیں۔ طبعًا سید نا محمد رسول اللہ ﷺ کو بھی فوت ہونا چاہیے صحابہ کرامؓ ضرور اعتراض کرتے اور خصوصًا حضرت عمر ؓ اور انکے ہم خیال لوگ جو آنحضرت ﷺ کو ابھی تک زندہ تصور کر رہے تھے وہ ضرور چلا اٹھتے کہ یہ کیا بات کہہ رہے ہو؟ کیا مسیح ناصری زندہ نہیں؟ لہٰذا ہمارا نبی بھی زندہ ہو نا چاہیے ۔ مگر سب صحابہ ؓ خاموش ہو گئے گویا صحابہ کا سب سے پہلا اجماع اس بات پر ہوا کہ گذشتہ انبیاء تمام کے تما م فوت ہو چکے ہیں ۔

یہ بھی ملاحظہ فرمائیں

ثبوت وفات مسیح از سورۃ الحشر آیت 8

مَآ اٰتٰکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَا نَھٰکُمْ عَنْہُ فَانْتَھُوْا۔ (الحشر:8) ترجمہ: ا…