ثبوت صداقت حضرت مسیح موعودؑ از سورة الجمعۃ آیت 4

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

وَاٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ (الجمعۃ:4)

ترجمہ: اور انہی میں سے دوسروں کی طرف بھی (اسے مبعوث کیا ہے )جو ابھی ان سے نہیں ملے۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:۔

’’وَ اِنَّ اٰدَمَ اٰخِرِ الزَّمَانِ حَقِیْقَتًہ ھُوَ نَبِیُّنَا ﷺ وَ النِّسْبَتُہ بَیْنِیْ وَ بَیْنَہٗ کَنِسْبَتِہ مَنْ عَلَّمَ وَ تَعَلَّمَ وَ اِلَیْہِ اَشَارَ سُبْحَانَہٗ فِیْ قَوْلِہٖ وَاٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ۔فَفَکِّرْ فِیْ قَوْلِہٖ اٰخَرِیْنَ۔ وَ اَنْزَلَ اللّٰہُ عَلَیَّ فَیْضَ ھٰذَاالرَّسُوْلِ فَاَتَمَّہٗ وَ اَکْمَلَہٗ وَجَذَبَ اِلَیَّ لُطْفَہُ وَجُوْدَہٗ۔فَمَنْ دَخَلَ فِیْ جَمَاعَتِیْ دَخَلَ فِیْ صَحَابَتِہ سَیِّدِیْ خَیْرِ الْمُرْسِلِیْنَ۔ وَھٰذَا ھُوَ مَعنٰی وَاٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ کَمَا لَایَخْفٰی عَلَی الْمُتَدَبِّرِیْنَ۔ وَمَنْ فَرَّقَ بَیْنِیْ وَبَیْنَ الْمُصْطَفٰی۔ فَمَا عَرَفَنِیْ وَ مَا رَاَی‘‘۔ (خطبہ الہامیہ ۔ روحانی خزائن جلد 16صفحہ257تا259)

ترجمہ :۔اور آخر زمانہ کا آدم درحقیقت ہمارے نبی کریم ہیں صلی اللہ علیہ وسلم اور میری نسبت اُس کی جناب کے ساتھ اُستاد اور شاگرد کی نسبت ہے اور خداتعالیٰ کا یہ قول کہ وَاٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ اسی بات کی طرف اشارہ کرتا ہے پس اٰخَرِیْنَ کے لفظ میں فکر کرو۔ اور خدا نے مجھ پر اُس رسول کریم کا فیض نازل فرمایا اور اس کو کامل بنایا اور اس نبی کریم  کے لطف اور جُود کو میری طرف کھینچا یہاں تک کہ میرا وجود اس کاوجود ہوگیا پس وہ جو میری جماعت میں داخل ہوا درحقیقت میرےسردار خیر المرسلین کے صحابہ میں داخل ہوا اور یہی معنے اٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ کے لفظ کے بھی ہیں جیسا کہ سوچنے والوں پر پوشیدہ نہیں اورجو شخص مجھ میں اور مصطفیٰ میں تفریق کرتا ہے اس نے مجھے نہیں دیکھا اور نہیں پہچانا ہے ۔

ایک دوسرے موقع پر فرماتے ہیں:۔

 ’’منجملہ ان دلائل کے جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں جو آنے والا مسیح جس کا اِس اُمت کے لئے وعدہ دیا گیا ہے وہ اسی اُمت میں سے ایک شخص ہوگا بخاری اور مسلم کی وہ حدیث ہے جس میں اِمَامُکُمْ مِنْکُمْ اور اَمَّکُمْ مِنْکُمْ لکھا ہے۔ جس کے یہ معنے ہیں کہ وہ تمہارا امام ہوگا اور تم ہی میں سے ہوگا۔ چونکہ یہ حدیث آنے والے عیسیٰ کی نسبت ہے اور اسی کی تعریف میں اِس حدیث میں حَکم اور عدل کا لفظ بطور صفت موجود ہے جو اس فقرہ سے پہلے ہے اس لئے امام کا لفظ بھی اسی کے حق میں ہے اور اس میں کچھ شک نہیں کہ اس جگہ مِنْکُمْ کے لفظ سے صحابہ کو خطاب کیا گیا ہے اور وہی مخاطب تھے۔ لیکن ظاہر ہے کہ اُن میں سے تو کسی نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ نہیں کیا اس لئے مِنْکُمْ کے لفظ سے کوئی ایسا شخص مراد ہے جو خدا تعالیٰ کے علم میں قائم مقام صحابہ ہے اور وہ وہی ہے جس کو اِس آیت مفصّلہ ذیل میں قائم مقام صحابہ کیا گیا ہے یعنی یہ کہ وَاٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ کیونکہ اس آیت نے ظاہر کیا ہے کہ وہ  رسول کریم کی رُوحانیت سے تربیت یافتہ ہے اور اسی معنے کے رُو سے صحابہ میں داخل ہے اور اِس آیت کی تشریح میں یہ حدیث ہے لَوْکَانَ الْاِیْمَانُ مُعَلَّقًا بِالثُّرَیَّا لَنَالَہُ رَجُلٌ مِنْ فَارِس اور چونکہ اس فارسی شخص کی طرف وہ صفت منسوب کی گئی ہے جو مسیح موعود اور مہدی سے مخصوص ہے یعنی زمین جو ایمان اور توحید سے خالی ہو کر ظلم سے بھر گئی ہے پھر اس کو عدل سے پُر کرنا۔ لہٰذا یہی شخص مہدی اور مسیح موعود ہے اور وہ میں ہوں اور جس طرح کسی دوسرے مدعی مہدویت کے وقت میں کسوف خسوف رمضان میں آسمان پر نہیں ہوا۔ ایسا ہی تیرہ سو برس کے عرصہ میں کسی نے خدا تعالیٰ کے الہام سے علم پاکر یہ دعویٰ نہیں ؔ کیا کہ اس پیشگوئی لنالہ رجل من فارس کا مصداق میں ہوں اور پیشگوئی اپنے الفاظ سے بتلا رہی ہے کہ یہ شخص آخری زمانہ میں ہوگا جبکہ لوگوں کے ایمانوں میں بہت ضعف آجائے گا اور فارسی الاصل ہوگا اور اس کے ذریعہ سے زمین پر دوبارہ ایمان قائم کیا جائے گا اور ظاہر ہے کہ صلیبی زمانہ سے زیادہ تر ایمان کو صدمہ پہنچانے والا اور کوئی زمانہ نہیں۔ یہی زمانہ ہے جس میں کہہ سکتے ہیں کہ گویا ایمان زمین پر سے اُٹھ گیا جیسا کہ اِس وقت لوگوں کی عملی حالتیں اور انقلاب عظیم جو بدی کی طرف ہوا ہے اور قیامت کے علاماتِ صغریٰ جو مدت سے ظہور میں آچکی ہیں صاف بتلا رہی ہیں اور نیز آیت وَاٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ میں اشارہ پایا جاتا ہے کہ جیسے صحابہ کے زمانہ میں زمین پر شرک پھیلا ہوا تھا ایسا ہی اُس زمانہ میں بھی ہوگا اور اس میں کچھ شک نہیں کہ اس حدیث اور اس آیت کو باہم ملانے سے یقینی طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ پیشگوئی مہدی آخر الزمان اور مسیح آخر الزمان کی نسبت ہے کیونکہ مہدی کی تعریف میں یہ لکھا ہے کہ وہ زمین کو عدل سے بھر دے گا جیسا کہ وہ ظلم اور جور سے بھری ہوئی تھی اور مسیح آخرالزمان کی نسبت لکھا ہے کہ وہ دوبارہ ایمان اور امن کو دنیا میں قائم کر دے گا اور شرک کو محو کر ے گا اورملل باطلہ کو ہلاک کر دے گا۔ پس اِن حدیثوں کا مآل بھی یہی ہے کہ مہدی اور مسیح کے زمانہ میں وہ ایمان جو زمین پر سے اُٹھ گیا اور ثُریا تک پہنچ گیا تھا پھر دوبارہ قائم کیا جائے گا اور ضرور ہے کہ اوّل زمین ظلم سے پُر ہو جائے اور ایمان اُٹھ جائے کیونکہ جبکہ لکھا ہے کہ تمام زمین ظلم سے بھر جائے گی تو ظاہر ہے کہ ظلم اور ایمان ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے ناچار ایمان اپنے اصلی مقر کی طرف جو آسمان ہے چلا جائے گا۔ غرض تمام زمین کا ظلم سے بھرنا اور ایمان کا زمین پر سے اُٹھ جانا اس قسم کی مصیبتوں کا زمانہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے بعد ایک ہی زمانہ ہے جس کو مسیح کا زمانہ یا مہدی کا زمانہ کہتے ہیں اور احادیث نے اس زمانہ کو تین پیرایوں میں بیان کیا ہے رجل فارسی کا زمانہ۔ مہدی کا زمانہ۔ مسیح کا زمانہ۔ اور اکثر لوگوں نے قلت تدبر سے اِن تین ناموں کی وجہ سے تین علیحدہ علیحدہ شخص سمجھ لئے ہیں اور تین قومیں اُن کے لئے مقرر کی ہیں۔ ایک فارسیوں کی قوم۔ دوسری بنی اسرائیل کی قوم، تیسری بنی فاطمہ کی قوم۔ مگر یہ تمام غلطیاں ہیں۔ حقیقت میں یہ تینوں ایک ہی شخص ہے جو تھوڑے تھوڑے تعلق کی وجہ سے کسی قوم کی طرف منسوب کر دیا گیا ہے۔مثلاً ایک حدیث سے جو کنز العمال میں موجود ہے سمجھا جاتا ہے کہ اہل فارس یعنی بنی فارس بنی اسحاق میں سے ہیں۔ پس اس طرح پر وہ آنے والا مسیح اسرائیلی ہوا اور بنی فاطمہ کے ساتھ امہاتی تعلق رکھنے کی وجہ سے جیسا کہ مجھے حاصل ہے فاطمی بھی ہوا پس گویا وہ نصف اسرائیلی ہوا اور نصف فاطمی ہوا جیسا کہ حدیثوں میں آیا ہے۔ ہاں میرے پاس فارسی ہونے کے لئے بجز الہام الٰہی کے اور کچھ ثبوت نہیں لیکن یہ الہام اس زمانہ کا ہے کہ جب اس دعویٰ کا نام و نشان بھی نہیں تھا یعنی آج سے بیس برس پہلے براہین احمدیہ میں لکھا گیا ہے اور وہ یہ ہے خُذُوا التَّوْحِیْدَ التَّوْحِیْدَ یَا اَبْنَاءَ الْفَارِس یعنی توحید کو پکڑو توحید کو پکڑو اے فارس کے بیٹو! اور پھر دوسری جگہ یہ الہام ہے۔ اِنَّ الَّذِیْنَ صَدُّوْا عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ رَدَّ عَلَیْھِمْ رَجُلٌ مِنْ فَارِس شَکَرَ اللّٰہُ سَعْیَہ۔ یعنی جو لوگ خدا کی راہ سے روکتے تھے ایک شخص فارسی اصل نے اُن کا ردّ لکھا۔ خدا نے اُس کی کوشش کا شکریہ کیا۔ ایسا ہی ایکؔ اور جگہ براہین احمدیہ میں یہ الہام ہے لَوْکَانَ الْاِیْمَانُ مُعَلَّقًا بِالثُّرَیَّا لَنَالَہُ رَجُلٌ مِنْ فَارِس  یعنی اگر ایمان ثریا پر اٹھایا جاتا اور زمین سراسر بے ایمانی سے بھر جاتی تب بھی یہ آدمی جو فارسی الاصل ہے اس کو آسمان پر سے لے آتا۔ اور بنی فاطمہ ہونے میں یہ الہام ہے۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ الصِّھْرَ وَالنَّسَبَ۔ اُشْکُرْنِعْمَتِیْ رَئَیْتَ خَدِیْجَتِیْ۔ یعنی تمام حمد اور تعریف اُس خدا کے لئے جس نے تمہیں فخرد امادی سادات اور فخر علو نسب جو دونوں مماثل و مشابہ ہیں عطا فرمایا یعنی تمہیں سادات کا داماد ہونے کی فضیلت عطا کی اور نیز بنی فاطمہ اُ ّ مہات میں سے پیدا کرکے تمہارے نسب کو عزت بخشی اور میری نعمت کا شکر کر کہ تونے میری خدیجہ کو پایا یعنی بنی اسحاق کی وجہ سے ایک تو آبائی عزت تھی اور دوسری بنی فاطمہ ہونے کی عزت اس کے ساتھ ملحق ہوئی اور سادات کی دامادی کی طرف اس عاجز کی بیوی کی طرف اشارہ ہے جو سیّدہ  سندی سادات دہلی میں سے ہیں میردرد کے خاندان سے تعلق رکھنے والے۔ اسی فاطمی تعلق کی طرف اس کشف میں اشارہ ہے جو آج سے تیس برس پہلے براہین احمدیہ میں شائع کیا گیا جس میں دیکھا تھا کہ حضرات پنج تن سید الکونین حسنین فاطمۃ الزہراء اور علی رضی اللہ عنہ عین بیداری میں آئے اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کمال محبت اور مادرانہ عطوفت کے رنگ میں اس خاکسار کا سر اپنی ران پر رکھ لیا اور عالم خاموشی میں ایک غمگین صورت بنا کر بیٹھے رہے۔ اُسی روز سے مجھ کو اس خونی آمیزش کے تعلق پر یقین کلّی ہوا۔ فالحمدللّٰہ علٰی ذالک۔‘‘ (تحفہ گولڑویہ ۔ روحانی خزائن جلد 17صفحہ 114تا118)

یہ بھی ملاحظہ فرمائیں

ثبوت صداقت حضرت مسیح موعودؑ از سورة الحاقہ 45تا47

وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَیْنَا بَعْضَ الْاَقَاوِیلِ لَاَخَذْنَا مِنْہُ بِالْیَمِیْنِ ثُمَّ لَق…