اعتراض: مرزا صاحب عربی الفاظ کے صحیح تلفظ سے قاصر تھے

حضرت مسیح موعود علیہ السلام پراعتراض کیا جاتا ہے کہ آپؑ عربی الفاظ کے صحیح تلفظ سے قاصر تھے ۔ قریب المخرج عربی حروف کو الگ الگ لہجے میں نہ بول سکتے تھے مثلا ً ق اور ک کو۔ بعض اوقات ان کے ملاقاتی ان کی اس کمزوری پر اعتراض کرتے تھے مگر وہ اپنی صفائی میں کچھ نہ کہہ سکتے تھے ۔

جواب از حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ

حضرت مرزا طاہر احمد صاحب خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ اس سوال اور اس کے جواب کا ذکر اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 29مارچ 1985ء کرتے ہوئے فرماتے ہیں:۔

                ’’حکومت پاکستان نے جماعت احمدیہ کے خلاف وائیٹ پیپر کی طرز پر جو رسالہ شائع کیا ہے اس میں ایک اعتراض بالکل وہی ہے جو فرعون نے حضرت موسیٰ ؑ پر کیا تھا۔ وہ لکھتے ہیں:۔

’’مرزا صاحب عربی الفاظ کے صحیح تلفظ سے قاصر تھے وہ قریب المخرج عربی حروف کو الگ الگ لہجے میں نہ بول سکتے تھے مثلا ً ق اور ک کو۔ بعض اوقات ان کے ملاقاتی ان کی اس کمزوری پر اعتراض کرتے تھے مگر مرزا صاحب اپنی صفائی  میں کچھ نہ کہہ سکتے تھے ۔‘‘(قادیانیت، اسلام کےلئے  سنگین خطرہ برق سنٹر پرنٹرز مطبوعات پاکستان ۱۹۸۴ء صفحہ ۱۲)

جواب:۔

قرآن کریم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے متعلق یہ لفظ بھی استعمال فرمایا ہے اور ان کی زبان سے اقرار کروایا کہ ھُوَ اَفْصَحُ مِنِّیْ میں

فصیح الکلام نہیں، ہارون مجھ سے زیادہ فصیح کلا م کر سکتا ہے ۔ اگر واقعی لکنت قابل اعتراض امر ہے تو اللہ تعالیٰ نے کم فصیح کو

کیوں چن لیا۔ لکنت والے کو کیوں چن لیا۔ پس قرآن کریم تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زبان سے خود غیر فصیح ہونے کا اقرار کر

وا رہا ہے لیکن اس کے باوجود یہ مانتے ہیں کہ حضرت موسیٰ دین الٰہی کے لئے کوئی خطرہ نہیں تھے۔ لیکن جب یہ لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مقابل پر بات کرتے ہیں تو چونکہ مقدر یہ ہے کہ دشمن جو باتیں ماضی میں دہراتےرہے ، وہی باتیں اب بھی دہراتے ہیں، اس لئے  فرعون نے جو اعتراض کیا کہ موسیٰؑ غیر فصیح ہے، زبان میں لکنت ہے ۔ وہی اعتراض آج ان کو دہرانا پڑا۔

اور انہوں نے تفاسیر میں بھی لکنت اور زبان کی دقّت کے متعلق بہت سے قصے لکھتے ہوئےہیں۔ تفسیر روح المعانی جلد نمبر 19صفحہ65پر لکھا ہوا ہے :۔

’’گھٹے گھٹے ماحول کی وجہ سے آپ (حضرت موسیٰ ؑ)کی زبان میں لکنت پیدا ہو گئی تھی اور یہ اسی طرح ہے کہ جیسے بعض اوقات فصحاء پر بھی جب غم شدت اختیار کرتے ہیں اور ان کے سینوں میں گھٹن پیدا کرتے ہیں تو ان کی زبانوں میں بھی تردد پیدا ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے مقصود کو بیان نہیں کر سکتے ۔ ‘‘(ترجمہ)

بہرحال کوئی بھی وجہ پیش کی جائے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زبان سے متعلق فتح القدیر جزو ثالث صفحہ 363، تفسیر جلالین صفحہ 408، تفسیر الخازن جزو ثالث صفحہ 237کے علاوہ دیگر تفاسیر میں بھی ہر پڑھنے والا شوق سے اس کا مطالعہ کر سکتا ہے ۔ ۔۔۔۔۔

حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی زبان میں بھی لکنت تھی ۔ تفسیر روح المعانی جزو 16صفحہ 183 پر لکھا ہے کہ :۔

’’حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی زبان میں لکنت تھی جس پر آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ  حسین ؓ نے یہ لکنت اپنے چچا حضرت موسیٰؑ سے ورثہ میں پائی ہے ۔ ‘‘

                حضرت امام مہدی ؑ کے متعلق کیا لکھا ہوا ہے تفسیر روح المعانی جلد 16صفحہ 183 میں ملاحظہ ہو:۔

’’یہ بھی بیان کیاجاتا ہے کہ مہدی منتظر کی زبان میں بھی لکنت ہو گی اور بعض دفعہ اس کی زبان جب کلام کو بیان کرنے سے پیچھے رہ جائے گی تو وہ اپنے دائیں ہاتھ کو اپنی بائیں ران پرمارے گا۔‘‘

تو اگر امام مہدی نے پیشگوئیوں کے مطابق اس مزعومہ خطرہ کے ساتھ آنا تھا تو پھر اس خطرہ کو قبول کرنا پڑنا تھا۔ کیونکہ یہ تو اس کی سچائی کی علامت ہے ۔‘‘

  (زھق الباطل۔ صفحہ 274تا 277)

یہ بھی ملاحظہ فرمائیں

حضرت مرزا صاحب کے سامنے نامحرم عورتیں چلتی پھرتی رہتی تھیں،وغیرہ وغیرہ۔

جواب:۔ اس اعتراض کی بنیاد حضرت مسیح موعود ؑ یا حضور ؑ کے خلفاء کی کسی تحریر پر نہیں بلکہ ز…