مجلس انتخاب خلافت ۔ ایک سوال کا جواب

ایک سائل نے سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے ایک فرمان جو ممبران مجلس انتخاب خلافت کی فہرست کے حوالے سے ہے کو پیش کرکے سوال کیا ہے کہ 1956 ء کے بعد سے آج تک سیدنا حضرت مصلح موعود ؓ کے واضح ارشادات کے باوجود ابتک مناسب درستیاں کیوں نہیں کی گئیں ۔

جواب

   اس حوالے سے عرض ہے کہ سائل جنہوں نے اپنی شناخت کو واضح نہیں کیا ، کو شاید علم نہیں کہ 1956 ء سے قبل یہ قانون تھا کہ خلیفہ وقت کی وفات کی صورت میں مجلس شوریٰ کا اجلاس بلایا جائے جو نئے خلیفہ کا انتخاب کرے لیکن 1956 ء میں بعض وجوہات نے حضور ؓ کی توجہ اس طرف مبذول کرائی کہ تمام ممبران شوریٰ کا جمع ہونا ایک لمبا کام ہے اور یہ خطرہ ہے کہ کہیں اس سے فائدہ اٹھا کر منافق کوئی فتنہ کھڑا کردیں ۔اس لئے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ نے جلسہ سالانہ 1956 ء کے موقع پر فرمایا کہ مجلس شوری کے ممبران کی بجائے صرف ناظران صدر انجمن احمدیہ ،ممبران صدر انجمن احمدیہ ،وکلاء تحریک جدید خاندان حضرت مسیح موعود ؑ کے زندہ افراد (اس سے مراد صرف حضرت مسیح موعود ؑ کے بیٹے اور داماد تھے )جامعۃ المبشرین اور جامعہ احمدیہ کے پرنسپل اور مفتی سلسلہ جن کی تعداد اس وقت تین تھی ملکر آئندہ خلیفہ کا انتخاب کریں گے ۔جلسہ سالانہ 1956ء کے بعد حضور ؓ نے مختلف احباب سے مشورہ کے بعد مجلس انتخاب خلافت میں مزید اراکین کا اضافہ فرمایا جو یہ ہیں ۔
(1)مغربی پاکستان کا امیر۔ اگر اس وقت مغربی پاکستان کا ایک امیر مقرر نہ ہو تو علاقہ جات مغربی پاکستان کے امراء (2)مشرقی پاکستان کا امیر(3)کراچی کا امیر(4)تمام اضلاع کے امراء (5)تمام سابق امراء جو دودفعہ کسی ضلع کے امیر رہ چکے ہوں ۔گو انتخاب خلافت کے وقت امیر نہ ہوں (ان کے اسماء کا اعلان صدر انجمن احمدیہ کرے گی)(6)امیر جماعت احمدیہ قادیان(7)ممبران صدر انجمن احمدیہ قادیان (8)تمام زندہ صحابہ کرام (9)وہ صحابہ جن کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی1901 ء سے پہلے لکھی جانے والی کتب میں ملتا ہو ۔اگر وہ زندہ نہ ہوں تو ان کا بڑ ا بیٹا مجلس کا رکن ہوگا ۔ان کے ناموں کا اعلان صدر انجمن احمدیہ کرے گی ۔ (10)کم از کم ایک سال بیرون ملک کام کرنے والے مبلغین جنہیں کسی الزام کے تحت فارغ نہ کیا گیا ہو(11)ایسے تمام مبلغین سلسلہ جنہوں نے پاکستان کے کسی صوبہ یا ضلع میں رئیس التبلیغ کے طور پر کم از کم ایک سال کا م کیا ہو اور انہیں کسی الزام کے تحت فارغ نہ کیا گیا ہو۔

   حضور ؓ نے ارشاد فرمایا کہ جو ممبران حاضر ہوں گے وہ انتخاب کرنے کے مجاز ہوں گے ۔غیر حاضر افراد کی غیر حاضری انتخاب پر اثر انداز نہ ہو گی ۔خلافت کے مقام اور وقت کا اعلان کرنا مجلس شوریٰ کے سیکرٹری اور ناظر اعلیٰ کی ذمہ داری ہوگی ۔ نئے خلیفہ کا انتخاب چوبیس گھنٹے کے اندر ہونا چاہیے ۔مجبوری کی صورت میں زیادہ سے زیادہ تین دن کے اندر انتخاب ہونا ضروری ہے ۔اس دوران صدر انجمن احمدیہ پاکستان جماعت کے جملہ کاموں کو سر انجام دینے کی ذمہ دار ہوگی ۔اگر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ؓ کی زندگی میں یہ انتخاب ہو تو وہ اس انتخاب کی صدارت کریں گے۔ورنہ ناظران یا وکلاء میں سے سب سے سینئر اس کی صدارت کریں گے ۔

   حضور ؓ نے ایک مجلس علماء سلسلہ بھی مقرر فرمائی جوانتخاب خلافت کے قوانین کو ایک ریزولیوشن کی صورت میں تیار کرے اور پھر اسے مجلس شوریٰ میں پیش کرے ۔چنانچہ 1957 ء کی مجلس شوریٰ میں مکرم ومحترم مولاناابو العطاء صاحب نے اس ریزولیوشن کو پیش کیا ۔اور جو قواعد انتخاب خلافت جو مجلس علماء سلسلہ نے تجویز کیے تھے مجلس شوریٰ کے سامنے پیش کیے گئے ان قواعد میں ایک بنیادی قانون بھی پیش کیا گیا اور وہ یہ کہ آئندہ خلافت کے انتخاب کے لئے یہی قانون جاری رہے گا سوائے اس کے کہ خلیفہ وقت کی منظوری سے شوریٰ میں یہ مسئلہ پیش کیا جائے اور شوریٰ کے مشورہ کے بعد خلیفہ وقت کوئی اور تجویز منظور کرے ۔

   شورٰی کے اس اجلاس میں تمام جماعتوں کے 341 نمائندگان موجود تھے ۔ ان سب نے اس ریزولیوشن کے حق میں رائے دی۔ چنانچہ 1965ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کے وصال پر خلافت ثالثہ کا انتخاب ان قواعد کے تحت ہوا اسی طرح حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ کے وصال پر خلافت رابعہ کا انتخاب بھی انہی قواعد کے مطابق ہوا ۔ خلافت رابعہ ؒ کے دور میں 1984ء اور 1996 ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ کی منظور ی سے ان قوانین میں کچھ تبدیلیاں کی گئیں لیکن بنیادی طور پر انہی قوانین کے تحت خلافت ثالثہ ، خلافت رابعہ اور پھر خلافت خامسہ کا انتخاب عمل میں آیا۔ یہ حضرت مصلح موعود ؓ کا ایک تاریخ ساز کارنامہ ہے کہ حضور نے انتخاب خلافت کے جو قوانین مقرر فرمائے ، وہ نظام اتنا بابرکت ثابت ہوا ۔

   جیسا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے ارشاد فرمایا تھا وقت کے ساتھ ان قواعد میں کچھ تبدیلیاں کی جانی چاہیے۔ 1984ء میں جب حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ کو ہجرت کر کے لندن آنا پڑا ۔ ا سو قت حکومت پاکستان نے جماعت احمدیہ کے خلاف ایسے حالات پیدا کر دیے تھے کہ یہ خطرہ پیدا ہوا کہ اگران حالات میں انتخاب خلافت کا وقت آجائے تو مخالف احمدیت عناصر اس کاروائی پر اثر انداز ہو سکتے ہیں ۔ اس لئے حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے ارشاد پر انتخاب خلافت کا ادارہ پاکستان سے باہر منتقل کر دینے کی عملی شکل کے بارہ میں مشورہ پیش کرنے کے لئے لاہور میں ایک خصوصی مجلس شوری کا اجلا س بلایا گیا ۔ یہ مجلس شوری اسی مسئلہ پر غور کرنے کے لئے بلائی گئی تھی ۔ اس مجلس شوری کی رپورٹ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی خدمت میں پیش کی گئی۔ اس پر حضور ؒ نے بعض اور پہلوؤں پر غور کرنے کے لئے لندن میں ایک مشاورتی کمیٹی تشکیل دی ۔ اس کمیٹی نے اپنی رپورٹ حضور ؒ کی خدمت میں پیش کی ۔ اس کے بعد پاکستان اور بیرون پاکستان بعض اور صائب الرائے احباب سے مشورہ لیا گیا ۔ ان تجاویز پر غور کرنے کے لئے حضور ؒ نے ناظر صاحب اعلیٰ صدرانجمن احمدیہ پاکستان کو ہدایت فرمائی کہ ممبران صدر انجمن احمدیہ پاکستان ،ممبران تحریک جدید انجمن احمدیہ پاکستان اورممبران مجلس وقف جدید پاکستان اور بعض امراء اور صائب الرائے احمدیوں پر مشتمل ایک مجلس شوری برائے انتخاب خلافت کا اجلاس منعقد کیا جائے ۔ یہ اجلاس 10اکتوبر 1985 ء کو پاکستان میں منعقد ہوا ۔ اور اس مشاورت کی سفارشات حضرت خلیفۃا لمسیح الرابعؒ کی خدمت میں بھجوائی گئیں ۔ متذکرہ بالا طریق پر غور وفکر اور مشوروں اور دعاؤں کے بعد 1957ء میں منظور شدہ قوانین میں مندرجہ ذیل ترامیم کی گئیں ۔ ممبران مجلس انتخاب خلافت میں وکلاء تحریک جدید کے علاوہ ممبران تحریک جدید کو اورممبران وقف جدید کو بھی شامل کیا گیا ۔ 1957ء     میں یہ قاعدہ بنایاگیاتھا کہ حضرت مسیح موعود ؑ کے اولین صحابہ یعنی وہ جن کا ذکر حضرت مسیح موعودؑ نے 1901 سے پہلے کی کتب میں فرمایا ہے وہ اگر فوت ہو چکے ہیں تو ان کا بڑا لڑکا اس مجلس کا ممبر ہوگا ۔اگر جماعت احمدیہ مبائعین میں شامل ہو اور صدر انجمن احمدیہ ان ناموں کا اعلان کرے گی ۔ اب یہ ترمیم کی گئی کہ صدر انجمن احمدیہ ان ناموں کی فہرست حضرت خلیفۃ المسیح کی منظوری سے تیار رکھے گی ۔

   ’’ایسے تمام مبلغین سلسلہ احمدیہ جنہوں نے کم از کم ایک سال بیرونی ممالک میں تبلیغ کا کام کیا ہواور بعد میں تحریک جدید نے کسی الزام کے ماتحت انہیں فارغ نہ کر دیا ہو (ان کو تحریک جدید سرٹیفیکٹ دے گی اور ان کے ناموں کا اعلان کرے گی) ۔ ایسے تمام مبلغین سلسلہ احمدیہ جنہوں نے پاکستان کے کسی صوبہ یا ضلع میں رئیس التبلیغ کے طور پر کم از کم ایک سال کام کیا ہو اور بعد میں ان کو صدر انجمن احمدیہ نے کسی الزام کے تحت فارغ نہ کر دیا ہو (انہیں صدر انجمن احمدیہ سرٹیفیکٹ دے گی اور ان کے ناموں کا اعلان کرے گی )‘‘۔

1957 ء میں بننے والے قوانین میں جو مربیان اور مبلغین شامل کئے گئے تھے ، اس  میں یہ ترمیم کی گئی کہ مبلغین اورمربیان کی اس قدر تعداد جو مجلس انتخاب کی کل تعداد کا 25فیصد ہو مجلس انتخاب کے رکن ہوں گے ۔ اس غرض کے لئے صدر انجمن احمدیہ اور تحریک جدید مشترکہ اجلاس میں مبلغین اور مربیان کی سینیارٹی لسٹ تیار کریں گے ۔ اور مذکورہ تعداد میں ایسے سینئیرز ترین مبلغین کی فہرست حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں پیش کریں گے ۔اس فہرست میں کسی ایسے مربی یا مبلغ کا نام شامل نہیں کیا جائے گا جسے کسی الزام کے تحت فارغ کیا گیا ہو ۔ یہ اضافہ بھی کیا گیا کہ تمام ملکی امراء بحیثیت امیر جماعت ملک اس مجلس کے رکن ہوں گے۔ مقام انتخاب کے متعلق یہ ترمیم کی گئی کہ تا اطلاع ثانی انتخاب خلافت ربوہ کی بجائے اسلام آباد یو کے میں ہوگا ۔ ناظر اعلیٰ صدر انجمن احمدیہ ربوہ اگر انتخاب خلافت کا موقع پیش آنے پر یو کے میں موجود نہ ہونگے تو ان کی عدم موجودگی میں ناظر اعلیٰ کے فرائض ادا کرنے کے لئے تین ایڈیشنل ناظر اعلیٰ مقرر کئے گئے ۔ یہ ترمیم بھی منظور کی گئی کہ اگر کسی اشد مجبوری کی وجہ سے انتخاب خلافت تین دن کے اندر نہ ہو سکے تو صدر انجمن احمدیہ اس بات کی مجاز ہوگی کہ وہ تین دن کے اندر انتخاب ہونے کی شرط کو نظر انداز کر دے ۔ اگر ناظر اعلیٰ صدر انجمن احمدیہ ربوہ اس موقع پر یو کے پہنچ جائیں تو نظارت علیا کے جملہ اختیارات انہی کے پاس ہونگے ۔ لیکن اگر وہ یو کے نہ پہنچ سکیں تو جو ایڈیشنل ناظر اعلیٰ لندن میں موجود ہونگے ان پر مشتمل ا نجمن جماعت احمدیہ کے جملہ امور کی نگران ہوگی اور اس دوران صدر انجمن احمدیہ کے جو ممبران پاکستان میں موجود ہونگے اور ناظر اعلیٰ صدر انجمن احمدیہ موجود پاکستان اور جملہ جماعت ہائے احمدیہ عالمگیر لندن میں موجود ایڈیشنل ناظر اعلیٰ اور ممبران صدر انجمن احمدیہ موجود لندن کے جملہ فیصلہ جات کو من و عن تسلیم کرنے کے پابند ہوں گے ۔یو کے میں صدر انجمن احمدیہ کے اجلاسات ایڈیشنل صدر صدر انجمن احمدیہ کی زیر صدارت ہوں گے ۔ اور اس غرض کے لئے مکرم صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب کو ایڈیشنل صدر صدر انجمن احمدیہ مقرر کیا گیا ۔ یہ بھی قرار پایا کہ ناظر ان اور وکلاء کی سینیارٹی لسٹ کی منظوری حضرت خلیفۃ المیسح ایدہ اللہ تعالیٰ سے حاصل کی جائے گی ۔ سیکریٹری مجلس شوری مجلس انتخاب خلافت کا سیکرٹری ہوتا ہے اس کے متعلق یہ قاعدہ منظورکیا گیا کہ تا اطلاع ثانی مکرم عطاء المجیب راشد صاحب اس مجلس کے سیکریٹری ہونگے ۔اور اگروہ اس موقع پر لندن میں موجود نہ ہوں تو جو بھی عملًا حضور کے پرائیویٹ سیکرٹری کے فرائض سر انجام دے رہاہو وہ سیکرٹری کے فرائض ادا کرے گا ۔ سیکرٹری مجلس شوری ٰ بحیثیت سیکرٹری شوری ووٹنگ ممبر نہیں ہونگے ۔ حضور نے یہ بھی تجویز منظور فرمائی کہ ہر وہ شخص جس نے کسی وقت نظام خلافت کے استحکام کے خلاف کسی قسم کی کاروائی میں حصہ لیا ہو یا جو ایسے لوگوں کے ساتھ ملوث رہا ہو اس کا نام انتخاب خلافت کے لئے پیش نہیں ہو سکے گا ۔ صدر انجمن احمدیہ ایسے افرادکے ناموں کی فہرست تیار کر کے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ سے اس کی منظور ی حاصل کرتی رہے گی ۔ انتخاب خلافت حاضر اراکین کی سادہ اکثریت سے ہوگا اور جس کے حق میں سب سے زیادہ آراء ہونگی وہی منتخب خلیفہ ہوگا ۔ اور کسی کو اس پر اعتراض کرنے کا حق نہیں ہوگا ۔ اور تمام افراد جماعت ہائے احمدیت عالمگیرمنتخب خلیفہ کی بیعت کریں گے ۔ 23نومبر 1985 کو حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے دستخطوں سے ایک سرکلر جاری ہوا اور ان ترامیم شدہ قوانین کو حتمی حیثیت حاصل ہوگئی ۔

1999     ء میں جب حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی بیماری شروع ہوئی تو حضور ؒ نے بعض احتمالات کے پیش نظر ان قواعد میں بعض ترامیم کی ضرورت محسوس کی ۔چنانچہ مکرم چوہدری حمید اللہ صاحب وکیل اعلیٰ تحریک جدید اور مکرم مرزا خورشید احمد صاحب ناظر امور خارجہ صدرا نجمن احمدیہ (جو ان دنوں لندن آئے ہوئے تھے )نے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع کی ہدایات کے مطابق بعض ترامیم مرتب کیں اور پھر حضور ؒکی ہدایات کے مطابق ان مجوزہ ترامیم کو صدر انجمن احمدیہ پاکستان ،تحریک جدید انجمن احمدیہ پاکستان اور وقف جدید انجمن احمدیہ پاکستان کے اراکین پر مشتمل شوریٰ کو مشورے کے لئے بھجوایا گیا ۔اس کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ نے نے یہ فیصلہ فرمایا کہ قواعد انتخاب خلافت کا اکثر حصہ تو اسی طرح برقرار رہے گا ۔جو1985ء میں کچھ ترامیم کے بعد منظور کیا گیا تھا لیکن اب ان میں مندرجہ ذیل ترامیم کی جائیں گی جو فوری طور پر نافذ العمل ہوں گی ۔1985ء میں یہ ترمیم کی گئی تھی کہ تااطلاع ثانی انتخاب خلافت ربوہ کی بجائے اسلام آباد یوکے میں ہوگا ۔اب یہ ترمیم کی گئی کہ تااطلاع ثانی یہ انتخاب مسجد فضل لندن یوکے میں گا ۔یہ ترامیم بھی منظور کی گئیں کہ اگر انتخاب خلافت لند ن میں ہو تو ایڈیشنل ناظر اعلیٰ مقیم لندن کا فرض ہوگا کہ جب تک ناظر اعلیٰ صدر انجمن احمدیہ پاکستان لندن نہ پہنچیں وہ جملہ فرائض ناظر اعلیٰ صدرانجمن احمدیہ پاکستان کی ہدایات کے مطابق ان کی نمائندگی میں ان کے اٹارنی کے طور پر ادا کرے ۔اگر کسی اشد مجبوری کی وجہ سے یہ فیصلہ کرنا پڑے کہ انتخاب خلافت تین دن کے اندر نہیں ہوسکتا تو صدر انجمن احمدیہ پاکستان یہ فیصلہ کرنے کی مجاز ہوگی اور اس درمیانی عرصہ میں صدر انجمن احمدیہ پاکستان جماعت کے جملہ کاموں کو سر انجام دینے کی ذمہ دار ہوگی بیرون پاکستان مقیم کچھ احباب کو حضور ؒ نے صدر انجمن احمدیہ پاکستان کا ممبر مقررفرمایاتھا اس ضمن میں حضور ؒ نے یہ قاعدہ منظور فرمایا کہ اگر انتخاب خلافت لندن میں ہوتو انگلستان میں موجود صدر انجمن احمدیہ پاکستان کے اراکین پر مشتمل انجمن کافرض ہوگا کہ جب تک صدر انجمن پاکستان کے اراکین لندن نہ پہنچیں وہ اپنے جملہ فرائض صدر انجمن احمدیہ پاکستان کی نمائندگی میں صدر انجمن احمدیہ پاکستان کی ہدایات کے مطابق ان کے اٹارنی کے طور پر ادا کرے ۔انگلستان میں صدر انجمن احمدیہ کے اجلاسات صدر، صدر انجمن احمدیہ یا ایڈیشنل صدر، صدر انجمن احمدیہ پاکستان کی صدارت میں ہوں گے ۔اگر وہ انگلستان میں موجود نہ ہوں تو صدارت کے اختیارات ناظر اعلیٰ صدر انجمن احمدیہ پاکستان کو اور ان کی عدم موجودگی میں یہ اختیارات ایڈیشنل ناظر اعلیٰ مقیم لندن کو حاصل ہوں گے ۔حضور ؒ نے بعض ترامیم کی نشاندہی فرمائی جو اس احتمال کے پیش نظر کہ اگر انتخاب خلافت کا موقع لند ن میں پیش آئے کی گئی ہیں ۔حضور نے ارشاد فرمایا کہ اگر انتخاب خلافت ربوہ میں ہوتویہ ترامیم منسوخ ہو جائیں گی ۔(بحوالہ سلسلہ احمدیہ جلد دوم صفحہ نمبر 530 تا539)

   اس ساری تفصیل سے واضح ہوتا ہے کہ 1957 ء کی مجلس مشاور ت میں پاس شدہ ریزولیوشن میں باقاعدہ شوریٰ اور مشورے کے ذریعہ ترامیم کی گئی ہیں ۔

   ’’اسلام کی بناوٹ ہی اس قسم کی ہے کہ صحیح جمہوریت کو قائم کرتا ہے ‘‘سائل نے اس کا حوالہ تاریخ احمدیت جلد 13 صفحہ 169 دیا ہے جہاں یہ حوالہ نہیں ملا ۔بہرحال اگر یہ حوالہ اسی لحاظ سے قبول کر لیا جائے جس طور پر سے سائل نے پیش کیا پھر بھی کوئی اعتراض کی بات نہیں کیونکہ شوریٰ کے ذریعہ 1957 ء کا ریزولیوشن منظور ہوا تو بعد میں شوریٰ کے ذریعہ سے ہی اس میں ترامیم کی گئیں۔اور ان ترامیم کی طرف حضرت مصلح موعود ؓ نے پہلے ہی اشارہ فرما دیا تھا ۔

   جہاں تک سوال کا یہ حصہ ہے کہ عام افراد جماعت کو بھی مشاورت میں شامل کرنا چاہیے ۔تو سائل یقینا دنیا میں رائج جمہوریت کو سمجھتے ہونگے ۔وہاں پر بھی عوام کے منتخب نمائندے عوام کی نمائندگی کرتے ہوئے ملکی عہدیداروںکا انتخاب کرتے ہیں ۔ان منتخب نمائندوں کے ذریعہ پارلیمنٹ میں ہونے والے فیصلوں کو عین جمہوری فیصلے قرا ر دیا جاتا ہے ۔شوریٰ میں شامل ہونے والے ممبران کا بھی انتخاب ہوتا ہے اور وہ اپنی اپنی جماعتوں کی نمائندگی کر رہے ہوتے ہیں ۔

   اسلام نے خلافت کے انتخاب میں کن جمہوری تقاضوں کو مدنظر رکھا ہے اس حوالے سے دورِ اولین پر غور کرنا چاہیے۔ خلیفہ کے انتخاب کے حوالے سے اسلام نے اصولی تعلیم دی ہے اور تفصیلات کے تصفیہ کو ہر زمانہ اور ہر ملک اور ہر قوم کے حالات پر چھوڑ دیا ہے ۔یہی وجہ سے کہ آنحضرت ؐ کے بعد قائم ہونے والی خلافت راشدہ میں حسب حالات اور حسب موقع انتخاب کے مختلف طریق اختیار کئے گئے حضرت ابو بکر ؓ کاانتخاب تھوڑے اختلاف اور بحث وتمحیص کے انصار ومہاجرین کے متفقہ طور پر کیا ۔ اس انتخاب میں مدینہ کے بیرون سے تمام مسلمانوں کونہیں بلایا گیا تھابلکہ اس وقت موجود صحابہ نے ہی عام مسلمانوں کی نمائندگی کی ۔ حضرت عمر ؓ کا انتخاب حضرت ابوبکر نے اپنی زندگی میں ہی کچھ صحابہ کے مشور ہ سے بطور نامزدگی کر دیا تھا ۔پھر حضرت عثمان کا انتخاب صحابہؓ کی ایک چھ رکنی کمیٹی نے مل کر کیا جسے حضرت عمر ؓ نے اپنی زندگی میں مقرر کر دیا تھا ۔حضرت عثمان ؓ کی شہادت کے بعد حضرت علی ؓ کا انتخاب صحابہ کی بھاری اکثریت سے عمل میں آیا ۔گویا دور اولین میں ہونے والے ان انتخابات میں عوامی نمائندگان شامل نہیں ہوئے ۔

   خلافت کے انتخاب کے حوالے سے ایک نہایت اہم بات ہمیشہ یاد رہے کہ اسلام نے ایمان اور عمل صالح کی شرط کے ساتھ خلیفہ کے انتخاب کو خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کیا ہے ۔سائل نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی تحریر پیش کی ہے تو اس نے یقینا آپ ؓ کی ان بے شمار تحریرات کو بھی لازماً پڑھا ہوگا جس میں حضور ؓ نے اس مضمون کو بیان فرمایا کہ مجھے خدا نے خلیفہ بنایا ہے یا یہ کہ خلیفہ خدا بناتا ہے ۔ انتخاب خلافت کے قواعد تو چند دفعہ ہی زیر بحث آئے ہونگے مگرخلیفہ کے مقام کوآپؓ نے باربار بیان فرمایا ۔اس کے علاوہ قدرت ثانیہ کی سوسالہ سے زائد تاریخ میں یہ مضمون ہزاروں لاکھوں دفعہ دہرایاگیا کہ خلافت کا انتخاب خدا کرتا ہے پھر خدا تعالیٰ کی غیر معمولی تائیدو نصرت اس بات کی فعلی شہادت پیش کرتی ہے ۔جب ایمان یہ ہے کہ خلیفہ خدا بناتا ہے تو بندوں کے ذریعہ تو صرف اس تقدیر کا اظہار ہوتا ہے ۔انتخاب خلافت کی تقدیرکے اظہار کے لیے دعا سب سے اہم ذریعہ ہے اوراس دعا میں ہر ایک شامل ہوسکتا ہے ۔قرآن کریم نے بھی قوم کو خلافت کی نعمت دینے کے ساتھ شرط لگائی کہ ایمان اور عمل صالح ہو تو خلافت ملتی ہے ۔اس طرح تو جماعت کا ہر ایک فرد انتخاب خلافت میں اپنے ایمان ،عمل صالح اور دعا کے ذریعہ شامل ہوسکتا ہے ۔دنیا کے کسی کونے میں بھی ہو وہ دعا کے ذریعہ اس انتخاب خلافت میں شامل ہوسکتا ہے ۔دنیا کی کوئی بھی جمہوریت اپنے عوام کو اس طرح شامل نہیں کرسکتی جس طرح انتخاب خلافت کے موقع پر تمام جماعت شامل ہوتی ہے ۔ہر کوئی قیام خلافت کے لیے دعا گو ہوتا ہے ۔پھر خدا تعالیٰ اپنے پیاروں کے ایمان کو بڑھانے کے لیے بعض لوگوں کو جو مجلس انتخاب خلافت کمیٹی کے ممبر نہیں بھی ہوتے انہیں نئے خلیفہ کے منتخب ہونے سے پہلے خبر دے دیتا ہے ۔

   اسلام نے اسلامی معاشرہ کی ایک خصوصیت یہ بیان فرمائی ہے کہ وَأَمْرُہُمْ شُورَی بَیْنَہُمْ(الشوریٰ :38)یعنی ان کا امر باہمی مشورہ سے طے ہوتا ہے ۔اس کے ساتھ ہی ہے کہ وَشَاوِرْہُمْ فِیْ الأَمْرِ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّہِ إِنَّ اللّہَ یُحِبُّ الْمُتَوَکِّلِیْنَ (آل عمران:159)یعنی اور ہر اہم معاملہ میں ان سے مشورہ کر ۔پس جب تو کوئی فیصلہ کر لے تو پھر اللہ ہی پر توکل کر ۔یقیناً اللہ توکل کرنے والوں سے محبت رکھتا ہے ۔گویا نبی یا نبی کے جانشین مشورہ تو کرتے ہیں مگر فیصلہ کرنے کا اختیار بہرحال انہیں کے پاس ہوتاہے ۔اور مشورے کرنے کے لیے ضروری نہیں کہ وہ منتخب نمائندوں کو ہی بلائے بلکہ جسے اہل سمجھتے ہیں انہیں بلاتے ہیں ۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے 1985 ء کومجلس انتخاب خلافت کے بنیادی قانون میں یہ تشریحی نوٹ تحریر فرمایا کہ

   ”شوریٰ سے مراد محض وہ روایتی شوریٰ نہیں جو عموماً مارچ ،اپریل میں مرکز سلسلہ میں سال میں ایک دفعہ منعقد کی جاتی ہے بلکہ خاص اغراض کے لئے خلیفہ وقت جس مجلس کو بھی مشورہ کے لئے مقرر کرے وہ شوریٰ کہلائے گی اور ایسی شوریٰ خصوصی یا عمومی اغراض کے لئے متعدد مرتبہ منعقد کی جاسکتی ہے ”

   دنیاوی امور میں بھی یہ اصول اپنایا جاتا ہے ۔ کوئی بھی سیاسی پارٹی ہو یا کمیونٹی ،کوئی ایسوسی ایشن ہو یا کوئی اورگنائزیشن جب بھی کوئی اہم فیصلہ کرنا ہو یا ان کو کوئی مسئلہ درپیش ہو تو وہ اپنی مین ورکنگ گروپ یا اہم ممبران کو بلاتے ہیں ۔ہر ایک ممبر کو بلا کر اس مشورے میں شامل نہیں کرتے بلکہ ان چنیدہ ممبران کے فیصلے کو ہی سب کا فیصلہ سمجھا جاتا ہے ۔اس چیز کو کوئی بھی جمہوریت کے منافی نہیں سمجھتا ۔

   ایک اور بات بھی مدنظر رہے کہ اسلام نے اہم معاملات اور مسائل کو پھیلانے کی بجائے رسول یا صاحب امر افراد کے سامنے بیان کرنے کی تلقین کی ہے ۔فرمایا وَإِذَا جَاء ہُمْ أَمْرٌ مِّنَ الأَمْنِ أَوِ الْخَوْفِ أَذَاعُواْ بِہِ وَلَوْ رَدُّوہُ إِلَی الرَّسُولِ وَإِلَی أُوْلِیْ الأَمْرِ مِنْہُمْ لَعَلِمَہُ الَّذِیْنَ یَسْتَنبِطُونَہُ مِنْہُمْ وَلَوْلاَ فَضْلُ اللّہِ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَتُہُ لاَتَّبَعْتُمُ الشَّیْطَانَ إِلاَّ قَلِیْلاً(النساء :83 )یعنی اور جب بھی ان کے پاس کوئی امن یا خوف کی بات آئے تو وہ اسے مشتہر کردیتے ہیں اور اگر وہ اسے پھیلانے کی بجائے رسول کی طرف یا اپنے میں سے کسی صاحب امر کے سامنے پیش کر دیتے تو ان میں سے جو اس سے استنباط کرتے وہ ضرور اس کی حقیقت کو جان لیتے اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتے تو تم چند ایک کے سوا ضرو ر شیطان کی پیروی کرنے لگتے ۔
اس آیت میں واضح طور پر بتا دیا گیا ہے کہ امن یا خوف میں کوئی معاملہ درپیش ہو تونبی یا اس کی غیر موجودگی میں صاحب امرلوگ ہی مسائل کی حقیقت کو اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں اور اس کا حل نکال سکتے ہیں ۔نبی یا اس کے بعد جاری ہونے والی خلافت میں سے کسی خلیفہ کی وفات ہو تو وہ امت پر ایک خوف کا دور ہوتا ہے جیسا کہ آیت استخلاف سے بھی پتا چلتا ہے ۔اس خوف کے دور میںامت کے صائب الرائے لوگ مل کر باہم مشورے سے خوف کی حالت سے نکالنے والی خلافت کا انتخاب کریں ۔پھر اس خلافت کے ہاتھ پر ساری امت کا جمع ہونا ضروری ہے اور اس خلافت کی حفاظت ساری امت کی ذمہ داری ہے ۔اس کی نافرمانی بغاوت کہلائے گی جس طرح پارلیمنٹ کے ذریعہ بننے والے عہدیدار کو قبول نہ کرنابغاوت ہے اور کسی کا یہ عذر کرنا قابل قبول نہیں کہ مجھے مشورہ میں شامل نہیں کیا گیا اس لیے میں اس عہدیدار کو تسلیم نہیں کرتا ۔یا پارلیمنٹ کے بنائے گئے قانون کو تسلیم نہیں کرتا کیونکہ مجھے مشورہ میں شامل نہیں کیا گیا ۔جہاں تک خلافت کے انتخاب کو سوال ہے تو ذکر ہوچکا ہے کہ اصل انتخاب تو خدا کرتا ہے ۔اس لیے دعا یہ کرنی چاہیے کہ اے خد ا ہماری رائے ہمارا مشورہ جو مرضی ہو تو ہمیں وہ خلافت عطا فرما جس سے ہم تیری رضا کو پانے والے ہوں ۔ہمارا مشورہ ہماری رائے غلط ہوسکتی ہے ہم ناتواں ہیں کمزور ہیں مگر اے خدا تیرا انتخاب کبھی غلط نہیں ہوسکتا ہے ۔

   سائل سے یہ گزارش ہے کہ وہ خدا کے حضور دعا گو رہے کہ خدا اسے ہمیشہ خلافت سے وابستہ رکھے ۔ویسے بھی خدا کی سچی خلافت سے محبت کا تقاضا یہی ہے کہ ہماری زبانیں ہر وقت خلافت کے سائے کو ہماری زندگیوں میں قائم رہنے کے لیے دعائیں کرتی رہیں اور ہمیں ایک دن بھی خلافت کے سائے کے بغیر گزارنا نہ پڑے ۔ اگر بشری تقاضوں کے مطابق خدانخواستہ ایسا دن ہماری زندگی میں آبھی جائے تو خلیفہ کی وفات سے آنے والاخوف جلد از جلد امن میں تبدیل ہوجائے اور نئی خلافت ہمیں اپنی آغوش میں لے لے ۔اس موقع پر شاید ہی کوئی ایسا حقیقی مومن ہوگا جو یہ تقاضا کرے کہ میری رائے ضروری ہے بلکہ وہ تو خدا کے حضور سجدوں میں گر کر نئی خلافت کے لیے دعاؤں میں مشغول ہوجائے گا ۔

   خدا سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ہر وقت اور ہر آن خلافت سے وابستہ رکھے ہماری زندگیاں خلافت کے زیر سایہ بسر ہوں ۔آمین

یہ بھی ملاحظہ فرمائیں

خلافت احمدیہ دائمی خلافت ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے یوم خلافت 27 مئی 2005ءکو خطبہ ج…