اعتراض: مرزا صاحب کا نام مرکب تھا جبکہ نبی کانام مرکب نہیں ہوتا

اعتراض ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ کا نام مرکب تھا جبکہ نبی کانام مرکب نہیں ہوتا۔

نبوت کا یہ میعار کس نے قائم کیا ہے ؟

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :۔

’’مجھے مسئلہ نبوت کے متعلق ہمیشہ ہی سے تعجب آیا کرتا ہے کہ اس میں کسی قسم کا شک کرنے کی کیا وجہ ہے ۔ لیکن میں دیکھتا ہوں کہ باوجود ایک صاف مسئلہ ہونے کے اس کے متعلق عجیب عجیب اعتراض کئے جاتے ہیں ۔ اور اپنی تائید میں عجیب عجیب دلیلیں پیش کی جاتی ہیں جن سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ آنحضرت ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آ سکتا یا یہ کہ مرزا صاحب نبی نہیں تھے ۔ مثلاً ان عجیب و غریب دلیلوں میں سے ایک یہ بھی پیش کی جاتی ہے کہ نبی وہ ہوتا ہے جس کا نام مفرد ہو مرکب نام والا کوئی نبی نہیں ہو سکتا۔ ۔۔۔

یہ اور اس قسم کی اور دلیلیں بھی دی جاتی ہیں جن کو پڑھ کر تعجب ہی آتا ہے ۔ یہ تو ایسی ہی بات ہے جیسے کل کوئی شخص ایک ایسے نبی کو جسے وہ مانتا ہے خواب میں دیکھ لے کہ اتنی لمبی اس کی داڑھی ہے اتنا قد ہے اس طرح کی شکل ہے تو لکھ دے کہ نبی وہی ہو سکتا ہے ۔ جس کی اس قسم کی داڑھی ہو اتنا بڑا قد ہو اگر ایسا نہ ہو تو نبی نہیں ہو سکتا۔پچھلے نبیوں کی نبوت کے متعلق ان کے نام کا مفرد ہونا دلیل ہی کس طرح ہو سکتی ہے؟ اور کس کو معلوم ہے کہ خدا تعالیٰ کے ان تمام نبیوں کے نام جو حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر آنحضرت ﷺ تک ہوئے ہیں مفرد تھے ؟ اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ مجھے تمام انبیاءؑ کے نام معلوم ہیں تو وہ جھوٹا ہے اور جھوٹا دعویٰ کرتا ہے ۔ کیونکہ جب خدا تعالیٰ آنحضرت ﷺ کو فرماتا ہے کہ وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّنْ قَبْلِکَ مِنْھُم مَّنْ قَصَصْنَا عَلَیْکَ وَ مِنْھُمْ مَّنْ لَّمْ نَقْصُصْ عَلَیْکَ۔(المؤمن:79)اور ضرور ہم نے تجھ سے پہلے رسولوں کو بھیجا ہے ان میں سے کچھ تو ایسے ہیں جن کا ذکر ہم نے تجھ پر کر دیا ہے ۔ اور ان میں سے کچھ ایسے ہیں جن کا تجھ سے ذکر نہیں کیا یعنی خدا تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو بھی بعض انبیاءؑ کے نام نہیں بتائے تو اب اور کون ہے جس کو تمام انبیاءؑ کے نام معلوم ہوں۔ اور اگر کسی کو دعویٰ ہے تو کم سے کم ان ایک لاکھ چوبیس ہزا ر نبیوں کے نام ہی ہم کو بتائے جن کا ذکر حدیث میں آتا ہے ۔(مسند احمد بن حنبل جلد 5ص266)

غرض اول تو یہ دعویٰ ہی غلط ہے کہ تمام انبیاءؑ کے نام مفرد تھے ۔ اور اگر بفرض محال درست بھی ہو تو یہ کوئی ثبوت نہیں کیونکہ اس بات کا ثبوت نہ قرآن کریم سے ملتا ہے نہ احادیث سے نہ پہلے صحفِ انبیاءؑ سے اور ایک عقلمند انسان تو نبی کی یہ علامت سن کر حیران ہو جائے گا کہ نبی وہی ہوتا ہے جس کا نام مفرد ہو ۔ گویا نبوت کا سب دارو مدار نام پر ہے نہ کہ کام پر۔ لیکن اگر اس دعویٰ کو قبول کر لیا جائے کہ نبی وہی ہوتا ہے جس کا نام مفرد ہو تو اس کا یہ نتیجہ ہو گا کہ قرآن میں مذکور انبیاءؑ سے بھی بعض انبیاءؑ  کی نبوت کا انکار کرنا پڑے گا۔

کون نہیں جانتا کہ ہما رے رسول کریم ﷺ کے جد امجد حضرت اسماعیل ؑ تھے ۔ اور آپ کا یہ نام مرکب ہے ۔ عربی والوں نے اسکے دو حصے کئے ہیں ۔ ایک سمع۔ اور دوسرا ایل ۔ اورعبرانی والے بھی اس نام کے دو ہی حصے کرتے ہیں ۔ ایک یسمع اور دوسرا ایل۔ تو معلو ہوتا کہ عبرانی کے لحاظ سے یسمع اور ایل ۔ اور عربی کے لحاظ سے سمع اور ایل دو لفظوں سے یہ نام مرکب ہے۔ سمع کے معنی ہیں سن لیا۔ اور ایل کے معنی ہیں خدا۔ ایل درحقیقت عربی زبان کے لفظ آئل سے نکلا ہے جس کے معنے ہیں قدرت رکھنے وال ، لوٹنے والا۔ تو چونکہ خدا تعالیٰ اپنے بندوں پر رحم اور کرم کی وجہ سے لوٹتا یعنی متوجہ ہوتا ہے اس لئے اس کا یہ نام ہو گیا۔ ۔۔۔۔تو سمع ایل کے معنی ہیں خدا نے سنا۔ اس سے بگڑ کر اسماعیل بن گیا۔ اور بائبل میں اس نام کے رکھے جانے کی یہی وجہ لکھی ہے ۔۔۔۔۔۔۔اب یہ دلیل پیش کرنے والا بتائے کہ خدا اور سن لی دو الگ الگ لفظ ہیں یا نہیں۔ اور یہ بھی بتائے کہ یہ نام مرکب ہوا یا مفرد۔ پس اگر حضرت اسماعیل ؑ باوجود مرکب نام رکھنے کے نبی ہو سکتے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ حضرت مرزا صاحب مرکب نام کی وجہ سے نبی نہیں بن سکتے۔ ۔۔۔۔۔

پھر ابھی مفتی محمد صادق صاحب نے ایک رقعہ لکھ کر دیا ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ کا نام ابی اوررہام سے مرکب ہے اور اسکے معنی ہیں بلندی کا باپ۔ اور حضرت موسیٰؑ کا نام مو اور شی سے مرکب ہے مو(عربی ماء بگڑی ہوئی عربی مویہ )کہتے ہیں پانی کو۔ اور شی (عربی شیء)بمعنی چیز۔یعنی پانی کی چیز۔ چونکہ حضرت موسیٰؑ کو پانی میں ڈالا گیا تھا ۔ اسلئے آپ کا یہ نام ہوا۔ ۔۔غرض بہت سے نبیوں کے نام مرکب ہیں ۔ لیکن وہ نادان بوجہ عربی اور عبرانی کا علم نہ رکھنے کے اس بات کو نہیں سمجھا۔ اس لئے کہتا ہے کہ تمام نبیوں کے نام مفرد ہیں۔

پھر قرآن کریم پر غور کرنے سے ایک عجیب بات معلوم ہوتی ہے کہ اس میں نبیوں کے مخالفوں کے نام بھی مفرد آئے ہیں (کیونکہ ابو لہب صفت ہے نہ کہ نام )اب اگر کوئی یہ کہہ دے کہ دنیا میں جس کانام مرکب ہو وہ شریر نہیں ہو سکتا تو یہ جہالت نہیں تو اور کیا ہے ۔ لیکن کیا کِیا جائے ۔ حدیث میں آیا ہے کہ امت محمدیہ پر ایک ایسا وقت آئے گاکہ اس کے اندر سے علم اٹھا جائے گا اور جاہل لوگ عالم کہلائیں گے جو لوگوں کو اپنی بے علمی کی وجہ سے گمراہ کریں گے ۔ پس چونکہ مسلمانوں پر یہ زمانہ آگیا ہے اور وہ علم و جہالت میں فرق نہیں کر سکتے ۔ اس لئے اس قسم کی باتیں کرتے ہیں جو ان کو مخالفین اسلام کی نظروں میں ذلیل کرنے والی ہوں اور صداقت کے ایسے معیار بناتے ہیں جنہیں کوئی دانا انسان قبول نہیں کر سکتا۔ اور جو خدا تعالیٰ کی سنت سے ناواقفیت کا نتیجہ ہے ۔ ‘‘

(انوار خلافت۔ انوار العلوم جلد 3صفحہ 119)

یہ بھی ملاحظہ فرمائیں

حضرت مرزا صاحب کے سامنے نامحرم عورتیں چلتی پھرتی رہتی تھیں،وغیرہ وغیرہ۔

جواب:۔ اس اعتراض کی بنیاد حضرت مسیح موعود ؑ یا حضور ؑ کے خلفاء کی کسی تحریر پر نہیں بلکہ ز…