حضرت مرزا صاحب کے سامنے نامحرم عورتیں چلتی پھرتی رہتی تھیں،وغیرہ وغیرہ۔

جواب:۔ اس اعتراض کی بنیاد حضرت مسیح موعود ؑ یا حضور ؑ کے خلفاء کی کسی تحریر پر نہیں بلکہ زبانی راویات پر ہے۔ اور ظاہر ہے کہ حجت صرف حضرت مسیح موعود ؑ یا حضور ؑ کے خلفاء کی تحریرات ہیں۔ حضرت اقدس ؑ کی اپنی تحریرات کے برخلاف کوئی ڈائری یاکسی اور کا قول یا روایت ہر گز حجت نہیں۔ معترضین اس سلسلہ میں جس قدر روایات پیش کرتے ہیں وہ سب ایسی کتابوں کی ہیں جن کی غلطی یا خطا سے منزہ ہونے کا دعویٰ خود ان کے مؤلفین یا مرتبین کو بھی نہیں ہے۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی تا لیف ’’سیرۃ المہدی ‘‘ بھی اس سے مستثنیٰ نہیں۔ جیسا کہ خود حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے اس کے دیباچہ میں تحریر فرمایا ہے:۔
الف۔اس سے یہ مراد نہیں کہ میں ان روایات کی تفصیل کے متعلق بھی صحت کایقین رکھتا ہوں۔ میں سمجھتاہوں کہ ہمارے ملک میں جو روایت کا طریق ہے اور جو روایات کے متعلق لوگوں کے حافظہ کی حالت ہے وہ مجھے ایسا خیال کرنے سے مانع ہے۔
(سیرت المہدی حصہ اوّل عرض حال صفحہ ب مطبوعہ۲۱ دسمبر ۱۹۲۳ء)
پھر تحریر فرماتے ہیں:۔
’’میرا مقصود یہ رہا ہے کہ روایت کے سب پہلو واضح ہو جائیں تا کہ اوّل تو اگر کوئی کمزوری ہے تو وہ ظاہر ہو جاوے۔‘‘ ( ایضاً)
پھر فرماتے ہیں :۔’’میں الفاظ روایت کی صحت کا دعویدار نہیں ہوں۔‘‘ ( ایضاً)
علاوہ ازیں سیرت المہدی حصہ سوم کے شروع میں عرض حال صفحہ ۱ کے عنوان کے ماتحت حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے حصہ اوّل کی کئی روایات کی غلطیاں بیان فرمائی ہیں۔ نیز خو د حصہ سوم کی بعض روایات کے بارے میں تحریر فرمایا ہے کہ:۔
’’اگر یہ روایت درست ہے۔‘‘( مثلاً دیکھیں حصہ سوم۔ صفحہ۲۲، ۲۶، ۵۰، ۵۵، ۱۳۸)
اسی طرح صفحہ۶۴ پر بھی درج کردہ روایت کی صحت کے بارے میں شک کا اظہار فرمایا ہے۔ اسی طرح صفحہ ۱۳۹ پر روایت نمبر ۷۱۰ کے بھی ایک اہم حصہ کو ’’مغالطہ‘‘ کا نتیجہ قرار دیا ہے۔
ب۔ خود سیرۃ المہدی حصہ سوم صفحہ ۱۵روایت نمبر ۴۷۷ سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ غیر محرم عورتوں سے لمس سے پرہیز فرماتے تھے۔
پس ضروری ہے کہ مباحثات میں استدلال کی بنیاد صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضور ؑ کے خلفاء کی تحریرات پر رکھی جائے نہ کہ روایات پر۔
(2) جہاں تک شریعتِ اسلامی کی تعلیم کا سوال ہے قرآن مجید نے ایسے مردوں یا عورتو ں کو جو ( یعنی شہوانی جذبات سے خالی )ہوں۔ مثلابوڑھے اور بوڑھیاں یا خداکے صالح اور پاک بندے، ایک دوسرے سے پردہ کرنے کا حکم نہیں دیا۔ چنانچہ قرآن مجید میں سورۃ نورمیں جہاں پردے کے احکام ہیں وہاں کے الفاظ موجود ہیں جن کو پردے کے حکم سے مستثنیٰ کیا گیا ہے۔
أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ أَوِ التَّابِعِينَ غَيْرِ أُولِي الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلَى عَوْرَاتِ النِّسَاءِ۔ترجمہ: ىا اپنے زىرنگىں مردوں کے لئے ىا مردوں مىں اىسے خادموں کے لئے جو کوئى (جنسى) حاجت نہىں رکھتے ىا اىسے بچوں کے لئے جو عورتوں کى پردہ دار جگہوں سے بے خبر ہىں (النور 32)
الف۔ ان آیات کی تفسیر کرتے ہوئے حضرت امام رازی رحمہ اللہ اپنی معروف تفسیر ’’ تفسیر کبیر‘‘ میں پردہ کن کن سے ہوتا ہے۔کے متعلق تحریر فر ماتے ہیں:۔
’’اَوْ شُیُوْخٌ صُلَحَآءُ اِذَا کَانُوْا مَعَھُنَّ غَضُّوْا اَبْصَارَھُمْ……وَقَالَ بَعْضُھُمُ الشَّیْخُ وَ سَآئِرُ مَنْ لَا شَھْوَۃُ لَہٗ۔: یعنی ایسے صالح بوڑھے جو عورتوں کی معیت کے وقت غضِ بصر کرنے والے ہوں یا تمام بوڑھے اور ایسے تمام لوگ جو شہوت سے پاک ہوں۔ (تفسیر کبیر رازی زیرآیت ۔ النور:۳۲)
ب۔ تفسیر بیضاوی میں آیت (النور:۳۲) کی تفسیر میں لکھا ہے’’ ھم الشّیوخ الأھمام ‘‘یعنی اس سے مراد معمر بوڑھے ہیں۔
ج۔ تفسیر حسینی میں ہے:۔ ’’بے شہوت والے…… مردوں میں سے یعنی وہ مرد جو کھانا مانگنے گھروں میں آتے ہیں اور عورتو ں سے کچھ حاجت ہی نہیں رکھتے یعنی ان سے شہوت کا دغدغہ نہیں جیسے بہت بوڑھا ‘‘)تفسیر حسینی قادری مترجم اردو جلد ۳زیر آیت النور:۳۲(
(3۔ احادیث نبویّہ کی روشنی میں)
الف۔’’عَنْ اَنَسِ ابْنِ مَالِکٍ یَقُوْلُ کَانَ النَّبِیُّ ﷺ یَدْخُلُ عَلٰی اُمِّ حَرَامِ بِنَتِ مِلْحَانَ فَتُطْعِمُہٗ وَ کَانَتْ تَحْتَ عِبَادَۃِ بْنِ الصَّامِتِ فَاَطْعَمَتْہُ وَ جَعَلَتْ تَفْلِیْ رَأْسَہٗ فَنَامَ ثُمَّ اسْتَیْقَظَ یَضْحَکُ۔ ‘‘: ترجمہ:حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ رسول مقبول ﷺ حضرت ام حرام بنت ملحان کے گھر جایا کرتے تھے تو وہ حضورؐ کو کھا نا پیش کرتیں۔( وہ حضرت عبادہ بن صامت کی زوجہ تھیں۔) حضرت ام حرامؓ نے حضور ﷺ کو کھا نا کھلایا اور حضورؐکے سر سے جوئیں نکالنے لگیں۔ آنحضرت ﷺ سو گئے اور پھر مسکراتے ہوئے بیدار ہو گئے۔(الادب المفرد باب ھَلْ یَغْلِیْ اَحَدٌ رَأْسَ غَیْرِہٖ)
ب۔ اسی طرح الادب المفرد میں ہے کہ حضرت سعدؓ کے بازو کی رگ میں غزوۂ احزاب کے موقع پر زخم آگیا تو ان کو مدینہ میں رفیدہ نامی ایک عورت کے پاس اس کے گھر میں رکھاگیا وہ ان کاعلاج اور مرہم پٹی کرتی تھیں۔ خود آنحضرت ﷺ بھی صبح شام اس عورت کے ہاں سعد ؓ کی عیادت کے لیے تشریف لے جاتے رہے۔
ج۔ اسی طرح ایک روایت میں ہے کہ ایک دفعہ حضرت عائشہؓ آنحضرت ﷺ کے ساتھ ایک ہی برتن میں حلوہ کھا رہی تھیں کہ حضرت عمرؓ بھی تشریف لے آئے اور آنحضرت ﷺ کے ارشاد کی تعمیل میں کھانے میں ان کے ساتھ ہوگئے۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ ’’فَاَصَابَتْ یَدَہٗ اِصْبَعِیْ‘‘کہ اس اثناء میں حضرت عمرؓ کا ہاتھ میری انگلی کے ساتھ چھو گیا۔
(الادب المفرد باب اکل الرجل مع امرتہ حدیث ۱۰۵۳)
د۔ بخاری شریف میں ایک حدیث ہے :۔ ’’عَنْ اَنَسٍ قَالَ اِنَّ النَّبِیَّ ﷺ لَمْ یَکُنْ یَدْخُلُ بَیْتًا بِالْمَدِیْنَۃِ غَیْرَ بَیْتِ اُمِّ سُلَیْمٍ اِلَّا عَلٰی اَزْوَاجِہٖ فَقِیْلَ لَہٗ قَالَ اِنِّیْ اَرْحَمُھَا قُتِلَ اَخُوْھَا مَعِیْ۔ ‘‘:حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ اپنی بیویوں کے گھر وں کے علاوہ سارے مدینہ میں صرف اُم سلیمؓ کے گھر میں بالالتزام تشریف لے جاتے تھے۔ بعض لوگوں نے حضورؐ سے اس کا سبب دریافت کیاتو حضورؐ نے فرمایا کہ اُمّ سلیمؓ کا بھائی میرے ہمراہ لڑتے ہوئے شہید ہو گیا تھا۔ اس لیے میرے دل میں اُمّ سلیمؓ کے لیے خاص رحم ہے۔( بخاری کتاب الجہاد والسیر باب فضل من جھز غازیا او خلفہ بخیر)
ھ۔صحیح مسلم میں ہے کہ آنحضرت ﷺاور حضورؐکے بعد ابو بکر اور حضرت عمر رضی اﷲ عنہما حضرت زید بن ثابتؓ کی بیوی اُمِّ اَیْمَن کے ہاں ان کی ملاقات کے لیے جایاکرتے تھے۔ (مسلم کتاب فضائل الصحابۃ بَابُ مِنْ فَضَائِلِ اُمِّ اَیْمَن)
غرضیکہ کہ بیسیوں حوالے اس قسم کے موجو د ہیں۔
و۔ حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اﷲ علیہ تحریر فرماتے ہیں:۔
’’امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اﷲ عنہ کی زائدہ نام کی باندی کی حدیث مشہور ہے کہ ایک روز پیغمبر ﷺ کی خدمت میں آئی اور آپ کو سلام کہا۔ پیغمبرﷺنے فرمایا۔ اے زائدہ! کیوں میرے پاس دیر سے آئی ہو۔ تو مُوَفَّقَہ ہے اور میں تجھ سے محبت رکھتا ہوں۔‘‘
(تلخیص از کشف المحجوب مترجم اردو شائع کردہ شیخ الٰہی بخش محمد جلال الدین مطبوعہ ۱۳۱۴ھ باب معجزات و کرامات کا فرق)
ز۔ حضرت داتا صاحبؒ تحریر فرماتے ہیں۔ فقیہیوں کااتفاق ہے کہ جب راگ و رنگ موجود نہ ہوں اور آوازوں کے سننے سے بری نیت ظاہر نہ ہو تب اس کا سننا مُباح ہے اور اس پر بہت آثار و اخبار لاتے ہیں۔ جیسے کہ عائشہؓ سے روایت ہے :۔’’قَالَتْ کَانَتْ عِنْدِیْ جَارِیَّۃٌ تَغَنِّیْ فَاسْتَأْذَنَ عُمَرُ فَلَمَّا اَحَسَّتْہُ وَ سَمِعَتْ حِسَّہٗ فَرَّتْ فَلَمَّا دَخَلَ عُمَرُ تَبَسَّمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ فَقَالَ لَہٗ عُمَرُ مَا اَضْحَکَکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! قَالَ کَانَتْ عِنْدَنَا جَارِیَّۃٌ تَغَنِّیْ فَلَمَّا سَمِعَتْ حِسَّکَ فَرَّتْ فَقَالَ عُمَرُ فَلَا اَبْرَحُ حَتّٰی اَسْمَعَ مَا سَمِعَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ فَدَعَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَسْمَعُ۔ ‘‘ترجمہ :۔ عائشہ رضی اﷲ عنہا نے کہا ہے۔ میرے پاس ایک لونڈی گا رہی تھی اتنے میں حضرت عمر ؓنے اندر آنے کی اجازت چاہی۔ جب اس لونڈی نے معلوم کیا اور ان کے آنے کی آواز سنی توبھاگ گئی۔ پھر جب حضرت عمرؓ اندر داخل ہوئے حضرت رسول اﷲ ﷺ مسکرائے۔ تب حضرت عمرؓ نے پوچھا کہ یا رسول اﷲ! آپ کس بات پر ہنستے ہیں؟ حضرتؐ نے فرمایا کہ ہمارے پاس لونڈی گا رہی تھی۔ جب اس نے آپ کی آواز سنی تو بھا گی۔ پھر حضرت عمرؓ نے کہا کہ میں نہیں چھوڑوں گا جب تک کہ حضرتؐ کا سنا ہو انہ سنوں۔ پھر رسول اﷲ ﷺنے اس کو بلایا۔ تب وہ آکر گانے میں مصروف ہوئی اور رسول اﷲ ﷺسنتے تھے اور اکثر اصحاب نے ایسی روایت بیان کی ہے۔
(کشف المحجوب مترجم اردو صفحہ ۴۶۲، لحن اور آواز سننے کا باب صفحہ ۴۶۹، صفحہ ۴۷۰)
اولیاء اُمت کی مثالیں
الف۔ حضرت داتا گنج بخش ؒ تحریر فرماتے ہیں:۔
’’جوانمردوں کا سپاہی اور خراسان کا آفتاب ابوحامد احمد بن خضر ویہ بلخی رحمۃ اﷲ علیہ بلند اور اشرافِ وقت سے خاص تھا اور اپنے زمانہ میں قوم کا پیشوااور خاص……اور فاطمہ جو اس کی زوجہ تھی طریقت میں اس کی بڑ ی شان تھی……جب احمد ؒ کو بایزید ؒ کی زیارت کا قصد ہو ا۔ فاطمہؓ نے بھی ان کے ساتھ اتفاق کیا۔ جب بایزید ؒ کے پاس آئے تو منہ سے پردہ اٹھایا اور گستاخانہ کلام شروع کی۔ احمد ؒ کو اس سے تعجب ہوا۔اور اس کے دل میں غیرت نے جوش مارا اور کہا۔ اے فاطمہ! یہ کیا گستاخی ہے؟ جوآج تو نے بایزیدؒ سے کی ہے مجھے بتانی چاہیے۔ فاطمہ ؒ نے کہا کہ اس سبب سے کہ تومیری طبیعت کا محرم ہے۔ میں تجھ سے خواہش نفسانی کو پہنچتی ہوں اور اس سے خداسے ملتی ہوں۔ اور کہا کہ اس پریہ دلیل ہے کہ وہ میری صحبت کی پرواہ نہیں رکھتا اور تو میرا محتاجِ صحبت ہے۔ وہ ہمیشہ ابو یزید ؒ کے ساتھ شوخی کرتی۔ تا آنکہ ایک روز بایزیدؒ نے فاطمہ کا ہاتھ دیکھا کہ حنا سے رنگین ہے۔ پوچھا کہ اے فاطمہ! تو نے ہاتھ پر حنا کیوں لگائی ہے ؟ اس نے جو ب دیا کہ اے بایزید! جب تک تونے میرے ہاتھ اور حنا کو نہیں دیکھا تھا مجھے تجھ سے خوشی تھی۔ اب کہ تیری نظر مجھ پر پڑی پھرصحبت ہماری حرام ہو گئی……ابو یزید ؒ نے کہا مَنْ اَرَادَ اَنْ یَّنْظُرَالِٰی رَجُلٍ مِنَ الرِّجَالِ مَخْبُوْءٌ تَحْتَ لِبَاسِ النِّسَآءِ فَلْیَنْظُرْ اِلٰی فَاطِمَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھَا۔ یعنی جو کسی مرد کو عورتو ں کے لباس میں چھپا ہوا دیکھنا چاہے تو اس کو کہا کہ فاطمہ کی طرف دیکھ۔ اور ابو حفص حداد رحمۃ اﷲ علیہ نے کہا ہے۔ لَوْ لَا اَحْمَدُ خِضْرَوِیَۃٌ مَا ظَھَرَتِ الْفَتُوَّۃُ۔ یعنی احمد بن خضرویہ نہ ہوتا تو جوان مردی اور مروت پیدانہ ہوتی ۔‘‘
(تلخیص از کشف المحجوب مترجم اردو فصل ۲۳۔ ذکر حضرت ابو حامد احمد بن خضرویہ)
ب۔ حضرت شیخ فرید الدین عطار رحمۃ اﷲ علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ:۔
’’آپ( حضرت احمد خضر ویہ ؒ)کی بیوی امرائے بلخ میں سے تھی۔ اور وہ بھی طریقت میں بے نظیرتھیں۔ آپ کے نکاح میں آتے ہی انہوں نے ترکِ دنیا کو اپناشغل کیا اور ریاضت مجاہدہ میں مشغول ہو گئیں اور کما ل حاصل کیا۔ حضرت بایزید بسطامی ؒ سے بے تکلفانہ گفتگو رہا کرتی تھی۔ آپ کے دل میں بہت غیرت آئی کہ بیوی نے بایزیدؒ کے سامنے پردہ کیوں نہ کیا۔ لیکن بیوی نے کہا تم میری طیعت کے محرم ہو اور تم سے میں اپنی خواہش تک پہنچوں گی۔ لیکن بایزید طریقت کے محر م ہیں۔ ان سے خداتک پہنچوں گی۔‘‘
(تذکرۃ الاولیاء ذکر احمد خضرویہؒ باب ۳۳ مترجم اردو شائع کردہ برکت علی اینڈ سنز بار سوم صفحہ ۱۸۳ و ظہیر الاصفیاء صفحہ ۲۷۳ مطبوعہ ۱۹۱۷ء اردو ترجمہ تذکرۃ الاولیاء)

ج۔ حضرت عطاررحمۃ اﷲ علیہ حضرت ابو بکر شبلی رحمۃ اﷲ علیہ کے بارے تحریر فرماتے ہیں:۔
’’ایک دن شیخ ( حضرت جنید بغدادی رحمۃ اﷲ علیہ) کے گھر میں گئے۔ آپ کی اہلیہ شانہ کر رہی تھیں۔ شبلی ؒنے شانہ چھیننا چاہا۔آپ کی اہلیہ نے پردہ کرنا چاہامگر شیخ ( جنید ؒ) نے فرمایا کہ نہ سر ڈھکو نہ پردہ کرو کیونکہ یہ اپنے آپ میں نہیں ہیں۔ ان لوگو ں کو کچھ خبر نہیں۔‘‘ (ایضاً صفحہ ۲۹۸ ذکر ابو بکر شبلی باب نمبر ۷۸ و ایضاً صفحہ ۵۲۴)
د۔’’ ایک دفعہ ( شبلی ؒ ) علی الصبح باہر گئے۔ تو ایک نوخیز حسین عورت کو ننگے سر دیکھا۔ آپ نے کہا کہ ’’اے گل! سر بہ پوش‘‘( یعنی اے پھول اپنے سر کو ڈھک لے ) عورت نے جواب دیا کہ یا شیخ! گل سر نمے پوشد ( پھو ل اپنا سر نہیں ڈھانکتا ہے ) عورت کا یہ جواب سن کر نعرہ مارا اور بیہوش ہوگئے۔‘‘(تذکرۃ الاولیاء باب ۷۸ صفحہ ۲۹۹ اردو ترجمہ ایڈیشن مذکور شائع کردہ شیخ غلام علی اینڈ سنز کشمیری بازار لاہور)
ھ۔ حضرت عطار رحمۃ اﷲ علیہ تحریر فرماتے ہیں:۔
حضرت سفیان ثوری رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک رات ہم رابعہ ( بصری رحمۃ اﷲ علیہا۔ خادمؔ) کی خدمت میں گئے۔ آپ نماز پڑھنے کے لیے کھڑی ہوئیں اور صبح تک نماز میں مصروف رہیں۔ میں دوسرے گوشے میں ذکر الٰہی میں مصروف رہا۔ صبح آپ ( رابعہ رحمۃ اﷲ علیہا ) نے فرمایا کہ اس بات کاکس طرح شکریہ ادا کریں کہ اﷲ تعالیٰ نے رات بھر ہم کو نماز کی توفیق بخشی۔
(تذکرۃ الاولیاء باب نمبر۹ صفحہ ۶۳)
د۔’’خواجہ حسن بصری رحمۃ اﷲ علیہ سے روایت ہے کہ میں ایک دن رابعہ ( بصری رحمۃ اﷲ علیہا) کے ہاں تھا۔ حقیقت اور طریقت کی باتیں ہو رہی تھیں ، لیکن ہم دونوں میں سے کسی کے دل میں بھی مرد یا عورت ہونے کا خیال تک بھی نہ آیا۔ لیکن جب میں وہاں سے واپس ہوا تو اپنے آپ کو مفلس اور ان کو مخلص پا یا۔‘‘ (ایضاً باب ۹ صفحہ ۵۶، ۵۷)
ز۔ خواجہ حسن (بصری رحمۃ اﷲ علیہ۔خادم) نے ایک دفعہ آپ ( حضرت رابعہ بصری رحمۃ اﷲ علیہا۔ خادمؔ) سے دریافت کیا کہ کیا تم کو شوہر کی رغبت نہیں ؟فرمایا عقد نکاح جسم پر ہوتا ہے اور یہاں میراوجود ہی نہیں۔ میں مالک کی مملوک ہوں مالک سے پوچھو۔‘‘ (ایضاً صفحہ ۵۷)
ح۔ ’’ ایک رات خواجہ حسن ( بصری رحمۃ اﷲ علیہ )اپنے چند رفیقوں کے ہمراہ حضرت رابعہ (بصری رحمۃ اﷲ علیہا ) کے ہا ں تشریف لے گئے ، لیکن وہاں چراغ نہ تھا۔ اور خواجہ حسن (بصری رحمۃ اﷲ علیہا) کو چراغ کی ضرورت تھی۔ چنانچہ رابعہ ( رحمۃاﷲ علیہا )نے اپنی انگلی پر پھونک ماری جس سے انگلی فوراً روشن ہو گئی اور صبح تک چراغ کا کام دیتی رہی۔ اگر کوئی اعتراض کرے کہ یہ کس طرح ممکن ہے ؟ تو میں کہوں گا کہ جو شخص نبی ﷺ کی تا بعداری کرتا ہے اس کو اس کرامت سے ضرور حصہ ملے گا۔‘‘(ایضاً )
ط۔ ایک دفعہ چندآدمی آپ( حضرت رابعہ بصری ؒ)کے پاس آئے۔ دیکھا کہ گوشت کو دانتوں سے کاٹ رہی ہیں۔ لوگوں نے پوچھا کہ کیا آپ کے پا س چھری نہیں ہے ؟فرمایا کہ جدائی کے خوف سے میں نے کبھی چھری نہیں رکھی۔ (ایضاً صفحہ ۶۰)
ی۔’’حضرت حسن بصری ؒ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ عصر کی نماز کے بعد آپ ( حضرت رابعہ بصری رحمۃ اﷲ علیہا ) کی خدمت میں گیا۔ آپ اس وقت کچھ کھانا پکانا چاہتی تھیں اور گوشت ہانڈی میں ڈال دیا تھا۔ آپ کی توجہ گفتگو میں پڑ گئی اور ہانڈی کا خیا ل نہ رہا۔ (ایضاً صفحہ ۶۳)
ضمنی اعتراض:ایک بوڑھی عورت بانو کا حضرت اقدس کو دبانا:۔
)۔بانوؔ والی رویت مندرجہ ’’سیرۃ المہدی‘‘ کے بارے میں مندرجہ بالا جوابات کے علاوہ مندرجہ ذیل باتیں بھی قابل توجہ ہیں:۔
ا۔ وہ ایک بوڑھی بیوہ تھی۔ اور اس کے ارزل العمر تک پہنچ چکنے کا ثبوت خود روایت کا نفس مضمون ہے۔
ب۔ جسم کے مس کرنے کا کوئی سوال ہی نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ روایت کے اندر ہی سردی کے موسم اور رضائی کا ذکر موجود ہے کہ وہ رضائی کے اوپر سے دبارہی تھی۔
ج۔حضرت امّ المومنین رضی اﷲ عنہا اور دیگر گھر کے لوگ موجود تھے اور بانو مذکورہ کی سادگی پر ہنس رہے تھے۔
مگر متذکرہ احادیث میں تو سر کو سہلانے یا اس سے جوئیں نکالنے کے لیے سر کو چھونا بہر حال ضروری ہے۔

 

یہ بھی ملاحظہ فرمائیں

حضرت مرزا صاحب کے سامنے نامحرم عورتیں چلتی پھرتی رہتی تھیں،وغیرہ وغیرہ۔

جواب:۔ اس اعتراض کی بنیاد حضرت مسیح موعود ؑ یا حضور ؑ کے خلفاء کی کسی تحریر پر نہیں بلکہ ز…