لا خلافة إلا عن مشورة – خلافت اور شوریٰ کا باہمی تعلّق

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اﷲ تعالیٰ بنصرہِ العزیز فرماتے ہیں:

’’نظام خلافت کے بعد دوسرا اہم اور مقدس ادارہ جماعت میں شوریٰ کا ادارہ ہی ہے۔ اور جب خلیفہ وقت اس لئے بلا رہا ہو اور احباب جماعت بھی لوگوں کو اپنے میں سے منتخب کر کے اس لئے بھیج رہے ہوں کہ جاؤ اﷲ تعالیٰ کی تعلیم دنیا میں پھیلانے، احباب جماعت کی تربیت اور دوسرے مسائل حل کرنے اور خدمت انسانیت کرنے کے لئے خلیفہ وقت نے مشوروں کے لئے بلایا ہے اس کو مشورے دو تو کس قدر ذمہ داری بڑھ جاتی ہے۔‘‘ (خطبات مسرور جلد دوم صفحہ 196)

اﷲ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:

وَالَّذِیْنَ اسْتَجَابُوْا لِرَبِّھِمْ وَاَقَامُواالصَّلٰوۃَ ص وَاَمْرُھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْ ص وَمِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقْوْنَo (سورۃ الشورٰی:39)
ترجمہ: اور جو اپنے رب کی آواز پر لبیک کہتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور ان کا امر باہمی مشورہ سے طے ہو تا ہے اور اس میں سے جو ہم نے انہیں عطا کیا خرچ کرتے ہیں۔ (ترجمہ از قرآن کریم اردو ترجمہ از حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ)

وَ شَاوِرْہُمْ فِی الْاَمْرِ ج فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ ط اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُتَوَکِّلِیْنَO (سورۃ آل عمران آیت:160)
ترجمہ:  اور( ہر) اہم معاملہ میں ان سے مشورہ کر ۔ پس جب تو (کوئی) فیصلہ کر لے تو پھر اﷲ ہی پر توکل کر۔ یقینا اﷲ توکل کرنے والوں سے محبت رکھتا ہے۔‘‘ (ترجمہ از قرآن کریم اردو ترجمہ از حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ)

حدیث:

یُرْوٰی عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ: مَا رَاَیْتُ اَحَدًا اَکْثَرَ مَشْوَرَۃٍ لِاَصْحَابِہٖ مِنْ رَّسُوْلِ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ. (ترمذی ابواب الجھاد باب ما جاء فی المشورۃ)
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ: میں نے آنحضرت ﷺ سے زیادہ کسی کو اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم سے مشورہ کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔‘‘

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں مشورہ کا طریق بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’رسول کریم ﷺ اور خلفا تین طریقے سے مشورہ لیتے تھے:

1) جب مشورہ کے قابل کوئی معاملہ ہوتا تو ایک شخص اعلان کرتا کہ لوگ جمع ہو جائیں اس پر لوگ جمع ہو جاتے۔ عام طور پر یہی طریق رائج تھا کہ عام اعلان ہوتا اور لوگ جمع ہو کرمشورہ کر لیتے اور معاملہ کا فیصلہ رسول کریم ﷺ یا خلیفہ کردیتے……
2) دوسرا طریق مشورہ کا یہ تھا کہ وہ خاص آدمی جن کو رسول کریم ﷺ مشورہ کا اہل سمجھتے ان کو الگ جمع کر لیتے باقی لوگ نہیں بلائے جاتے تھے۔ جن سے رسول کریم ﷺ مشورہ لیتے تھے، تاریخ سے معلوم ہوتا ہے تیس(30)  کے قریب ہوتے تھے۔ رسول کریم ﷺ سب کو ایک جگہ بلا کر مشورہ لے لیتے ۔ کبھی تین چار کو بلا کر مشورہ لے لیتے۔
3) تیسرا طریق یہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی خاص معاملہ میں جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سمجھتے تھے کہ دو آدمی بھی جمع نہ ہونے چاہئیں۔ علیٰحدہ علیٰحدہ مشورہ لیتے ۔ پہلے ایک کو بلا لیا۔ اس سے گفتگو کرکے اس کو روانہ کر دیا اور دوسرے کو بلالیا۔ اس سے گفتگو کر کے اس کو روانہ کر دیا اور دوسرے کو بلالیا۔یہ ایسے وقت میں ہوتا جب خیال ہو تا کہ ممکن ہے رائے کے اختلاف کی وجہ سے دو بھی آپس میں لڑ پڑیں۔

یہ تین طریقے تھے مشورہ لینے کے اور یہ تینوں اپنے اپنے رنگ میں بہت مفید ہیں۔ میں بھی ان طریق سے مشورہ لیتا ہوں۔‘‘ (رپورٹ مجلس مشاورت1922  ء صفحہ 7-6)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے احباب جماعت سے مشورہ طلب کرنے کے بارے میں حضرت مفتی محمد صادق صاحب رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں بعض امور جب پیش آتے تو آپ علیہ السلام سال میں دو تین چار بار بھی اپنے خدام کو بلالیتے کہ مشورہ کرنا ہے۔کسی جلسے کی تجویز ہوتی تو یاد فرما لیتے، کوئی اشتہار شائع کرنا ہوتا تو مشورہ کے لئے طلب کرلیتے۔ (رپورٹ مجلس مشاورت1928 ء صفحہ 144)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

’’قرآن کریم نے مثالی اسلامی معاشرہ کا تصور پیش کرتے ہوئے جو مختلف اصول بیان فرمائے ہیں ان میں ایک باہمی مشورہ کا اصول بھی ہے جیسا کہ فرمایا: وَاَمْرُھُمْ شُوْریٰ بَیْنَھُمْ (سورۃ الشوریٰ:39  ) اس مشورہ کے امر کو جماعت احمدیہ میں ایسے رنگ میں قائم کرنا جو صحیح اسلامی اقدار کے عین مطابق ہو اور افراط و تفریط سے پاک ہو قیامِ جماعت احمدیہ کے اولین اغراض و مقاصد میں شامل ہے۔ چنانچہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اہم امور میں صائب الرائے احباب سے مشورہ لینے کی سنت پر ہمیشہ کاربند رہے اور وقتاً فوقتاً عند الضرورت کبھی انفرادی طور پر اور کبھی اجتماعی طور پر احباب جماعت سے مشورہ لینے کا انتظام فرمایا۔ اجتماعی مشورہ کی ایک اہم مثال 1891ء میں ہمارے سامنے آتی ہے جبکہ دسمبر میں جماعت احمدیہ کا پہلا جلسہ سالانہ منعقد کیا گیا ۔ جماعت کی تعداد اس وقت اتنی قلیل تھی کہ جلسہ کے موقع پر صرف 75 زائرین شامل ہوئے۔ اس قلیل تعداد کو ملحوظ رکھتے ہوئے جلسہ اور مشاورت کا الگ انتظام کرنے کی کوئی ضرورت نہ تھی لہٰذاحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اسی جلسہ سالانہ سے مشاورت کا کام بھی لیا۔ اور جماعت احمدیہ کی اس پہلی مجلس مشاورت میں جو تجویز پیش کی گئی وہ یہ تھی کہ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے بکثرت ظاہر ہونے والے نشانات کا ریکارڈ (Record)محفوظ کرنے کی خاطر ایک ایسی انجمن بنائی جائے جو احمدی اور غیر احمدی حضرات پر مشتمل ہو۔ یہ تجویز بالاتفاق اس ترمیم کے ساتھ منظور ہوئی کہ فی الحال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے رسالہ ’’آسمانی فیصلہ‘‘ کو جس میں یہ تجویز موجود ہے شائع کر دیا جائے۔ اس پر مخالفین سلسلہ کا عندیہ معلوم کرنے کے بعد بہ تراضی ٔ فریقین مجوزہ انجمن کے ممبران مقرر کیے جائیں۔

اجتماعی مشاورت کا یہ سلسلہ باقاعدہ سالانہ صورت میں جاری نہیں کیا گیا تھا بلکہ خلافت ثانیہ کے آغاز تک ایسی مجلس حسب ضرورت بلائی جاتی رہی۔1922 ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اﷲ عنہ نے پہلی مرتبہ باقاعدہ سالانہ مجلس مشاورت کا نظام قائم فرمایا۔‘‘ (سوانح فضل عمر جلد 2 صفحہ 176,175)

مجلس شوریٰ کا قیام:

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے جہاں صدر انجمن احمدیہ کے انتظام میں اصلاح کی ضرورت کو محسوس کیا۔ وہاں آپ رضی اللہ عنہ کو اس ضرورت کا بھی احساس پیدا ہوا کہ اہم ملی امور میں جماعت سے مشورہ لینے کے لئے کوئی زیادہ مناسب اور زیادہ منظم صورت ہونی چاہئے۔ چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے وسط اپریل1922 ء میں مستقل طور پر مجلس شوریٰ کی بنیاد رکھی۔

مجلس شوریٰ کے قیام سے گویا جماعتی نظام کا ابتدائی ڈھانچہ مکمل ہو گیا یعنی سب سے اُوپر خلیفۂ وقت ہے جو گویا پورے نظام کا مرکزی نقطہ ہے۔ اس سے نیچے ایک طرف مجلس شوریٰ ہے اور اہم اور ضروری اُمور میں خلیفۂ وقت کے حضور اپنا مشورہ پیش کرتی ہے اور دوسری طرف اس کے متوازی صدر انجمن احمدیہ ہے جسے نظارتوں کے انتظامی صیغہ جات چلانے کے لئے مقرر کیا گیا ہے۔

جماعت احمدیہ کی پہلی مجلس شوریٰ 16-15  اپریل 1922 ء کو تعلیم الاسلام ہائی سکول (قادیان) کے ہال میں منعقد ہوئی اور اس میں52  بیرونی اور30  مرکزی نمائندوں نے شرکت کی۔ ہال کی شمالی جانب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے لئے  میز اور کرسی بچھائی گئی تھی اور سامنے نصف دائرہ کی شکل میں نمائندے کرسیوں پر بیٹھے تھے ساڑھے نو بجے صبح کے قریب حضور (حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ)نے افتتاحی تقریر فرمائی جو بارہ بجے تک جاری رہی یہ چونکہ اپنی نوعیت کی پہلی مجلس شوریٰ تھی اس لئے حضور نے تفصیل کے ساتھ اس کی ضرورت واہمیت اور اس کے طریق کار پر روشنی ڈالی اور نمائندگان کو متعدد اہم ہدایات دیں جو ہمیشہ کے لیے مشعل راہ ہیں۔ (تاریخ احمدیت جلد 4  صفحہ 296)

مجلس شوریٰ کا طریق:

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے شوریٰ کا طریق کار بیان کرتے ہوئے فرمایا:

’’1۔ خلیفہ عام ہدایات پیش کرے گا کہ کن باتوں پر مشورہ لینا ہے اور کن باتوں کا خیال رکھنا ہے۔

2۔ اس کے بعد ہر محکمہ کے لئے سب کمیٹیاں مقرر ہو جائیں گی کیونکہ فوراً رائے نہیں دینی چاہئے بلکہ تجربہ کار بیٹھ کر سکیم تجویز کریں اور پھر اس پر بحث ہو۔ پہلے کمیٹی ضرور ہونی چاہئے جیسے معاملات ہوں ان کے مطابق وہ غورکریں۔ سکیم بنائیں پھر اس پر غور کی جائے۔ کمیٹی پوری تفاصیل پر بحث کرے اور پھر رپورٹ کرے۔ وہ تجاویز مجلسِ عام میں پیش کی جائیں اور ان پر گفتگو ہو۔

3۔ جب تجاویز پیش ہوں تو موقع دیا جائے کہ لوگ اپنے خیالات پیش کریں کہ اس میں یہ زیادتی کرنی چاہیے یا یہ کمی کرنی چاہیے یا اس کو یوں ہونا چاہیے۔ تینوں میں سے جو کہنا چاہے کھڑے ہو کر پیش کردے۔ ان تینوں باتوں کے متعلق جس قدر تجاویز ہوں ایک شخص یا بہت سے لکھتے جائیں پھر ایک طریق یا ایک طرز کی باتوں کو لے کر پیش کیا جائے کہ فلاں یہ کمی چاہتا ہے اور فلاں یہ زیادتی۔ اس پر بحث ہو مگر ذاتیات کا ذکر نہ آئے۔ اس بحث کو بھی لکھتے جائیں۔ جب بحث ختم ہو جائے تو وہ اس وقت یا بعد خلیفہ بیان کر دے، کہ یہ بات یوں ہو۔‘‘ (رپورٹ مجلس مشاورت 1922  صفحہ 17-16)

مجلس شوریٰ میں عورتوں کی نمائندگی:

سیدنا حضرت مرزا طاہر احمد صاحب خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ سوانح فضل عمر جلد دوم میں تحریر فرماتے ہیں:

’’ابتدا میں مستورات کی آرا معلوم کرنے کا کوئی علیحدہ انتظام نہ تھا لیکن 1930ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اﷲعنہ نے اس ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے حسب ذیل طریق پر اہم مسائل پر عورتوں کی آرا معلوم کرنے کا طریق معیّن فرمایا:

’’عورتوں کے حقِ نمائندگی کے متعلق میں یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ جہاں جہاں لجنہ اماء اﷲ قائم ہیں وہ اپنی لجنہ رجسٹرڈ کرائیں یعنی میرے دفتر سے اپنی لجنہ کی منظوری حاصل کرلیں۔ ان کو جنہیں میری اجازت سے منظور کیا جائے گا مجلس مشاورت کا ایجنڈا بھیج دیا جائے وہ رائے لکھ کر پرائیویٹ سیکرٹری کے پاس بھیج دیں۔ میں جب ان امور پر فیصلہ کرنے لگوں گا تو ان آراء کو بھی مدِّ نظر رکھ لیا کروں گا۔ اس طرح عورتوں اور مردوں کے جمع ہونے کا جھگڑا بھی پیدا نہ ہو گا اور مجھے بھی پتہ لگ جائے گا کہ عورتیں مشورہ دینے میں کہاں تک مفید ثابت ہو سکتی ہیں۔ ان کی رائیں فیصلہ کرتے وقت مجلس میں سنا دی جائیں گی۔‘‘ (رپورٹ مجلس مشاورت 1930  ء صفحہ127)

1941ء تک اسی طریق پر عمل ہو تا رہا۔ لیکن جب آپ نے اس طریق میں کئی نقص محسوس کئے تو 1941ء کی مجلس شوریٰ میں اس میں تبدیلی کرتے ہوئے حسب ذیل فیصلہ فرمایا:

’’ایک ضروری بات میں لجنہ کی نمائندگی کے متعلق بھی کہنا چاہتا ہوں ہر سال لجنہ سے رائے لی جاتی ہے اور ہر سال اسے ردّی کی ٹوکری میں پھینک دیا جاتا ہے اور کبھی اسے مجلس شوریٰ میں پیش نہیں کیا جاتا۔ میری تجویز یہ ہے کہ آئندہ مجلس شوریٰ میں ایک لجنہ اماء اﷲ کا نمائندہ بھی ہوا کرے۔ اور بیرونی جماعتوں کی لجنات سے جو تجاویز پرائیوٹ سیکرٹری کو موصول ہوں وہ سب دفتر پرائیویٹ سیکرٹری لجنہ کے اس نمائندے کو پہنچا دیا کرے۔ اس نمائندے کا یہ فرض ہوگا کہ وہ ہر موقع پر لجنات کی رائے بھی پیش کرتا چلا جائے اور بتائے کہ فلاں لجنہ کی اس کے متعلق یہ رائے ہے اور فلاں کی یہ رائے۔ اس طرح نہ صرف ان کی آرا کا پتہ لگ جائے گا بلکہ ممکن ہے کہ بعض دفعہ کوئی لطیف اور مفید بات بھی معلوم ہوجائے۔ اور اگر اس طریق کا کوئی اور فائدہ نہ بھی ہوا تو بھی کم سے کم اس طرح یہ پتہ لگتا رہے گا کہ ہماری جماعت کی مستورات کی دینی ترقی کا کیا حال ہے جب ان کی آرا پڑھی جائیں گی تو اس وقت معلوم ہوگا کہ بعض دفعہ تو ان کی رائے نہایت ہی مضحکہ خیز ہوگی۔ جس سے ہم یہ اندازہ لگا سکیں گے کہ فلاں فلاں معاملہ میں عورتوں کو حالات کا بالکل علم نہیں اور بعض دفعہ ان کی رائے بہت اعلیٰ ہو گی جس سے ہم یہ اندازہ لگا سکیں گے کہ فلاں فلاں معاملہ میں عورتوں کا علم زیادہ پختہ ہے۔ تو ان کی آرا پڑھے جانے پر ہماری جماعت کے دوست ساتھ ساتھ یہ موازنہ بھی کرتے چلے جائیں گے کہ ہماری عورتوں کی دماغی اور ذہنی ترقی کس طرح ہو رہی ہے اور بعض دفعہ یہ بھی ممکن ہے کہ لوگ یہ دیکھ کر کہ عورتوں کی فلاں معاملہ میں جو ان کی ذات سے تعلق رکھتا ہے یہ رائے ہے وہ ان کا احترام کرتے ہوئے اپنی رائے بدل لیں اور انہی کے حق میں فیصلہ کردیں۔‘‘ (رپورٹ مجلس مشاورت 1941 ء صفحہ  118-117  از سوانح فضل عمر جلد 2 صفحہ 194  تا 196)

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

’’میں جماعت کے علم میں ایک بات لانی چاہتا ہوں کہ امسال لجنہ اماء اﷲ کی نمائندگی کا طریق کار تبدیل کیا گیا ہے اس سے پہلے یہ ہو تا تھاکہ مجلس لجنہ اماء اﷲ کا ایک نمائندہ مردوں میں سے ان کی آواز یہاں تک پہنچاتا تھا اور یہ نمائندہ رابطہ رکھنے کے لئے اگرچہ دشواری محسوس کرتا تھا مگر وہاںسے مختصر چٹیں آجاتی تھیں اور وہ چٹیں لے کر جو کچھ بھی سمجھ سکتا تھا ان سے وہ اپنا ما فی الضمیر بیان کرنے کی کوشش کرتا تھا۔

اس سلسلہ میں جو میں نے تحقیق کی ہے تو اس سے یہ معلوم ہوا کہ1929 ء میں پہلی دفعہ یہ مسئلہ جماعت کے سامنے آیا۔1929 ء کی مجلس شوریٰ میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اﷲ عنہ نے یہ معاملہ جماعت کے سامنے رکھا اور اس موضوع پر بہت لمبی بحثیںہوئیں۔ جماعت کے چوٹی کے علما دوحصوں میں منقسم تھے اور ایک معمولی اکثریت سے سب کمیٹی نے اس تجویز کے حق میں رائے دی کہ لجنہ اماء اﷲ یا احمدی مستورات کو مجلس شوریٰ میں خود بولنے کا حق ملنا چاہیے۔ اس کمیٹی کے اُنیس(19)  ممبر تھے۔ نو(9) ، نو (9) ، ممبر (Member) برابر بٹ گئے اور پریذیڈنٹ (President)نے اپنا ووٹ تجویز کے حق میں دیا اس طرح وہ منظوری کے لئے پیش ہوا اور وہاں بھی ایسی زبردست بحثیں ہوئیں کہ گویا وہ جماعت کا ماشاء اﷲایک علمی کارنامہ ہے۔ دونوں طرف کے چوٹی کے علما (جن میں بہت سے صحابہ بھی شامل تھے) نے ایسے ایسے باریک نکات نکالے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ دنیا کی کسی بھی مجلس کے لئے وہ بحث ایک قابل فخر بحث ہونی چاہیے۔ کوئی باریک سے باریک پہلو ایسا نہیں چھوڑا گیا جس پر احباب کی نظر نہ گئی ہو اور دونوں طرف سے یہ رائے پیش کی جارہی تھی (الا ما شاء اﷲ) کہ نصِّ صریح سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جماعت کی مجلس مشاورت میں عورتوں کو بولنے کا حق نہیں ملنا چاہئے اور نص صریح سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ملنا چاہئے۔ اب یہ بھی ایک صورت حال سامنے آتی ہے۔ اس کے جو بعض دلچسپ پہلو ہیں وہ میں آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔

ایک تو یہ کہ یہ واقعہ جماعت احمدیہ میںخلافت کی اہمیت کے احساس کا مظہر ہے میںنے یہ کہا کہ ’’احساس‘‘ ہے اس طرح کہنے سے میرا یہ مطلب نہیں کہ میں آپ کو احساس دلا رہا ہوں کہ بلکہ اطمینان دلا رہا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ نے آپ کے دل میں خلافت سے متعلق جو طمانیت عطا فرمائی ہے اس کے اظہار کا یہ ایک موقع تھا۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اﷲ عنہ نے جب اپنی رائے پیش کی تو دونوں طرف کے علما نے سو فیصدی حضور کے سامنے اپنی رائے چھوڑ کر سر تسلیم خم کر دیا، اور جماعت نے مکمل تعاون اور اطاعت کا ایک نمونہ دکھایا ۔ ایسا موقع اگر خلافت کے بغیر پیش آتا تو اس وقت دو فرقے پیدا ہو چکے ہوتے۔ ایک فرقہ کے نزدیک قرآن اور سنت کی رو سے عورتوں کا مردوں کی مجلس میں خطاب کرنا حرام قرار دیا جاتا اور دوسرے کے نزدیک حلال اور ضروری۔

پس یہ ایک تاریخی واقعہ ہے اور اس پر غور کرنے سے ہمیں اختلافات کے اسباب سمجھ آتے ہیں۔ دراصل خلافت کی برکت کے نہ ہونے کے نتیجہ میں مذہبی قوموں میں اختلاف پیدا ہوتے ہیں۔ اگر خلافت حقہ موجود ہو تو کسی اختلاف کا سوال ہی پیدا نہیں ہو تا دونوں فریق اپنی اپنی رائے دیانتداری سے پیش کرتے ہیں اور جب خلیفہ وقت اس پر محاکمہ کرتا ہے اور فیصلہ صادر کر دیتا ہے تو پھر وہ ایک ہی قوم کی رائے بن جاتی ہے۔ قومی وحدت کی حفاظت کے لئے ایسا کامل نظام دنیا کے پردہ پر آپ کو کہیں نظر نہیں آئے گا۔ اسے پڑھتے ہوئے ایک تو میرا دل حمد سے بھر گیا کہ اﷲ تعالیٰ نے کیسا پیارا اور پاکیزہ نظام اپنی توحید کے اظہار اور ملت میں وحدت پیدا کرنے کی خاطر ہمیں بخشا ہے۔ اسی لئے قرآن کریم نے آیت استخلاف سے یہ نتیجہ نکالا: یَعْبُدُوْنَنِیْ لَا یُشْرِکُوْنَ بِیْ شَیْئاًط (النور آیت:56) کہ اگر انعام خلافت تمہیں عطا ہو گا اور جب بھی عطا ہوگا تو اس کا آخری نتیجہ نکلے گا کہ یَعْبُدُوْنَنِیْ لَا یُشْرِکُوْنَ بِیْ شَیْئاً  وہ میری عبادت کریں گے اور میرے سوا کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔

پس جو آسمانی توحید قائم ہے وہ تو قائم ہے ہی۔ میری مراد یہ ہے کہ اس توحید کی برکت سے جماعت کو بھی ایک وحدت نصیب ہوگی اور ساری جماعت کا ایک ہی رُخ ہو گا۔

اس مسئلہ میں جو دوسرے امور قابل ذکر ہیں ان میں ایک نہایت ہی لطیف حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب رضی اﷲ عنہ نے پیش کیا آپ کی نگاہ نہایت باریک بین تھی اور اس نکتہ کو پیش کرنے میںآپ منفرد تھے۔

آپ نے فرمایا کہ مجلس شوریٰ کی دوحیثیتیں ہیں ایک یہ کہ وہ خلیفۂ وقت کو مخاطب کر کے مشورہ دیتی ہے اس حیثیت سے تو حق کا کوئی سوال ہی باقی نہیں رہتا اور یہ جو خطرات ظاہر کئے گئے ہیں کہ عورتوں کی اکثریت ہو جائے گی اور وہ فیصلوں کو کھینچ کر اپنی طرف لے جائیں گی یہ بالکل لغو اور بے معنی بات ہے کیونکہ اسلامی نظام شوریٰ میں تو صرف مشورہ ہی دیا جا تا ہے۔

لیکن شوریٰ کی ایک حیثیت یہ بھی ہے کہ خلیفۂ وقت فوت ہو جائے تو دوسرے خلیفہ کے انتخاب میں مجلس شوریٰ کو ایک کردار ادا کرنا ہوتا ہے اس وقت تک یہی شکل تھی۔ تو مجلس شوریٰ کی یہ حیثیت ایسی ہے جس پر غور ہونا چاہیے اور پہلی حیثیت کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں رکھتی۔ اس وقت یہ دیکھنا پڑے گا کہ مستورات کو اگر نمائندگی دی جائے تو کس حد تک دی جائے؟

حضرت مصلح موعود رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے جو محاکمہ فرمایا وہ بہت دلچسپ تھا آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا یہ جو دونوں طرف سے بحث اٹھائی گئی ہے یعنی نص صریح سے حرام ہونا یا نص صریح سے ضروری ہونا قرار دیا گیا ہے یہ دونوں باتیں بالکل بے محل اور بے معنیٰ ہیں۔ نص صریح سے صرف یہ پتہ چلتا ہے کہ نہ قرآن کریم روک رہا ہے نہ اس کا حکم دے رہا ہے بلکہ یہ ایک عقلی مسئلہ ہے اور اس نوعیت کا ہے کہ اگر اسلام نے عورت کو ایک حق سے محروم نہ کیا ہو اور جماعت اسے اس حق سے محروم کر دے گی تو اس کے نتیجہ میں جو خطرناک رجحانات بعد میں پیدا ہوں گے اور ہو سکتا ہے کہ کسی زمانہ میں دنیا کی عورت ایسے احکامات کے خلاف بغاوت کرے جو خدا تعالیٰ کے نہیں ہیں بلکہ بندوں کے بنائے ہوئے احکامات ہیں تو اس صورت میں اس کی ساری ذمہ داری ہمیشہ کے لئے اس مجلس شوریٰ پر پڑے گی۔ پس آپ نے بڑی عظیم الشان اور نہایت پر شوکت رنگ میں تنبیہہ کی۔

دوسری طرف آپ نے بڑے عزم کے ساتھ اس بات کا اعلان کیا کہ جہاں تک قرآنی احکامات کا تعلق ہے ان کے نفاذ میں میرے دل میں خوف کا شائبہ تک نہیں کہ قرآنی احکام کے نفاذ میں عورتیں اگر کوئی بغاوت کرتی ہیں تو اس سے کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ ہمیں کوڑی کی بھی پرواہ نہیں ہوگی یہ اﷲ کے کام ہیں ہم دیانتداری سے یہ فیصلہ کریںگے کہ اﷲ کی مرضی کیا ہے۔ وہ مرضی لازماً نافذ کی جائے گی اس کے نتیجہ میں اگر دنیا کی آزاد خیال عورتیں متنفر ہوتی ہیں یا بھاگتی ہیں تو ہم ذمہ دار نہیں ہیں یہ اﷲ تعالیٰ کے احکامات ہیں اور وہی ان کے نافذ کرنے کا ذمہ دار ہے اور اسی کو طاقت ہے کہ وہ ان کو نافذ کرے۔

پس آخری بات یہ ثابت ہوئی کہ یہ ایک عقلی مسئلہ ہے اورشریعت کے نام پر عورتوں کو نمائندگی کے حق سے محروم کرنا بہرحال جائز نہیں ہے اور جہاں تک حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اﷲ عنہ کی ذاتی رائے کا تعلق ہے وہ اس محاکمہ سے یہی معلوم ہوتی تھی کہ آپ رضی اللہ عنہ نہ صرف جائز سمجھتے تھے بلکہ یہ محسوس فرمارہے تھے کہ ایسا وقت آنے والا ہے کہ جب عورت کو اس قسم کے معاملات میں مردوں کے ساتھ شامل کرنا پڑے گا۔ چنانچہ اس کے ثبوت کے طور پر سب سے پہلی اجازت جو آپ رضی اللہ عنہ نے مستورات کو دی وہ اسی مجلس میں عمل میں لائی گئی تھی۔ آپ رضی اللہ عنہ نے مستقل دستور نہیں بنایا بلکہ فرمایا کہ فی الحال پہلے دستور کو جاری رہنے دیا جائے لیکن کسی کو یہ وہم ہو کہ شاید خلاف شرع ہے اس وہم کو دور کرنے کے لئے آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں لجنہ اماء اﷲ کی نمائندگان کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ بولیں لیکن کوئی نمائندہ نہیں بولا۔ پھر آپ رضی اللہ عنہ نے شاید یہ محسوس کیا کہ ہو سکتا ہے یہ خیال ہو کہ اپنے گھر کی مستورات کی آواز سننا شائد انہیں ناگوار گزرے اور مراد یہ ہے کہ کوئی بولے۔ تو اس وہم کو دور کیا اور فرمایا کہ میں اپنے گھر کی مستورات کو بھی کہتا ہوں کہ وہ بولنا چاہیں تو وہ بھی بولیں۔ پھر بھی خاموشی رہی پھر آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ دیکھو! ہمیشہ کے لئے تم ایک تاریخ بنا رہی ہو۔ مرد تمہارے حق میں بول رہے ہوں اور تم اپنے حق کو استعمال کرنے میں شرماؤ تو اس طرح تم ثابت کر دو گی کہ ہم اس بات کی اہل نہیں ہیں اس لئے میں تمہیں متنبہ کرتا ہوں اور چند منٹ دیتا ہوں اس کے اندر اندر بولنا ہے تو بول لو۔

چنانچہ وہ پہلی تاریخی عورت جس نے اس مجلس شوریٰ میں حصہ لیا وہ استانی نمونہ تھیں جو لجنہ اماء اﷲ کی بڑی ہی سرگرم کارکن تھیں اور ہمارے ایک واقف زندگی وکیل ملک غلام احمد صاحب عطا کی والدہ تھیں انہوں نے پھر ایک دو منٹ میں اپنے خیالات کا اظہار فرمایا۔

پس ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ پہلی مجلس مشاورت ہو گی جس میں عورت نے براہِ راست خطاب کیا ہو بلکہ تیسری مجلس مشاورت ہوگی۔ پہلی وہ تھی، دوسری وہ مجلس شوریٰ جو بیرونی دنیا کے نمائندگان پر مشتمل تھی جو کہ اسی جلسہ سالانہ پر منعقد ہوئی تھی۔ اس میں امریکہ اور افریقہ کی بعض نمائندہ خواتین نے براہِ راست اپنے مافی الضمیر کو پیش کیا تھا اور یہ یعنی موجودہ شوریٰ تاریخ احمدیت میں تیسری مجلس شوری ہے اور آئندہ سے انشاء اﷲ تعالیٰ اسی طریق کو جاری رکھا جائے گا۔

اس سلسلہ میں غلط فہمی جو گزشتہ بحث کے مطالعہ سے سامنے آتی ہے وہ دُور ہونی چاہئے۔ اور وہ اشارتاً تو حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب رضی اللہ عنہ نے بیان فرمادی لیکن کھل کر اس پر گفتگو نہیں ہوئی۔ اسلامی نظام شوریٰ عورت یا مرد کے مشورہ دینے کے حق کی بات ہی کہیں نہیں کرتا۔ بلکہ شوریٰ سے متعلق دو طرح کے اظہار ہیں۔ ایک ہے شَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْرِ۔ اس میں مشورہ لینے والے کو حکم ہے یعنی اسے جو یا خود رسول ہو یا رسول کی مسند خلافت پر بیٹھا ہو اس کی نمائندگی میں اسے ظلی طور پر یہ آیت مخاطب کرے گی۔ اس کے لئے حکم ہے فرض ہے کہ وہ لازماً مشورہ لے۔ جہاں تک آنحضرت ﷺ کا تعلق ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مشورہ لینے کی سب سے کم ضرورت تھی دنیا میں آج تک کبھی کوئی انسان مشورہ سے اتنا مستغنی نہیں ہوا جتنا کہ حضرت محمد مصطفی ﷺ تھے کیونکہ جہاں تک آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات کا تعلق ہے اپنی صلاحیتوں کا اور فطرت کی جلا کا تعلق ہے اس کے متعلق قرآن کریم فرماتا ہے کہ یہ تو ایسا نور تھا جو آسمانی شعلہ نور نازل نہ بھی ہوتا تب بھی بھڑک اٹھنے کے لئے تیار تھا یعنی آپ کی فطرت کامل طور پر پاکیزہ تھی۔

درحقیقت تقویٰ ہی عقل کا دوسرا نام ہے تو کامل متقی انسان جو اپنی بناوٹ کے لحاظ سے ایسا متقی ہو کہ اس پر الہام کا نور نازل نہ بھی ہوا ہو تب بھی وہ سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہو لازمی بات ہے کہ وہ دنیا میں سب سے کم مشورہ کا محتاج ہوتا ہے اور پھر یہ نور علی نور ہو کہ اس پر اﷲ تعالیٰ کے الہام کا شعلہ نازل ہو چکا ہو اور اسے نُوْرٌ عَلٰی نُوْرٍ بنا دیا ہو تو اسے مشورہ کی کیا ضرورت تھی۔

چنانچہ تاریخ اسلام سے ثابت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ہمیشہ جو فیصلہ دیا وہی درست ثابت ہوا اور جہاں بھی مشورہ قبول نہیں کیا وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے فیصلے درست ثابت ہوئے جہاں مشورہ قبول کیا لیکن یہ فرما کر کہ میری ذاتی رائے یہ نہیں تھی لیکن تم لوگوں کی وجہ سے میں مانتا ہوں وہ رائے غلط نکلی اور آنحضرت ﷺ کی رائے درست ثابت ہوئی۔

پس اس سے میں یہ نتیجہ نکالتا ہوں کہ بظاہر آنحضرت ﷺ کو مخاطب کیا گیا ہے لیکن اس سے بعد میں آنے والوں کو پابند کیا گیا ہے۔ یہ آیت یہ مضمون پیش کرے گی کہ اے بنی نوع انسان! دنیا میں وہ ایک شخص جو مشورہ لینے سے مستغنی قرار دیا جا سکتا تھا میں اسے بھی پابند کر رہا ہوں اس لئے بعد میں آنے والے کم تر انسان یہ وہم ہی دماغ سے نکال دیں کہ وہ بغیر مشورہ کے میرے منشا کے مطابق فیصلہ کر سکیں گے۔ لیکن ساتھ ایک ضمانت بھی دے دی۔ فرمایا: فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اﷲِ۔ کہ فیصلہ کی ذمہ داری اس نمائندہ پر ہو گی جو رسالت کا نمائندہ ہے اور مشورہ صرف اتنی حیثیت رکھے گا کہ فیصلہ کرنے والے تک ایک رائے پہنچ جائے۔ اس کے بعد چونکہ اس کے حکم کی اطاعت ہوگی اور پوری دیانتداری سے مشورہ لیا ہو گا تو پھر قرآن کریم اسے کہیں بھی مجلس شوریٰ کا فیصلہ قرار نہیں دیتا بلکہ فرماتا ہے۔ ’’فَاِذَا عَزَمْتَ‘‘ پھر فیصلہ تو ایک وجود نے کرنا ہے اور ہم تجھے یقین دلاتے ہیں کہ اس فیصلہ میں ہم تیرے ساتھ ہوں گے فَتَوَکَّلْ عَلَی اﷲِ پھر اپنے اﷲ پر بھروسہ رکھو اور جو فیصلہ ہو گا خدا تعالیٰ اس میں برکت ڈال دے گا اور تیرے ساتھ ہوگا یہ ہے اسلامی مجلس شوریٰ۔

پس یہ ساری بحثیں کہ عورت کا حق ہے یا نہیں یہ ساری باتیں لغو ہیں نہ مرد کا حق ہے نہ عورت کا حق ہے بلکہ خلیفہ وقت کا فرض ہے کہ وہ مشورہ طلب کرے۔ کن حالات میں اور کس طرح طرح طلب کرے؟ سنت نبوی سے یہ ثابت ہے کہ مختلف حالات میں مختلف طریق پر مشورے طلب کئے جاتے رہے۔ ایک جگہ یہ اعتراض کیا گیا کہ عورتوں اور مردوں سے اکٹھا مشورہ نہیں لیا گیا۔ ایسی مجلس شوریٰ نہ وہاں قائم تھی اور نہ کوئی ایسا موقع پیش آیا بلکہ ایسے مواقع پیش آتے رہے کہ مرد اور عورتوں کے معاملات الگ الگ ہوتے رہے اور ان پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم مشورہ طلب فرماتے رہے لیکن صلح حدیبیہ کے مقام پر جب مردوں نے ایک معاملہ میں ایسے حالات میں کہ ان کے قبضۂ قدرت میں بات نہیں رہی تھی ایسا طریق اختیار کیا کہ آنحضرت  ﷺ کے دل کو اس سے سخت صدمہ پہنچا تو وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت ہی سے مشورہ کیا یعنی حضرت اُمِّ سلمہ رضی اﷲ عنہا سے اور عورت ہی کا مشورہ سچا ثابت ہوا۔ اس لئے عورت کے مشورہ کو نظر انداز کرنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

پس جہاں تک اکٹھے مشورہ کا سوال ہے وہاں صرف یہ بحث اٹھتی تھی کہ ان مشوروں میں مرد کو عورت کی آواز سننی چاہئے یا نہیں تو وہ تاریخ اسلام سے ثابت ہے کہ آنحضرت ﷺ کی مجالس میں عورتیں حاضر ہوئیں انہوں نے اپنے مسائل بلکہ نجی مسائل پیش کئے اور ان کے راوی مرد موجود ہیں وہ گواہ کے طور پر تو نہیں بلائے گئے تھے بلکہ وہ اس مجلس میں خود موجود ہوتے تھے۔ عورتیں حاضر ہو کر اپنا مافی الضمیربیان کیا کرتی تھیں پھر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہ کا عام پبلک سے جو خطاب ہے وہ بھی تاریخ کا ایک حصہ ہے اس لئے یہ سارے توہمات ہیں۔

پس اصل بات یہی ہے کہ خلیفۂ وقت پابند ہے کہ وہ مشورہ لے اور حسب حالات جیسا کہ حضرت مصلح موعود رضی اﷲ عنہ نے محاکمہ فرمایا تھا۔ خلاصہ کلام یہ بنتا ہے کہ یہ عقلی مسئلہ ہے حالات کے مطابق عورت کا مشورہ نئی نئی شکلیں اختیار کرتا چلا جائے گا صرف ایک پہلو یہ باقی رہ جاتا ہے کہ عورت کے حق کا سوال نہیں بلکہ اس کو نمائندگی کس طریق پر دی جائے بحث یہ نہیں ہوگی کہ عورت کو نمائندگی کا حق کس طرح استعمال کرنا ہے بلکہ یہ کہ عورت سے مشورہ لینے کے لئے مجلس شوریٰ میں کیا طریق اختیار کیا جائے۔ میرے نزدیک اس کے لئے کسی تعداد کی تعیین کی ضرورت نہیں بلکہ خلیفۂ وقت حسب حالات جتنی مستورات کو جس شکل میں نمائندہ کے طور پر بلانا چاہے وہ بلاتا رہے گا اور اس کے لئے کسی قاعدہ کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ (رپورٹ مجلس مشاورت 1983ء صفحہ 49  تا 56)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

’’میری طبیعت خدا نے ایسی بنائی ہے کہ میں یہ سوچتا رہتا ہوں کہ کون سا کام کریں جس سے دنیا میں ہدایت پھیلے… وہ دن یا وہ سال جس میں جماعت کا قدم آگے نہ ہو میرے لیے دیکھنا مشکل ہو جاتا ہے… میری نظر اس بات پر پڑ رہی ہے کہ ہماری جماعت نے آج ہی کام نہیں کرنا بلکہ ہمیشہ کرنا ہے۔ دنیا کی انجمنیں ہوتی ہیں جو یہ کہتی ہیں آج کام کرکے دکھا دو اور لوگوں کے سامنے رپورٹ (report)پیش کر دو، مگر میں نے رپورٹ خدا کے سامنے پیش کرنی ہے ۔ اور خدا کی نظر اگلے زمانوں پر بھی ہے ۔ اس لیے مجھے یہ فکر ہوتی ہے کہ آج جو کام کررہے ہیں یہ آئندہ زمانے کے لیے بنیاد ہو۔ ہمارا کام یہ نہیں کہ دیکھیںہمارا کیا حال ہو گا بلکہ یہ ہے کہ جو کام ہمارے سپرد ہے اسے اس طریق پر چلائیں کہ خدا کو کہہ سکیں کہ اگر بعد میں آنے والے احتیاط سے کام لیں تو تباہ نہ ہوں گے۔ پس مجھے آئندہ کی فکر ہے اور میری نظر آئندہ پر ہے کہ ہم آئندہ کے لیے بنیاد رکھیں۔ جس کی نظر وسیع نہیں اسے تکلیف نظر آرہی ہے۔ مگر اس کی آئندہ نسل ان لو گوں پر جو یہ بنیادیں رکھیں گے درود پڑھے گی … وہ زمانہ آئے گا جب خدا ثابت کر دے گا، کہ اس جماعت کے لیے یہ کام بنیادی پتھر ہے۔‘‘ (رپورٹ مجلس مشاورت 1922  ء صفحہ 20)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے مجلس شوریٰ کے منصب اور جماعتی نظام میں اس کے مقام کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا:

’’خلیفۂ وقت نے اپنے کام کے دوحصے کیے ہوئے ہیں ایک حصہ انتظامی ہے اس کے عہدیدار مقرر کرنا خلیفہ کا کام ہے… دوسرا حصہ خلیفہ کے کام کا اصولی ہے اس کے لیے وہ مجلس شوریٰ کا مشورہ لیتا ہے۔ پس مجلس معتمدین انتظامی کاموں میں خلیفہ کی ایسی ہی جانشین ہے جیسی مجلس شوریٰ اصولی کاموں میں خلیفہ کی جانشین ہے۔‘‘ (رپورٹ مجلس مشاورت 1930ء)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے مجلس شوریٰ کے منصب اور جماعتی نظام میں اس کے مقام کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا:

’’مجلس شوریٰ ہو یا صدر انجمن احمدیہ، خلیفہ کا مقام بہر حال دونوں کی سرداری ہے۔ انتظامی لحاظ سے وہ صدر انجمن احمدیہ کا رہنما ہے اور آئین سازی اور بحث کی تعیین کے لحاظ سے وہ مجلس شوریٰ کے نمائندوں کے لیے بھی صدر اور راہنما کی حیثیت رکھتا ہے۔‘‘ (الفضل 27 / اپریل 1938ء)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے مجلس شوریٰ کے فیصلوں کی اہمیت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا:

’’مجلس شوریٰ میں جو فیصلہ ہو تا ہے اس کے یہ معنی ہیں کہ وہ خلیفہ کا فیصلہ ہے کیونکہ ہر امر کا فیصلہ مشورہ لینے کے بعد خلیفہ ہی کر تا ہے اس لیے ان فیصلوں کی پوری پوری تعمیل ہونی چاہیے۔ جب تک کام کرنے والوں میں یہ روح نہ ہو کہ جو حاکم ہو اس کے احکامات کی اطاعت کی جائے اس وقت تک ان کے حکم کا بھی کوئی احترام نہیں کرے گا۔‘‘ (رپورٹ مجلس مشاورت 1930ء صفحہ 36)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

’’آج بے شک ہماری مجلس شوریٰ دنیا میں کوئی عزت نہیں رکھتی مگر وقت آئے گا اور ضرور آئے گا جب دنیا کی بڑی سے بڑی پارلیمنٹوں (Parliments)کے ممبروں (Members)کو وہ درجہ حاصل نہ ہو گا جو اس کی ممبری کی وجہ سے حاصلہ ہو گا۔ کیونکہ اس کے ماتحت ساری دنیا کی پارلیمنٹیں (Parliments)آئیں گی۔ پس اس مجلس کی ممبری (Membership)بہت بڑی عزت ہے اور اتنی بڑی عزت ہے کہ اگر بڑے سے بڑے بادشاہ کو ملتی تو وہ بھی اس پر فخر کرتا اور وہ وقت آئے گا جب بادشاہ اس پر فخر کریں گے۔‘‘ (رپورٹ مجلس مشاورت 1928 ء صفحہ 15)

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اﷲ تعالیٰ بنصرہِ العزیز فرماتے ہیں:

’’نظام خلافت کے بعد دوسرا اہم اور مقدس ادارہ جماعت میں شوریٰ کا ادارہ ہی ہے۔ اور جب خلیفہ وقت اس لئے بلا رہا ہو اور احباب جماعت بھی لوگوں کو اپنے میں سے منتخب کر کے اس لئے بھیج رہے ہوں کہ جاؤ اﷲ تعالیٰ کی تعلیم دنیا میں پھیلانے، احباب جماعت کی تربیت اور دوسرے مسائل حل کرنے اور خدمت انسانیت کرنے کے لئے خلیفہ وقت نے مشوروں کے لئے بلایا ہے اس کو مشورے دو تو کس قدر ذمہ داری بڑھ جاتی ہے۔‘‘ (خطبات مسرور جلد دوم صفحہ 196)

شوریٰ اور نظام خلافت کا باہمی تعلق:

آیت:

وَالَّذِیْنَ اسْتَجَابُوْا لِرَبِّھِمْ وَاَقَامُواالصَّلٰوۃَ  وَاَمْرُھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْ  وَمِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقْوْنَo (سورۃ الشورٰی:39)
ترجمہ:  اور جو اپنے رب کی آواز پر لبیک کہتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور ان کا امر باہمی مشورہ سے طے ہو تا ہے اور اس میں سے جو ہم نے انہیں عطا کیا خرچ کرتے ہیں۔

حدیث:

عَنْ عُمَرَ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اَنَّہ قَالَ: لَا خِلَافَۃ اِلَّا عَنْ مَشْوَرَۃٍ (کنز العمال کتاب الخلافۃ مع الامارۃ)
ترجمہ: خلافت کا انعقاد مشورہ اور رائے لینے کے بغیر درست نہیں۔

حضرت مصلح موعود رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں:

’’ میرا مذہب ہے:  لَا خِلَافَۃَ اِلَّا بِالْمَشْوَرَۃِ۔خلافت جائز ہی نہیں جب تک اس میں شوریٰ نہ ہو‘‘۔ (منصب خلافت۔ انوار العلوم جلد 2 صفحہ25)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

’’دنیاوی مجالس مشاورت میں تو یہ ہوتا ہے کہ ان میں شامل ہونے والا ہر شخص کہہ سکتا ہے۔ کہ چاہے میری بات رد کردو مگر سن لو۔ لیکن خلافت میں کسی کو یہ کہنے کا حق نہیں۔ یہ خلیفہ کا ہی حق ہے کہ جو بات مشورہ کے قابل سمجھے اس کے متعلق مشورہ لے۔ اور شوریٰ کو چاہیے کہ اس کے متعلق رائے دے۔ شوریٰ اس کے سوا اپنی ذات میں اور کوئی حق نہیں رکھتی کہ خلیفہ جس امر میں اس سے مشورہ لے اس میں وہ مشورہ دے۔‘‘ (رپورٹ مجلس مشاورت 1930  ء صفحہ 43-42)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

’’مشورہ لینے کا حق اسلام نے نبی کو اور اس کی نیابت میں خلیفہ کو دیا ہے مگر کوئی یہ ثابت نہیں کر سکتا کہ نبی یا خلیفہ کے سامنے تجاویز پیش کرنے کا حق دوسروں کے لئے رکھا گیا ہے کوئی ایسی مثال نہیں مل سکتی کہ کسی نے اپنی طرف سے رسول کریم ﷺ کے سامنے تجویز پیش کی ہو ۔ اور اسے اپنا حق سمجھا ہو۔‘‘ (رپورٹ مجلس مشاورت 1930  ء صفحہ 7)

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

’’مکرم مولانا ابو العطا صاحب جالندھری نے اپنی رپورٹ کی ابتدا میں ایک تمہیدی نوٹ دیا تھا جس کے الفاظ یہ تھے کہ: ’’سب سے پہلے یہ وضاحت ضروری سمجھی گئی ہے۔ کہ تمام جماعتوں اور افراد پر اچھی طرح واضح رہے کہ مشورہ لینے کا حق نبی یا امامِ وقت کو دیا گیا ہے۔ قرآن مجید میں اﷲ تعالیٰ نے شَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْرِ فرمایا ہے۔ امام جس طریق پر اور جن افراد سے مشورہ لینا پسند کرے۔ اس کا اسے از روئے شریعت اختیار ہے۔ جماعتوں اور افراد کا یہ حق نہیں کہ کسی خاص طریق پر مشورہ دینے کا مطالبہ کریں۔ مجلس شوریٰ کو خلیفۂ وقت بلاتے ہیں۔ اور اس بارہ میں انہیں پورا اختیار ہے کہ جس طریق پر اور جن افراد سے اور جتنی تعداد سے مشورہ لینا چاہیں مشورہ لے سکتے ہیں۔ یہ وضاحت کرنا اس لئے ضروری سمجھا گیا تا کسی نئے احمدی کے ذہن میں مغربی طرزِ فکر کے ماتحت پارلیمنٹوں (Parliments)کے طریق پر نمائندگی کے حق کا سوال پیدا نہ ہو۔‘‘

اس تمہیدی نوٹ پر حضرت ضلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

’’جہاں تک مجلس شوریٰ کا سوال ہے وہی فقرہ درست ہے جو مکرم ابو العطا صاحب نے اپنے تمہیدی نوٹ میں لکھا ہے۔ کیونکہ یہ فیصلہ کرنا کہ کسی مجلس کو مشورہ کے لئے قائم کیا جائے یا نہ کیا جائے یہ جماعت کا حق نہیں ہے بلکہ خلیفۂ وقت کا حق ہے۔ اگر آپ اسے جماعت کا حق فرض کر لیں تو ساتھ ہی ہمیں اس وقت یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ حضرت خلیفۂ اوّل رضی اللہ عنہ نے جماعت کو یہ حق نہیں دیا کیونکہ انہوں نے اس قسم کی مجلسِ شوریٰ بلائی ہی نہیں اور اس طرح آپ رضی اللہ عنہ نے جماعت کا ایک حق مار لیا (نعوذ باﷲ)، جو غلط بات ہے۔ اور پھر اس کا نتیجہ فوراً یہ نکلتا ہے کہ حضرت خلیفۂ ثانی رضی اﷲ عنہ1914ء میں مسندِ خلافت پر بیٹھے اور پہلی مجلس شوریٰ 1922ء میں منعقد ہوئی۔ اگر مجلس شوریٰ کا قیام جماعت کا حق تسلیم کیا جائے تو 1914ء سے 1922ء تک آپ رضی اللہ عنہ نے قوم کو اس کا حق نہیں دیا ۔ اور یہ بالکل غلط بات ہے ان کا حق تھا ہی نہیں۔ اس لئے حق دینے یا نہ دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

غرض جہاں تک مجلس شوریٰ کا سوال ہے اسے کس شکل میں بلایا جائے اس کی نمائندگی کا کیا طریق ہو۔ انتخاب کس اصول پر ہو وغیرہ۔ یہ تمام باتیں ایسی ہیں جن کا فیصلہ کرنا خلیفۂ وقت کا کام ہے اور اس کے متعلق خلیفۂ وقت مشورہ لیتا ہے۔ وہ مشورہ کے بعد اکثریت کے حق میں فیصلہ کر رہا ہو یا اکثریت کے خلاف فیصلہ کر رہا ہو۔ یہ علیحدہ بات ہے لیکن بہر حال وہ مشورہ لیتا ہے اور کام کرتا ہے۔‘‘ (رپورٹ مجلس مشاورت 1967  ، صفحہ 244 تا247 )

حضرت مصلح موعود رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:

’’خلیفہ کا طریق حکومت کیا ہو؟ خدا تعالیٰ نے اس کا فیصلہ کر دیا ہے۔ تمہیں ضرورت نہیں کہ تم خلیفہ کے لئے قواعد اور شرائط تجویز کرو یا اس کے فرائض بتاؤ۔ اﷲ تعالیٰ نے جہاں اس کے اغراض و مقاصد بتائے ہیں قرآن مجید میں اس کے کام کا طریق بھی بتادیا ہے:  وَ شَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْرِ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اﷲِ۔ایک مجلس شوریٰ قائم کرو، ان سے مشورہ لے کر غور کرو پھر دعا کرو جس پر اﷲ تعالیٰ تمہیں قائم کر دے اس پر قائم ہو جاؤ۔ خواہ وہ اس مجلس کے مشورہ کے خلاف بھی ہو۔ تو خدا تعالیٰ مدد کرے گا۔‘‘ (منصب خلافت۔ انوارالعلوم جلد 2 صفحہ 56)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

’’یہ نہیں کہ ووٹ لیے جائیں اور ان پر فیصلہ کیا جائے بلکہ جیسا اسلامی طریق ہے کہ مختلف خیالات معلوم کیے جائیں اور مختلف تجاویز کے پہلو معلوم ہوں تاکہ ان پر جو مفید باتیں معلوم ہوں وہ اختیار کر لیں۔ اس زمانہ کے لحاظ سے یہ خیال پیدا ہونا کہ کیوں رائے نہ لیں اور ان پر فیصلہ ہو۔ مگر ہمارے لیے دین نے یہی رکھا ہے کہ ایسا ہو : فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اﷲِ مشورہ لو مگر جب ارادہ کر لو تو پھر اس بات کو کر لو۔ یہ نہ ہو کہ لوگ کیا کہیں گے۔ اور اسلام میں ایسا ہی ہو تا رہا ہے۔ جب ایران پر حملہ کیا گیا تھا تو دشمن نے ایک پل کو توڑ دیا اور بہت سے مسلمان مارے گئے تھے۔ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے لکھا کہ مسلمان تباہ ہو جائیں گے۔ اگر جلد فوج نہ آئے گی تو عرب میں دشمن گھس آئیں گے۔ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے رائے طلب کی تو سب نے کہا خلیفہ کو خود جانا چاہیے۔ حضرت علی رضی اﷲ عنہ خاموش رہے۔ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کو ان کی خاموشی پر خیال آیا اور پوچھا آپ کیوں چپ ہیں؟ کیا آپ اس رائے کے خلاف ہیں؟ انہوں نے کہا کہ ہاں میں خلاف ہوں۔ پوچھا کیوں تو کہا اس لیے کہ خلیفہ کو جنگ میں شامل نہیں ہونا چاہیے اس کا کام یہ ہے کہ لڑنے والوں کو مدد دے۔ جو قوم ساری طاقت خرچ کر دے اور جسے مدد دینے کے لیے کوئی نہ رہے تو وہ تباہ ہو جاتی ہے۔ اگر آپ کے جانے پر شکست ہو گئی تو پھر مسلمان کہیں نہ ٹھہر سکیں گے اور عرب پر دشمنوں کا قبضہ ہو جائے گا۔ اس پر حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نہ گئے اور انہی کی بات مانی گئی۔ تو مشورہ کی غرض ووٹ لینے نہیں بلکہ مفید تجاویز معلوم کرنا ہے۔ پھر چاہے تھوڑے لوگوں کی اور اور چاہے ایک ہی کی بات مانی جائے۔ پس صحابہ رضی اللہ عنہم کا یہ طریق تھا اور یہی قرآن سے معلوم ہو تا ہے اور عارف کے لیے یہ کافی ہے۔‘‘ (رپورٹ مجلس مشاورت 1922  ء صفحہ 8  تا 13)

حضرت مرزا طاہر احمد صاحب خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ، حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے کثرت رائے سے اختلاف کے متعلق تحریر فرماتے ہیں:

’’نمائندگانِ شوریٰ کی کثرت رائے سے اختلاف کی چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں۔ جہاں جہاں بھی حضرت خلیفۃ المسیح الثانی حضرت مرزا بشیر الدّین محمود احمد رضی اللہ عنہ نے کثرتِ رائے سے اختلاف کیا تو اس اختلاف کی وجہ بیان فرمائی۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ نہ صرف اس وقت کے حاضر ممبران آپ رضی اللہ عنہ کی رائے سے دلی طور پر مطمئن ہوگئے بلکہ آج بھی ہر معقول آدمی ان معاملات پر نظر ڈال کر یقینا اس فیصلہ تک پہنچے گا کہ آپ رضی اللہ عنہ کا کثرتِ رائے کو قبول نہ کرنا نہ صرف معقول اور مناسب تھا بلکہ ایسا نہ کرنا قومی مفادات کے لئے مضر ثابت ہوتا۔ کہیں ایک جگہ بھی محقق آپ رضی اللہ عنہ کے اختلافِ رائے میں آمریت کا شائبہ تک نہ پائے گا۔ یہ تمام امور جماعت احمدیہ کے ریکارڈ میں موجود اور رسائل و جرائد میں شائع شدہ ہیں۔ اور ہر دلچسپی رکھنے والے کو دعوتِ فکر و نظر دے رہے ہیں۔ چند مثالیں پیش خدمت ہیں۔

اوّل: مجلسِ شوریٰ میں یہ تجویز پیش ہوئی تھی کہ صوبائی امیر جمعہ کے روز اگر کہیں موجود ہوں اور وہاں کا امیر مقامی کوئی اَور شخص ہو تو جمعہ کے پڑھانے کا اصل حق امیرِ مقامی کا ہو گا۔ البتہ صوبائی (Provincial)امیر، مقامی(Local)  امیر کو اطلاع دے کر حسب ضرورت جمعہ پڑھا سکے گا۔ اس تجویز کے متعلق جب رائے شماری ہوئی تو اکثریت نے اس کے حق میں رائے دی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اﷲ عنہ نے اکثریت کے اس فیصلہ پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا:

’’میں سمجھتا ہوں کہ اس معاملہ میں اکثریت کی رائے درست نہیں ہے میرے نزدیک جب تک یہ عہدے الگ الگ ہیں اس وقت تک یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ جہاں پراونشل (Provincial) امیر ہو وہاں اسے اپنے خیالات کے اظہار اور ان کی اشاعت کے لئے کوئی موقع حاصل ہونا چاہیے۔ مجھے تو یہ ذریعہ حاصل ہے کہ اخبار ہے اور اخبار والے میری تقریرں اور خطبے نوٹ کر کے شائع کرتے اور جماعت تک پہنچاتے ہیں مگر صوبہ کی جماعتوں کے امرا کو یہ ذریعہ حاصل نہیں کہ ایک جگہ اپنے جن خیالات کا وہ اظہار کریں وہ سارے صوبہ کی جماعتوں تک پہنچ جائے اس لئے باوجود اس کے کہ اکثریت دوسری طرف گئی ہے میں یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ اپنے صوبہ میں جہاں بھی پراونشل (Provincial)امیر ہو جمعہ کا خطبہ دینے کا حق اسے مقدم طور پر حاصل ہوگا۔ اس کی موجودگی میں اس کی اجازت سے لوکل (Local) امیر یا کوئی اور شخص خطبہ پڑھا سکتا ہے۔ ہاں جہاں پر پراونشل (Provincial) امیر موجود نہ ہو یا اس غرض کے لئے کوئی دوسرا امام مرکز سلسلہ کی طرف سے مقرر نہ ہو تو خطبہ دینے کا اوّل حق لوکل (Local) امیر کو حاصل ہو گا۔‘‘

ثانیاً:  مجلس شوریٰ میں یہ تجویز پیش تھی کہ کراچی اور لاہور اور راولپنڈی کو مقامی ضروریات کے لئے ان کے چندوں کا تیسرا حصّہ بطور گرانٹ دیا جائے۔ جماعت کے مالی حالات کے لحاظ سے یہ تجویز اپنی موجودہ صورت میں درست نہ تھی لیکن اس تجویز کو اپنے اختیارات کے تحت ردّ کرنے کی بجائے آپ رضی اللہ عنہ نے اس تجویز کے ناموزوں ہونے کے دلائل دیئے اور اس کے نقصان دِہ پہلوؤں کی جماعت کے نمائندگان کے سامنے وضاحت فرمائی۔ چنانچہ اس تجویز پر تبصرہ کرتے ہوئے آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

’’چندوں کو مدِّنظر رکھتے ہوئے اگر اس تجویز کو منظور کر لیا جائے تو قریباً دو لاکھ روپیہ بجٹ آمد سے کم ہو جاتا ہے۔ ہمارا کل بجٹ بارہ لاکھ ننانوے ہزار کا ہے اور اگر یہ دو لاکھ روپیہ اس سے نکال دیا جائے تو آمد دس لاکھ ننانوے ہزار بلکہ اس سے بھی کم رہ جاتی ہے۔ اور اس دس لاکھ ننانوے ہزار روپیہ کی آمد سے بارہ لاکھ ننانوے ہزار کے اخراجات چلانا کسی انجمن کی طاقت سے باہر ہے۔ درحقیقت یہ بحث اخراجات کی کمیٹی کے سامنے اٹھانی چاہئے تھی کہ اس قدر اخراجات کم کر دیئے جائیں۔ کالج بند کر دو۔ زنانہ کالج بند کردو۔لنگر خانہ بند کر دو۔ نظارت امور عامہ بند کردو۔ نظارت اصلاح و ارشاد کے کارکنوں کو رخصت کر دو اور اخراجات کے بجٹ کو دس لاکھ ننانوے ہزار پر لے آؤ۔ ورنہ یہ کہ خرچ تووہی رکھو آمد تقسیم کر لو یہ وہی بات ہے جیسے کوئی ایک ناممکن چیز کی خواہش کرے یا جیسے بچے روتے ہیں تو کہتے ہیں ستارے دے دو۔ دس لاکھ ننانوے ہزار میں بارہ لاکھ ننانوے ہزار کے اخراجات کا بجٹ پورا کرنا بھی ستارے لانے والی بات ہے یہ ایک ناممکن العمل بات ہے اس لئے اس تجویز پر رائے دیتے وقت سوچ لیا جائے کہ آیا اس بجٹ کو نامنظور کیا جائے یا رہنے دیا جائے کیونکہ تخفیف کے بعد خرچ نہیں چل سکتا۔ کہا گیا ہے کہ اس کی ضرورت ہے ۔ ٹھیک ہے اس کی ضرورت ہے لیکن اگر کوئی ضرورت ہو تو اس کے لئے آمد بڑھائی جانی چاہئے۔‘‘

’’دعائیں کرتے رہو اﷲ تعالیٰ کو سب طاقت ہے اور وہ سب برکتیں دے سکتا ہے۔ ایک وقت وہ تھا کہ جب مجھے خلیفہ بنایا گیا۔ تو خزانہ مقروض تھا اور اس میں صرف اٹھارہ آنے تھے اور اب آپ کا بجٹ تحریک کے سالانہ بجٹ کو ملا کر انتیس لاکھ روپے کا ہے۔ اب دیکھو کجا اٹھارہ آنے اور کجا اُنتیس لاکھ روپیہ۔ تو اﷲ تعالیٰ میں بڑی طاقت ہے۔‘‘

(رپورٹ مجلس مشاورت 1957ء صفحہ 83 تا 91 از سوانح فضل عمر جلد 2 صفحہ201  تا203)

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

’’مشورہ صحیح وہی نہیں ہوا کرتا جو آخر میں منظور ہو جائے بلکہ ہر وہ مشورہ( خواہ وہ مانا جائے یا نہ مانا جائے) جو دیانتداری کے ساتھ ، خلوص کے ساتھ اور نیک نیتی کے ساتھ آپ پیش کرتے ہیں وہ صحیح مشورہ ہے۔ اور میں یہاں اس لئے حاضر ہوا ہوں کہ آپ کے مشوروں کو سننے کے بعد جب میں کسی نتیجہ پر پہنچوں اور کسی کام کے کرنے کا ارادہ اور عزم کروں تو محض اپنے رب پر توکل رکھتے ہوئے اور اس کی زندہ طاقتوں اور زندہ قدرتوں پر یہ امید رکھتے ہوئے کہ میری کوشش میں جو میں کروں یا کرواؤں، وہ برکت ڈالے گا۔ میں وہ عزم کروں اور دل میں دعا کروں کہ اﷲ تعالیٰ ان نیک کاموں میں ہماری راہبری بھی کرے کیونکہ مشوروں میں جہاں اس کی ہدایت کی ضرورت ہے۔ وہاں عمل میں بھی اس کی ہدایت کی ضرورت ہے اور وہ ہماری حقیر کوششوں میں برکت ڈالے اور ان کے ایسے شاندار نتائج نکالے جو اس کی نگاہ میں بھی شاندار ہوں۔ (رپورٹ مجلس مشاورت 1967  ء صفحہ 6)

سیدنا حضرت اقدس خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اﷲ تعالیٰ نے سورہ آل عمران آیت 160 کی تلاوت کے بعد فرمایا:

’’اس آیت کی تلاوت میں نے اس لئے کی ہے کہ آج کل جو مارچ کا موسم ہے اس میں جماعت احمدیہ عالمگیر میں کثرت سے مجالس شوریٰ منعقد کی جاتی ہیں۔ بعض مجبوریوں کی وجہ سے تاخیر سے بھی کرتے ہیں مگر یہ وہ موسم ہے جس میں اکثر مجالس شوریٰ کا انعقاد ہوتا ہے اور یہ جو ادارہ ہے اﷲ تعالیٰ کے فضل سے سب دنیا میں مستحکم ہو چکا ہے۔ زیادہ سے زیادہ ہماری کوشش ہے کہ بڑے بڑے ملکوں کے علاوہ چھوٹے ملکوں میں بھی نظام شوریٰ قائم کیا جائے کیونکہ یہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی سنت تھی کہ آپؐ مشورہ کیا کرتے تھے حالانکہ اگر انسانوں میں سے کسی کو سب سے کم مشورے کی ضرورت ہے تو وہ آنحضرت ﷺ کو تھی کیونکہ خدا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نگہبان تھا، خدا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت فرمایا کر تا تھا اور اس کے باوجود مشورہ کرنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت تھی جسے کبھی بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ترک نہیں کیا۔ تو عملاً مجالس شوریٰ کا انعقاد اس زمانے میں تو تقریباً ہر روزہی ہوا کر تا تھا یعنی جس سے بھی رسول اﷲ ﷺ پسند فرماتے اس سے مشورہ کر لیا کرتے تھے۔ اس کو باقاعدہ انسٹیٹیوٹ  (Institute) بنا کر جماعت احمدیہ میں رائج کیا گیا ہے اور مرکزی بات جو بنیادی بات ہے وہ میں یہ بتانی چاہتا ہوں کہ اس میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے: فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنْتَ لَھُمْ ج وَ لَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ ص فَاعْفُ عِنْہُمْ وَ اسْتَغْفِرْلَہُمْ وَ شَاوِرْہُمْ فِی الْاَمْرِ ج فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ ط اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُتَوَکِّلِیْنَ۔ کہ مشورہ تو کرنا ہے اس لئے کہ تیری بات، تیرے وجود، تیری ہر چیز سے یہ محبت کرتے ہیں اور تیرا بہت نرم دل ہے اور تیری طرف جھکے رہتے ہیں تو مشورہ سے ان کو ایمانی تقویت نصیب ہوتی ہے لیکن فیصلہ تونے کرنا ہے۔ مشورہ جو بھی ہے اس سے قطع نظر کہ وہ کیا مشورہ ہے آخری فیصلہ تیرا ہے۔ پس صلح حدیبیہ کے موقع پر دیکھئے کہ تمام صحابہ کا ایک ہی مشورہ تھا کہ چاہے قتل و غارت کرنا پڑے، اپنے خون سے ہولی کھیلنی پڑے لیکن ہم ضرور خانہ کعبہ حج پر جائیں گے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رؤیا پوری ہو گی جس میں کسی سال کا کوئی ذکر نہیں تھا مگر صحابہ نے یہی سمجھا کہ اسی سال یہ رؤیا پوری ہونی ہے۔ اس وقت بھی حضور اکرم ﷺ نے تمام صحابہ کا مشورہ ترک فرما دیا، نظر انداز فرما دیا اور اس میں کوئی بھی استثنا نہیں تھا۔ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہ جب عزم کر لیا تو پھر اﷲ پر ہی توکل کے نتیجے میں صلح حدیبیہ سے ہی پھر آئندہ ساری فتوحات کی بنیاد ڈالی گئی اور عظیم الشان صلح کی شرائط تھیں جس نے اگلے زمانے کی گویا کایا پلٹ دی۔

تو اس پہلو سے میں سب شوریٰ میں شامل لو گوں کو یہ نصیحت کر تا ہوں کہ مجلس شوریٰ میں جو فیصلے ہوتے ہیں ان میں فیصلوں سے زیادہ لفظ مشورے کا اطلاق ہونا چاہئے جو مجلس شوریٰ کی جان ہے۔ فیصلہ ہوتا ہی کوئی نہیں۔ مشورے ہوتے ہیں اور جو کثرت رائے سے مشورے ہوں ان کو پھر امیر کی معرفت خلیفۃ المسیح کے سامنے پیش کر دیا جا تا ہے اور پھر وہاں فیصلہ ہو تا ہے۔ پس آپ بھی اس طریقے کو چمٹے رہیں کیونکہ اسی میں برکت ہے اسی میں جماعت کی زندگی کا راز ہے۔ مجلس شوریٰ ایک بہت بڑا احسان ہے اﷲ تعالیٰ کا جو خدا تعالیٰ نے یہ نظام ہمارے اندر جاری فرما کے ہمیں ایک ہاتھ پر باندھ دیا۔ تو میں امید رکھتا ہوں کہ اس اصول کو پیش نظر رکھتے ہوئے آپ ہر جگہ مشورے کریں گے اور توکل اﷲ پر ہی کریں گے۔ جب فیصلہ جماعت کی طرف سے کیا جائے تو پھر توکل کا مقام ہے اور خدا تعالیٰ کبھی بھی اس توکل کو ضائع نہیں فرماتا۔‘‘ (خطبہ جمعہ فرمودہ 24  مارچ 2000ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

’’جماعت احمدیہ میں مجلس مشاورت کا نظام نظامِ خلافت سے وابستہ اور اس پر منحصر ہے اور جماعت احمدیہ کے نزدیک خلیفۃ المسیح شَاوِرْ ھُمْ فِی الْاَمْرِ کے مخاطب کی حیثیت سے جب چاہے اور جس رنگ میں چاہے مشورہ کے لیے صائب الرائے احباب کو دعوت دے سکتا ہے۔

ہر ایسے مشورہ کی ابتدا دعاؤں اور ذکر الٰہی کے ساتھ ہوتی ہے تاکہ فیصلہ کرتے وقت اﷲ تعالیٰ کا خوف اور تقویٰ مدنظر رہے اور اس کی نصرت اور رہنمائی شامل حال رہے۔

ہر وہ شخص جسے کوئی مشورہ پیش کرنا ہو اسے پوری آزادی ہے کہ باجازت صدر مجلس بے تکلفانہ رائے کا اظہار کرے لیکن ضروری ہے کہ اس مشورہ میں اصل مخاطب حاضرین مجلس نہ ہوں بلکہ خلیفۃ المسیح ہوں۔ بعد مشورہ خلیفۃ المسیح کو پورا اختیار ہے کہ خواہ کثرت رائے کے مشورہ کو قبول کریں یا رد کر دیں۔ یہ جماعت کی مجلس مشاورت کے نظام کا اصولی خلاصہ ہے۔‘‘ (سوانح فضل عمر جلد 2 صفحہ 193,192)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

’’وہ لوگ جو جماعت احمدیہ کے اس روحانی نظام کو دنیاوی پیمانوں سے جانچتے ہیں اور اس امر پر تعجب کا اظہار کرتے ہیںکہ اگر خلیفۂ وقت کو آرا کو رد کرنے کا آخری اختیار حاصل ہے تو ایسے مشورہ کا فائدہ ہی کیا اور اس طریق مشورہ کو محض ایک پردہ سمجھتے ہیں جو گویا آمریت کو چھپائے ہوئے ہے۔ ان کے لیے مجلس مشاورت جماعت احمدیہ کی کارروائیوں کا مطالعہ یقینا آنکھیں کھولنے کا باعث بن سکتا ہے۔ وہ حیرت سے اس حقیقت کا مشاہدہ کریں گے کہ خلیفۂ وقت 99 فیصدی سے زائد مرتبہ کثرتِ رائے کی تائید کرتا ہے اور جب کثرتِ رائے سے اختلاف کرتا ہے تو ایسے قوی دلائل اپنے مؤقف کی تائید میں پیش کرتا ہے کہ کثرت رائے ہی نہیں تمام مجلس بالاتفاق خلیفۂ  وقت کی رائے کی فضیلت کی قائل ہو جاتی ہے۔ گویا یہ ایک ایسی مجلس مشاورت ہے جس کا آخری نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ یا تو مشوروں کو قبول یا رد کرنے کا اختیار رکھنے والا عوامی نمائندوں کی آرا سے متفق ہو یا عوامی نمائندے بشرح قلب اس فیصلہ کرنے والے کے فیصلہ سے مطمئن ہوں۔ دنیا کے پردے پر ایسے عظیم طوعی اتفاقِ نظر وفکر کی کوئی مثال نظر نہیں آسکتی۔ مزید برآں تربیت یہ کی گئی ہے اور واقعتا اس طریق کار پر سو فیصدی عمل بھی ہے کہ جن دوستوں کی آرا کو کثرت رائے نے رد کر دیا ہو وہ آخری فیصلہ کے بعد عملدرآمد کے وقت اپنی رائے کو اتنی بھی اہمیت نہیں دیتے جو ردی کی ٹوکری میں پھینکے ہوئے ایک کاغذ کے پرزے کو ہوسکتی ہے بلکہ بلا استثنا اپنی تمام استعدادوں کے ساتھ کثرت رائے کے اس فیصلہ پر بشرح صدر عمل پیرا ہو جاتے ہیں جسے خلیفۂ وقت کی منظوری حاصل ہو۔‘‘ (سوانح فضل عمر جلد 2 صفحہ 200, 199)

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اﷲ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:

’’خلیفہ وقت یہ حسن ظن رکھتا ہے کہ ممبران نے بڑے غور سے سوچ سمجھ کر کسی معاملے میں رائے قائم کی ہوگی اور عموماً مجلس شوریٰ کی رائے کو اس وجہ سے من و عن قبول کر لیا جاتا ہے، اسی صورت میں قبول کر لیا جا تا ہے۔ سوائے بعض ایسے معاملات کے جہاں خلیفہ وقت کو معین علم ہو کہ شوریٰ کا یہ فیصلہ ماننے پر جماعت کو نقصان ہو سکتا ہے اور یہ بات ایسی نہیں ہے کہ قرآن کریم کی تعلیم کے خلاف ہے یا اس سے ہٹ کر ہے کیونکہ اﷲ تعالیٰ نے اس کی اجازت دی ہوئی ہے۔

دوسری جگہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے۔

وَشَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْرِ۔ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اﷲِ (سورۃ آل عمران آیت:160) یعنی اور ہر اہم معاملے میں ان سے مشورہ کر ( نبی کو یہ حکم ہے) پس جب کوئی فیصلہ کر لے تو پھر اﷲ پر توکل کر۔ یعنی یہاں یہ تو ہے کہ اہم معاملات میں مشورہ ضروری ہے، ضرور کرنا چاہئے اور اس حکم کے تابع آنحضرت ﷺ بھی مشورہ کیا کرتے تھے بلکہ اس حد تک مشورہ کیا کرتے تھے کہ حضرت ابو ہریرہ  رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرت ﷺ سے زیادہ کسی کو اپنے اصحاب سے مشورہ کرتے نہیں دیکھا۔

تو یہ حکم الٰہی بھی ہے اور سنت بھی ہے اور اس حکم کی وجہ سے جماعت میں بھی شوریٰ کا نظام جاری ہے۔ لیکن ساتھ ہی اﷲ تعالیٰ نے یہ بھی فرمادیا کہ مشورہ تو لے لو لیکن اس مشورے کے بعد تمام آرا آنے کے بعد جو فیصلہ کر لو تو ہو سکتا ہے کہ بعض دفعہ یہ فیصلہ ان مشوروں سے الٹ بھی ہو۔ تو فرمایا جو فیصلہ کر لو پھر اﷲ تعالیٰ پر توکل کرو کیونکہ جب تمام چھان پھٹک کے بعد ایک فیصلہ کر لیا ہے پھر معاملہ خدا تعالیٰ پر ہی چھوڑنا بہتر ہے  اور جب اے نبی ! تو نے معاملہ اﷲ تعالیٰ پر چھوڑ دیا تو اﷲتعالیٰ خود اپنے نبی کی بات کی لاج رکھے گا۔ اور انشاء اﷲ اس کے بہتر نتائج ظاہر ہوں گے۔

جس طرح تاریخ میں ہے کہ جنگ بدر کے موقع پر قیدیوں سے سلوک کے بارے میں اکثریت کی رائے ردّ کرکے آنحضرت ﷺ نے صرف حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی رائے مانی تھی، پھر بعض دفعہ دوسری جنگوں کے معاملات میں صحابہ کے مشورہ کو بہت اہمیت دی جنگ اُحد میں ہی صحابہ کے مشورے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  وہاں گئے تھے ورنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پسند نہ کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تو یہ خیال تھا کہ مدینہ میں رہ کر مقابلہ کیا جائے اور جب اس مشورہ کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہتھیار بند ہو کر نکلے تو صحابہ کو خیال آیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضی کے خلاف فیصلہ ہوا ہے، عرض کی یہیں رہ کر مقابلہ کرتے ہیں۔ تب آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ نہیںنبی جب ایک فیصلہ کر لے تو اس سے پھر پیچھے نہیں ہٹتا، اب اﷲ پر توکل کرو اور چلو۔ پھر یہ بھی صورت حال ہوئی کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر تمام صحابہ رضی اللہ عنہم کی متفقہ رائے تھی کہ معاہدہ پر دستخط نہ کئے جائیں لیکن آنحضرت ﷺ نے ان سب کی رائے کے خلاف اس پر دستخط فرما دیئے۔ اورپھر دیکھیں اﷲ تعالیٰ نے اس کے کیسے شاندار نتائج پیدا فرمائے۔ تو مشورہ لینے کا حکم تو ہے تاکہ معاملہ پوری طرح نتھر کر سامنے آجائے لیکن ضروری نہیں ہے کہ مشورہ مانا بھی جائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی پیروی میں ہی ہمارا نظام شوریٰ بھی قائم ہے، خلفا مشورہ لیتے ہیں تاکہ گہرائی میں جاکر معاملات کو دیکھا جا سکے لیکن ضروری نہیں ہے کہ شوریٰ کے تمام فیصلوں کو قبول بھی کیا جائے اس لئے ہمیشہ یہی ہوتا ہے کہ شوریٰ کی کارروائی کے آخر پر معاملات زیر غور کے بارے میں جب رپورٹ پیش کی جاتی ہے تو اس پر یہ لکھا ہو تا ہے کہ شوریٰ یہ سفارش کرتی ہے، یہ لکھنے کا حق نہیں ہے کہ شوریٰ یہ فیصلہ کرتی ہے۔ شوریٰ کو صرف سفارش کا حق ہے۔ فیصلہ کرنے کا حق صر ف خلیفۂ وقت کو ہے۔ اس پر کسی کے ذہن میں یہ بھی سوال اٹھ سکتا ہے کہ پھر شوریٰ بلانے کا یا مشورہ لینے کا فائدہ کیا ہے، آج کل کے پڑھے لکھے ذہنوں میں یہ بھی آجاتا ہے تو جیسا کہ میں پہلے بھی کہہ آیا ہوں کہ مجلس مشاورت ایک مشورہ دینے والا ادارہ ہے۔ اس کا کردار پارلیمنٹ (Parliment) کا نہیں ہے جہاں فیصلے کئے جاتے ہیں۔ آخری فیصلے کے لئے بہرحال معاملہ خلیفہ وقت کے پاس آتا ہے اور خلیفہ وقت کو ہی اختیار ہے کہ فیصلہ کرے، اور یہ اختیار اﷲتعالیٰ کا دیا ہوا ہے۔ لیکن بہرحال عموماً مشورے مانے بھی جاتے ہیں جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا سوائے خاص حالات کے، جن کا علم خلیفۂ وقت کو ہو تا ہے اور ہو سکتا ہے کہ بعض حالات میں بعض وجوہات جن کی وجہ سے وہ مشورہ رد کیا گیا ہو ان کو خلیفۂ وقت بتانا چاہتا ہو ایسی بعض مجبوریاں ہوتی ہیں۔‘‘ (خطبات مسرور جلد 2 صفحہ 196  تا 198)

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اﷲ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:

’’جیسا کہ ہم جانتے ہیں جماعت میں مجلسِ شوریٰ کا ادارہ نظامِ جماعت اور نظام خلافت کے کاموں کی مدد کے لئے انتہائی اہم ادارہ ہے۔ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ قول اس سلسلہ میں بڑا اہم ہے کہ: لَاخِلَافَۃَ اِلَّا بِالْمَشْوَرَۃِ کہ بغیر مشورے کے خلافت نہیں ہے۔ اور یہ قول قرآن کریم کی ہدایت اور آنحضرت ﷺ کے اُسوہ کے عین مطابق ہے۔ آپ ﷺ صحابہ سے ہر اہم کام میں مشورہ لیا کرتے تھے لیکن جیسا کہ آیت سے واضح ہے مشورہ لینے کا حکم تو ہے لیکن یہ حکم نہیں کہ جو اکثریت رائے کا مشورہ ہو اسے قبول بھی کرنا ہے اس لئے وضاحت فرما دی کہ مشورہ کے مطابق یا اسے رد کرتے ہوئے ، اقلیت کا فیصلہ مانتے ہوئے یا اکثریت کا فیصلہ مانتے ہوئے جب ایک فیصلہ کر لو، کیونکہ بعض دفعہ حالات کا ہر ایک کو پتہ نہیں ہو تا اس لئے مشورہ ردّ بھی کرنا پڑتا ہے۔ تو پھر یہ ڈرنے یا سوچنے کی ضرورت نہیں کہ ایسا نہ ہو جائے، ویسا نہ ہو جائے۔ پھر اﷲ پر توکل کرو اور جس بات کا فیصلہ کر لیا اس پر عمل کرو۔‘‘ (خطبہ جمعہ فرمودہ 24  مارچ 2006  ء ۔ الفضل انٹرنیشنل 14  تا 20  اپریل 2006ء)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے پارلیمنٹ (Parliment)کی نسبت شوریٰ کے طریق کی فضیلت واضح کرتے ہوئے فرمایا:

’’پارلیمنٹ میں یہی ہو تا ہے کہ کہا جاتا ہے کہ رائے نہ ملی تو گورنمنٹ ٹوٹ جائے گی۔ اس لیے سارے رائے دے دیتے ہیں تو عام طبائع ایسی نہیں ہوتیں کہ صحیح رائے قائم کر سکیں۔ اس لیے اکثر لوگ دوسروں کے پیچھے چلتے ہیں اگر کہیں کہ وہ اہل الرائے ہوتے ہیں تو بھی یہی ہو تا ہے کہ بڑے کی رائے کے نیچے ان کی رائے دب جاتی ہے اس لیے یہی ہو تا ہے کہ ایک دوسرے کو اپنے ساتھ ملا لیتا ہے دونوں کا مقابلہ ہو تا ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہو تا ہے کہ لڑائیاں شروع ہو جاتی ہیں۔ ہر وقت مقابلہ رہتا ہے۔ مگر شوریٰ میں یہ بات نہیں ہوتی کیونکہ اس میں پارٹی کا خیال نہیں ہوتا… پس چونکہ پارٹی ہوتی نہیں اور خلیفہ سب سے تعلق رکھتا ہے اس لیے اس کا تعلق سب سے ایسا ہی ہو تا ہے جیسے باپ بیٹے کا۔ بھائی بھائی تو لڑپڑتے ہیں مگر باپ سے لڑائی نہیں ہو سکتی۔ چونکہ خلیفہ کا سب سے محبت کا تعلق ہو تا ہے۔ اس لیے اگر ان میں لڑائی بھی ہو جائے تو وہ دور کر دیتا ہے اور بات بڑھنے نہیں پاتی۔‘‘ (رپورٹ مجلس مشاورت 1922  ء صفحہ 16)

حضرت مصلح موعود رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں:

’’آنحضرت ﷺ خود فرماتے ہیں کہ میں غلطی کر سکتا ہوں۔ تو پھر خلیفہ سے غلطی کس طرح ناممکن ہے ؟ مگر پھر بھی اس کے فیصلے کو شرح صدر کے ساتھ ماننا ضروری ہے۔ اس اصل کو بھلا دو تو تمہارے اندر بھی تفرقہ اور تنفر پیدا ہو جائے گا۔ اسے مٹا دو اور لوگوں کو کہنے دو کہ خلیفہ غلطی کر سکتا ہے تو تم بھی پراگندہ بھیڑوں کی طرح ہو جاؤ گے۔ جن کو بھیڑئیے اٹھا کر لے جائیں گے اور دنیا کی لعنتیں تم پر پڑیں گی۔ جسے خدا نے عزت دی ہے تمہارے لئے اس کی عیب جوئی جائز نہیں اگر وہ غلطی بھی کرتا ہے اور اس کی غلطی سے تمہیں نقصان پہنچتا ہے تو تم صبر کرو۔ خدا دوسرے ذریعہ سے تمہیں اس کا اجر دے گا۔ اور اگر وہ گندہ ہو گیا ہے تو جیسا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں تم خدا کے آگے اس کا معاملہ پیش کرو۔ وہ اگر تم کو حق پر دیکھے گا اسے خود موت دے دے گا اور تمہاری تکلیف دور کردے گا۔‘‘ (الفضل 18  جولائی 1937ء)

حضرت مصلح موعود رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں:

’’ہمارا عقیدہ ہے کہ خلیفہ کا محافظ خدا تعالیٰ ہے اور وہ اس سے ایسی غلطی سرزد نہیں ہونے دے گا جو اصولی امور کے متعلق ہوں۔‘‘ (الفضل 29  جولائی 1952ء)

حضرت مصلح موعود رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں:

’’عصمت صغریٰ اسے (خلیفہ کو ۔ناقل)حاصل ہے۔ یعنی اسے مذہبی مشین کا پرزہ قرار دیا گیا ہے۔ اور وعدہ کیا گیا ہے کہ ایسی غلطیوں سے اسے بچایا جائے گا جو تباہ کن ہوں اور خاص خطرات میں اس کی پالیسی کی اﷲ تعالیٰ تائید کرے گا اور اسے دشمنوں پر فتح دے گا۔ گویا وہ مؤید من اﷲ ہے اور دوسرا کسی قسم کا حاکم اس میں اس کا شریک نہیں۔‘‘ (الفرقان خلافت نمبر 1  اپریل مئی1952  ء صفحہ 5)

یہ بھی ملاحظہ فرمائیں

خلافت احمدیہ دائمی خلافت ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے یوم خلافت 27 مئی 2005ءکو خطبہ ج…