وفات مسیح اور بزرگان امت

سابقہ نبی کی آمد کی کتب سابقہ

کا اجماع گذشتہ اکابر قابل مواخذہ نہیں ہوں گے

امت محمدیہ کے مختلف ادوار کے متعدد بزرگان اور علماء وفات مسیح ناصری ؑکے قائل تھے
خدا تعالیٰ کی قدیم سے یہ سنت جاری ہے کہ ہر وہ شخص جو دنیا میں آتا ہے ایک طبعی عمر پا کر وفات پا جاتا ہے۔ لیکن حضرت عیسیٰ علیہ السلام وہ واحد وجود ہیں جن کی وفات کو بعض لوگوں نے متنازعہ بنا دیا ہے اور وہ یہ گمان کرتے ہیں کہ آپ دو ہزار سال سے آسمان پر زندہ موجود ہیں لیکن قرآن کریم اور احادیث نبویہ سے یہ واضح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی باقی بنی نوع انسان کی طرح طبعی عمر پا کر وفات پاچکے ہیں۔
قرآن کریم اور وفات مسیح علیہ السلام
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں حضرت عیسیٰ ؑ کے قول کو نقل کرتے ہوئے فرماتا ہے۔
وَکُنْتُ عَلَیْھِمْ شَھِیْدًا مَّادُمْتُ فِیْھِمْ فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ کُنْتَ اَنْتَ الرَّقِیْبَ عَلَیْھِمْ وَاَنْتَ عَلیٰ کُلِّ شَیْیئٍ شَھِیْدٌ۔ اور میں ان پر نگران تھا جب تک میں ان میں موجود رہا پس جب تو نے مجھے وفات دے دی تو۔ تو ہی ان پر نگران تھا۔(مائدہ: ۱۱۸)
اس آیت سے قبل یہ مضمون چل رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ ؑسے قیامت کے دن یہ سوال کرے گا کیا تو نے اپنی قوم کو شرک کی تعلیم دی تھی اس پر حضرت عیسیٰ ؑجواب دیں گے کہ اے خدا! میں نے تو ان کو توحید کی تعلیم دی اور جب تک میں اپنی قوم میں موجود رہا میں ان کی نگرانی کرتا رہا اور مجھے ان کے بگڑ جانے کا علم نہیں۔ پس اگر حضرت عیسیٰ ؑآج تک آسمان پر زندہ موجود ہیں اور آخری زمانہ میں دنیا میں آ کر عیسائی قوم کے بگڑ جانے سے آگاہ ہو جائیں گے تو پھر قیامت کے دن خدا کے حضور یہ جواب دینا کہ مجھے ان کے بگڑ جانے کا علم نہیں درست نہیں ٹھہرتا۔
حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مندرجہ بالا آیت کا وہی مفہوم درست ہے جو اوپر پیش کیا گیا ہے۔ آنحضرتﷺ فرماتے ہیں کہ میری اُمت کے بعض لوگوں کو قیامت کے دن بائیں جانب یعنی جہنم کی طرف لے جایا جائے گا۔ اس پر میں کہوں گا۔ اے اللہ یہ میرے پیارے صحابہ ہیں۔ اس پر خدا کہے گا تو نہیں جانتا کہ یہ تیرے بعد کیا کچھ کرتے رہے ہیں اس وقت میں اسی طرح کہوں گا جس طرح اللہ کے نیک بندے حضرت عیسیٰ ؑنے کہا کُنْتُ عَلَیْھِمْ شَھِیْدًا مَّادُمْتُ فِیْھِمْ فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ کُنْتَ اَنْتَ الرَّقِیْبَ عَلَیْھِمْ
(بخاری کتاب التفسیر زیر آیت کُنْتُ عَلَیْھِمْ شَھِیْدًا )
اس حدیث میں نبی اکرم ﷺ کے بیان کے جو معنی لئے جاتے ہیں وہی معنی حضرت عیسیٰ ؑکے بیان کے لئے جائیں گے کیونکہ نبی اکرم ﷺ اور حضرت عیسیٰ ؑکا ایک ہی بیان ہے اور جس طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا چکے ہیں اسی طرح حضرت عیسیٰ ؑبھی وفات پا چکے ہیں۔
وفات مسیحؑ اور اقوال صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین
(1) صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کا اجماع
وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ اَفَاِن مَّاتَ اَوْقُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلیٰ اَعْقَاِبکُمْ :اور محمدﷺاللہ کے رسول ہیں آپ سے پہلے تمام رسول فوت ہو چکے ہیں پس اگر آپ فوت ہو جائیں یا قتل کر دیئے جائیں تو کیا تم اپنی ایڑیوں کے بل پھر جاؤگے۔(آل عمران: ۱۴۵)یہ آیت غزوہ اُحد کے موقعہ پرحضرت نبی اکرمﷺ پر نازل ہوئی تھی جب آپ شدید زخمی ہو گئے تھے اور یہ افواہ پھیل گئی تھی کہ آپؐ شہید ہوچکے ہیں۔ اور یہ صدمہ صحابہؓ کیلئے ناقابل برداشت تھا اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ دیکھو محمدؐ اللہ کے ایک رسول ہیں اور آپ سے پہلے بھی جس قدر رسول آئے سب فوت ہوگئے اس لئے اگر آپؐ فوت ہوجائیں یا شہید ہو جائیں تو یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں۔
جب آنحضرت ﷺ کا وصال ہوا تو صحابہؓ کیلئے یہ صدمہ ناقابل برداشت تھا اور فرط محبت کی وجہ سے صحابہؓ اس حقیقت کو تسلیم کرنے کیلئے تیار نہ تھے یہاں تک کہ حضرت عمرؓ جیسے جلیل القدر صحابی یہ کہنے لگے کہ رسول اللہ فوت نہیں ہوئے اس موقعہ پر اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوبکرؓ کو کھڑا کیا اور آپ نے یہ اعلان فرمایا کہ تم میں سے جو کوئی محمدﷺ کی عبادت کرتا تھا وہ فوت ہو چکے ہیں اور جو تم میں سے اللہ کی عبادت کرتا ہے وہ زندہ ہے وہ کبھی نہیں مرے گا اور اس کے بعد مندرجہ بالا آیت تلاوت فرمائی کہ محمد اللہ کے رسول ہیں۔ آپ سے پہلے تمام رسول وفات پا چکے ہیں اسی طرح اگر آپ فوت ہو جائیں یا قتل کر دیئے جائیں تو کیا تم اپنی ایڑیوں کے بل پھر جائو گے۔
(١۔ بخاری کتاب المغازی باب مرض النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ووفاتِہ
٢۔ بخاری کتاب الجنائز باب الدخول علی ا لمیت
٣۔ صحیح بخاری کتاب فضائل اصحاب النبی باب قول النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم لو کنت متخذا خلیلاً)
اس پر تمام صحابہؓ خاموش ہو گئے اور انہوں نے تسلیم کر لیا کہ باقی سب انبیاء کی طرح آنحضرت ﷺ بھی فوت ہوچکے ہیں۔ پس اگر حضرت عیسیٰ ؑزندہ ہوتے تو صحابہؓ حضرت ابوبکرؓ کے اس استدلال کے خلاف ضرور آواز اٹھاتے کہ جس طرح حضرت عیسیٰ ؑفوت نہیں ہوئے اس طرح حضرت نبی اکرمﷺ بھی فوت نہیں ہوئے۔ لیکن حضرت ابوبکرؓ کے اس استدلال پر کہ جس طرح پہلے تمام انبیاء فوت ہو چکے ہیں اسی طرح آپ بھی فوت ہوگئے ہیں۔ تمام صحابہؓ کا خاموش ہو جانا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ تمام صحابہؓ کے نزدیک حضرت عیسیٰ ؑ فوت ہو چکے تھے۔
اجماع صحابہ کے متعلق علماء اسلام کا موقف ہے کہ
اِجْمَاعُ الصَّحَابَةِ حُجَّة بِلَا خِلَافٍ: یعنی صحابہ رضی اللہ عنہم کا اجماع حجت ہے۔ اس میں کسی کو کوئی اختلاف نہیں ہے۔
(ارشاد الفحول صفحہ72 از قاضی محمد بن علی بن محمد الشوکانی المتوفی 1255ھ ادارة الطباعة المغیریة بمصر)
یہ اجماع تو آنحضرت ﷺکی صحبت سے فیض پانے والے صحابہ کرام رضوان اللّٰہ علیھم اجمعین کا تھا جو عاشق قرآن تھے اور قرآن کریم کے حقائق و معارف سے بخوبی آگاہ تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جن کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ :اللہ ان سے راضى ہو گىا اور وہ اس سے راضى ہوگئے (التوبة 100) هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ وَمَلَائِكَتُهُ : اے صحابہ ،خدا اور اس کے فرشتے تم پر درود بھیجتے ہیں (الأحزاب 44) سوچنے کا مقام ہے کہ جس مسئلے میں ایک دو صحابہ کا بیان نہیں بلکہ ہزاروں صحابہ،کا اجماع ہو۔ اس اجماع کے خلاف اپنا عقیدہ بنانا کس قدر ہدایت سے دُور لے جانے والی بات ہو گی
(2) حضرت عبداللہ بن عباسؓ عمزاد و صحابی رسولؐ کی گواہی
آنحضرت ﷺ کی دعا کے نتیجہ میں آپ کو غیر معمولی فہم قرآن دیا گیاتھا۔ آپ نے آیت یَا عِیْسیٰ اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَرَافِعُکَ میں مُتَوَفِّیْکَ کے معنی مُمِیْتُکَ (تجھے وفات دینے والا) کے کئے ہیں۔
(بخاری کتاب التفسیر سورۃ المائدہ)
(3) نواسہ رسول حضرت امام حسن بن علیؓ ؓکی گواہی
طبقات ابن سعد کی جلد ثالث میں حضرت علیؓ کی وفات کے حالات میں حضرت امام حسن ؓسے روایت کی گئی ہے کہ آپ نے فرمایا:
اَیُّھَا النَّاسُ قَدْ قُبِضَ اللَّیْلَةُ رَجُل لَمْ یَسْبَقْہٗ الاَوَّلُوْنَ وَلَا یُدْرِکْہٗ الاٰخِرُوْنَ قَدْ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہُ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَبْعَثُہ الْمَبْعَثَ فَیَکْتَنِفُہ جِبْرَئِیْلُ عَنْ یَمِیْنِہ وَمِیْکَائِیْلُ عَنْ شَمَالِہ فَلَا یَنْثَنِیْ حَتّٰی یَفْتَحَ اللّٰہُ لَہ وَمَاتَرَکَ اِلَّا سَبْعُ مَائَةَ دِرْھَمٍ اَرَادَ اَنْ یَّشْتَرِیَ بِھَا خَادِمًا، وَلَقَدْ قُبِضَ فِی اللَیلَةِ الَّتِی عُرِجَ فِیْھَا بِرُوْحِ عِیْسیٰ ابْنِ مَرْیَمَ لَیْلَةَ سَبْعٍ وَّعِشْرِیْنَ مِنْ رَمْضَانَ
(طبقات الکبریٰ لابن سعد جلد ثالث صفحہ 39۔ دار صادر بیروت 1377ھ1957ء)
یعنی اے لوگو! آج وہ شخص فوت ہوا ہے کہ اس کی بعض باتوں کو نہ پہلے پہنچے ہیں اور نہ بعد کو آنےوالے پہنچیں گے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے جنگ کے لیے بھیجتے تھے تو جبرائیل اس کے داہنے طرف ہو جاتے تھے اور میکائیل بائیں طرف۔ پس وہ بلا فتح حاصل کیے واپس نہیں ہوتا تھا اور اس نے سات سودرھم اپنا ترکہ چھوڑ ا ہے جس سے اس کا ارادہ یہ تھا کہ ایک غلام خرید ے اور وہ اس رات کو فوت ہوا ہے جس رات کو عیسیٰ بن مریم کی روح آسمان کی طرف اٹھائی گئی تھی یعنی رمضان کی ستائیسویں تاریخ کو۔
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرتﷺکے اہل بیت کے نزدیک حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو چکے تھے کیونکہ اگر ان کا یہ خیال نہ ہوتا تو حضرت امام حسن یہ کیوں فرماتے کہ جس رات حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی روح آسمان کو اٹھائی گئی تھی اس رات کو حضرت علیؓ کی وفات ہوئی تھی نیز اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ حضرت علیؓ کی شہادت تک مسلمانوں میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے جسمانی طور پر آسمان پر زندہ ہونے اور دوبارہ آنے کاعقیدہ پیدانہیں ہوا تھا۔ ورنہ حضرت امام حسنؓ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی روح اٹھائے جانے کی بجائے ان کا جسم اٹھایا جانا بیان فرماتے۔
(4) صحابی رسولؐ حضرت جارود بن معلیؓ کی گواہی
رسول کریمﷺ کے وصال کے بعد عرب کے کئی قبائل نے ارتداد اختیار کر لیا تھا۔اور ارتداد اختیار کرنےوالے قبائل نے کیا دلیل پکڑی؟ اسلامی تاریخ کی مشہور کتاب تاریخ طبری میں 11ھ کے حالات میں مرتدین بحرین وعمان اور یمن کا ذکر ہے۔ زیر عنوان ’’اہل بحرین کا واقعہ حطم کا ارتداد اور اس کے ساتھی‘‘لکھا ہے کہ
’’اہل بحرین مرتد ہوگئے ان میں سے عبد القیس پھر اسلام لے آئے البتہ بکر مرتد ہی رہے جس شخص کی کوشش سے عبد القیس دوبارہ اسلام میں داخل ہوئے وہ جارود تھے۔‘‘
(تاریخ طبری از ابو جعفر محمد بن جریر الطبری جلد دوم صفحہ نمبر 99 ترجمہ سید محمد ابراہیم نفیس اکیڈمی اردو بازار کراچی )
اہل بحرین میں سے بنو عبد القیس کے ارتداد اختیار کرنے اور دوبارہ مسلمان ہونے کا واقعہ تفصیل سے درج ہے۔ بنو عبد القیس نے ارتداد اختیار کرتے ہوئے کیا دلیل پکڑی اور پھر واپس اسلام میں داخل کس دلیل سے ہوئے اس کا ذکر تاریخ طبری میں کچھ یوں ہے۔
’’رسول اللہﷺ نے وفات پائی ۔ان کے قبیلے نے عبد القیس سے کہا لَوْ کَانَ مُحَمَّد نَبِیًّا لَمَا مَاتَ اگر محمدنبی ہوتے تو وہ کبھی نہ مرتے اور سب مرتد ہوگئے ۔اس کی اطلاع جارود رضی اللہ عنہ کو ہوئی انہوں نے ان سب کو جمع کیا تقریر کرنے کھڑے ہوئے اور کہا ’’اے گروہ عبد القیس ! میں تم سے ایک بات پوچھتا ہوں اگر تم اسے جانتے ہوتو بتانا او ر اگر نہ جانتے ہو تو نہ بتانا ‘‘انہوں نے کہا جو چاہو سوال۔ کرو جارود رضی اللہ عنہ نے کہا جانتے ہو کہ گذشتہ زمانے میں اللہ کے نبی دنیا میں آچکے ہیں۔ انہوں نے کہا ہاں۔ جارود نے کہا تم ان کو صرف جانتے ہو یا تم نے ان کو دیکھا بھی ہے؟ انہوں نے کہا کہ نہیں ہم نے ان کو دیکھا تو نہیں لیکن ہم ان کو جانتے ہیں۔ جارود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر کیا ہوا؟انہوں نے کہا ’’ماتُوْا‘‘ وہ مر گئے ۔جارود رضی اللہ عنہ نے کہا’’فَاِنَّ مُحَمَّدًا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَاتَ کَمَا مَاتُوا وَاَنا اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ الَّا اللّٰہُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہ وَ رَسُوْلُہ ‘‘ اسی طرح محمدﷺ بھی انتقال فرما گئے جس طرح سابقہ انبیاء دنیا سے اٹھ گئے اور میں اعلان کرتا ہوں لَّا اِلٰہَ الَّا اللّٰہُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہ وَ رَسُوْلُہ ان کی قوم نے کہا کہ ہم بھی شہادت دیتے ہیں کہ سوائے اللہ کے کوئی حقیقی معبود نہیں ہے اور بےشک محمد اس کے بندے اور رسول ہیں اور ہم تم کو اپنا برگزیدہ اور اپنا سردار تسلیم کرتے ہیں۔ اس طرح وہ اسلام پر ثابت قدم رہے ارتداد کی وبا ان تک نہ پہنچی ‘‘
(تاریخ طبری از ابو جعفر محمد بن جریر الطبری جلد دوم صفحہ نمبر 99 ترجمہ سید محمد ابراہیم نفیس اکیڈمی اردو بازار کراچی )
اہل حدیث مکتبہ فکر اور سعودی عرب کے حکمران خاندان آل سعود کے امام شیخ الاسلام محمد بن عبد الوھاب اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ایک خطبہ دیا جس میں حضرت عیسیٰؑ کی وفات کا یوں ذکر فرمایا:
’’وارتد اھل ھجر عن الاسلام فقام الجارود بن المعلی فی قومہ فقال: الستم تعلمون ما کنت علیہ من النصرانیۃ؟و انی لم آتکم قط الا بخیر و ان اللّٰہ تعالیٰ بعث نبیہ و نعی لہ نفسہ فقال (انک میت و انھم میتون)وقال (وما محمد الا رسول قد خلت من قبلہ الرسل۔الآیۃ )وفی لفظ انہ قال ماشھادتکم علی موسیٰ ؟ قالوا نشھد انہ رسول اللّٰہ قال: فما شھادتھکم علی عیسیٰ؟ قالو ا نشھد انہ رسول اللّٰہ قال وانا اشھد ان لا الہ الا اللّٰہ وان محمدا عبدہ رسولہ عاش کاما عاشوا ومات کما ماتوا واتحمل شھادۃ من ابی ان یشھد علی ذٰلک منکم فلم یرتد من عبد القیس احد ‘‘
(مختصر سیرۃ الرسولﷺ از محمد بن عبد الوھاب صفحہ نمبر 186، 187 ناشر دار العربیہ بیروت لبنان )
ترجمہ: جب اہل حجر نے اسلام سے ارتداداختیارکیا توحضرت جارود بن معلی رضی اللہ عنہ اپنی قوم میں کھڑے ہوئے، پس آپ نے فرمایا: کیا تم نہیں جانتے کہ جو (عرصہ)میں عیسائیت کے مذہب پر تھا؟اورمیں کبھی بھی تمہارے پا س خیر کی خبر کے سوا کچھ نہیں لایا۔ اوریقیناً اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو مبعوث فرمایا اور اس کی موت پر خود (اللہ تعالیٰ)سوگوارہوا۔ پس آپ نے یہ آیت تلاوت کی(إنك ميت وإنهم ميتون)اوریہ آیت بھی تلاوت فرمائی کہ(وما محمدالارسول قد خلت من قبله الرسل)اوران الفاظ میں بھی ہے کہ آپ نے فرمایا: حضرت موسیٰؑ کے بارہ میں تمہاری کیاگواہی ہے؟انہوں نے کہا: ہم گواہی دیتے ہیں کہ وہ اللہ کا رسول ہے۔ آپ نے فرمایا: حضرت عیسیٰؑ کے بارہ میں تمہاری کیا گواہی ہے؟انہوں نے کہا: ہم گواہی دیتے ہیں کہ وہ اللہ کارسول ہے۔ آپ نے فرمایا: اورمیں گواہی دیتاہوں کہ اللہ کے سواکوئی معبود نہیں اوریہ کہ محمداللہ کے بندے اوراس کے رسول ہیں۔ عَاشَ کَمَا عَاشُوْا وَمَاتَ کَمَا مَاتُوْا آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی طرح زندہ رہے جیسے وہ تمام(سابقہ انبیاء)زندہ رہے۔ اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسی طرح وفات پائی جیسے انہوں (یعنی سابقہ انبیاء)نے وفات پائی۔ اورمیں اپنے باپ کی جانب سے اس بات کی گواہی کا متحمل ہوں کہ وہ(یعنی میراباپ)تم میں سے اس بات پر گواہی دے۔ پس وفد عبدالقیس میں سے کسی ایک شخص نے بھی ارتداداختیارنہ کیا۔
اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کی زندگی میں صحابہ کے زمانہ میں مسلمانوں میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زندہ ہونے اور انہی کے دنیا میں دوبارہ واپس آنے کا عقید ہ پیدا نہیں ہوا تھا۔ ورنہ صحابی رسولﷺ حضرت جارود بن معلی ؓیہ دلیل پیش نہ کرتے کیونکہ آنحضرت ﷺکا بطور نبی ہمیشہ زندہ نہ رہنا تبھی صحیح ثابت ہوسکتا ہے جب یہ ثابت ہو کہ آپ سے پہلے کوئی نبی بھی زندہ نہیں رہا بلکہ سب وفات پاگئے ہیں۔ اور نہ ہی قبیلہ عبد القیس کے کسی فرد نے یہ اعتراض کیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام تو فوت نہیں ہوئے بلکہ زندہ ہیں اس واقعہ سے پتہ چلتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد قریبی زمانہ میں یعنی حضرت ابوبکر کی خلافت میں حیاتِ مسیح کا عقیدہ پیدا نہیں ہوا تھا۔
غور طلب امور
(1) حضرت جارود بن معلی رضی اللہ عنہ کی قوم نے اس وجہ سے ارتداد اختیار کیا کہ رسول کریمﷺ نبی ہوتے تو وہ فوت نہ ہوتے۔ حضرت جارود رضی اللہ عنہ نے اپنی قوم کو واپس اسلام میں لانے کے لیے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی دلیل کو ہی پیش کیا کہ پہلے نبی بھی فوت یا شہید ہوتے تھے۔ اگر حضرت جارود رضی اللہ عنہ کی قوم میں سے کسی ایک بھی شخص کے علم میں گزشتہ انبیاء میں ایک بھی نبی کے گزرنے کی تیسری صورت یعنی زندہ جسم سمیت آسمان پر جانے کا علم ہوتا تو یقیناً حضرت جارود رضی اللہ عنہ کے استدلال کو کمزور کرنے کے لیے اور اپنے ارتداد کا جواز نکالنے کے لیے اس کا ذکر کرتے۔ کسی ایک شخص کی طرف سے تیسری صورت کا ذکر نہ کرنا بتاتا ہے کہ اس وقت نہ صرف مدینہ بلکہ عرب کے دیگر علاقوں میں بھی کسی ایک کا یہ عقیدہ نہیں تھا کہ کوئی نبی اس وقت زندہ جسم سمیت آسمان پر موجود ہے۔
(2) حضرت جارود رضی اللہ عنہ کی قوم کے خیال میں نبی کی سچائی کی دلیل اس کی زندگی ہے۔ ان کے خیال میں نبی فوت نہیں ہوتا۔ اگر ان کی قوم کے علم میں ہوتا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام جسم سمیت زندہ آسمان پر موجود ہیں تو کبھی کسی صورت میں واپس اسلام میں داخل نہ ہوتے بلکہ عیسائی ہوجاتے کیونکہ حضرت جارود رضی اللہ عنہ کی دلیل اور استدلال سے ان کے خیال کا رد نہیں ہوتا تھا۔ ان سب کا حضرت جارود رضی اللہ عنہ کی دلیل واستدلال کو قبول کرنا بتاتا ہے کہ گزشتہ تمام انبیاء کی وفات سے رسول کریمﷺ کی وفات کا استدلال کرنا ایک مضبوط دلیل ہے۔
وفات مسیحؑ اور بزرگان و علماء اُمت
صحابہؓ کا زمانہ گزرنے کے بعد آہستہ آہستہ اُمت میں یہ عقیدہ کثرت سے پھیل گیا کہ حضرت عیسیٰ ؑآسمان پر بجسم خاکی زندہ موجود ہیں اور آخری زمانہ میں وہی اسرائیلی نبی حضرت عیسیٰ ؑآسمان سے زمین پر اُتریں گے اور خدمت دین بجا لائیں گے لیکن اُمت میں ایسے علماء اور بزرگ ہمیشہ موجود رہے جو حضرت عیسیٰ ؑکی وفات کے قائل تھے
عمومی جواب:
نصوص فرقانیہ اور احادیث متواترہ تو وفات مسیح کا کھلم کھلا اعلان کر رہے ہیں۔ جہاں تک ان علماء کے حیات مسیح پر اجماع امت کے دعویٰ کا تعلق ہے تو یہ نام نہاد دعویٰ ہی ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ امت محمدیہ کے متعدد بزرگان و علمائے سلف وفات مسیح کے ہمیشہ قائل رہے اور قائل ہیں۔ ان عظیم الشان اور نابغۂ روزگار بزرگوں کے حوالے درج کرنے سے پہلے ایسے علماء سے گزارش ہے کہ کیا قرآن کریم پر اجماع امت نہیں ہے؟ کیا امت محمدیہ کا یہ متفقہ عقیدہ نہیں ہے کہ قرآن کریم کا ایک ایک حرف خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ اور سچائی و صداقت سے لبریز ہے۔ تو اگر قرآن کریم ہمیں وفات مسیح کے بارے میں بڑے واضح دلائل و براہین دے رہا ہو اور اس کے بالمقابل بگڑی ہوئی تاریک صدیوں میں غلط فہمی سے رواج پانے والے حیات مسیح کے عقیدہ کے حق میں بعض علماء گواہی دے رہے ہوں تو لوگ کس چیز کو اختیار کریں گے؟ آیا قرآن کو ترجیح دیں گے یا علماء کو۔ پھر یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ رسول کریم ﷺ سے لے کر آج تک کبھی بھی امت کا یہ اجماع نہیں ہوا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ آسمان پر چلے گئے ہیں۔ ہمیں ہر دَور میں ایسے ربانی علماء ملتے ہیں جنہوں نے اپنی خداداد فراست سے قرآن کریم اور احادیث مبارکہ کے موافق وفات مسیح کا اعلان کیا۔
جب غیر احمدیوں کے سامنے قرآن کریم اور احادیث نبویہﷺسے وفات مسیح کے دلائل پیش کیے جاتے ہیں تو بعض اوقات ان کی طرف سے یہ سوال پیش ہوتا ہے کہ اگر واقعی قرآن و حدیث وفات مسیح ثابت کر رہے ہیں تو پھر کیا چودہ سو سال کے کسی مسلمان کو اس مسئلہ کی سمجھ نہیں آئی۔ علماء کے نزدیک حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات کے متعلق امت محمدیہ کا اجماع ہے۔ چنانچہ دیوبندی عالم مفتی رفیع عثمانی صاحب لکھتے ہیں:
’’یہ مسئلہ اہم اور اجماعی مسئلہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ آسمان پر اٹھا لیے گئے۔ اور قرب قیامت میں پھر نازل ہوں گے۔ نصوص فرقانیہ اور احادیث متواترہ اور اجماع امت کے قطعی دلائل اس کے ایسے شاہد ہیں کہ کسی مسلمان کو اس سے آنکھ چرانے کی مجال نہیں اور کسی تاویل و تحریف کی گنجائش نہیں ‘‘۔
( علامات قیامت اور نزول مسیح صفحہ14تا15)
قائلین وفات مسیح کے حوالہ جات پیش کرنے سے قبل اجماع کی حقیقت پر کچھ تحریر کرنا مناسب ہو گا تاکہ قارئین کو علم ہو سکے کہ یہ علماء حیات مسیح پر جس اجماع کا ذکر کر رہے ہیں اس اجماع کی حقیقت کیا ہے۔
اجماع
اجماع کی تعریف:علماء کے نزدیک اجماع کا اصطلاحی مطلب یوں بیان کیا گیا ہے:
٭…ھُوَاِتِّفَاقُ مُجْتَھِدِیْ اُمَّةِ مُحَمَّدٍﷺ بَعْدَ وَفَاتِہ فِیْ عَصْرٍ مِّنَ الْاَعْصَارِ عَلٰی اَمْرٍ مِّنَ الُامُوْرِ: یعنی رسول اکرم ﷺ کی وفات کے بعد کسی زمانے میں کسی امر پر تمام مجتہدین امت کا متفق ہو جانا اجماع کہلاتا ہے۔
(ارشاد الفحول صفحہ63 از قاضی محمد بن علی بن محمد الشوکانی المتوفی 1255ھ ادارة الطباعة المغیریة بمصر)
٭ مُلّا جیون نے اپنی کتاب نور الانوار میں اجماع کی حسب ذیل تعریف کی ہے ۔’’اتِّفَاقُ مُجْتَھِدِیْنَ مِنْ اُمَّةِ مُحَمَّدٍ فِیْ عَصْرٍ وَاحِدٍ عَلٰی اَمْرٍ قَوْلِیٍّ اَوْ فِعْلِیٍّ: ترجمہ: امت محمدیہ کے مجتھدین اور صالحین کا ایک ہی زمانہ میں قولی یا فعلی اتفاق رائے اجماع کہلاتاہے
(نورالانوار مع قمر الاقمار باب الاجماع صفحہ 233تالیف مولانا حافظ شیخ احمد مکتبہ امدادیہ ملتان پاکستان)
جبکہ اس تعریف کے مخالف بہت سے نظریات پائے جاتے ہیں جنہوں نے شرعی اجماع کے لیے مختلف شرائط کا تذکرہ اپنی کتب میں کیا ہے ان میں سے چند حسب ذیل ہیں ۔
امام مالک کی اجماع کے متعلق رائے :
اسی کتاب نور الانوار مع حاشیہ قمر الاقمارمیں اجماع کے لیے امام مالک کی یہ شرط درج ہےکہ:
’’یَشْتَرِطُ فِیْہ کَونِھم مِنْ أھْلِ المَدِیْنَۃ: ترجمہ: اجماع کا ہونا اہل مدینہ کے ساتھ مشروط ہے
(نور الانوار مع حاشیہ قمر الاقمار ۔صفحہ نمبر 219۔مصنفہ مولانا حافظ شیخ احمد المعروف بِمُلّا جیون بن أبو سعید۔ناشر جان محمد بسنی پبلشر ز اینڈ کتب خانہ مدینہ ۔کوئٹہ )
حضرت امام مالکؒ کی اجماع کےمتعلق یہ رائے کئی کتب میں موجود ہےچنانچہ آپ ؒکے متعلق لکھا ہےکہ:
’’صرف اہل مدینہ کا اجماع ہی حجت ہے۔‘‘
(اصول فقہ۔از ڈاکٹر محمود الحسن عارف صفحہ نمبر 34۔ناشر شریعہ اکیڈمی ،بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی،اسلام آباد ۔مطبع اظہار سنز پرنٹر ز 9 ریٹی گن روڈ لاہور۔)
حضرت امام شافعی کا قول ہے
٭پھر اجماع کے متعلق یہ بھی لکھا ہے کہ اگر تمام مجتہدین ایک مسئلہ پر متفق ہو جاتے ہیں تو تب بھی اجماع اس وقت نہیں سمجھا جائے گا۔ جب تک ان تمام مجتہدین کی وفات نہیں ہو جاتی کیونکہ ممکن ہے کہ ان مجتہدین میں سے بعض نے اپنی موت سے پہلے اس اجماع کے خلاف رائے دے دی ہو۔ چنانچہ لکھا ہے :
قال الشافعی یشترطُ فیہ انْقِرَاض العصر وموت جمیعِ المجتھدینَ فلایکون اجماع حجّة مالم یموتُوا لان الرّجوعَ قبلہ مُحْتَمِل ومع الاحْتمالِ لا یثبت الِاسْتقرارُ: یعنی حضرت امام شافعی کا قول ہے کہ اجماع کی صحت کے لیے یہ شرط ہے کہ اس زمانہ کا اختتام اور تمام مجتہدین کی وفات۔ پس جب تک یہ تمام مجتہدین فوت نہ ہو جائیں یہ اجماع حجت نہ ہو گا۔ کیونکہ مجتہدین کا اپنی موت سے پہلے پہلے اس اجماع سے رجوع کا امکان ہے۔ اور جب تک کسی بات کے متعلق امکانی پہلو قائم رہتا ہے اس وقت تک اجماع ثابت نہیں ہو سکتا۔
(نورالانوار مع قمر الاقمار صفحہ224)
پھر یہ بھی لکھا ہے کہ اگر ایک مجتہد یا عام آدمی بھی اختلاف کرے تو اجماع واقع نہیں ہوتا۔ چنانچہ نورالانوار میں لکھا ہے:
لَا بُدَّ فِیْہِ مِنْ اِتِّفَاقِ الْکُل مِنَ الْخَوَاصِ وَالْعَوَامِ حَتّٰی لَوْ خَالَفَ وَاحِد مِنْھُمْ لَمْ یَکُنْ اِجْمَاعًا: یعنی اجماع کے لیے ضروری شرط ہے کہ تمام خواص و عوام کا مکمل اتفاق ہو۔ اگر ایک آدمی بھی اس اجماع سے اختلاف کرتا ہے تو اجماع متصور نہیں ہوگا۔
(نورالانوار مع قمر الاقمار صفحہ 224 باب الاجماع)
یہی وجہ ہے کہ بعض لوگوں نے کہا ہے کہ اجماع تو صرف صحابہ سے مخصوص ہے۔ یعنی اگر صحابہ کا کسی مسئلہ کے متعلق اجماع ہے تو وہ بالکل درست ہے۔ اگر صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی اجماع کا دعویٰ کرتا ہے تو وہ جھوٹ بولتا ہے۔ چنانچہ نورالانوار میں لکھا ہے:
قَالَ بَعْضُھُمْ لَا اِجْمَاعَ اِلَّا لِلصَّحَابَةِ لِاَنَّ النَّبِیَّ ﷺ مَدَحَھُمْ وَاَثْنیٰ عَلَیْھِمُ الْخَیْرَ فَھُمْ الْاصُوْلُ فِیْ عِلْمِ الشَّرِیْعَةِ وَاِنْعِقَادِ الْاحْکَامِ: یعنی بعض نے کہا ہے کہ صحابہ کے اجماع کے علاوہ اور کوئی اجماع نہیں ہے۔ کیونکہ نبی اکرم ﷺ نے ان صحابہ کی مدح و ثنا کی ہے۔ پس یہ اصحاب امت محمدیہ میں شرعی علم اور احکام الٰہی کے انعقاد کے لیے بنیاد ہیں۔
(نورالانوار مع قمر الاقمار صفحہ 224)
حضرت امام ابو حنیفہ فرماتے ہیں:
اِذَا اَجْمَعَتِ الصَّحَابَةُ عَلٰی شَیْءٍ اَسْلَمْنَا وَاِذَا اَجْمَعَ التَّابِعُوْنَ زَاحَمْنَا ھُمْ: یعنی جب صحابہ کسی مسئلہ میں اجماع کریں تو ہم اسے تسلیم کر لیتے ہیں اور جب تابعین کسی مسئلے پر اجماع کریں تو ہم اس کی مخالفت کرتے ہیں۔
(ارشاد الفحول صفحہ 72)
اسی طرح ارشاد الفحول میں لکھا ہے:
وقال ابْن وھبٍ ذھب داود واصحابنا الی انّ الاجماع انما ھواجماعُ الصّحابةِ فقط وھوقَول لا یجوز خِلافہ لان الاجماع انما یکون عن توقِیفِ والصّحابة ھم الذین شھِدُواالتّوقیف۔ فان قیل فما تقُولون فی اجماعٍ من بعدھم قلنا ھذا لا یجوز لامرَیْن احدھما ان النبیَّ ﷺ انبا عن ذلک فقال لا تزال طائِفة من امّتی علی الحقّ ظاہریْن والثانی ان تسعة اقطارالارض وکثرة العدد لا تمکن من ضبط اقوالِھم ومن ادّعی ھذا لا یخفی علی احدٍ کذبہ:
ترجمہ : یعنی ابن وہب نے کہا ہے کہ داؤد اور ہمارے ساتھیوں کا موقف ہے کہ اجماع تو صرف اجماع صحابہ ہی کو کہا جا سکتا ہے۔ اور اس موقف کی مخالفت جائز نہیں۔ کیونکہ اجماع توقیفی ہے اور صحابہ اقوال وآثار نبویہ سے واقف تھے۔ اور اگر یہ کہا جائے کہ ان لوگوں کے اجماع کے متعلق آپ کیا کہتے ہیں جو صحابہ رسولﷺ کے بعد تھے تو ہمارا یہ موقف ہے کہ ان لوگوں کا اجماع دو اسباب کی وجہ سے جائز نہیں۔ پہلا یہ کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا ہے کہ میری امت میں ایک گروہ ہمیشہ حق پر ہی قائم رہے گا۔ (اس سے پتہ چلتا ہے کہ ہمیشہ امت محمدیہ میں اختلافات ہوں گے اور مختلف موقف ہوں گے۔ ورنہ فرماتے کہ ہر دور میں میری تمام امت حق پر رہے گی) اور دوسری وجہ یہ ہے کہ زمینی اقطار وسیع ہیں اور لوگوں کی کثرت تعداد کی وجہ سے یہ امر ناممکن ہے کہ ان سب کے اقوال کو ضبط تحریر میں لایا جا سکے۔ اور جو آدمی اس ضبط تحریر کا دعویٰ کرے اس کا جھوٹ اظہر من الشمس ہو گا۔
(ارشاد الفحول صفحہ72)
اجماع کے متعلق امام احمد بن حنبلؒ ،امام شافعیؒ اور داؤد ظاہری کی رائے:
اصول فقہ کی مشہور کتاب ارشاد الفحول میں امام احمدبن حنبل کا مؤقف ان الفاظ میں درج ہے کہ:
’’الامام احمد بن حنبل فَاِنَّہُ قَالَ مَنِ ادَّعَیٰ وَجُوبَ الاِجْماعِ فَھُو کَاذِبٌ:ترجمہ:امام احمد بن حنبل ؒ نے فرمایا کہ جس نے اجماع کے واجب ہونے کا دعویٰ کیا وہ جھوٹا ہے۔
(ارشاد الفحول الی تحقیق الحق من علم الاصول۔صفحہ نمبر 64۔مؤلف ۔الامام المجتھد العلامہ الربانی قاضی قضاۃ القطر الیمانی محمد بن علی بن محمد الشوکانی۔ المتوفی سنۃ 1255ھ۔ادارۃ الطباعۃ المنیریۃ بمصر بشارع الکحکیین نمرۃ 1)
علامہ الخضرمی نے اپنی کتاب التاریخ التشریح الاسلامی میں امام شافعی ؒاور امام احمد بن حنبل کا اجماع کے متعلق نظریہ ان الفاظ میں درج کیا ہے کہ:
’’امام احمد (بن حنبل)سے روایت ہے کہ جس شخص نے اجماع کا دعوی کیا وہ جھوٹا ہے ۔لیکن امام شافعی کو اگرچہ اجماع کی حقیقت سے انکار ہے تاہم اگر سلف سے کوئی حکم منقول ہو اور اس کے متعلق یہ نہ معلوم ہو کہ انہوں نے اس میں اختلافات کیا ہے تو وہ دین میں اسکو حجت سمجھتے ہیں اس لیے خود حجت میں نہیں بلکہ حجت کی تعبیر میں اختلاف ہو جاتا ہے‘‘
(تاریخ فقہ اسلامی یعنی تاریخ التشریح الاسلامی مصنفہ علامہ محمد الخضری مرحوم کا ترجمہ از عبد السلام ندوی۔مطبع معارف ۔دار المصنفین اعظم گڑھ میں چھپی 12رجب 1346ھ)
اسی طرح بعض کتب میں یہ درج ہے کہ امام احمد بن حنبل ؒاور داود ظاہری سوائے اجماع صحابہ کے اورکسی دوسرے اجماع کو معتبر نہیں سمجھتے ،چنانچہ ڈاکٹر محمدالحسن عارف نے اپنی کتاب ’’اصول الفقہ ‘‘میں لکھا ہے کہ:
’’امام داؤد ظاہری ؒ اور امام احمد بن حنبل ؒ کا مشہور قول یہ ہے کہ صرف صحابہ کرام ؓ کا اجماع ہی معتبرہے۔‘‘
(اصول فقہ۔از ڈاکٹر محمود الحسن عارف صفحہ نمبر 37۔ناشر شریعہ اکیڈمی ،بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی،اسلام آباد ۔مطبع اظہار سنز پرنٹر ز 9 ریٹی گن روڈ لاہور۔)
فرقہ زیدیہ اور امامیہ کی اجماع کے متعلق رائے :
جبکہ فرقہ امامیہ اورزیدیہ کے نزدیک صرف اہل بیت کا اجماع ہی حجت ہے چنانچہ لکھا ہے:
’’زیدیہ اور امامیہ (شیعی فرقوں ) کے نزدیک اہل بیت کرام کا اجماع حُجّت ہے جس اجماع میں اہل بیت شامل نہ ہوں وہ اجماع حُجّت نہ ہو گا‘‘
(اصول فقہ۔از ڈاکٹر محمود الحسن عارف صفحہ نمبر 34۔ناشر شریعہ اکیڈمی ،بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی،اسلام آباد ۔مطبع اظہار سنز پرنٹر ز 9 ریٹی گن روڈ لاہور۔)
معتزلہ اور روافض کا اجماع کے بارے نظریہ:
جبکہ طرّہ یہ کہ معتزلہ اور روافض کے نزدیک تو اجماع ممکن ہی نہیں ہے جیسا کہ’’نورالانوار‘‘میں لکھا ہےکہ:
وَقَالُوا إنّ الاجمَاعَ لَیسَ بِحُجَّۃٍ لِأَنَّ کُلُّ وَاحِدٍ مِنْھم یَحْتَمِلُ أن یَکُونَ مخطِئاۢ : ترجمہ:انہوں نے کہا ہے کہ اجماع حجت نہیں کیونکہ اجماع میں شاملین میں ہر انسان لازمی طور پر اپنے ساتھ خطاکی آمیزش رکھتا ہے۔
(نور الانوار مع حاشیہ قمر الاقمار ۔صفحہ نمبر 221۔مصنفہ مولانا حافظ شیخ احمد المعروف بِمُلّا جیون بن أبو سعید۔ناشر جان محمد بسنی پبلشر ز اینڈ کتب خانہ مدینہ ۔کوئٹہ )
اجماع صحابہ کے متعلق علماء اسلام کا موقف ہے کہ
اِجْمَاعُ الصَّحَابَةِ حُجَّة بِلَا خِلَافٍ: یعنی صحابہ رضی اللہ عنہم کا اجماع حجت ہے۔ اس میں کسی کو کوئی اختلاف نہیں ہے۔
(ارشاد الفحول صفحہ72 از قاضی محمد بن علی بن محمد الشوکانی المتوفی 1255ھ ادارة الطباعة المغیریة بمصر)
مذکورہ بالا اجماع کی بحث ان نام نہاد علماء کے حیات مسیح پر اجماع امت کے دعویٰ کی قلعی کھول رہی ہے اور یہ ثابت کر رہی ہے کہ کسی مسئلہ پر تمام مجتہدین امت کا متفق ہونا قطعی طور پر ناممکن ہے۔ پھر بھی یہ دعویٰ کرنا کہ حیات مسیح پر اجماع امت ہے، ایک بے بنیاد دعویٰ سے بڑھ کر اور کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔
وفات مسیحؑ اور بزرگان و علماء اُمت
حیات مسیح کے عقیدہ پر اجماع امت کے دعویٰ کی تردید کے لیے ذیل میں ہم چند بزرگان امت کے ارشادات درج کرتے ہیں تاکہ قارئین کو معلوم ہو سکے کہ حیات مسیح پر اجماع امت ہرگز نہیں۔اوپر یہ بیان ہو چکا ہے کہ اگر ایک مجتہد بھی کسی مسئلہ کے متعلق اختلاف کر دے تو اجماع منعقد نہیں ہوتا۔ اس قول کے مطابق ذیل میں درج شدہ حوالہ جات میں سے ہر ایک حوالہ حیات مسیح پر اجماع کی قلعی کھول رہا ہے۔ اور ثابت کر رہا ہے کہ حیات مسیح پر ہرگز ہرگز اجماع نہیں ہوا۔
(4) فقہ کے مشہور امام حضرت امام مالکؒ ؒ (90ھ تا179ھ)
مشہور و معروف بزرگ مالکی مسلک کے پیشوا حضرت امام مالک (90ھ تا179ھ)کے متعلق لکھا ہے:
وَالْاَکْثرُ ان عیسٰی لم یَمُت وقال مالک مَات
(مجمع بحار الانوار از علامہ شیخ محمد طاہر صفحہ۲۸۶ مطبع نول کشور ۱۳۱۴ھ ۔ البیان والتحصیل از ابوالولید ابن رشد قرطبی ص ۴۴۸ مطبوعہ قطر)
یعنی اکثر لوگ کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نہیں مرے لیکن حضرت امام مالک کا قول ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام وفات پا چکے ہیں۔
(5) حضرت علامہ ابن قیم ؒمتوفی (751ھ)
رئیس المحدثین حضرت علامہ ابن قیم متوفی (751ھ) زاد المعادمیں واقعہ معراج کے حوالے سےتحریر فرماتے ہیں:
فالانبیاء انّما اسْتقرّت ارواحُھم ھناک بعد مفارِقةِ الابدانِ
(زاد المعاد الجزء الاول صفحہ304)
یعنی معراج کی رات جو آنحضرت ﷺ نے ابنیاء سے ملاقات کی تو یہ ان انبیاء کی روحیں تھیں جنہوں نے جسم عنصری سے جدا ہو کر آسمانوں میں قرار پکڑا تھا۔
اسی طرح علامہ ابن قیم اپنی کتاب ’’مدارج السالکین‘‘ میں لکھتے ہیں:
ولو کان موسٰی وعیسٰی علیھماالسلام حیَّیْنِ لکانا من اَتْبَاعِہ
(مدارج السالکین الجزء الثانی صفحہ496لابن قیم (751ھ) دارالکتب العلمیة بیروت۔ لبنان۔ الطبعة الثانیة 1408ھ۔ 1988ء)
اور اگر موسیٰ علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہوتے تو لازما ًآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متبعین میں سے ہوتے۔
(6) الشیخ الاکبر علامہ محی الدین ابن عربیؒ (۵۶۰۔۶۳۸ھ)
ساتویں صدی ہجری کے عظیم بزرگ صوفی، الشیخ الاکبر العارف باللہ مصنف ’’فتوحات مکیہ‘‘بَلْ رَّفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیْہِ:کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
رَفْعُ عیسیٰ علیہ السلام اتِّصالُ روحِہ عند المُفارقةِ عن العالم السّفلِی بالعالم العَلویِّ
(تفسیر القرآن الکریم للشیخ الاکبر العارف باللہ العلامہ محی الدین ابن عربی۔ المتوفی سنة 638ھ۔ تحقیق وتقدیم الدکتور مصطفی غالب۔ المجلد الاول صفحہ 296 زیر آیت بل رفعہ اللّٰہ الیہ)
یعنی حضرت مسیح علیہ السلام کا رفع دراصل ان کی روح کے عالم سفلی سے جدا ہو کر عالم علوی میں قرار پکڑنے کا نام ہے۔
پھر اسی آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
وجب نُزولُہ فی آخرِالزّمان بتعلّقہ ببدنٍ آخَر
(تفسیر ابن عربی حوالہ مذکور)
یعنی آپ کا نزول آخری زمانے میں ایک دوسرے جسم کے ساتھ تعلق پکڑکر ہونا ضروری ہے۔
گویا وہ اسرائیلی مسیح کی آمد کے نہیں بلکہ غیر اسرائیلی مسیح کی آمد کے منتظر ہیں۔
(7) علامہ ابن حزم ؒ(متوفی456ھ)
پانچویں صدی کے مجدد، مشہور و معروف عالم دین، بلند پایہ محدث اور فقیہہ علامہ ابن حزم (متوفی456ھ) اپنی کتاب ’’المحلّی‘‘ میں وفات مسیح کا عقیدہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
وان عیسٰی علیہ السلام لم یُقْتَل ولم یُصْلب ولکن توفاہ اللّٰہ عزوجل ثم رفعہ الیہ۔ وقال عزوجل (وَمَا قَتَلُوْہُ وَمَاصَلَبُوہُ) وقال تعالیٰ(اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَرَافِعُکَ اِلَیّ) وقال تعالیٰ عنہ انہ قال (وکَنْتُ عَلَیْھِمْ شَھِیْدًا مَّا دُمْتُ فِیْھِمْ فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ کُنْتَ اَنْتَ الرَّقِیْبَ عَلَیْھِمْ وَاَنْتَ عَلیٰ کُلِّ شَیْٔ قَدِیْر) وقال تعالیٰ (اَللّٰہُ یَتَوَفَّی الْاَنْفُسَ حِیْنَ مَوْتِھَا وَالَّتِیْ لَمْ تَمُتْ فِیْ مَنَامِھَا ) فالوفاة قسمان: نوم، وموت فقط، ولم یرد عیسیٰ علیہ السلام بقولہ (فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ)وفاة النوم فصح انہ انما عنی وفاة الموت۔
(المحلّی لابی محمد علی بن احمد بن سعید بن حزم المتوفی سنة 456ھ۔ الجزء الاول صفحہ23مسئلہ نمبر41)
یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام نہ قتل ہوئے اور نہ صلیب پر مارے گئے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کو وفات دی اور پھر اپنے حضور رفعت بخشی۔ اور خدائے عزوجل کے قرآن مجید میں یہ فرمان ہیں(وَمَا قَتَلُوْہُ وَمَاصَلَبُوہُ)(اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَرَافِعُکَ اِلَیّ) (وکَنْتُ عَلَیْھِمْ شَھِیْدًا مَّا دُمْتُ فِیْھِمْ فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ کُنْتَ اَنْتَ الرَّقِیْبَ عَلَیْھِمْ وَاَنْتَ عَلیٰ کُلِّ شَیْٔ قَدِیْر) (اَللّٰہُ یَتَوَفَّی الْاَنْفُسَ حِیْنَ مَوْتِھَا وَالَّتِیْ لَمْ تَمُتْ فِیْ مَنَامِھَا )وفات کی فقط دو اقسام ہیں: نیند اور موت(اس کے علاوہ اور کوئی قسم بیان نہیں ہے۔ ) اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قول فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ میں نیند مراد نہیں ہے۔ پس واضح ہوتا ہے کہ یہاں صرف طبعی موت مراد ہے۔
علامہ ابن حزم اسی کتاب کے مسئلہ نمبر 43 میں واقعہ معراج کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے معراج کی رات جن انبیاء سے ملاقات کی تھی، یہ ان کی روحیں تھیں نہ کہ مادی اجسام، چنانچہ فرماتے ہیں:
ففِی ھذاالْخبر مکانُ الارْواحِ وان ارواحُ الانْبِیاء فی الجنّة
(المحلّی لابن حزم صفحہ 25 مسئلہ نمبر 43)
یعنی معراج والی حدیث میں ارواح کے ساتھ ملاقات کرکے روحوں کی جگہ کا بیان ہے اور وہ یہ ہے کہ یقیناًانبیاء کی روحیں جنت میں ہیں۔
وَاَنَّ عِیْسٰی عَلَیْہِ السَّلَامُ لَمْ یُقْتَلْ وَلَمْ یُصْلَبْ وَلٰکِنْ تَوَفَّاہُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ ثُمَّ رَفَعَہٗ اِلیْہِ
(المحلی از علامہ بن حزمؒ جز اوّل صفحہ ۲۳ مطبعہ نھضہ مصر)
یعنی عیسیٰ علیہ السلام نہ قتل ہوئے نہ صلیب پر مارے گئے لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو وفات دی پھر ان کو رفعت بخشی۔
اسی طرح حضرت امام ابن حزم کے بارے میں حضرت امام جلال الدین سیوطی نے لکھا ہے :
وتمسّک ابن حزم بظاھر الآیة وقال بمَوتہ۔
(حاشیہ بین السطور جلالین مع کمالینصفحہ109زیرآیت فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ)
یعنی امام ابن حزم نے اس آیت کو ظاہر پر حمل کیا ہے اور تَوَفِّیْ کا معنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موت بیان فرمایا ہے۔
(8) وفات مسیح، ایک فرقے کا عقیدہ
علامہ ابن الوردی فرماتے ہیں:
وقالت فِرقة نزولُ عیسیٰ خروجُ رجلٍ یَشبہُ عیسیٰ فی الفضلِ والشّرفِ کما یُقال لِلرَّجُلِ الْخَیْرِ ملَک وللشریر شیطَان تشبیھا بھما ولا یُراد الاعیانُ
(خریدة العجائب وفریدة الغرائبصفحہ263تالیفسراج الدین ابی حفص عمر بن الوردی (689ھ تا749ھ) الطبعة الثانیة طبع بمطبعة بمصر زیر عنوان ذکر نزول عیسیٰ ابن مریم علیھما السلام)
اور ایک گروہ کہتا ہے کہ نزول عیسیٰ سے مراد ایسے شخص کی آمد ہے جو فضیلت اور شرف میں عیسیٰ سے مشابہ ہو۔ اور جس طرح اچھے آدمی کو فرشتہ اور برے کو شیطان کہہ دیتے ہیں اور اس سے مراد فرشتہ وشیطان نہیں بلکہ ان سے مشابہت ہوتی ہے۔
علامہ ابن الوردی صاحب، خود حضرت عیسیٰ ؑ کی حیات اور ان کے دنیا میں دوبارہ آمد کے قائل ہیں اس لیے انہوں نے خود اس قول کی تصدیق نہیں کی لیکن پھر بھی وہ اس امر کو تسلیم کر رہے ہیں کہ مسیح ناصری کی وفات اور مثیل مسیح کا عقیدہ امت محمدیہ میں موجود تھا۔ اور یہ عقیدہ ایک یا دو آدمیوں کا نہیں تھا بلکہ امت کا ایک گروہ اس عقیدہ کو مانتا تھا۔
(9) شیخ محمد اکرم صاحب صابری
مشہور عالم دین شیخ محمد اکرم صاحب صابری اپنی کتاب ’’اقتباس الانوار‘‘(تالیف1130ھ)میں لکھتے ہیں:
’’ایک فرقے کا عقیدہ یہ ہے کہ مہدی آخرالزمان حضرت عیسیٰ بن مریم ہوں گے‘‘
(اقتباس الانوار صفحہ166 از شیخ محمد اکرم قدوسی مترجم کپتان واحد بخش سیال چشتی صابری۔ اشاعت دوم 1409ھ)
شیخ محمد اکرم صاحب کا چونکہ اپنا عقیدہ حیات مسیح کا ہے اس لیے انہوں نے اس روایت کے ضعف کا ذکر کیا ہے۔ بہرحال اس حوالے سے اتنا تو پتہ چلتا ہے کہ ایک فرقہ اسرائیلی مسیح کی دوبارہ آمد کا قائل نہیں تھا۔
(10) مشہور شیعہ محدث اور فقیہ علامہ قمی۔ ( المتوفی ۳۸۱ھ)
مشہور شیعہ عالم قمی (متوفی381ھ) وفات مسیح کا موقف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
ولَم یقدِروا علی قتْلہ وصلبہ لانھم لو قدروا علی ذالک کان تکْذیبا لقولہ تعالیٰ ولٰکن رَّفع اللّٰہ الیہ بعد ان توفّاہ
(اکمال الدین واتمام النعمة جلداول صفحہ332 تالیف شیخ الطائفہ صدوق علیہ الرحمة۔ کتاب فروشی اسلامیہ، تہران)
اور وہ (یعنی یہودی )مسیح کے قتل اور ان کو صلیب دینے پر قدرت نہ پا سکے کیونکہ اگر وہ اس پر قادر ہو جاتے تو اللہ کی بات جھوٹی نکلتی لیکن اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح علیہ السلام کو طبعی طور پر وفات دی اور اس کے بعد ان کو رفعت بخشی۔
(11)مشہور متکلم و مفسر علامہ محمد بن عبدالوہاب الجبائی (۲۳۵ھ تا ۳۰۳ھ)
علامہ طبرسی زیر آیت فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ لکھتے ہیں:
قَالَ الْجَبَائِیُّ وَفِی ھٰذِہ الْاٰیَۃِ دَلَالَۃٌ عَلٰی اَنَّہٗ اَمَاتَ عِیْسٰی وَتَوَفَّاہُ ثُمَّ رَفَعَہٗ اِلَیْہِ
(مجمع البیان از علامہ طبرسی جزو ۳ صفحہ۲۶۹ بیروت)
جبائی کہتے ہیں کہ اس آیت میں واضح دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ ؑ کو موت اور وفات دی اور پھر انہیں اپنے حضور رفعت عطا کی۔
(12)مفتی مصر شیخ محمد عبدہ (1839ءتا1925ء)
مفتی مصر اپنی تفسیر ’’تفسیر القرآن الکریم‘‘ میں زیر آیتیٰعِیۡسٰۤی اِنِّیۡ مُتَوَفِّیۡکَلکھتے ہیں:
فالْمتبادر فی الآیة انی ممیتک وجاعلُک بعد الموتِ فی مکانٍ رفیع عندی کما قال فی ادریس علیہ السلام وَرَفَعْنَاہُ مَکَانًا عَلِیًّا۔ ھذا ما یفھمہ القاری الخالی الذھن من الرّوایات والاقوال لانہ ھوالمتبادرُمن العبارة وقد ایدناہ بالشواھد من الآیات ولکن الْمفسّرین قد حوّلوا الکلام عن ظاھرہ لیَنطبقَ علی ما اعطتْھم الروایات من کَون عیسیٰ رفع الی السّماء بجسدِ ہ
(تفسیرالقرآن الحکیم لاستاذ مفتی محمد عبدہ جز ثالث صفحہ316زیر آیت انی متوفیک)
ترجمہ: اس آیت کا مفہوم ظاہر ہے کہ اے عیسیٰ میں تجھے موت دینے والا ہوں اور موت کے بعد اپنی جناب میں ایک عزت ورفعت والی جگہ میں رکھنے والا ہوں۔ جس طرح حضرت ادریس علیہ السلام کے بارہ میں فرمایا کہ ہم نے اسے عزت والے مقام پر جگہ دی …… ہر قاری جو روایات اور اقوال سے خالی الذہن ہو اس آیت کا یہی مفہوم سمجھتا ہے اور یہی اس عبارت سے ظاہر ہوتا ہے۔ اور ہم اس مفہوم کے حق میں آیات قرآنیہ کو بطور گواہ لائے ہیں۔ لیکن مفسرین نے اس کلام کو ظاہر سے پھیرا ہے تاکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے جسمانی رفع الی السماء کے متعلق جو ان کے پاس روایات ہیں ان کی تطبیق کر سکیں۔
اسی آیت کی تفسیر میں اس سے آگے مفتی محمد عبدہ صاحب لکھتے ہیں:
والطّریقة الثّانیة ان الآیة علی ظاھرھا وان التوفی علی معناہ الظّاھر الْمتبادر وھو الْاماتَة العادیّة وان الرفع یکون بعدہ وھو رفْع الروح
(حوالہ مذکورہ صفحہ317)
اور دوسرا طریق یہ ہے کہ آیت کے مفہوم کو ظاہراًمانا جائے۔ اس صورت میں توفیکے ظاہر و باہر معنی طبعی موت ہی ہیں اور یقیناً رفع جو اس توفی کے بعد ہے وہ صرف روح ہی کا رفع ہے۔
(13)علامہ ڈاکٹر محمد محمود حجازی پروفیسر ازہر یونیورسٹی مصر
آپ آیت اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ کی تفسیر میں لکھتے ہیں:۔
’’اے عیسیٰ میں تیری کامل عمر پوری کروں گا… اور تجھے اعلیٰ مقام میں رفعت بخشونگا اس رفع سے مراد مرتبے کا رفع ہے نہ کہ جسمانی… رَافِعُکَ کے یہ معنی (واللہ اعلم) نہیں ہیں کہ عیسیٰ ؑ کا رفع آسمان کی طرف ہوا اور یہ کہ وہ دنیا کے آخر میں پھر اتریں گے اور اپنی مدت عمر پوری کر کے پھر وفات پائیں گے‘‘۔
(التفسیر الواضح از ڈاکٹر محمد محمود حجازی جز اوّل ص ۶۴ مطبع الاستقلال قاہرہ)
(14)تاریخ اسلام کے استاد عبدالوہاب النجار
’’اس آیت یَا عِیْسٰی اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ سے مراد یہ ہے کہ میں تیری عمر پوری کروں گا اور تجھے طبعی وفات دونگا‘‘۔
(قصص الانبیاء صفحہ ۴۲۳ از عبدالوہاب نجار طبع ثالثہ داراحیاء التراث العربی)
(15)علامہ احمد المصطفیٰ المراغی
علامہ احمد المصطفیٰ المراغی جو ازہر یونیورسٹی کے رئیس تھے، وفات مسیح کے قائل ہیں۔ چنانچہ اپنی تفسیر میں انی متوفیک کے تحت انہوں نے علماء کے دو اقوال لکھے ہیں۔ دوسرا قول یہ لکھاہے:
ان الآیة علی ظاہرھا، وان التّوفی ھوالاماتة العَادیة، وان الرفع بعدہ للرّوح … والمعنی۔ انی ممیتک وجاعلُک بعد الموت فی مکانٍ رفیعٍ عندی کما قال فی ادریس علیہ السلام ورفعْناہُ مکَانًا علیّا۔ وحدیث الرّفع والنّزول آخر الزمان حدیث آحاد یتعلق بامرٍ اعتقادیّ، والامور الاعتقادیّة لا یوخذ فیھا الّا بالدّلیل القاطعِ من قرآنٍ او حدیثٍ متواترٍ، ولا یُوجدھنا واحد منھما
(تفسیر المراغی تالیف احمد مصطفی المراغی زیر آیت متوفیک)
یعنی آیت سے ظاہری معنی مراد ہیں اور توفی سے طبعی موت مراد ہے۔ اور اس موت کے بعد رفع سے روحانی رفع مراد ہے۔ اور آیت کا مطلب یہ ہے کہ میں تجھے موت دینے والا ہوں طبعی موت کے بعد بلندمقام میں رکھنے والا ہوں جس طرح حضرت ادریس علیہ السلام کے بارے میں آیت مذکور ہے کہ ہم نے ان کو بلند مقام پر رفعت دی۔ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع اور آخری زمانے میں نزول کی احادیث احاد ہیں۔ جو اعتقادی امور سے متعلق ہیں اور اعتقادی امور کی بنیاد تو قرآن کریم یا احادیث متواترہ کے قطعی دلائل پر مشتمل ہوتی ہے۔ اور یہاں ان دونوں میں سے یعنی قرآن کریم اور احادیث متواترہ میں سے کوئی بھی نہیں ہے۔
(16)علامہ سید محمد رشید رضامفتی مصر (1865ءتا 1935ء)
علامہ سید محمد رشید رضامفتی مصر مدیر رسالہ المنار مصری، انہوں نے اپنے استاد مفتی مصر محمد عبدہ سے علم حاصل کیا اور ’’الارشاد والالدعوة‘‘ کالج کے پرنسپل مقرر ہوئے۔ حکومت مصر نے ان کی قابلیت کی وجہ سے ان کو مفتی مصر مقرر کر دیا۔ یہ اپنی تفسیر ’’تفسیر القرآن الحکیم‘‘ میں زیر آیت اِنِّیۡ مُتَوَفِّیۡکَوفاتِ مسیح کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
فالمتبادر فی الآیة انّی ممیتکَ وجاعلُک بعد الموت فی مکان رفیع عنْدی کما قال فی ادریس علیہ السلام وَرَفَعْنَا ہُ مَکَانًا عَلِیًّا
(تفسیر القرآن الحکیم الشہیربتفسیر المنار از علامہ محمد رشید رضا زیر آیت اِنِّیۡ مُتَوَفِّیکَ المجلد الثالث صفحہ316)
یعنی اس آیت سے ظاہر ہے کہ اے عیسیٰ میں تجھے طبعی موت دینے ولا ہوں اور طبعی موت کے بعد اپنی جناب میں ایک عزت و رفعت والی جگہ میں رکھنے ولا ہوں۔ جیسا کہ حضرت ادریس علیہ السلام کے بارے میں فرمایا کہ ہم نے اسے عزت والے مقام پر جگہ دی۔
(17)علامہ محمود شلتوت صاحب مفتی مصر
علامہ محمود شلتوت صاحب مفتی مصر نے نہایت وضاحت وصراحت اور شد و مد سے وفات عیسیٰ کا فتویٰ دیا ہے۔ چنانچہ لکھتے ہیں:
والمَعنی ان اللّٰہ توفی عیسٰی ورفعہ الیہ وطھّرہ من الذین کفرُوا۔ وقد فسّر الالوسی قولہ تعالیٰ ’’انّی متوفّیک‘‘بوجوہٍ منھا۔ وھواظھرھا۔ انی مستوفٍ اجلک وممیتک حتْفَ انفِک لا اسلّط علیک من یقْتُلک …… وظاہر ان الرّفع الذی یکون بعد التّوفیة۔ ھورفْعُ المکانة لا رفْع الجسد …… فمِن این تُؤْخذ کلمةُ السّماء من کلمةٍ(الیہ)؟ اللّٰھم ان ھذاالظّلم للتّعبیر القرآنیّ الواضح خضُوعا لقِصص وروایات لَّم یقم علی الظن بھا فضلا عن الیقین۔ برھان ولا شبہ برھان
(الفتاویٰ للامام الاکبر محمود شلتوت صفحہ53تا54)
ترجمہ: اس کا مطلب ہے کہ اللہ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو وفات دی، عزت دی اور کافروں کے الزامات سے پاک کیا۔ علامہ الوسی نے اپنی تفسیر میں اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ کے کئی معنی کیے ہیں ان میں سے سب سے مضبوط معنی یہ ہیں کہ میں تیری عمر پوری کرکے تجھے طبعی طورسے وفات دوں گا۔ اور میں تجھ پر ایسے لوگوں کو مسلط نہیں کروں گا جو تجھے قتل کر دیں۔ پھر رفع کے معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ وہ رفع جو توفی کے بعد ہو سکتا ہے وہ رفع مرتبہ ہی ہے نہ کہ رفع جسمانی۔ پھر رفع سماوی کا رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ بَلْ رَّفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیْہِمیں آسمان کا کوئی لفظ موجود نہیں۔ پھر جسمانی رفع کے قائلین کی طرف سے آسمان کا لفظ کہاں سے لیا جاتا ہے۔ یقینا ًیہ قرآن کے ایک واضح مفہوم کے ساتھ زیادتی ہے۔ محض ایسے قصے اور ظنی روایات قبول کرتے ہوئے جن پر کوئی دلیل تو کیا دلیل کا کوئی ادنیٰ سا شائبہ بھی نہیں۔
(18)حضرت خواجہ غلام فرید صاحب چاچڑاں شریف والے (۱۲۵۷۔۱۳۱۹ھ)
حضرت خواجہ غلام فرید صاحب چاچڑاں شریف والے (متوفی 1901ء) بھی وفات مسیح کے قائل تھے۔ چنانچہ ’’اشارات فریدی‘‘ میں لکھا ہے:
’’ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان پر اٹھائے جانے کا ذکر ہو رہا تھا۔ ایک شخص نے دریافت کیا کہ کیا حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس جسم کے ساتھ آسمان پر اٹھائے گئے تھے یا معروف موت کے بعد آپ کی روح مرفوع ہوئی۔ آپ نے فرمایا کہ باقی انبیاء اور اولیاء کی طرح مرفوع ہوئے ہیں۔ ‘‘
(اشارات فریدی مقابیس المجالس مترجم اردو کپتان واحد بخش سیال صفحہ731 مقبوس نمبر 60بروز یکشنبہ 20ذیقعد1316ھ)
(19)علامہ عبیداللہ سندھی صاحب (۱۲۹۰ تا ۱۳۶۳ھ)
مشہور عالم دین اور مدرسہ دارالعلوم دیوبند کے فارغ التحصیل علامہ عبیداللہ سندھی صاحب (متوفی 1944ء) اپنی تفسیر ’’الہام الرحمٰن فی تفسیر القرآن‘‘(اردو ترجمہ) میں فرماتے ہیں:
’’مُمِیْتُکَ:تجھے مارنے والا ہوں۔ یہ جو حیات عیسیٰ لوگوں میں مشہور ہے یہ یہودی کہانی۔ نیز صابی من گھڑت کہانی ہے۔ مسلمانوں میں فتنہ عثمان کے بعد بواسطہ انصار بنی ہاشم یہ بات پھیلی اور یہ صابی اور یہودی تھے…… قرآن میں ایسی کوئی آیت نہیں جو اس بات پر دلالت کرتی ہو کہ عیسیٰ نہیں مرا اور وہ زندہ ہے اور نازل ہو گا۔
(الہام الرحمٰن فی تفسیر القرآن اردو ترجمہ صفحہ240تا241 زیر آیت اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ آل عمران : 56)
(20)غلام احمد پرویز (۱۳۲۰تا ۱۴۰۵ھ)ایڈیٹر طلوع اسلام
علاوہ ازیں موجودہ وقت میں غلام احمد پرویز ایڈیٹر طلوع اسلام کراچی اور اہل قرآن کے عظیم عالم کا یہ عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام دوسرے انبیاء کی طرح وفات پاچکے ہیں اور اب تک آسمان پر زندہ نہیں ہیں۔
’’باقی رہا عیسائیوں کا یہ عقیدہ کہ آپ زندہ آسمان پر اٹھائے گئے تھے۔ تو قرآن سے اس کی بھی تائید نہیں ہوتی، بلکہ اس میں ایسے شواہد موجود ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ آپ نے دوسرے رسولوں کی طرح اپنی مدت عمر پوری کرنے کے بعد وفات پائی۔ ‘‘
(سلسلہ معارف القرآن۔ شعلۂ مستور صفحہ80 ایڈیشن سوم)
’’حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زندہ ہونے کی تائید قرآن کریم کی آیات سے نہیں ملتی۔ بلکہ اس کے برعکس آپ کے ’’گذر جانے‘‘اور وفات پا جانے کی شہادت قرآن میں موجود ہے۔ ‘‘
(شعلۂ مستور صفحہ82تا83)
(21)بانی خاکسار تحریک علامہ عنایت اللہ مشرقی (۱۳۰۶ تا ۱۳۸۲ھ)
’’حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موت بھی اسی سنت اللہ کے مطابق واقع ہوئی تھی جس کی بابت قرآن نے کہا ہے وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَبْدِیْلاً‘‘۔
(تذکرہ جلد نمبر۱ صفحہ۱۷ از علامہ مشرقی مطبع وکیل امرتسر ۱۹۲۴ء)
(22) مشہور عالم لیڈر شیخ الہند مولانا ابوالکلام آزاد (1888ء تا1958ء ) فرماتے ہیں:
’’بلاشبہ یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ یہ عقیدہ اپنی نوعیت میں ہر اعتبار سے ایک مسیحی عقیدہ ہے اور اسلامی شکل ولباس میں نمودار ہوا ہوا ہے۔ ‘‘
(نقش آزاد صفحہ102 مولف غلام رسول مہرطابع شیخ نیاز احمد، مطبع علمی پرنٹنگ پر یس ہسپتا ل روڈ لاہور ناشر کتاب منزل لاہور)
’’وفات مسیحؑ کا ذکر خود قرآن میں ہے‘‘۔
(ملفوظات آزاد مرتبہ مولانا محمداجمل صفحہ۱۳۰)
(23)سر سید احمد خان صاحب (1817ء تا1898ء)
مسلمانانِ برصغیر کے عظیم رہ نماسرسید احمد خان صاحب بانیٔ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ تحریر فرماتے ہیں:
’’قرآن مجید میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کے متعلق چار جگہ ذکر آیا ہے…… مگر چونکہ علماء اسلام نے بہ تقلید بعض فرق نصاریٰ کے قبل اس کے کہ مطلب قرآن مجید پر غور کریں یہ تسلیم کر لیا تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ آسمان پر چلے گئے ہیں اس لیے انہوں نے ان آیتوں کے بعض الفاظ کو اپنی غیر محقق تسلیم کے مطابق کرنے کی بے جا کوشش کی ہے۔ ‘‘
(تفسیر القرآن مع تحریر فی اصول التفسیر از سر سید احمد خان صاحب تفسیر سورة آل عمران حصہ دوم صفحہ41-43)
’’حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا اپنی موت سے وفات پانا اعلانیہ ظاہر ہے‘‘۔
(تفسیر القرآن جلد دوم صفحہ۴۳۔ الکریم مارکیٹ اُردو بازار لاہور)
(24)حضرت علی ہجویری داتا گنج بخشؒ (۳۹۹۔۴۶۵ھ)
حضرت سید علی بن عثمان الہجویری المعروف بہ داتا گنج بخش فرماتے ہیں:
’’رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ :’’معراج کی رات مَیں نے حضرت آدم صفی اللہ، یوسف صدیق، موسیٰ کلیم اللہ، ہارون حلیم اللہ، عیسیٰ روح اللہ اور ابراہیم خلیل اللہ علیہم السلام کو آسمانوں میں دیکھا۔ لا محالہ یہ ان کی ارواح ہیں۔ ‘‘
(کشف المحجوب تصنیف حضرت داتا گنج بخش لاہوری صفحہ 274۔ باب 14فصل حقیقتِ روح ترجمہ و شرح اردو الجاج کپتان واحد بخش سیال چشتی صابری جنوری1999ء)
بزرگان دین اور علمائے امت کے ان حوالہ جات سے روز روشن کی طرح ثابت ہو رہا ہے کہ ہر زمانے میں ایسے لوگ پیدا ہوتے رہے ہیں جنہوں نے ببانگ دہل وفات مسیح کا اعلان کیا۔ اور وفات مسیح کے قائلین میں اگر ان لوگوں کو بھی شامل کر لیا جائے جو ان بزرگوں اور علماء کے پیرو کارتھے تو بلاشبہ یہ تعداد لاکھوں، کروڑوں تک جا پہنچتی ہے۔
مندرجہ بالا حوالہ جات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ بھی دیگر بنی نوع انسان کی طرح طبعی عمر پا کر فوت ہو چکے ہیں۔ آپ کا زندہ آسمان پر اٹھایا جانا محض اسرائیلی کہانی ہے۔

نزول مسیح پر اجماعِ امت کے دعویٰ کی حقیقت
مسلمان علماء کا عقیدہ ہے کہ مسیح اسرائیلی نے ہی آخری زمانے میں نازل ہونا ہے اور نزول مسیح کے متعلق احادیث پر اجماع امت ہے۔ یعنی تما م امت محمدیہ یہ عقیدہ رکھتی ہے کہ آخری زمانے میں فتنہ وفساد کو دور کرنے اور غلبہ اسلام کے لیے خداتعالیٰ امت محمدیہ میں مسیح اسرائیلی کو آسمان سے نازل کرے گا۔ دیوبندی عالم مفتی رفیع صاحب لکھتے ہیں کہ
’’نزول عیسیٰ کے بارے میں 109 حدیثوں نے جو قطعی طور پر متواتر ہیں اس اجماعی عقیدے کو ہر قسم کی تحریف و تاویل سے ہمیشہ کے لیے مامون و محفوظ کر دیا ہے‘‘
(علامات قیامت اور نزول مسیح صفحہ42)
اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہوں پھر تسلیم کرنا پڑے گا کہ آخری زمانے میں مسیح ناصری نے ہی امت کی اصلاح کے لیے آنا ہے۔ لیکن اگر وہ وفات یافتہ ہوں تو اس بات کو ماننے کے سوا اور کوئی راستہ نہیں کہ ابن مریم کی آمد سے مراد مثیل ابن مریم ہے۔ گذشتہ صفحات میں تفصیل سے گزر چکا ہے کہ قرآن کریم اور احادیث نبویہﷺ روز روشن کی طرح وفات مسیح ثابت کر رہی ہیں۔ وفات مسیح کے ان دلائل و براہین کے ہوتے ہوئے یہ دعویٰ کرنا کہ آخری زمانے میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہی آئیں گے۔ اور اسی پر اجماع امت ہے ایک بے بنیاد دعویٰ ہے۔
علاوہ ازیں امت محمدیہ میں ہمیں ایسے بزرگان اور علماء بھی ملتے ہیں جنہوں نے نہایت صراحت و وضاحت سے لکھاہے کہ امت محمدیہ میں مسیح کی آمد سے مراد مثیل مسیح کی آمد ہے۔ چنانچہ ساتویں صدی ہجری کے عظیم صوفی بزرگ اور مشہورومعروف عالم دین (1)حضرت علامہ محی الدین ابن عربی (متوفی 638ھ) تحریر فرماتے ہیں:
وجب نزولہ فی آخر الزمان بتعلقہ ببدن آخَرَ
(تفسیر القرآن الکریم از ابن عربی زیر آیت بل رفعہ اللّٰہ الیہ)
یعنی مسیح کا نزول آخری زمانے میں ایک دوسرے جسم کے ساتھ تعلق پکڑ کر ہونا ضروری ہے۔
(2)آٹھویں صدی ہجر ی کے عظیم عالم علامہ سراج الدین ابی حفص عمر بن الوردی (749ھ) تحریر فرماتے ہیں:
وقالت فرقة نزول عیسیٰ خروج رجل یشبہ عیسیٰ فی الفضل و الشرف کما یقال للرجل الخیر ملک و للشریر شیطان تشبیھا بھما ولا یراد الاعیان
(خریدة العجائب و فریدة الغرائب صفحہ263تالیف سراج الدین ابی حفص عمر بن الوردی)
یعنی ایک گروہ کہتا ہے کہ نزول عیسیٰ سے مراد ایسے شخص کی آمد ہے جو فضیلت اور شرف میں عیسیٰ سے مشابہ ہو۔ جس طرح اچھے آدمی کو فرشتہ اور برے آدمی کو شیطان کہہ دیتے ہیں اور اس سے مراد حقیقتاً فرشتہ و شیطان نہیں ہوتے بلکہ ان کی مشابہت مرادہوتی ہے۔
(3)’نجم الثاقب‘ میں لکھاہے:
در شرح دیوان از بعض نقل کرد کہ روح عیسیٰ علیہ السلام در مہدی علیہ السلام بروز کند و نزول عیسیٰ عبارت از ایں بروز است و مطابق اینست حدیث لا مھدی الا عیسیٰ بن مریم۔
(نجم الثاقب باب چہارم صفحہ102 تالیف حاج میرزا حسین طبرسی نوری)
یعنی شرح دیوان میں بعض کا یہ عقیدہ لکھا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی روحانیت مہدی علیہ السلام میں بروز کرے گی اور حدیث میں نزول عیسیٰ سے مراد یہ بروز ہی ہے۔ اور اسی کے مطابق یہ حدیث ہے کہ مہدی ہی عیسیٰ بن مریم ہیں۔
(4)شیخ محمد اکرم صاحب صابری اپنی کتاب ’’اقتباس الانوار‘‘جو 1130ھ کی تالیف ہےمیں لکھتے ہیں:
’’ایک فرقے کا عقیدہ یہ ہے کہ مہدی آخر الزمان حضرت عیسیٰ بن مریم ہوں گے۔ ‘‘
)اقتباس الانوار صفحہ166 از شیخ محمد اکرم قدوسی ترجمہ مؤلفہ الحاج کپتان واحد بخش سیال چشتی صابری زمانہ ٔتالیف 1130ھ۔ اشاعت دوم 1409ھ ناشر بزم اتحاد المسلمین لاہور پاکستان(
شیخ محمد اکرم صاحب صابری کا چونکہ اپنا عقیدہ حیات مسیح کا ہے اور آخری زمانے میں آنے کا ہے اس لیے انہوں نے ایک فرقے کا عقیدہ لکھ کر نیچے لکھا ہے کہ یہ روایت ضعیف ہے۔ بہرحال ایک فرقہ کا عقیدہ لکھ کر اتنا تو ثابت کر گئے ہیں کہ اسرائیلی مسیح کی آمد پر اجماع امت نہیں ہے۔
مستقبل کی خبریں جاننے کا طریق
علاوہ ازیں اس نام نہاد اجماع امت کے متعلق یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ مسیح کا جسم کے ساتھ آسمان سے اترنا اس کے جسم کے ساتھ آسمان پر چڑھنے کی فرع ہے۔ یعنی اگر قرآن و حدیث سے یہ ثابت ہو جائے کہ مسیح زندہ جسم سمیت آسمان پر چڑھ گیا ہے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ نکالنا پڑے گا کہ پھر وہ آسمان سے ہی اترے گا۔ لیکن اگر قرآن و حدیث سے حیات مسیح ثابت نہ ہو اور ان کا زندہ جسم سمیت آسمان پر جانا مذکور نہ ہو بلکہ اس کے برعکس ان کی وفات ثابت ہو تو عقل ان کے آسمان سے زندہ نازل ہونے کی فرع کو کسی صورت میں قبول نہیں کر سکتی۔ جیسے ہر درخت کا تنا بھی ہوتا ہے اور شاخیں بھی۔ اگر تنا کاٹ دیا جائے تو لازماً شاخیں بھی سلامت نہیں رہیں گی اسی طرح حیات مسیح کا تنا قرآن و حدیث نے زور آور ہتھیاروں سے کاٹ کر رکھ دیا ہے جس کا لازمی نتیجہ یہ نکلے گا کہ اب کوئی آسمان سے آئے گا ہی نہیں۔ جو آسمان پر گیا ہی نہیں وہ وہاں سے اترے گا کیسے۔
علاوہ ازیں یہ بات بھی ذہن نشین کرنی چاہیے کہ پیشگوئیوں کے بارے میں اجماع ہو ہی نہیں سکتا۔ کیونکہ مستقبل کے متعلق انسانوں کو صحیح علم نہیں ہوسکتا۔
(1)چنانچہ علامہ محمود شلتوت مفتی مصر تحریر کرتے ہیں:
اما الحِسِیاتُ المُستقبلةُ من اشراط السّاعة و اُمور الاخرة فقد قالواانّ الاجماعَ علیھا لا یعتبر من حیث ھو اجماع، لان المُجْمعینَ لا یعلمُون الغیبَ …… لان الحسیَ المستقبَلَ لا مَدْخَلَ للاجتھاد فیہ
(الفتاو یٰ صفحہ67 از مفتی مصر علامہ محمود شلتوت)
ترجمہ: یعنی جہاں تک مستقبل کے امور کا تعلق ہے جیسے علامات قیامت اور امور آخرت۔ تو ایسے امور کے متعلق علماء نے کہا ہے کہ اجماع کی کوئی حیثیت نہیں۔ کیونکہ اجماع کرنے والے غیب کا علم نہیں رکھتے۔ اس لیے مستقبل کے امور کے متعلق اجتہاد کو کوئی دخل نہیں۔
پس اس حد تک تو ہم تسلیم کرتے ہیں کہ آخری زمانے میں ابن مریم نے نازل ہونا ہے اور اس نے آکر اسلام کو غالب کرنا ہے۔ کیونکہ یہ خبر رسول اکرم ﷺکی احادیث مبارکہ میں تواتر کے ساتھ ملتی ہے۔ لیکن یہ کہنا کہ ابن مریم سے مراد مسیح ناصری ہی ہے اور نزول سے مراد آسمان سے ہی نازل ہونا ہے یہ بالکل غلط ہے تمام امت نے اس پر ہرگز اجماع نہیں کیا۔ بزرگان امت کے حوالہ جات گذشتہ صفحات میں گزر چکے ہیں جو مسیح ناصری کو وفات یافتہ تسلیم کرتے ہیں اور ان کی آمد کو بروزی رنگ میں مانتے ہیں۔
سلف اور خلف کے لیے یہ ایک ایمانی امر تھا جو پیشگوئیوں کو انہوں نے اجمالی طور پر مان لیا۔ انہوں نے ہرگز یہ دعویٰ نہیں کیا کہ ہم ان پیشگوئیوں کی تہ تک پہنچ گئے ہیں اور درحقیقت ابن مریم سے مراد مسیح ابن مریم ہی ہے۔ اور اسی طرح ان پیشگوئیوں میں مذکور ہ تمام علامات ظاہری صورت میں ہی پوری ہونی ہیں۔ اگر امت کا اجماع ہوتا تو ان میں سے نہ کوئی وفات مسیح کا قائل ہوتا اور نہ ہی مسیح کی آمد کو بروزی قراردیتا۔ ہاں اتنی بات تو ہم بھی تسلیم کرتے ہیں کہ امت کے بعض علماء کو واقعی غلط فہمی ہوئی ہے کہ انہوں نے آخری زمانے میں ابن مریم کے آنے سے مراد مسیح ابن مریم کوہی لیا ہے۔ لیکن ہمارے موقف کو اس سے کوئی کمزوری نہیں پہنچتی کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ بعض اوقات انبیاء کے ذہن میں بھی پیشگوئی پوری ہونے کا ایک خاص اور معین مفہوم مراد ہوتا ہے لیکن عملاً وہ پیشگوئی کسی اور رنگ میں پوری ہوتی ہے۔چنانچہ احادیث میں ہمیں اس امر کی کئی مثالیں ملتی ہےہیں
(2) مثلارسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ابھی مکہ میں ہی تھے کہ آپ نے اپنی ہجرت کے متعلق ان الفاظ میں پیشگوئی کی۔
’’رأیتُ فی المَنا م انی اُھاجِر مِن مکة الی ارضٍ بھا نخْل ، فذھب وھلی الی انھا الْیَمامة او ھجر، فاذا ھِی الْمدینة یَثْرب‘‘
یعنی میں نے رؤیا میں دیکھا کہ میں مکہ مکرمہ سے ایک ایسی سرزمین کی طرف ہجرت کر رہا ہوں جس میں کھجوروں کے باغات ہیں۔ پس میں نے سمجھا کہ یہ جگہ یا یمامہ ہے یا ھجر ہے۔ لیکن عملاً جب ہجرت ہوئی تو وہ سرزمین مدینہ یثرب تھی۔
(صحیح بخاری کتاب المناقب باب علامات النبوة فی الاسلام۔ صحیح بخاری کتاب التعبیر باب اذا رای بقرة تنحر)
(3)اسی طرح یہ بھی ذکر ملتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری وفات کے بعد میری بیویوں میں سے پہلے وہ فوت ہو گی جس کے ہاتھ لمبے ہوں گے۔ آپؐ کی بیویوں نے جب یہ سنا تو انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ہی باہم ہاتھ ماپنے شروع کر دیے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو منع نہ فرمایا بلکہ ان کے اس عمل پر خاموش رہے۔ چنانچہ جب بیویوں نے ہاتھ ماپے تو سب سے لمبے ہاتھ حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کے نکلے۔اب تمام لوگوں نے یہی سمجھ لیا کہ حضرت سودہ رضی اللہ عنہا سب سے پہلے فوت ہوں گی۔ لیکن عملاً یہ ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جس بیوی کی سب سے پہلے وفات ہوئی وہ حضرت زینب بنت جحش تھی۔ تب دوسری بیویوں اور باقی لوگوں کو سمجھ آئی کہ لمبے ہاتھوں سے مراد سخاوت تھی۔ چونکہ حضرت زینب باقی بیویوں کے مقابلے میں زیادہ سخاوت کرنے والی تھیں۔اس لیے ان کی پہلے وفات ہوئی۔ صحیح بخاری میں لکھا ہے:۔
’’عن عائشة رضی اللّٰہ عنھا: انّ بعضَ ازواجِ النّبیّ صلی اللہ علیہ وسلم قُلن لِلنّبی صلی اللہ علیہ وسلم: اَیّنا اَسرعُ بک لُحوقًا؟ قال اَطولکُنّ یدا۔ فاخذوا قصبة یَذْرعُونَھا فکانَت سَودة اَطْولھن یَدًا، فَعلِمنا بعد انّما کانتْ طول یدھا الصّدقة، وکانت اسرعْنا لُحُوقا بہ، وکانت تحبّ الصّدقة‘‘
(صحیح بخاری کتاب الزکاة باب فضل صدقة الشحیح الصحیح)
حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ بعض ازواج مطہرات نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ کہ ہم میں سے سب سے پہلے آپ کی وفات کے بعد آپ سے کون ملے گی۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے جس کے ہاتھ سب سے لمبے ہیں۔ پس انہوں نے سر کنڈا پکڑا اور ہاتھ ماپنے شروع کیے تو حضرت سودہ کے ہاتھ سب سے لمبے نکلے ۔ لیکن ہمیں بعد میں معلوم ہوا جب حضرت زینب کی وفات ہوئی کہ لمبے ہاتھوں سے مراد صدقہ تھا اور حضرت زینب صدقہ وخیرات کو بہت پسند کرتی تھیں۔
اس حدیث میں فَاَخَذُوْا قَصَبَةً یَذْرَعُوْنَھَا کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں جن سے ثابت ہو رہا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں ازواج مطہرات رضی اللہ عنھن نے ہاتھ ماپے تھے۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں موجود نہ ہوتے اور صرف ازواج مطہرات ہی ہاتھ ماپتیں تو مؤنث جمع کے صیغے فاخَذْنَ قصبةً یَذْرَعْنَھَا استعمال ہونے چاہیے تھے۔
فتح الباری شرح صحیح بخاری میں لکھا ہے:۔
’’نِسْوَة النبی صلی اللہ علیہ وسلم حَمَلْن طُول الیَدِ علی الحقِیْقةِ فلم ینکر علیھن‘‘
(فتح الباری شرح صحیح بخاری الجزء الثالث صفحہ288 از امام حافظ احمد بن علی بن حجر العسقلانی (852 ھ) دارنشر الکتب الاسلامیة۔ 2۔ شارع شیش محل لاہور پاکستان طبع1401ھ ،1981ء)
یعنی ازواج مطہرات رضی اللہ عنھن نے ہاتھوں کی لمبائی کی حقیقت کوظاہر پر محمول کیا تھا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اس عمل کو نہ روکا اور نہ انہیں منع کیا۔
اس سے ملتا جلتا مضمون صحیح بخاری کتاب الزکوٰة باب فضل صدقة الشحیح الصحیح حاشیہ احمد علی سہانپوری اور صحیح مسلم کتاب فضائل صحابہ باب من فضائل زینب ام المومنین میں بیان ہوا ہے۔علاوہ ازیں ازواج مطہرات کو اس پیشگوئی کے ظاہرًا پورا ہونے پر اس قدر یقین تھا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بھی وہ اپنے ہاتھوں کو ماپتی رہتی تھیں کہ کس کے ہاتھ لمبے ہیں۔ چنانچہ فتح الباری حضرت عائشہ کی روایت بیان ہے:
’’فکنّا اذا اجْتَمعنا فِی بَیتٍ اِحدَانا بعدَ وفَاةِ رسولِ اللہ ﷺنَمُدُّ ایْدینا فی الجدار نَتَطاول فَلم نَزلْ نفعل ذالک حتّی تُوفّیتْ زینب بنت جحش وکانت اِمْراة قَصیرة ولم تکن اَطوَلَنا فعرَفنا حِینئذٍ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم انّما اَراد بطولِ الید الصّدقةَ وکانت زینب امراة صَناعةَ الیَدِ‘‘
(فتح الباری جزء 3صفحہ287)
یعنی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب کبھی بھی ہم اپنے میں سے کسی کے گھر اکٹھی ہوتیں تو ہم دیوار پر اپنے اپنے ہاتھوں کو پھیلا کر ماپتیں کہ کس کے ہاتھ لمبے ہیں۔ اور یہ کام ہم مسلسل کرتی رہیں یہاں تک کہ حضرت زینب بنت جحش وفات پاگئیں حالانکہ حضرت زینب کے ہاتھ چھوٹے تھے۔ تب ہمیں پتہ چلا کہ لمبے ہاتھوں سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد صدقہ وخیرات اور سخاوت میں لمبے ہاتھ ہونا تھا۔ اور حضرت زینب میں یہ خوبی پائی جاتی تھی۔
پس اس سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ جب تک پیشگوئیوں کا ظہور نہ ہو اس سے پہلے پیشگوئیوں کے متعلق اجماع کا دعویٰ کرنا بالکل غلط ہے۔
(4)اسی طرح صلح حدیبیہ کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہی سمجھے کہ ہم اس رؤیا کے مطابق جس میں مجھے صحابہ کو طواف کرتے دکھایا گیا تھا، اسی سال طواف کعبہ کریں گے۔اس پر اتنا یقین تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم 1400 صحابہ کو لے کر سینکڑوں کلو میٹر کا انتہائی کٹھن سفر کر کے پہنچے لیکن اس سال طواف نہ ہو سکا۔
(سیرة حلبیہ اردو ترجمہ از محمد اسلم قاسمی جلد 5صفحہ51زیر عنوان غزوہ حدیبیہ دارالاشاعت کراچی۔ تالیف علامہ علی بن برہان الدین حلبی)
بہرحال یہ تمام مثالیں ثابت کر رہی ہیں کہ پیشگوئیوں کی حقیقت سمجھنے میں بعض اوقات نبی کو بھی غلطی لگ سکتی ہے۔
اب ہم نزول عیسیٰ کی پیشگوئی کو ایک اَور زاویے سے دیکھتے ہیں۔ نزول المسیح کی پیشگوئی اشراطِ ساعہ میں سے ایک ہے۔ اور اشراطِ ساعہ کے متعلق لکھا ہے کہ یہ متشابہات میں سے ہیں۔ یعنی علامات قیامت کے متعلق کوئی آدمی یقین اور وثوق سے نہیں کہہ سکتا کہ یہ اس طرح پوری ہوں گی اور فلاں تاریخ کو یہ علامت پوری ہو گی اور فلاں تاریخ کو یہ علامت تکمیل کو پہنچے گی۔ یا پھر اس علامت کی یہ کیفیت ہوگی۔ اس طرح اس کا ظہور ہوگا۔ یہ تمام امورمستقبل سے تعلق رکھتے ہیں۔ جن کے متعلق قطعیت سے نہیں کہا جا سکتا کہ ان کا ظہور کس طرح ہوگا۔ علمائے امت نے نزول مسیح اور خروج دجال اور اشراطِ ساعہ کو متشابہات میں شمار کیا ہے۔ اور متشابہات کے متعلق بزرگان دین کا یہی موقف ہے کہ ان کی حقیقت کو خدا تعالیٰ کے سپرد کرنا چاہیے۔ ہمارا فرض بس یہی ہے کہ ان کے وقوع پذیر ہونے پر ایمان رکھیں۔ اور ان کے وقوع پذیر ہونے سے پہلے قطعیت کے ساتھ کوئی ایسی رائے قائم نہ کریں جو بعد میں ہمارے لیے ٹھوکر کا موجب بنے۔ ہمارے لیے متشابہات پر ایمان لانا ضروری ہے اور ان کے حقائق کا علم خدا کے سپرد کرنا لازمی ہے۔
(5)علامہ الخازن اپنی تفسیر میں زیر آیت وَمَا یَعْلَمُ تَاْوِیْلَہ اِلَّا اللّٰہ۔متشابہات کے بارہ میں لکھتے ہیں:
قیل یجوزُ ان یکون لِلقرآن تَاویل اسْتاثَر اللّٰہ بعلمہِ ولم یطلعْ علیہ احدًا مِن خلقہ کعلم قیامِ الساعةِ ووقت طلوعِ الشمسِ من مغربِھا وخروجِ الدجّال ونزول عیسیٰ ابن مریمَ وعلم الحروفِ المقطّعة واشباہِ ذالک ممّا اسْتاثرَ اللّٰہُ بعلمہ فالایمانُ بہ واجب وحقائقُ علومِہ مفوضة الی اللّٰہ تعالیٰ۔ وھذا قول اکثر المفسِّرین وھو مذھبُ ابن مسعود وابن عباس فی روایة عنہ وابی ابن کعب وعائشة واکثر التابعین
(تفسیرالخازن تالیف علاء الدین علی بن محمد بن ابراہیم البغدادی زیر آیت وما یعلم تاویلہ آل عمران:7)
کہا گیا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ قرآن کریم کی آیات متشابہات کے ایسے معنے ہوں جو اللہ تعالیٰ کے علم سے ہی مخصوص ہوں اور اس نے اپنی مخلوق میں سے کسی کو ان معنوں سے مطلع نہ کیا ہو۔ جیسے کہ قیام ساعت کا علم، طلوع شمس من المغرب کا وقت، خروج دجال، نزول عیسیٰ ابن مریم اور حروف مقطعات کا علم اور اس جیسے دیگر امور۔ پس ایسے امور پر ایمان لانا تو ضروری ہے اور ان کے حقائق کا علم خدا کے سپرد کرنا چاہیے۔ یہی قول اکثر مفسرین کا ہے اور یہی مذہب حضرت ابن مسعود اور ایک روایت کے مطابق حضرت ابن عباس کا، حضرت ابی بن کعب، حضرت عائشہ اور اکثر تابعین کاہے۔
(6)علامہ محمد رشید رضا صاحب اپنی تفسیر ’’تفسیر المنار‘‘ میں لکھتے ہیں:
وذھب جمھور عظیم منھم الی انہ لا متشابہ فی القرآن الا اخبار الغیب
(تفسیر المنار زیر آیت آل عمران :8)
یعنی مفسرین علماء میں سے بھاری اکثریت کا یہ خیال ہے کہ قرآن کریم میں سوائے اخبار غیبیہ کے کوئی متشابہ نہیں ہے۔
(7)علامہ جلال الدین سیوطی نےاپنی مشہور کتاب ’’الاتقان فی علوم القرآن ‘‘ میں محکمات اور متشابہات کے متعلق مختلف اقوال لکھے ہیں۔ متشابہات کے متعلق پہلا قول یہ لکھا ہے:
’’جس چیز کا علم اللہ تعالیٰ نے اپنے ہی لیے خاص کیا ہے۔ جیسے قیامت کا قائم ہونا، اور دجال کا خروج اور سورتوں کے اوائل کے حروف مقطعہ، یہ سب متشابہ ہیں‘‘
(الاتقان حصہ دوم اردو ترجمہ مولانا محمد حلیم انصاری صفحہ102زیر عنوان محکم اور متشابہ )
مذکورہ بالا حوالہ جات سے بصراحت ثابت ہو رہا ہے کہ مستقبل کے امور مثلاً نزول عیسیٰ اور قتل دجال اور یاجوج ماجوج وغیرہ متشابہات میں سے ہیں جن کا حقیقی علم صرف خدا تعالیٰ کو ہے۔ ان کی حقیقت کو خدا تعالیٰ پر چھوڑ دینا چاہیے اور ان پیشگوئیوں کا پورا ہونا لوگوں کو بتا دے گا کہ ان کی حقیقت کیاتھی۔ علمائے امت کے اس موقف کے ہوتے ہوئے ان علماء کا یہ کہنا کہ اسرائیلی مسیح کے اس امت میں آنے کے متعلق اجماع ہے ایک بے بنیاد دعویٰ سے بڑھ کر اور کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔
سابقہ نبی کی آمد کی کتب سابقہ کا اجماع
پھر اجماع کی بحث کو اگر ہم گذشتہ امتوں میں تلاش کریں کہ کیا کبھی کسی کے نزول کے متعلق کسی امت کا اجماع ہواتھا اور پھر اس امت کے اجماع کے مطابق کوئی شخص آسمان سے نازل ہوا تھا یا پھر ان کے ظاہری اجماع کے برعکس اس کا کوئی مثیل آیا تھا تو ہمیں اس معاملے میں یہود کی واضح مثال نظر آتی ہے۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آمد سے پہلے یہودنے بھی بائبل کی روشنی میں ایک ظاہری اجماع کیا تھا۔ وہ بھی یہی کہتے تھے کہ بائبل کی روشنی میں حضرت ایلیاء آسمان پر گئے ہیں اور وہ اب تک زندہ بیٹھے ہوئے ہیں جیسا کہ سلاطین 2باب2 آیت نمبر11میں مندرج ہے۔ اور پھرمسیح کی آمد سے قبل ایلیاء کا دوبارہ آسمان سے نازل ہونا بھی صحیفہ ملاکی باب4 آیت نمبر5میں لکھا ہے۔ چنانچہ یہود کا یہی موقف تھا کہ ایلیاء آسمان پر زندہ ہے اور وہ آسمان سے نازل ہوگا۔ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام آئے تو یہود نے یہی نام نہاد ظاہری اجماع ان کے سامنے رکھ دیا اور کہا کہ اگر تم سچے ہو تو پھر وہ ایلیا ءکہاں ہے جس نے آسمان سے نازل ہونا تھا۔ حضرت عیسیٰ نے حضرت یحیٰ علیہ السلام کے متعلق فرمایا کہ ایلیاء یہی ہے۔ چاہو تو قبول کرو۔ اب حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے یہودیوں کے ظاہری اجماع کے بالکل برعکس بات کہی اور یہودیوں کو ظاہر پرستی کی وجہ سے خدا تعالیٰ کے دو سچے نبیوں یعنی حضرت یحیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نبوت سے منکر ہونا پڑا۔ ان علماء کے لیے قابل فکر مقام ہے کہ وہ عیسیٰ علیہ السلام جس کو آسمان پر زندہ بٹھائے ہوئے ہیں اور جس کے آسمان سے نازل ہونے کی راہ تک رہے ہیں، اسی عیسیٰ نے خود یہ فیصلہ کردیا کہ جب کسی کی آسمان سے نازل ہونے کے متعلق پیشگوئی بیان ہوئی ہوتو اس سے مراد اس شخص کا مثیل ہوا کرتا ہے جیسے ایلیاء کے مثیل یحیٰ بنے، نہ کہ بعینہٖ وہی شخص مراد ہوتاہے۔ لیکن جس طرح اکثر یہود نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بات کو نہیں مانا تھا اور اس کی وجہ سے خدا تعالیٰ کے سچے نبی کا انکار کرنا پڑا تھا اسی طرح حضرت عیسیٰ کی بات کو آج کل کے اکثر نام نہاد علماء نے نہیں مانا اور خدا تعالیٰ کے ایک سچے نبی کو قبول کرنے سے محروم رہے ہیں۔
گذشتہ اکابر قابل مواخذہ نہیں ہوں گے
حضرت بانیٔ جماعت احمدیہ سے پہلے کے علماء معذور ہیں۔ وہ علماء جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے پہلے گذرے ہیں اور حیات مسیح کا عقیدہ رکھتے تھے، ان کے متعلق حضرت بانیٔ جماعت احمد یہ فرماتے ہیں
’’گذشتہ بزرگ جو گذر چکے ہیں اگر انہوں نے مسئلہ وفات مسیح کو نہ سمجھا ہو اور اس میں غلطی کھائی ہو تو اس سبب سے ان پر مؤاخذہ نہیں۔ کیونکہ ان کے سامنے یہ بات کھول کر بیان نہیں کی گئی تھی۔ اور یہ مسائل ان کی راہ میں نہ تھے۔ انہوں نے اپنی طرف سے تقویٰ و طہارت میں حتی الوسع کوشش کی۔ ان لوگوں کی مثال ان یہودی فقہاء کے ساتھ دی جاسکتی ہے جو کہ بنی اسرائیل میں آنحضرتﷺ کے زمانہ سے بہت پہلے گذر چکے تھےاور ان کا پختہ عقیدہ تھا کہ آخری نبی جو آنے والا ہے وہ حضرت اسحٰق ؑکی اولاد میں سے ہوگا اور اسرائیلی ہوگا۔ وہ مرگئے اور بہشت میں گئے۔ لیکن جب آنحضرتﷺ کے ظہور سے یہ مسئلہ روشن ہوگیا کہ آنے والا آخری نبی بنی اسماعیل میں سے ہے اور ایسا ہی ہونا چاہیے تھا تب بنی اسرائیل میں سے جو لوگ ایمان نہ لائے وہ کافر قرار دے گئے اور لعنتی ہوئے اور آج تک ذلیل وخوار اور در بدر زدہ ہوکر پھر رہے ہیں۔ ‘‘
(ملفوظات جلد 5 صفحہ 64)

یہ بھی ملاحظہ فرمائیں

یہود، نصاریٰ اور مسلمانوں کا نظریہ بابت وفات مسیح

یہود کا نظریہ یہود کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ ؑ نعوذ باللہ جھوٹے تھے اس لیے انہوں نے اسے صلیب …