حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا سفرِ آخرت وفات سے متعلق مخالفین کے اعتراضات کے جوابات اور احمدیوں کے صبر کا نمونہ

• اللہ تعالیٰ فرماتا ہے كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ
• (آل عمران:186)
• دستِ عزرائیل میں مخفی ہے سب رازِ حیات
موت کے پیالوں میں بٹتی ہے شرابِ زندگی
• حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بارہ میں معاندین احمدیت جو کذب بیانی سے کام لیتے ہیں اور استہزاء اور ہنسی ٹھٹھا کرتے ہیں اس پر اگرچہ احمدیوں کے دل بہت رنجیدہ ہوتے ہیں مگر انتہائی صبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنا دکھ اور درد اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کر کے اُسی کی پاک اور بابرکت ذات سے فیصلہ طلب کرتے ہیں کہ وہی ہے جو احکم الحاکمین ہے اور جب اُس کا فیصلہ ظاہر ہوتا ہے تو پھر ایسے بد زبانوں اور بدگمانوں کے لئے کوئی جائے پناہ باقی نہیں بچتی- حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو وصال سے کچھ عرصہ قبل خدا تعالیٰ کی طرف سے واضح طور پر وفات کی خبریں دی گئیں۔ دسمبر 1905ء میں حضور نے ’’رسالہ الوصیت‘‘ تحریر فرمایا اور جماعت کو اس عظیم سانحہ کی خبر دیتے ہوئے فرمایا۔
• ’’خدائے عزّوجل نے متواتر وحی سے مجھے خبر دی ہے کہ میرا زمانہ وفات قریب ہے اور اس بارے میں اُس کی وحی اس قدر تواتر سے ہوئی کہ میری ہستی کو بنیاد سے ہلا دیا اور اس زندگی کو میرے پر سرد کر دیا۔ الہام ہوا۔ قَرُبَ اَجلُکَ الْمُقَّدَر۔ تیری اجل قریب آ گئی ہے۔ بہت تھوڑے دن رہ گئے ہیں۔ اس دن سب پر اُداسی چھا جائے گی۔ یہ ہو گا۔ یہ ہو گا۔ یہ ہو گا۔ بعد اس کے تمہارا واقعہ ہوگا۔ تمام حوادث اور عجائباتِ قدرت دکھلانے کے بعد تمہارا حادثہ آئے گا۔ ’’چنانچہ حضور نے رسالہ ’’الوصیت‘‘ میں جہاں ایک طرف جماعت کو اپنی وفات کے بارہ میں اطلاع دی تو دوسری طرف ایک عالمگیر مالی نظام ’’نظام وصیت‘‘ جاری فرمایا اور بہشتی مقبرہ کی بنیاد رکھی۔ اس کے علاوہ جماعت کو اپنی وفات کے بعد خلافت کی خوشخبری بھی دی اور فرمایا کہ اس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہو گا۔‘‘
• حضرت اقدس کے آخری سفرِ لاہورکاپس منظر
• دسمبر1907ء میں اسلام دشمن آریہ سماج وچھو والی نے لاہور میں ایک کانفرنس منعقد کرنے کا اعلان کیا۔ کانفرنس کے منتظمین نے حضرت اقدس کی خدمت میں کوئی چھ یا سات خطوط تحریر کئے اور بڑی لجاجت اور عاجزی اور انکساری سے حضرت اقدس کو اس میں شامل ہو کر اپنا مضمون پڑھنے کی دعوت دی۔ اس کانفرنس کا موضوع تھا ’’کیا کوئی کتاب الہامی ہو سکتی ہے اور اگر ہو سکتی ہے تو کونسی؟‘‘ آریہ سماج کے سیکرٹری ڈاکٹر چرنجیو بھار دواج ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب کے قریبی دوست تھے۔ انہوں نے ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب کو ہر طرح کی تسلی دی اور قسمیں کھائیں کہ یہ کانفرنس پر امن ہوگی اور تمام تقاریر شائستگی اور ادب کے دائرہ میں رہتے ہوئے ہوں گی اور کسی طور پر بھی کسی کے مذہبی جذبات کی دل آزاری نہیں ہو گی۔ حضرت اقدسؑ کو پھر بھی اس کانفرنس میں شامل ہونے میں انقباض تھا مگر ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب کے اصرار پر حضور مضمون لکھنے پر رضامند ہو گئے مگر خود نہ جانے کا فیصلہ فرمایا۔ دراصل آریہ سماج والوں نے سازش کے ذریعہ حضرت اقدس سے اپنے لیڈر لیکھرام کے قتل کا انتقام لینے کا منصوبہ بنایا تھا جو 1897ء میں حضرت اقدس کی پیشگوئی کے مطابق قتل کر دیا گیا تھا جس سے ہر آریہ گھرانے میں صفِ ماتم بچھ گئی تھی۔
• جس کی دعا سے آخر
لیکھو مرا تھا کٹ کر
ماتم پڑا تھا گھر گھر
وہ میرزا یہی ہے
• کانفرنس کے دوسرے روز 3دسمبر کو حضورؑ کا مضمون حضرت مولوی نورالدین ؓ اور ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب نے پڑھ کر سنایا۔ اس کانفرنس میں ہندوستان بھر سے قریباً 400 احمدی نہ صرف اپنے خرچ پر شامل ہوئے بلکہ 4 آنہ فی کس کے حساب سے کانفرنس فیس ادا کر کے منتظمین جلسہ کو گرانقدر مالی فائدہ بھی پہنچایا۔ اگلے روز 4دسمبر کو آریہ سماج کی طرف سے مضمون پڑھا گیا۔ اگرچہ آریہ لیڈروں کی طرف سے شائستگی کی ہرممکن یقین دہانی کروائی گئی تھی مگر آریہ سماج اپنے خبثِ باطن سے باز نہ رہ سکا اور اسلام اور بانئ اسلام کی شان میں اس قدر بد زبانی اور دل آزاری کی کہ مسلمانوں کے جگر پاش پاش ہو گئے۔ شرافت و نجابت کا پردہ سرِ بازار چاک ہو کر رہ گیا۔ انتہائی افسردہ اور دل گرفتہ احمدی جب قادیان واپس آئے اور یہ سارا دلخراش واقعہ حضرت اقدسؑ کے گوش گزار کیا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بے انتہا صدمہ ہوا۔ آپ کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا اور جلسہ میں شرکت کرنے والے وفد سے فرمایا کہ تمہاری غیرت نے کس طرح برداشت کیا کہ تمہارے آقا حضرت اقدس محمد مصطفے ﷺ کو گالیاں دی گئیں اور تم وہاں بیٹھے سنتے رہے۔ تمہیں فوراً اس جلسہ سے اُٹھ کر آجانا چاہئے تھا۔ وفد کے اراکین افسوس اور شرمندگی سے سر جھکائے بیٹھے رہے اور حضرت اقدس سے اپنی اس کمزوری اور غلطی پر دلی معذرت طلب کی۔ یہ تھا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اپنے آقا سے عشق اور یہ تھی اس عشق کی غیرت۔ کہاں ہیں وہ دشمنانِ احمدیت جو اس پاک وجود پر توہینِ رسالتِ محمدیہ کا جھوٹا الزام لگاتے نہیں تھکتے۔ اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍوَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ وَ بَارِکْ وَسَلِّمْ إِنَّكَ حَمِيْدٌ مَجِيْدٌ۔
• حضرت اقدس نے بدتہذیب آریوں کو ان کی اس بدعہدی کا جواب دینے کے لئے ایک کتاب چشمۂ معرفت لکھنی شروع کی جو کئی ہفتوں میں مکمل ہو کر 15مئی 1908ء کو چھپ کر تیار ہوئی۔ دوسری طرف حضرت اماں جانؓ کی طبیعت بھی کچھ ٹھیک نہیں رہتی تھی اور آپ چاہتی تھیں کہ لاہور جا کر کسی قابل لیڈی ڈاکٹر سے صحت کے لئے مشورہ کریں۔ چنانچہ حضرت اماں جان کے اصرار پر حضورؑ لاہور جانے کے لئے رضامند ہو گئے۔
• حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگمؓ کا خواب
• حضرت اقدسؑ کی بیٹی سیدہ نواب مبارکہ بیگم ؓ نے اس سفر سے کچھ عرصہ قبل ایک خواب دیکھا۔ اس کا ذکر کرتے ہوئے آپؓ فرماتی ہیں۔
• ’’میں نیچے اپنے صحن میں ہوں اور گول کمرہ کی طرف جاتی ہوں تو وہاں بہت سے لوگ ہیں جیسے کوئی خاص مجلس ہو۔ مولوی عبدالکریم صاحب دروازے کے پاس آئے اور مجھے کہا بی بی جاؤ ابا سے کہو کہ رسول کریمؐ اور صحابہؓ تشریف لائے ہیں آپ کو بلاتے ہیں۔ میں اوپر گئی اور دیکھا کہ پلنگ پر بیٹھے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام بہت تیزی سے لکھ رہے تھے اور ایک خاص کیفیت آپ کے چہرہ پر ہے پُر نُور اور پُر جوش۔ میں نے کہا ابا مولوی عبد الکریم صاحب کہتے ہیں رسول کریم ﷺ صحابہ ؓ کے ساتھ تشریف لائے ہیں اور آپ کو بلا رہے ہیں۔ آپ نے لکھتے لکھتے نظر اُٹھائی اور مجھے کہا جاؤ کہو ’’یہ مضمون ختم ہوا اور میں آیا۔‘‘ حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ نے یہ خواب حضرت اقدس کو بھی سنایا۔
• لاہور کے لئے روانگی
• حضرت مسیح موعود علیہ السلام 27۔اپریل 1908ء کو لاہور جانے کے لئے قادیان سے بٹالہ کے لئے روانہ ہوئے۔ اس سفر میں حضور کے ہمراہ 11۔افراد تھے۔ روانگی سے قبل حضور نے وہ حجرہ بند کیا جس میں آپ آخری عمر میں تصنیف فرمایا کرتے تھے اور فرمایا ’’اب ہم اس کو نہیں کھولیں گے۔‘‘ ایک رات بٹالہ میں قیام فرمایا اور 29۔اپریل کو بذریعہ ریل لاہور پہنچ گئے۔ لاہور میں حضور کا قیام برانڈرتھ روڈ پر واقع احمدیہ بلڈنگ میں تھا۔ ابتدائی 10روز آپ ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحبؓ کے گھر پر ٹھہرے مگر اس کے بعد وفات تک آپ ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحبؓ کے مکان میں قیام پزیر رہے۔ اگرچہ حضرت اقدسؑ کا لاہور کا سفر تبدیلئ آب وہوا اور کچھ آرام کے لئے تھا مگر لاہور آ کر مصروفیات میں اور زیادہ اضافہ ہو گیا۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ شمع جلے اور پروانے نہ آئیں۔ عشاقان مسیح موعودؑ کی آمد کا تانتا بندھ گیا جو آپ کے مقدس وجود سے فیض پانے کے لئے جوق در جوق دیارِ مسیح پر پہنچنے لگے۔ مہمانوں اور ملاقاتیوں میں ہر طبقے اور ہر مذہب کے لوگ شامل تھے۔ حضرت اقدس کا یہ سفر غیر معینہ مدت کے لئے تھا۔ اس لئے قادیان سے معتبر صحابہؓ بھی لاہور آ گئے اور اخبار البدر بھی لاہور شفٹ کر دیا گیا۔ ملاقاتوں کے علاوہ حضورؑ تقریر و تحریر میں بھی مشغول رہے۔ لاہور کے عمائدین اور رؤوسا بھی ملنے آتے رہے۔ پروفیسر کلیمنٹ ریگ اور سر فضل حسین نے بھی شرف ملاقات حاصل کیا۔ مورخہ 9 مئی کو حضرت اقدس کو الہام ہوا ’’الرَّحِیْلُ ثُمَّ الرَّحِیْلُ‘‘ کُوچ کا وقت آ گیا ہے ہاں کُوچ کا وقت آ گیا ہے۔ مورخہ 17 مئی کوالہام ہوا ’’مکن تکیہ بر عمر ناپائیدار‘‘ کہ نا پائیدار عمر پر بھروسہ نہ کر۔ مورخہ 20 مئی کو الہام ہوا ’’الرَّحِیْلُ ثُمَّ الرَّحِیْلُ وَالمَوْتُ قَرِیْب‘‘ کُوچ کا وقت آ گیا ہے ہاں کُوچ کا وقت آ گیا ہے اور موت قریب ہےان الہامات میں واضح طور پر حضرت اقدسؑ کو وفات کی خبر دی گئی تھی۔ حضرت اماں جانؓ نے سخت گھبراہٹ کا اظہار کیا اور کہا اب قادیان واپس چلیں۔ اس پر حضرت اقدس ؑنے فرمایا ’’اب تو ہم اسی وقت جائیں گے جب خدا لے جائے گا۔‘‘ ’’پیغامِ صلح‘‘ وہ مضمون ہے جو 31 مئی کو ایک جلسے میں پڑھا جانا تھا۔ حضرت اقدسؑ کی یہ آخری تصنیف ہے جس میں آپ نے ہندو مسلم اتحاد پر زور دیا اور لکھا کہ دونوں قوموں میں باعثِ تنازعہ دو مسئلے ہیں۔ مذہبی اور سیاسی مگر مذہبی مسئلہ جھگڑے کی اصل بنیاد ہے۔ یہ مضمون حضرت اقدسؑ نے 25 مئی کی شام کو مکمل کیا۔ عصر کی نماز کے بعد آپ ہوا خوری کے لئے تشریف لے گئے۔ ڈاکٹر بشارت احمد صاحب (غیر مبائع) اپنی مشہور تصنیف مجد اعظم جلد دوم میں لکھتے ہیں۔’’گرمی کا موسم تھا۔ حضرت اقدس بمعہ بیوی صاحبہ کے عموماً شام کو فٹن یا بند گاڑی میں بیٹھ کر سیر کو جایا کرتے تھے۔ 25 مئی 1908ء کی شام کو بھی تشریف لے گئے مگر چہرہ اداس تھا۔ کسی نے عرض کیا کہ حضور آج اداس نظر آتے ہیں۔فرمانے لگے ’’ہاں میری حالت اُس ماں کی طرح ہے جس کا بچہ ابھی چھوٹا ہو اور اپنے تئیں سنبھال نہ سکتا ہو اور وہ اُسے چھوڑ کر رخصت ہو رہی ہو۔‘‘ واپسی پر مغرب اور عشاء کی نمازیں جمع کر کے پڑھائیں۔
• حضورؑ کی بیماری اور وفات
• تاریخ احمدیت جلد دوم میں تفصیل سے یہ سارا واقعہ موجود ہے۔ اس کے علاوہ سیرت المہدی حصہ اول اور حیات طیبہ مرتبہ شیخ عبد القادر سوداگرمل اور غیر مبائعین کی کتب میں بھی اس کا تذکرہ ملتا ہے۔ یہاں میں سیرت المہدی سے روایت نقل کرتا ہوں۔ ’’روایت نمبر 12۔ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام آخری بیماری، بیمار ہوئے اور آپ کی حالت نازک ہوئی تو میں نے گھبرا کر کہا ’’اللہ یہ کیا ہونے لگا ہے‘‘ اس پر حضرت صاحب نے فرمایا ’’یہ وہی ہے جو میں کہا کرتا تھا۔‘‘ خاکسار مختصراً عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود 25مئی 1908ء یعنی پیر کی شام کو بالکل اچھے تھے۔ رات کو عشاء کی نماز کے بعد خاکسار باہر سے مکان میں آیا تو میں نے دیکھا کہ آپؑ والدہ صاحبہ کے ساتھ پلنگ پر بیٹھے ہوئے کھانا کھا رہے تھے۔ میں اپنے بستر پر جا کر لیٹ گیا اور پھر مجھے نیند آ گئی۔ رات کے پچھلے پہر صبح کے قریب مجھے جگایا گیا یا شائد لوگوں کے چلنے پھرنے اور بولنے کی آواز سے میں خود بیدار ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اسہال کی بیماری سے سخت بیمار ہیں اور حالت نازک ہے اور اِدھر اُدھر معالج اور دوسرے لوگ کام میں لگے ہوئے ہیں۔ جب میں نے پہلی نظر حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ڈالی تو میرا دل بیٹھ گیا کیونکہ میں نے ایسی حالت آپ کی اس سے پہلے نہ دیکھی تھی اور میرے دل میں یہی اثر پڑا کہ یہ مرض الموت ہے۔ اس وقت آپ بہت کمزور ہو چکے تھے۔ اتنے میں ڈاکٹر نے نبض دیکھی تو ندارد۔ سب سمجھے وفات پا گئے ہیں اور یک دم سب پر ایک سناٹا چھا گیا ۔مگر تھوڑی دیر بعد نبض میں پھر حرکت پیدا ہوئی مگر حالت بدستور نازک تھی۔ اتنے میں صبح ہو گئی اور حضرت مسیح موعودؑ کی چارپائی کو باہر صحن سے اُٹھا کر اندر کمرے میں لے آئے۔ جب ذرا اچھی روشنی ہو گئی تو حضرت مسیح موعود نے پوچھا کیا نماز کا وقت ہو گیا ہے؟ غالباً شیخ عبدالرحمان صاحب قادیانی ؓنے عرض کیا کہ حضورؑ ہو گیا ہے۔ آپؑ نے بستر پر ہی ہاتھ مار کر تیمم کیا اور لیٹے لیٹے ہی نماز شروع کر دی ۔مگر آپ اسی حالت میں تھے کہ غشی سی طاری ہو گئی اور نماز کو پورا نہ کر سکے۔ تھوڑی دیر کے بعد آپؑ نے پھر دریافت فرمایا کہ صبح کی نماز کا وقت ہو گیا ہے؟ عرض کیا گیا حضور ہو گیا ہے۔ آپ نے پھر نیت باندھی مگر مجھے یاد نہیں کہ نماز پوری کر سکے یا نہیں۔ اس وقت آپ کی حالت سخت کرب اور گھبراہٹ کی تھی۔ غالباً آٹھ یا ساڑھے آٹھ بجے ڈاکٹر نے پوچھا کہ کہ حضور کو خاص طور پر کیا تکلیف محسوس ہوتی ہے؟ مگر آپ جواب نہ دے سکے۔ اس لئے کاغذ قلم دوات منگوائی گئی اور آپ نے بائیں ہاتھ پر سہارا لے کر بستر سے کچھ اُٹھ کر لکھنا چاہا مگر بمشکل دو چار الفاظ لکھ سکے اور پھر بوجہ ضعف کے کاغذ کے اوپر قلم گھسٹتا چلا گیا اور آپ پھر لیٹ گئے۔ یہ آخری تحریر جس میں غالبًا زبان کی تکلیف کا اظہار تھا اور کچھ حصہ پڑھا نہیں جاتا تھا جناب والدہ صاحبہ کو دے دی گئی۔ نو بجے کے بعد حضرت صاحبؑ کی حالت زیادہ نازک ہوگئی اور تھوڑی دیر بعد غرغرہ شروع ہو گیا۔ غرغرہ میں کوئی آواز وغیرہ نہیں تھی بلکہ صرف سانس لمبا لمبا اور کھچ کِھچ کر آتا تھا۔ خاکسار اس وقت آپ کے سرہانے کھڑا تھا۔ یہ حالت دیکھ کر والدہ صاحبہ کو جو اس وقت ساتھ والے کمرے میں تھیں اطلاع دی گئی وہ مع چند گھر کی مستورات کے آپ کی چارپائی کے پاس آ کر زمین پر بیٹھ گئیں۔ اس وقت ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب لاہوری نے آپ کی چھاتی میں پستان کے قریب انجیکشن یعنی دوائی کی پچکاری کی جس سے وہ جگہ کچھ اُبھر آئی مگر کچھ افاقہ محسوس نہ ہوا- بلکہ بعض لوگوں نے بُرا منایا کہ اس حالت میں آپؑ کو کیوں تکلیف دی گئی ہے۔ تھوڑی دیر تک غَرغَرہ کا سلسلہ جاری رہا اور ہر آن سانسوں کے درمیان وقفہ لمبا ہوتا گیا۔ حتی کہ آپ نے ایک لمبا سانس لیا اور آپ کی روح رفیق اعلیٰ کی طرف پرواز کر گئی۔ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلَیْہِ وَعَلٰی مُطَاعِہِ مُحَمَّد وَبَارِکْ وَسَلِّمَ۔ خاکسار نے والدہ صاحبہ کی یہ روایت جو شروع میں درج کی گئی ہے جب دوبارہ والدہ صاحبہ کے پاس برائے تصدیق بیان کی اور حضرت مسیح موعود کی وفات کا ذکر آیا تو والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ حضرت مسیح موعود کو پہلا دست کھانا کھانے کے وقت آیا تھا۔ مگر اس کے بعد تھوڑی دیر تک ہم لوگ آپ کے پاؤں دباتے رہے اور آپ آرام سے لیٹ کر سو گئے اور میں بھی سو گئی۔ لیکن کچھ دیر کے بعد آپ کو پھر حاجت محسوس ہوئی اور غالبا ًایک یا دو دفعہ رفع حاجت کے لئے آپ پاخانہ تشریف لے گئے۔ اس کے بعد آپ نے زیادہ ضعف محسوس کیا تو اپنے ہاتھ سے مجھے جگایا۔ میں اُٹھی تو آپ کو اتنا ضعف تھا کہ آپ میری چارپائی پر ہی لیٹ گئے اور میں آپ کے پاؤں دبانے کے لئے بیٹھ گئی۔ تھوڑی دیر کے بعد حضرت صاحب نے فرمایا تم اب سو جاؤ۔ میں نے کہا نہیں میں دباتی ہوں۔ اتنے میں ایک اور دَست آیا مگر اب اس قدر ضُعف تھا کہ آپ پاخانہ نہ جا سکتے تھے اس لئے میں نے چارپائی کے پاس ہی انتظام کر دیا اور آپ وہیں بیٹھ کر فارغ ہوئے اور پھر اُٹھ کر لیٹ گئے اور میں پاؤں دباتی رہی۔ مگر ضعف بہت زیادہ ہو گیا تھا۔ اس کے بعد ایک اور دست آیا اور پھر آپ کو ایک قے آئی۔ جب آپ قے سے فارغ ہو کر لیٹنے لگے تو اتنا ضُعف تھا کہ آپؑ لیٹتے لیٹتے پشت کے بل چارپائی پر گر گئے اور آپ کا سر چارپائی کی لکڑی سے ٹکرایا اور حالت دگرگوں ہو گئی۔ اس پر میں نے گھبرا کر کہا ’’اللہ یہ کیا ہونے والا ہے‘‘ تو آپؑ نے فرمایا ’’یہ وہی ہے جو میں کہا کرتا تھا۔‘‘ خاکسار نے والدہ صاحبہ سے پوچھا کہ کیا آپ سمجھ گئی تھیں کہ حضرت صاحبؑ کا کیا منشاء ہے؟ والدہ صاحبہ نے فرمایا ۔’’ہاں‘‘ والدہ صاحبہ نے یہ بھی فرمایا کہ جب حالت خراب ہوئی اور ضُعف بہت ہو گیا تو میں نے کہا مولوی صاحب (حضرت مولوی نورالدین)کو بلا لیں؟ آپ نے فرمایا بلالو نیز فرمایا محمود کو جگا لو۔ پھر میں نے پوچھا محمد علی خان یعنی نواب صاحب کو بلا لوں؟ والدہ صاحبہ فرماتی ہیں کہ مجھے یاد نہیں کہ حضرت صاحب نے اس کا کچھ جواب دیا یا نہیں اور دیا تو کیا دیا۔ نیز حضرت والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ حضرت صاحب کو اسہال کی شکایت اکثر ہو جایا کرتی تھی جس سے بعض اوقات بہت کمزوری ہوجاتی تھی اور آپ اسی بیماری سے فوت ہوئے۔‘‘

• سیرت المہدی کی روایت میں نے اوپر درج کر دی۔اس کے علاوہ احمدیہ انجمن اشاعت اسلام کے مکرم ناصر احمد بی اے ایل ایل بی نے ایک کتاب
• ‘‘An account of the last days and death of Hazrat Mirza Ghulam Ahmad in Lahore with a brief history of Ahmadiyya Buildings’’
• کے نام سے شائع کی۔ اس میں وہ لکھتے ہیں۔’’صبح دو یا تین بجے آپؑ کو بہت ضُعف ہو گیا۔ ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحبؓ، مولانا نورالدین صاحبؓ، خواجہ کمال الدین صاحب ؓاور ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحبؓ کو بلایا گیا۔ حضورؑ نے ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحبؓ کو اپنے قریب آنے کو کہا اور فرمایا ’’مجھے ایک بڑا دست آیا ہے کچھ دوائی تجویز کریں‘‘ پھر فرمایا ’’اصل شفاء تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتی ہے آپ دوائی بھی تجویز کریں اور دعا بھی کریں۔‘‘ علاج شروع کر دیا گیا۔ ’’جب حالت زیادہ خراب ہوئی اور نبض رک گئی تو اس وقت ڈاکٹر سُدرلینڈ کو بلایا گیا۔ حافظ فضل احمد صاحبؓ پاس بیٹھے سورت یٰسین کی تلاوت کر رہے تھے۔ اوپر درج کی گئی دونوں روایات کو ملا کر پڑھیں تو پتہ چلتا ہے کہ 26 مئی کی صبح آٹھ یا ساڑھے آٹھ بجے جن ڈاکٹر صاحب نے حضورؑ کا معائنہ کیا اور پوچھا کہ حضورؑ کو خاص طور پر کیا تکلیف محسوس ہوتی ہے وہ ڈاکٹر سُدرلینڈ تھے (ان کا تعارف آگے آئے گا)۔ یہاں ایک تیسری روایت کا ذکر بھی بہت ضروری ہے جو مخالفین کی جانب سے بڑے تواتر سے پیش کی جاتی ہے۔ حضرت اقدس ؑکے خسر حضرت میر ناصر نوابؓ نے اپنی سوانحِ حیات ’’حیاتِ ناصر‘‘ کے نام سے مرتب کی۔ یہ سوانح عمری حضرت میر صاحؓب کی وفات کے 3 سال بعد 1927ء میں حضرت شیخ یعقوب علی عرفانیؓ ایڈیٹر الحکم نے شائع کی۔ آپ اس میں لکھتے ہیں ’’حضرت صاحبؑ جس رات کو بیمار ہوئے اس رات کو میں اپنے مقام پر جا کر سو چکا تھا۔ جب آپؑ کو بہت تکلیف ہوئی تو مجھے جگایا گیا تھا۔ جب میں حضرت صاحبؑ کے پاس پہنچا اور آپؑ کا حال دیکھا تو آپؑ نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا ’’میر صاحب مجھے وبائی ہیضہ ہو گیا ہے اس کے بعد آپؑ نے کوئی ایسی صاف بات میرے خیال میں نہیں فرمائی۔ یہاں تک کے دوسرے روز دس بجے کے بعد آپؑ کا انتقال ہو گیا ’’اس روایت کے نیچے حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی ؓنے مندرجہ ذیل نوٹ لکھا یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ذاتی خیال تھا جبکہ حضور کی نعش مبارک کو ریل میں لے کر جانے کے لئے آپ کے معالج ڈاکٹر سُدر لینڈ پرنسپل میڈیکل کالج لاہور کی تصدیق پر افسر مجاز سول سرجن لاہور ڈاکٹر کننگھم نے سرٹیفیکیٹ دیا کہ حضور ؑ کی وفات اعصابی تھکان سے اسہال کی وجہ سے ہوئی تھی اس لئے ریل میں لے جایا جا سکتا ہے۔‘‘ صبح ساڑھے دس بجے حضرت اقدسؑ کی وفات ہوئی۔ جسدِ اطہر کو غسل دینے کی سعادت بھائی عبدالرحیم، شیخ رحمت اللہ صاحب اور ایک اور احمدی کو حاصل ہوئی۔ اڑھائی بجے تک غسل اور کفن سے فراغت کے بعد احمدیہ بلڈنگ میں جنازہ پڑھا گیا جو حضرت مولانا نورالدین ؓ نے پڑھایا۔ چار بجے شام جنازہ دل گرفتہ اور اشکبار احمدیوں نے اپنے کندھوں پر اُٹھا کر لاہور ریلوے سٹیشن پہنچایا۔ ریلوے کا سیکنڈ کلاس کا ڈبہ حضرت اقدسؑ کے جسد مبارک کے لئے ریزرو کروایا گیا تھا۔
• جنازہ کی لاہور سے روانگی اور قادیان آمد شام پونے چھ بجے گاڑی لاہور سے بٹالہ کے لئے روانہ ہوئی اور رات 10بجے بٹالہ پہنچی۔ نعش مبارک کو صندوق سے نکال کر چارپائی پر رکھا گیا۔ 27 مئی کو صبح 2 بجے حضورؑ کا جسد مبارک احمدیوں نے کاندھوں پر اُٹھایا اور قادیان روانہ ہوئے اور صبح آٹھ بجے قادیان پہنچ گئے۔ تابوت علیحدہ طور پر قادیان پہنچایا گیا۔ عشاقانِ مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت مولانا نورالدین صاحب کو بالاتفاق خلیفۃ المسیح الاولؓ منتخب کر کے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی۔جس کے فورا ًبعد حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا جنازہ پڑھایا۔ شام 6بجے بہشتی مقبرہ قادیان میں تدفین عمل میں آئی۔حضرت اقدسؑ کا جسد اطہر لحد میں رکھا گیا جو قبر کے فرش پر بنائی گئی تھی۔ اور لکڑی کا وہ تابوت جس میں نعش لاہور سے بٹالہ تک لائی گئی تھی اسے توڑ کر اس کے ٹکڑوں سے اس لحد کو ڈھانپا گیا اور بعد میں مٹی ڈالی گئی۔

• لاہور میں مخالفین کی اخلاق سوز اور شرمناک حرکات
• حضرت اقدسؑ کی لاہور آمد کے ساتھ ہی مخالفین کے خبثِ باطن کا اظہار شروع ہو گیا۔اوباشوں نے احمدیہ بلڈنگ کے باہر ڈیرے لگا لئے اور دشنام طرازی اور بداخلاقی کا وہ مظاہرہ کیا کہ بیان سے باہر ہے۔ حضرت اقدسؑ اپنے غلاموں کو صبر کی مسلسل تلقین فرماتے رہے اور کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آیا۔مگر جیسے ہی 26 مئی کو حضرت اقدسؑ کی اچانک وفات کی خبر پھیلی ہزاروں بدفطرت اور دریدہ دہن حضرت اقدسؑ کی جائے وفات کے باہر اکٹھے ہوگئے اور جس قدر کمینگی اور گھٹیا پن کا مظاہرہ ہو سکتا تھا وہ شروع کر دیا گیا۔ قریب تھا کہ اوباشوں اور غنڈوں کا یہ طائفہ ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب کے مکان پر حملہ آور ہوتا۔ پولیس کی بھاری نفری پہنچ گئی اور حالات کو کنٹرول میں لایا گیا۔ یہاں سے نامراد ہو کر یہ بدتہذیب لوگ اسلامیہ کالج کی گراؤنڈ میں جمع ہوگئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات پر جشن منانے اور مغلظات بکنے میں مشغول ہو گئے۔جب حضرت اقدسؑ کا جنازہ لاہور ریلوے سٹیشن لے جایا جا رہا تھا ان معاندین نے ایک جعلی جنازہ تیار کیا جو اصل جنازہ کے پیچھے پیچھے لایا گیا اور عشاقانِ مسیح موعودؑ کی جس قدر دل آزاری ہو سکتی تھی کی گئی مگر آفرین ہے غلامانِ مسیح محمدیؑ پر کہ ان کے جگر پاش پاش ہوگئے مگر ان مخالفین کی دریدہ دہنی کے مقابل صبر و استقلال کی چٹان بنے رہے اور ایک لفظ مُنہ سے نہ نکالا۔
• حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد ؓاپنی کتاب سلسلہ احمدیہ میں اس کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں ’’دوسری طرف جب حضرت مسیح موعود کی وفات کی خبر مخالفوں تک پہنچی تو ایک آنِ واحد میں لاہور کے ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک بجلی کی طرح پھیل گئی اور پھر ہماری آنکھوں نے مسلمان کہلانے والوں کی طرف سے وہ نظارہ دیکھا جو ہمارے مخالفوں کے لئے قیامت تک ایک ذلت اور کمینگی کا داغ رہے گا۔ حضرت مسیح موعود ؑ کی وفات سے نصف گھنٹہ کے اندر اندر وہ لمبی اور فراخ سڑک جو ہمارے مکان کے سامنے تھی شہر کے بدمعاش اور کمینہ لوگوں سے بھر گئی اور ان لوگوں نے ہمارے سامنے کھڑے ہو کر خوشی کے گیت گائے اور مسرت کے ناچ ناچے اور شادمانی کے نعرے لگائے اور فرضی جنازے بنا بنا کر نمائشی ماتم کے جلوس نکالے۔ ہماری غم زدہ آنکھوں نے ان نظاروں کو دیکھا اور ہمارے زخم خوردہ دل سینوں کے اندر خون ہو کر رہ گئے۔مگر ہم نے ان کے اس ظلم پر صبر سے کام لیا اوراپنے سینوں کی آہوں تک کو دبا کے رکھا۔ اس لئے نہیں کہ یہ ہماری کمزوری کا زمانہ تھا بلکہ اس لئے کہ خدا کے مقدس مسیح ؑنے ہمیں یہی تعلیم دی تھی کہ
• گالیاں سُن کر دعا دو پا کے دکھ آرام دو
کبر کی عادت جو دیکھو تم دکھاؤ انکسار
• (سلسلہ احمدیہ صفحہ 179)
• جنازہ ریلوے اسٹیشن پہنچا تو اسٹیشن ماسٹر نے جنازہ ریلوے کے ذریعہ بٹالہ بھیجنے سے انکار کر دیا کیونکہ اس تک یہ جھوٹی اطلاع پہنچائی گئی تھی کہ حضرت اقدسؑ کی وفات ہیضہ سے ہوئی ہے اور سرکاری قانون کے تحت کسی بھی Contageous Disease سے وفات یافتہ کی میت کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اس پر حضرت شیخ رحمت اللہ ؓ نے ڈاکٹر سُدرلینڈ کا تصدیقی سرٹیفیکیٹ پیش کیا جس میں واضح لکھا تھا کہ حضرت اقدسؑ کی وفات ہیضہ سے نہیں ہوئی۔ اس پر جنازہ ریل میں لے جانے کی اجازت دے دی گئی۔
• حضرت اقدس کی وفات پر اعتراضات اور ان کے جوابات
اعتراض نمبر 1:مرزا صاحب کی وفات ہیضہ سے ہوئی؟
• جواب: یہ بات قطعی طور پر بے بنیاد اور کلیّتہً جھوٹ ہے۔ حضرت اقدس ؑ کو اسہال کی پرانی تکلیف تھی جو سخت دماغی محنت اور تھکاوٹ کی وجہ سے عموماً بڑھ جایا کرتی تھی۔ حضرت اقدس محمد مصطفے ﷺ نے آنے والے مسیح موعود کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی بتائی تھی کہ مسیح دو زرد چادروں میں لپٹا ہوا نازل ہو گا۔ رسول اللہ ﷺ کی کوئی بات حکمت سے خالی نہیں۔ زرد رنگ بیماری کی علامت ہوتا ہے۔ اس کا مطلب تھا کہ مسیح موعودؑ کو اپنے جسم کے اوپر کے حصہ میں اور نچلے حصہ میں بیماریاں لاحق ہوں گی۔ اگر یہ بات بغیر حکمت کے ہوتی تو صرف زرد رنگ سے مسیح موعودؑ کی شان میں کیا اضافہ ہو سکتا تھا۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو MIGRAIN اورVERTIGO یعنی شدید سردرد اور چکروں کی تکلیف تھی اور کثرتِ پیشاب اور اسہال کی بیماری تھی اور یہ بیماریاں اسلام کی مدافعت میں سخت اور مسلسل دماغی کام کرنے کے نتیجے میں لاحق ہوئی تھیں۔اس کے علاوہ حضورؑ کو ذیابیطس (DIABETES MELLITUS) کا مرض لاحق تھا جس میں پیشاب کثرت سے آتا ہے۔ مزید برآں سخت دماغی کام کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اعصابی کمزوری کی وجہ سے بھی پیشاب بار بار اور کثرت سے آتا ہے۔ اس بیماری کو Nervous Polyuria کہا جاتا ہے۔ حضرت اقدس ؑ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک بار بہت دعا کی اے خدا تُو نے اتنا عظیم الشان کام میرے سپرد کیا ہے اور یہ بیماریاں بھی ساتھ لگا دیں اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے دل میں ڈالا گیا کہ یہ بیماریاں ساتھ رہیں گی کیونکہ یہ مسیح موعود ؑ کو نشان کے طور پر دی گئی ہیں۔ جہاں تک ہیضہ کا تعلق ہے اس کا دور دور تک کوئی سراغ نہیں ملتا۔ سیرت المہدی کی روایت کے مطابق حضرت اقدس کو پانچ چھ مرتبہ اسہال کی تکلیف ہوئی اور ایک دفعہ قے آئی۔ ایک عام آدمی جو میڈیکل سے ناواقف ہے وہ کوئی بھی نتیجہ نکال سکتا ہے مگر ڈاکٹرز اور میڈیکل کے طلباء اچھی طرح جانتے ہیں کہ کسی بیماری کی تشخیص محض چند علامات سے ہر گز نہیں کی جا سکتی کیونکہ بہت سی علامات متعدد بیماریوں میں مشترک ہوتی ہیں اور بیماری کی اصل تشخیص کے لئے بعض اوقات بڑی تگ ودو کرنی پڑتی ہے۔ مثلا ملیریا اور ٹائیفائڈ کی بہت ساری علامات مشترک ہوتی ہیں اور بغیر لیبارٹری چیک اپ کے تشخیص کرنا مشکل ہوتا ہے۔ افریقہ میں چونکہ ملیریا بہت عام ہے اس لئے ہر بخار کو ملیریا سمجھ لیا جاتا ہے۔اب آئیے اسہال کی طرف جنہیں میڈیکل کی زبان میں Diarrhea کہا جاتا ہے Diarrhea کو دو بڑی اقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے۔
• Types of Diarrhea
• 1- Iinfective Diarrhea: Common types of infective diarrhea include Gastroenteritis- Viral-Bacterial۔ Dysentery.
i- Amoebic dysentery (caused by Amoeba Hystolytica).
ii- Bacillary dysentery (Shigellosis)
iii- Cholera (caused by a bacteria vibrio cholera)
iv- Food poisoning etc
2- Non Infective Diarrhea: Common types of non infective diarrhea include
i- irritable bowel syndrome
ii- Drugs induced diarrhea
iii- Stress diarrhea etc
The Most Common Cause For Infective Diarrhea Is Consuming Contaminated Food And Water.
• اب اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دورہ لاہور کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ حضرت اقدسؑ نے اپنے اس پورے سفر میں کبھی گھر سے باہر کا کھانا نہیں کھایا۔ کسی کی دعوت قبول نہیں کی، نہ کسی ہوٹل سے کھانا کھایا۔ حضورؑ کا کھانا حضرت اماں جانؓ خود یا اپنی نگرانی میں تیار کرواتی تھیں۔ سیرت المہدی کی روایت دوبارہ پڑھ لیں۔ حضرت مرزا بشیر احمؓد لکھتے ہیں کہ شام کو جب میں باہر سے واپس آیا تو میں نے دیکھا حضرت مسیح موعودؑ اور حضرت اماں جانؓ پلنگ پہ بیٹھ کر کھانا کھا رہے تھے۔ اب اگر کھانا infected ہوتا تو حضرت اماں جانؓ کو بھی اسہال کی تکلیف ہو جاتی۔ لیکن حضرت اقدسؑ کے گھر کے کسی فرد کا بھی پیٹ خراب نہ ہوا۔ اس سے صاف نتیجہ نکلتا ہے کہ حضرت اقدسؑ کو اسہال کی تکلیف کسیInfection کی وجہ سے نہیں تھی۔ اب جب کہ میں نے ثابت کیا ہے کہ یہ Infevtive Diarrhea نہیں تھا تو ہیضے کا الزام کلیتّہ باطل ہو جاتا ہے۔
• ایک اور بات جس کا بڑی شدّو مد سے ذکر کیا جاتا ہے وہ حضرت اقدس کے خُسر حضرت میر ناصر نواب صاحب کی سوانح حیات ’’حیات ناصر‘‘ کا ایک حوالہ ہے جس میں وہ فرماتے ہیں کہ جب میں بیماری کے وقت حضرت اقدس کی خدمت میں حاضر ہوا تو حضور نے فرمایا ’’میر صاحب مجھے وبائی ہیضہ ہو گیا ہے۔‘‘ مخالفین باربار اور جگہ جگہ یہ حوالہ اپنے الزام کی تصدیق کے لئے پیش کرتے رہتے ہیں۔
• یہاں میں سب سے اہم سوال اُٹھاتا ہوں کہ کسی بھی بیماری کی تشخیص بیمار نے کرنی ہوتی ہے یا ڈاکٹر نے؟دنیا بھر میں یہ مسلمہ قاعدہ ہے کہ کسی بھی شخص کی بیماری کی حتمی تشخیص کے لئے میڈیکل سرٹیفیکیٹ کا مطالبہ کیا جاتا ہے اور اسے ہی حتمی تصور کیا جاتا ہے۔ خواہ مریض یا اس کے لواحقین بیماری کی کوئی بھی تشخیص کریں اسے اہمیت نہیں دی جاتی۔حضرت اقدسؑ کی وفات سے دو گھنٹے قبل لاہور کے ایک انتہائی قابل اور سینئر ڈاکٹر پروفیسر ڈاکٹر سُدرلینڈ نے حضورؑ کا معائنہ فرمایا اور اسہال کی تکلیف کو سخت دماغی کام کے سبب پیدا ہونے والی اعصابی کمزوری کا نتیجہ قرار دیا۔ یہاں بہتر ہوگا کہ میں ڈاکٹر سُدرلینڈ کا تعارف کروا دوں۔ ڈاکٹر سُدرلینڈ (DR. Sutherland) ان کا پورا نام David Waters Sutherland تھا۔ یہ آسٹریلین فزیشن تھے 1872ء میں پیدا ہوئے۔ 1893ء میں Edinburgh سے MD کی ڈگری حاصل کی۔ اپنے میڈیکل کیرئیر میں انہوں نےMRCP اور FRCP کی ڈگریاں بھی حاصل کیں۔ بعد ازاں آپ نے انڈین میڈیکل سروس جائن کر لی۔ اپنی سروس کے دوران ڈاکٹر سُدرلینڈ نے بنگال، انڈیا اور افغانستان میں خدمات سر انجام دیں۔ 1897ء میں آپ کو کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور میں میڈیسن اور پیتھالوجی کا پروفیسر تعینات کر دیا گیا۔ 1905ء میں میجر کا رینک ملا۔ ( بعد میں لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے تک پہنچے)۔1909ء سے 1921ء تک کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کے پرنسپل اور ڈائریکٹر رہے۔ 1926ء میں ریٹائرمنٹ کے بعد سکاٹ لینڈ واپس تشریف لے گئے۔ 1939ء میں آپ کی وفات ہوئی۔ 1909ء میں ان کی نہایت اہم کتاب Differential Diagnosis Of Fevers کے نام سے چھپی ۔ یہاں ڈاکٹر سُدرلینڈ کا تعارف کروانے کا مقصد یہ ہے کہ سب کو علم ہو کہ کہ یہ کتنے قابل ڈاکٹر تھے جنہوں نے حضرت اقدسؑ کا معائنہ فرمایا اور بعد ازاں ڈاکٹر سُدرلینڈ کی تصدیق پر سول سرجن لاہور DR Cunningham نےDeath Certificate جاری کیا۔ اس سرٹیفیکیٹ میں ڈاکٹر سُدرلینڈ نے وفات کی وجہ اعصابی کمزوری کے نتیجہ میں ہونے والے اسہال کو قرار دیا تھا اور ہیضے کو مکمل طور پر رد کر دیا تھا۔لاہور ریلوے سٹیشن پر اسٹیشن ماسٹر جماعت کے مخالفین میں سے تھا اور ان کی شرارت سے متاثر ہو کر اس نے حضرت اقدس ؑکے جسد اطہر کو ریل کے ذریعہ بٹالہ بھجنے سے انکار کر دیا تھا۔ مگر جب ڈاکٹر سُدرلینڈ کا تصدیقی سرٹیفکیٹ اسے دیا گیا تو مجبوراً اسے اجازت دینا پڑی۔
• اعتراض نمبر2 مرزا صاحبؑ کی وفات بیت الخلاء میں ہوئی؟
• جواب: یہ وہ گھٹیا الزام ہے جو کوئی گھٹیا ترین شخص ہی لگا سکتا ہے۔ یہ کلیّتاً جھوٹ اور بغض و تعصب اور شدید دشمنی کا شاخسانہ ہے اور کمینے بے شرم اور بے حیا لوگ ایسے الزامات خدا تعالیٰ کے فرستادوں پر ہمیشہ سے لگاتے چلے آئے ہیں۔الزام لگانے والا کوئی شخص موقع کا گواہ نہیں اور عینی شاہدین کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات اپنے بستر پر اس حالت میں ہوئی کہ اردگرد آپ کے افراد خانہ اور دوست احباب موجود تھے اور یہ سب عینی شاہدین ہیں اور واقعہ کے بارہ میں انہی کی شہادت قبول کی جائے گی نہ کہ اُن خبیث الفطرت لوگوں کی جو سرے سے موقع پر موجود ہی نہیں تھے۔ اس ضمن میں میں اسلامی قانونِ شہادت اور عدالتی قانون آپ کے سامنے رکھتا ہوں کہ کس کی گواہی قبول کئے جانے اور کس کی گواہی ردی کی ٹوکری میں ڈالنے کے قابل ہے۔
• اسلامی قانونِ شہادت
• شہادت کے لغوی معنی خبر قاطع کو کہتے ہیں اور فقہ کی رُو سے شہادت کسی واقعہ کے بارہ میں اپنے مشاہدے اور دید کے مطابق خبر دینے کو کہتے ہیں نہ کہ ظن اور تخمینہ کی بنیاد پر۔ شہادت اس قطعی اور فیصلہ کن بیان کا نام ہے جو قانونی عدالت میں حاضر ہو کر کسی ایک معاملے کے متعلق دیا جاتا ہے جو بیان کرنے والے شاہد نے صاف طور پر دیکھا ہو- مجلۃ الاحکام العدلیہ میں لکھا ہے ’’گواہ کے لئے ضروری ہے کہ جس چیز کی شہادت دے اسے اس نے خود دیکھا ہو اور اپنی شہادت میں یہی کہے ۔ گواہ کے لئے جائز نہیں کہ محض شنید کی بنیاد پر شہادت دے۔‘‘ قرآن شریف میں ہے کہ ’’اس سے بڑھ کر ظالم کون ہوسکتا ہے جو اللہ پر افتراء باندھے جبکہ سچائی اُس کے پاس آ چکی ہو۔‘‘ پھر فرمایا ’’سچی گواہی کو مت چھپاؤ۔ اور جو کوئی اسے چھپائے گا تو اس کا دل گناہگار ہو جائے گا۔‘‘ رسول اللہ ﷺ نے بھی گواہی دینے کے بارہ میں خاص طور پر نصیحت فرمائی۔ خلّال نے اپنے جامع میں حضرت ابن عباس سے ایک روایت نقل کی ہے وہ یہ ہے ’’حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ حضور ﷺ سے شہادت کے بارہ میں دریافت کیا گیا تو آپ نے سوال فرمایا کیا تم سورج کو دیکھ رہے ہو؟ سائل نے جواب دیا جی ہاں۔ تب آپؐ نے ارشاد فرمایا اسی طرح کسی واقعہ کو دیکھ لینا تو شہادت دینا۔
• گواہ کا معیار
• گواہ کے لئے ضروری ہے کہ وہ 1۔بالغ ہو، 2۔عاقل ہو، 3۔عادل ہو، 4۔ناطق ہو، 5۔بینا ہو اور 6۔ ضروری ہے کہ شاہد(گواہ) اور مشہود علیہ (جس کے خلاف گواہی دی جائے) کے درمیان کوئی عداوت نہ ہو (اسلام کا قانون شہادت مرتبہ مولانا سید محمد متین ہاشمی- شائع کردہ مرکز تحقیق دیال سنگھ ٹرسٹ لائبریری لاہور)
• In the court of law “A credible witness is one who is not speaking from hearsay”
1- the witness had personal knowledge
2- He or she was actually present at the scene
3- The witness paid attention at the scene and
4- He or she told the whole truth
• اس حوالے سے دیکھیں تو حضرت اقدسؑ کی وفات کے وقت جو احباب موجود تھے وہ عینی شاہدین بھی تھے اور ایک قابلِ بھروسہ گواہ کی تمام خصوصیات اُن میں موجود تھیں جبکہ بد تہذیب مولوی اور اُن کے بد قماش چیلے چانٹے موقع کا گواہ نہ ہونے اور حضرت اقدسؑ سے شدید عداوت اور نفرت کی وجہ سے قطعی طور پر اس قابل ہی نہیں کہ اُن کی گواہی کی کوئی حیثییت ہو اور ان کی طرف سے کوئی بھی بنایا گیا قصہ جھوٹا اور رد کر دینے کے قابل ہے۔ اس تناظر میں ایک بار پھر سیرت المہدی کی روایت پڑھیں سیرت المہدی کی روایت کے مطابق علی الصبح قریبا ساڑھے چار یا پانچ بجے حضرت اقدس کا بستر صحن سے کمرے میں شفٹ کر دیا گیا- حضورؑ کی وفات ساڑھے دس بجے صبح ہوئی- اس حساب سے وفات سے قبل قریبا پانچ سے چھ گھنٹے حضورؑ نے اس کمرے میں اپنے بستر پر گزارے۔ اور یہ بات نوٹ کر لیں کہ احمدیہ بلڈنگ لاہور کے اس کمرہ کے ساتھ کوئی واش روم ہے ہی نہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ آخری چند گھنٹوں میں جسم میں پانی کی سخت کمی کی وجہ سے اسہال آنے ویسے ہی بند ہو چکے تھے مگر اعصابی کمزوری اور ضعف کا شدید غلبہ تھا۔ ڈاکٹر سُدرلینڈ نے بھی جب صبح آٹھ یا ساڑھے آٹھ بجے آپؑ کی خیریت دریافت کی تو آپؑ نے اسہال کی شکایت نہیں فرمائی بلکہ زبان اور گلے کی خشکی کا ذکر کیا۔ اس کے بعد آپؑ پر نیم بے ہوشی کی کیفیت طاری رہی اور پھر نزع کا عالم اور پھر اپنے بستر پر وفات ہوئی۔ حضرت اماں جانؓ اور گھر کی دوسری چند خواتین پردہ میں رہ کر چارپائی کے پاس نیچے فرش پر بیٹھی تھیں۔ حضرت مرزا بشیر احمدؓ آپ کے سرہانے کھڑے تھے۔ حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ آپ کے قدموں میں بیٹھے تھے اور دوسرے احباب بھی کمرے میں موجود تھے۔ان تمام حقائق اور قطعی گواہیوں کے باوجود اگر پھر بھی کوئی معاند حضرت اقدسؑ کی جائے وفات کے بارہ میں جھوٹ بولتا ہے پھر یہی کہا جاسکتا ہے کہ لَعْنَتَ اللّٰهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ۔
• اعتراض نمبر3 مرزا صاحب کی عمر 80 سال ہوگی پیشگوئی جھوٹی نکلی؟
• جواب: حضرت اقدس ؑنے کبھی بھی یہ پیشگوئی نہیں فرمائی تھی کہ آپ ؑ کی عمر 80سال ہوگی۔ حضور کو جو الہام ہوا وہ یہ تھا ثَمَانِیْنَ حَولاً اَوْ قَرِیْبًا مِّنْ ذَالِکَ (تذکرہ) کہ تیری عمر 80 برس یا اس کے قریب ہو گی۔حضرت اقدسؑ نے خود اس الہام کی تشریح فرمائی۔ حضورؑ فرماتے ہیں ’’جو ظاہر الفاظ وحی کے وعدہ کے متعلق ہیں وہ تو چوہتر (74) اور چھیاسی (86) کے اندر عمر کی تعیین کرتے ہیں۔ ( ضمیمہ براھین احمدیہ حصہ پنجم) عمر کے متعلق ایک اور الہام ہوا ’’اسی یا اس پر پانچ چار زیادہ یا پانچ چار کم‘‘
• (حقیقۃ الوحی)
• حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عمر کے بارہ میں مخالفین نے بہت مغالطہ دینے کی کوشش کی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب حضور کی پیدائش ہوئی ان دنوں میں باقاعدہ تاریخ پیدائش کا اندراج اور ریکارڈ رکھنے کا کوئی رواج نہیں تھا۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ کا 40 سالہ دور اقتدار اپنے اختتام کے قریب تھا جب حضرت اقدسؑ کی ولادت ہوئی۔ کئی مقامات پر حضور ؑنے اندازے سے اپنی عمر لکھی ہے جس کو مخالفین بنیاد بنا کر اعتراض کرتے رہتے ہیں۔ حضرت مرزا بشیر احمد ؓ کی گہری تحقیق کے نتیجہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تاریخ پیدائش کا تعین ہو چکا ہے اور اب یہی تاریخ پیدائش معین طور پر جماعت میں تسلیم شدہ ہے یعنی 13 فروری 1835ء بمطابق 14 شوال 1250ھ ہے اور وفات 26 مئی 1908ء بمطابق 24 ربیع الثانی 1326ھ ہے۔ اس تاریخ پیدائش کی بنیاد مندرجہ ذیل حوالے ہیں۔ حضرت اقدسؑ فرماتے ہیں ’’عاجز بروز جمعہ چاند کی چودھویں تاریخ میں پیدا ہوا ہے‘‘ ( تحفہ گولڑویہ) ’’میری پیدائش کا مہینہ پھاگن تھا۔ چاند کی چودھویں تاریخ تھی۔ جمعہ کا دن تھا اورپچھلی رات کا وقت تھا‘‘
• (ذکر حبیب از حضرت مفتی محمد صادقؓ)
• اس حساب سے حضرت اقدس کی پیدائش یا 17 فروری 1832ء بنتی ہے اور یا پھر 13 فروری 1835ء۔ حضرت اقدس ؑ کی ایک اور تحریر ہے جو 1835ء کی تصدیق کرتی ہے وہ یہ ہے۔ حضورؑ فرماتے ہیں۔ ’’یہ عجیب امر ہے اور میں اس کو خدا تعالیٰ کا ایک نشان سمجھتا ہوں کہ ٹھیک بارہ سو نوے ہجری میں خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ عاجز شرف مکالمہ و مخاطبہ پا چکا تھا۔‘‘
• (حقیقۃ الوحی)
• پھر فرمایا۔ ’’جب میری عمر چالیس برس تک پہنچی تو خدا تعالیٰ نے اپنے الہام اور کلام سے مجھے مشرف کیا۔‘‘ (تریاق القلوب) ان دونوں حوالوں سے یہ ثابت ہوا کہ 1290ہجری میں آپؑ کی عمر 40 برس تھی۔ اب 1290 میں سے 40 نکالیں تو آپؑ کی پیدائش 1250ہجری بنتی ہے (یعنی 1835ء) اور وفات 1326ہجری۔ اس حساب سے وفات کے وقت حضرت اقدسؑ کی عمر قمری اور اسلامی کیلنڈر کے حساب سے 76 سال تھی جبکہ عیسوی کیلنڈر کے مطابق آپ ؑاپنی عمر کے چوہترویں سال میں تھے۔ تو جو اللہ تعالیٰ کا آپ سے آپؑ کی عمر کے بارہ میں وعدہ تھا وہ بعینہ اسی طرح پورا ہوا۔
• اعتراض نمبر 4 الہام ’’ہم مکہ میں مریں گے یا مدینہ میں‘‘ غلط نکلا۔
• جواب: اس الہام کی تشریح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود فرمائی ہے۔ حضور فرماتے ہیں ’’یعنی خائب و خاسر کی طرح تیری موت نہیں ہے اور یہ کلمہ کہ ہم مکہ میں مریں گے یا مدینہ میں اس کے یہ معنی ہیں کہ قبل از موت مکی فتح نصیب ہو گی جیسا کہ وہاں کے دشمنوں کو قہر کے ساتھ مغلوب کیا گیا تھا اسی طرح یہاں بھی دشمن قہری نشانوں سے مغلوب کئے جائیں گے۔ دوسرے یہ معنی ہیں کہ قبل از موت مدنی فتح نصیب ہو گی۔ خود بخود لوگوں کے دل ہماری طرف مائل ہو جائیں گے۔‘‘
• (البشریٰ)
• خاکسار نے جب اس الہام پر غور کیا تو مجھ پر اس کے ایک اور معنی آشکار ہوئے اور وہ کہ یہ الہام ظاہری رنگ میں بھی پورا ہوا۔اس الہام میں حضرت اقدسؑ کی قادیان سے ہجرت کی طرف اشارہ تھا اور خبر یہ دی گئی تھی کہ یا تو حضور کی وفات قادیان میں قیام کے دوران ہوگی جو مکہ سے مشابہ ہے اور یا پھر آپؑ کی وفات قادیان سے ہجرت کے دوران ہو گی جو مدنی زندگی کی طرف اشارہ تھا۔اس تناظر میں دیکھیں تو جب حضرت اقدس ؑقادیان سے رخصت ہونے لگے اور اپنے حجرے کو بند کیا تو فرمایا۔ اب ہم اس کو نہیں کھولیں گے۔ لاہور کا سفر غیر معینہ مدت کے لئے تھا کیو نکہ جب حضرت اماں جان ؓنے قادیان واپس جانے کی خواہش کا اظہار کیا تو آپ نے فرمایا کہ اب تو اُس وقت جائیں گے جب خدا لے جائے گا۔ علاوہ ازیں حضرت اقدس ؑکے اہل خانہ بھی آپ کے ساتھ قادیان سے لاہور آئے اور اکثر جید صحابہؓ بھی قادیان سے لاہور آ گئے۔ حتی کہ اخبار البدر بھی لاہور شفٹ کر دیا گیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ حضرت اقدسؑ کی قادیان سے ہجرت تھی۔ الہام داغِ ہجرت بھی پورا ہوا اور پھر حضورؑ کی وفات بھی مدنی زندگی یعنی ہجرت کی حالت میں ہوئی۔
• اعتراض نمبر5 حدیث میں آیا ہے کہ نبیؑ جہاں فوت ہوتا ہے وہیں دفن ہوتا ہے۔ مگر مرزا صاحب کی وفات لاہور میں ہوئی اور تدفین قادیان میں۔
• جواب: اس حدیث کا راوی عبدالرحمان بن ابی بکر ملیکی ہے جسے اول درجہ کا ضعیف راوی قرار دیا گیا ہےتاریخی طور پر ثابت ہے کہ حضرت یعقوب ؑ مصر میں فوت ہوئے مگر ان کا جسد مبارک شام میں لا کر دفن کیا گیا۔ اسی طرح حضرت یوسف ؑ کے تابوت کو ان کی وفات کے لمبے عرصہ بعد حضرت موسیؑ مصر سے اُٹھا کر شام میں لائے اور انہیں شام میں دفن کیا گیا۔ مصر میں حضرت یوسفؑ کی نعش مبارک کو سنگ مرمر کے تابوت میں بند کر کے دریائے نیل کے کسی کنارے امانتاً دفن کیا گیا تھا کیونکہ حضرت یوسفؑ نے کہا تھا کہ ان کے جسد خاکی کو مصر سے لے جا کر شام میں دفن کیا جائے۔
• اعتراض نمبر 6نبی کا ورثہ نہیں ہوتا مگر مرزا صاحب نے وراثت چھوڑی۔
• جواب: بخاری کی جس حدیث کا حوالہ دیا جاتا ہے اس کے بارہ میں حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ اس سے مراد صرف آنحضرت ﷺ کا اپنا وجود تھا۔اس کا اطلاق باقی انبیاء ؑ پر نہیں ہوتا۔ قرآن شریف سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت داؤد ؑ کے بعد ان کے بیٹے حضرت سلیمانؑ ان کی روحانی اور دنیاوی جائیداد کے وارث ہوئے یعنی نبوت بھی ملی اور حکومت بھی۔ سورۃ النمل میں اس کا ذکر ملتا ہے وَوَرِثَ سُلَیْمَانُ دَاؤُدَ۔ (النمل:17) ایک روایت کے مطابق حضرت سلیمانؑ نے ایک ہزار گھوڑا ورثہ میں پایا۔ حضرت زکریا ؑ نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کی یَرِثُنِی وَ یَرِثُ مِنْ آلِ یَعْقُوبَ (مریم:12) اے خدا مجھے وہ بیٹا عطا کر جو میرا اور یعقوبؑ کے گھرانے کا وارث ہو۔ بنی اسرائیل کا تابوت سکینہ نسل در نسل وراثت کے طور پر منتقل ہوتا رہا۔
• اعتراض نمبر 7حدیث میں آیا ہے یُدفَنُ مَعِیَ فِی قَبرِی یعنی وفات کے بعد مسیح میری قبر میں دفن ہوگا۔
• جواب: ہمارے مخالفین چونکہ دین کی روح سے ناآشنا ہیں وہ ہر بات ظاہری لیتے ہیں اور جگہ جگہ ٹھوکر کھاتے ہیں۔ اہل یہود نے بھی اسی وجہ سے ٹھوکر کھائی کہ تورات کو چھوڑ کر حدیثوں کی کتاب طالمود کو پکڑ کر بیٹھ گئے اور ہر پیشگوئی کی ظاہری شکل دیکھنے کی خواہش میں مسیح ؑ کا انکار کر بیٹھے۔
• آنحضرت ﷺ نے اسی وجہ سے فرمایا تھا کہ ایک وقت آئے گا جب میری اُمت یہود سے مکمل مشابہت اختیار کر لے گی کہ فرق کرنا مشکل ہو جائے گا۔ حضرت عیسیٰ ؑ کی سب سے زیادہ مخالفت اہل حدیث نے کی تھی اور حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی بھی سب سے زیادہ مخالفت اہل حدیث نے کی۔ مولوی نذیر حسین دہلوی، محمد حسین بٹالوی، ثنا اللہ امرتسری وغیرہ سب اہل حدیث تھے اور حدیثوں کے ظاہری معنے کرنے کی وجہ سے ایمان سے محروم رہ گئے اور لوگوں کی گمراہی کا موجب بنے۔ اب یہ حدیث کہ مسیح ابن مریمؑ میری قبر میں دفن ہوگا دراصل اُس انتہائی قریبی تعلق اور محبت کو ظاہر کرتی ہے جو آنحضرت ﷺ کو مسیح موعودؑ سے اور مسیح موعودؑ کو آپ سے تھی۔ اس حدیث کا مطلب ہے کہ میرا اور مسیح موعودؑ کا اس قدر شدید قلبی تعلق ہے کہ وفات کے بعد بھی ہم اکٹھے ہوں گے یعنی ہماری روحیں اکٹھی ہوں گی وگرنہ دو بے جان جسموں کے ایک قبر میں ہونے سے کیا فرق پڑتا ہے۔ اور پھر مسیح ؑ کی وفات پر کون بدبخت مسلمان آنحضرت ﷺ کی قبر مبارک کھولے گا! اَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ رَبِّیْ مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ وَّ اَتُوْبُ اِلَیْہِ۔
• ایک ذاتی واقعہ
• غالباً 1989ء کی بات ہے۔ میری ڈیوٹی میو ہسپتال لاہور کے ایمرجنسی وارڈ میں تھی۔ شام کی شفٹ ختم ہوئی تھی اور میں دوسرے ڈاکٹرز کے ساتھ ریسٹ روم میں بیٹھا تھا کہ ایک اور ڈاکٹر صاحب آگئے جو سینئر تھے مگر میری ان سے زیادہ واقفیت نہیں تھی۔ باتوں باتوں میں انہیں علم ہوا کہ میں احمدی ہوں۔ مگر یہاں کوئی خاص بات نہ ہوئی۔ جب میں ڈیوٹی ختم کر کے واپس اپنے کمرے میں پہنچا جو نیو ہاسٹل میں تھا تو یہی ڈاکٹر صاحب میرے کمرے میں آ گئے اور جماعت پر اعتراضات کرنے شروع کر دئیے اور آخر پر یہی اعتراض کیا کہ مرزا صاحب کی وفات بیت الخلاء میں ہوئی وغیرہ۔ میں نے قرآن شریف ہاتھ میں پکڑا اور خدا کی قسم اُٹھا کر کہا کہ یہ الزام کلیتاً جھوٹا ہے اور ہمارے دشمن مولویوں نے لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے استہزاء کی نیت سے کذب بیانی سے کام لیا ہے اور اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ سچ کہہ رہے ہیں تو یہ قرآن ہاتھ میں لیں اور اسی طرح خدا کی قسم اُٹھائیں جس طرح میں نے اُٹھائی ہے اور اگر آپ نے قسم اُٹھالی تو خدا تعالیٰ آپ کو اس کی عبرتناک سزا دے گا- ڈاکٹر صاحب کے مُنہ سے ایک لفظ نہ نکلا۔ چند منٹ تک خاموش مجھے دیکھتے رہے اور پھر اُٹھ کر کمرے سے نکل گئے۔ فیس بُک اور سوشل میڈیا پر ایسے کئی بدزبان ہیں جو انفرادی طور پر اور مختلف گروپوں میں حضرت بانئ سلسلہ عالیہ احمدیہ کے خلاف دشنام طرازی اور بد زبانی میں مصروف ہیں۔ میں اُنہیں تنبیہ کرتا ہوں کہ وہ اپنی ان گندی اور سفلی حرکتوں سے باز آجائیں وگرنہ حضرت اقدس کا الہام۔ اِنِّی مُھِیْنُ مَنْ اَ رَادَ اَھَانَتَکَ۔ ان کی نسلیں اُجاڑ دے گا۔
• حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔
• یہ کیا عادت ہے کیوں سچی گواہی کو چھپاتا ہے
تری اک روز اے گُستاخ شامت آنے والی ہے
بہت بڑھ بڑھ کے باتیں کی ہیں تُو نے اور چھپایا حق
مگر یہ یاد رکھ اک دن ندامت آنے والی ہے
ترے مکروں سے اے جاہل مرا نقصاں نہیں ہرگز
کہ یہ جاں آگ میں پڑ کر سلامت آنے والی ہے
• (درثمین)

یہ بھی ملاحظہ فرمائیں

حضرت مرزا صاحب کے سامنے نامحرم عورتیں چلتی پھرتی رہتی تھیں،وغیرہ وغیرہ۔

جواب:۔ اس اعتراض کی بنیاد حضرت مسیح موعود ؑ یا حضور ؑ کے خلفاء کی کسی تحریر پر نہیں بلکہ ز…