اجرائے وحی و الہام کے ثبوت از احادیث نبویہﷺ
احادیث نبویہ ﷺ میں متعدد ایسے اقوالِ رسول ﷺ موجود ہیں جو اس بات کا بیّن ثبوت ہیں کہ وحی و الہام کا سلسلہ کبھی ختم ہونے والا نہیں ہے۔ نیز حضرت جبریل امینؑ خدا تعالیٰ کے محبوب بندوں پر نزول فرماتے رہیں گے اور خدائی بشارات وحی کے صورت میں ان پر القاء ہوتی رہیں گی۔
اس ضمن میں چند ایک احادیث نبویہﷺ پیش خدمت ہیں۔
1۔ آنحضورﷺ کا حضرت حسان بن ثابت ؓ کے حق میں روح القدس کی تائیدکی دعا
حضرت عمر ؓ کے دورخلافت میں ایک روز حضرت حسانؓ مسجد نبوی میں دینی اشعار سنارہے تھے جس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو روکنا چاہا توحضرت حسان رضی اللہ عنہ نے اپنے فعل کے جواز میں درج ذیل حدیث پیش کی:
قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، أَنَّهُ سَمِعَ حَسَّانَ بْنَ ثَابِتٍ الْأَنْصَارِيَسْتَشْهِدُ أَبَا هُرَيْرَةَ، ”أَنْشُدُكَ اللَّهَ، هَلْ سَمِعْتَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: يَا حَسَّانُ أَجِبْ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، اللَّهُمَّ أَيِّدْهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ؟ قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: نَعَمْ‘‘.
(صحیح بخاری کتاب الصلٰوۃ باب الشعر فی المسجد)
ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن بن عوف نےحضرت حسان بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سناکہ وہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو اس بات پر گواہ بنا رہے تھے کہ میں تمہیں اللہ کا واسطہ دیتا ہوں کہ کیا تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے نہیں سنا تھا کہ اے حسان! اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے(مشرکوں کو اشعار میں) جواب دو اور اے اللہ! حسان کی روح القدس کے ذریعہ سے مدد فرما؟ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ ہاں!میں گواہ ہوں۔ بیشک میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سنا ہے۔
پس اس حدیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ روح القدس غیر انبیاء پر بھی نزول فرماتے ہیں اور ان کی تائیدونصرت کرتے ہیں۔ اگر جبریل امین ؑ کا غیرانبیاء پر نزول ممکن ہی نہیں ہے تو کیونکر(معاذاللہ) رسول اللہﷺ ایک ایسی دعا دے رہے ہیں جو خدائی سنت کے خلاف ہے؟ پس اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ آنحضور ﷺ کا حضرت حسان ؓ کے حق میں یہ دعا کرنا خدائی منشاء کے مطابق تھا اور یقیناً آپﷺ کی یہ دعا حضرت حسان ؓ کے حق میں ضرور قبول ہوئی ہوگی۔
2۔ آنحضور ﷺ کے وحی و کشوف میں بعض اوقات صحابہؓ بھی شریک ہوجاتے تھے
آنحضورﷺ کی حیات مبارکہ میں متعدد بار ایسا واقعہ رونما ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ آنحضور ﷺ پر حضرت جبریلؑ کا نزول فرماتا تھا تو آپﷺ کے صحابہ کرام ؓ بھی اس پاک وحی میں شامل ہوجاتے تھے۔ جیسا کہ ایک مشہور متفق علیہ حدیث میں ذکر ہے کہ حضرت جبریلؑ آنحضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سوال و جواب کے ذریعہ سے صحابہؓ کو اسلام کی تعلیمات سکھا گئے۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں:
عن عمر قال: بينما نحن جلوس عند رسول الله ﷺ ذات يومٍ إذ طلع علينا رجلٌ شديد بياض الثياب، شديد سواد الشعر، لا يُرى عليه أثر السفر، ولا يعرفه منا أحد، حتى جلس إلى النبي ﷺ، فأسند ركبتيه إلى ركبتيه، ووضع كفيه على فخذيه، وقال: يا محمد، أخبرني عن الإسلام، فقال رسولُ الله ﷺ: الإسلام أن تشهد أن لا إله إلا الله، وأن محمدًا رسول الله، وتُقيم الصلاة، وتُؤتي الزكاة، وتصوم رمضان، وتحج البيت إن استطعتَ إليه سبيلًا، قال: صدقتَ، فعجبنا له: يسأله ويُصدقه.
قال: فأخبرني عن الإيمان، قال: أن تُؤمن بالله وملائكته وكتبه ورسله واليوم الآخر، وتؤمن بالقدر خيره وشره، قال: صدقتَ، قال: فأخبرني عن الإحسان، قال: أن تعبد الله كأنك تراه، فإن لم تكن تراه فإنه يراك، قال: فأخبرني عن الساعة، قال: ما المسؤول عنها بأعلم من السائل، قال: فأخبرني عن أماراتها، قال: أن تلد الأمةُ ربَّتها، وأن ترى الحُفاة العُراة العالة رعاء الشاء يتطاولون في البنيان، ثم انطلق، فلبثتُ مليًّا، ثم قال: يا عمر، أتدري من السائل؟ قلت: الله ورسوله أعلم، قال: فإنه جبريل أتاكم يُعلمكم دينَكم. رواه مسلم.
(مسلم، کتاب الایمان،باب بیان الایمان والاسلام والاحسان ووجوب الایمان …الخ)
یعنی: حضرت عمر بن خطابؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ ہم ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرتھے کہ اچانک ہمارے روبروایک شخص ظاہرہوا جس کے کپڑے بے حدسفیداوربال نہایت سیاہ تھے۔ نہ تو اس پرسفرکے آثارتھے اورنہ ہم میں کوئی اس سے واقف تھا۔ وہ (شخص) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روبرو بیٹھ گیا اوراپنے دونوں زانوں کونبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زانوئے مبارک سے لگادیااوراپنے ہاتھوں کواپنے دونوں زانوؤں پررکھ لیا اورعرض کیا کہ اے محمد(صلی اللہ علیہ وسلم )!مجھے بتائیں کہ اسلام کیا ہے؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسلام یہ ہے کہ توگواہی دے کہ اللہ کے سواکوئی معبودنہیں اوریہ کہ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)اللہ کے رسول ہیں۔ اوریہ کہ تو نماز کو اچھی طرح پابندی سے اداکرے اورزکوٰۃ دے اوررمضان کے روزے رکھے اورخانۂ کعبہ کاحج کرے بشرطیکہ وہاں تک پہنچنے پرقادرہو۔اس شخص نے (یہ سن کر)کہا کہ آپ نے سچ فرمایا ہے۔ ہم سب کواس پرحیرت ہوئی کہ یہ شخص آپ ؐسےپہلے سوال پوچھتاہے اورساتھ ہی تصدیق بھی کردیتاہے۔
اس شخص نے کہا کہ مجھےایمان سے آگاہ کیجئے۔ آپ ؐنے ارشاد فرمایاکہ ایمان یہ ہے کہ تو اللہ پرایمان لائے اوراسکے فرشتوں پر اوراسکی کتابوں پر اوراس کے رسولوں پر اورروزقیامت پر اوریقین رکھے خیروشرپرکہ وہ قضاء وقدرسے ہیں۔ اس شخص نے کہا کہ آپؐ نے سچ فرمایا ہے۔ پھراس شخص نے مزید پوچھاکہ مجھے بتائیں کہ احسان کیا ہے؟آپؐ نے ارشاد فرمایاکہ تواللہ تعالیٰ کی (دل لگاکر)اس طرح عبادت کرے گویاکہ تواس کودیکھ رہا ہے۔ اگرتواس کواس طرح نہ دیکھ سکے تو(اتناتوخیال رکھ)کہ وہ تجھ کودیکھ رہاہے۔ پھراس شخص نے پوچھاکہ مجھےقیامت کے بارے میں خبردیجئے؟آپؐ نے فرمایا کہ جس سے تم دریافت کر رہے ہووہ بھی پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا۔ پھراس نے پوچھاکہ قیامت کی نشانیاں کیا ہیں؟آپؐ نے فرمایاکہ جب لونڈی مالک کوجنے اوریہ کہ ننگے پیرچلنے والے، ننگے بدن، تنگدست اوربکریاں چرانے والوں کوتودیکھے کہ وہ بلندعمارتیں بنانے میں ایک دوسرے پرفخرکریں گے ۔ راوی یعنی عمررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ وہ شخص چلاگیااورمیں دیرتک ٹھہرا رہا۔پھرآپؐ نے مجھ سے فرمایا کہ اے عمر !کیا تم جانتے ہوکہ سائل کون تھا؟میں نے جواب دیاکہ اللہ اوراس کے رسول زیادہ جاننے والے ہیں۔ آپؐ نے فرمایاکہ وہ تو جبرئیل تھے جوتمہارے پاس اس غرض سے آئے تھے کہ تم کوتمہارا دین سکھادیں۔
اس مذکورہ بالا حدیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ آنحضورﷺ کی وحی و الہام اور کشوف میں صحابہ کرام ؓ بھی الہٰی منشاء کے تحت کبھی کبھی شریک ہوجاتے تھے۔
اسی طرح کثرت کے ساتھ روایات موجود ہیں کہ حضرت جبرئیل ؑ آنحضور ﷺ کی خدمت میں حضرت دحیہ الکلبی ؓ کی شکل میں حاضر ہوتے تھےاور آنحضورﷺ جب ان سے بات کرتے تھے تو بعض صحابہؓ بھی یہ نظارہ دیکھ لیتے تھے۔ بعد میں آنحضورﷺ بتاتے تھے کہ یہ حضرت جبرئیلؑ تھے جو دحیہ الکلبی کی شکل میں متمثل ہوکر تشریف لائے تھے۔ حضرت عائشہ ؓ اور حضرت ام سلمہ ؓ کی اس بارہ میں گواہیاں متعدد مستندکتب احادیث میں موجود ہیں۔
3۔ آنحضورﷺ کی وحی کی ابتداء الرؤیا الصالحہ سے ہوئی۔ الرؤیا الصالحہ کے ذریعہ مکالمہ و مخاطبہ کا سلسلہ جاری رہنے کی دلیل
اس بات میں کلام نہیں کہ وحی کی اقسام میں سچی خوابیں بھی شامل ہیں۔ جیسا کہ صحیح بخاری میں حضرت عائشہ ؓ کی بیان کردہ حدیث کا ایک حصہ اس بات کو ثابت کرتا ہے۔ آپؓ نے فرمایا:
عَنْ عَائِشَةَأُمِّ الْمُؤْمِنِينَ، أَنَّهَا، قَالَتْ: أَوَّلُ مَا بُدِئَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْوَحْيِ الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ فِي النَّوْمِ، فَكَانَ لَا يَرَى رُؤْيَا إِلَّا جَاءَتْ مِثْلَ فَلَقِ الصُّبْحِ۔۔۔
(صحیح بخاری کتاب بدء الوحی باب اول مَا بُدِئَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْوَحْيِ الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ فِي النَّوْمِ)
یعنی ام المؤمنین حضرت عائشہ ؓ بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی وحی کی ابتداء سچی خوابوں سے ہوئی تھی۔ آپؐ جو خواب بھی دیکھتے تھے وہ صبح کے وقت سورج نکلنے کی طرح پوری ہوجاتی تھی۔۔۔۔
آنحضورﷺ نے خوابوں کے ذریعہ مکالمہ و مخاطبہ ٔ الٰہیہ کا سلسلہ تاقیامت جاری رہنے کے بارہ میں فرمایا ہے:
لَمْ يَبْقَ مِنَ النُّبُوَّةِ إلَّا المُبَشِّراتُ قالوا: وما المُبَشِّراتُ؟ قالَ: الرُّؤْيا الصَّالِحَةُ.
(صحیح بخاری کتاب التعبیر باب المبشرات)
یعنی اب نبوت میں مبشرات کے سوااور کوئی پہلو باقی نہیں رہا۔ صحابہ ؓ نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسولﷺ! یہ مبشرات کیا ہیں؟ آپؐ نے فرمایا کہ اس مراد سچی خوابیں ہیں۔
4۔ حضرت جبریل ؑ کا لیلۃ القدر میں نزول اور امت کے نیک لوگوں کوخدا تعالیٰ کا سلام پہنچانا
حضرت امام فخرالدین رازی ؒلیلۃ القدر میں جبرئیل امین ؑ کے نزول کے متعلق خدا تعالیٰ کی آنحضورﷺ کو دی گئی بشارت کے بارہ میں تحریر فرماتے ہیں:
قَالَ الْمُفَسِّرُوْنَ اِنَّہٗ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ خَافَ عَلٰی اُمَّتِہٖ اَنْ یَّصِیْرُوْا مِثْلَ اُمَّۃِ مُوْسٰی وَ عِیْسٰی عَلَیْھِمَا الصَّلٰوۃُ وَ السَّلاَمُ فَقَالَ اللّٰہُ لَا تَھْتَمَّ لِذٰلِکَ فَاِنِّیْ وَ اِنْ اُخْرَجْتُکَ مِنَ الدُّنْیَا اِلَّا اَنِّیْ جَعَلْتُ جِبْرِیْلَ خَلِیْفَۃً لَّکَ یَنْزِلُ اِلیٰ اُمَّتِکَ کُلَّ لِیْلِۃٍ قَدْرٍ وَ یُبَلِّغُھُمُ السَّلَامَ مِنِّیْ۔‘‘
(التفسیر الکبیر جزء 3صفحہ 277 )
یعنی: مفسرین کہتے ہیں کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ڈر لاحق ہوا کہ آپ کی امت موسیٰ اور عیسٰی علیہماالسلام کی امت کی طرح گمراہ ہو جائیگی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تجھے اس بات کا فکر نہیں ہونا چاہئے کیونکہ اگر میں نے تجھے وفات دیدی تو میں جبرئیل کو تیرا خلیفہ مقرر کر دونگا جو ہر لیلتہ القدر میں تیری امت کی طرف آیا کریگا اور انہیں میری طرف سے سلامتی کا پیغام پہنچایا کریگا۔‘‘
5۔ آنحضورﷺ کی حضرت عمر ؓ پر الہام نازل ہونے کی گواہی
حضرت علامہ ابن حجر الہیثمیؒ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں نبی کریم ﷺْ کا ایک ارشاد بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’ اِنَّہُ مِنَ الْمُحَدَّثِیْنَ بِفَتْح الدَّالِ اَیْ اَلْمُلْھَمِیْنَ‘‘
(الفتاوی الحدیثیہ۔ مصنفہ علامہ ابن حجر الہیثمی صفحہ 395 مطلب: فی کلام علی کرامات الاولیاء علی اکمل الوجہ)
یعنی وہ محدَّثین ( یعنی ملھَمین ) میں سے ہے۔
6۔ حضرت ابی ّ بن کعبؓ کو آنحضورﷺ نے بتایا کہ تمہیں جبرئیل ؑ نے دعائیں سکھائی ہیں
حضرت ابیّ بن کعبؓ خدا تعالیٰ کی حمد کے جواب میں حضرت جبرئیل علیہ السلام کے نزول اور ان کی دعا کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
عَنْ اَنَسٍ قَالَ قَالَ اُبَیُّ ابْنُ کَعْبٍ لَاَدْخُلَنَّ الْمَسْجِدَ فَلَأُصَلِّیَنَّ وَ لَأَحْمِدَنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی بِمُحَامِدٍ لَمْ یَحْمِدْ بِھَا اَحَدٌ فَلَمَّا صَلّٰی وَ جَلَسَ یَحْمِدُ اللّٰہَ تَعَالٰی وَیُثْنِیْ عَلَیْہِ اِذَا ھُوَ بِصَوْتٍ عَالٍ مِنْ خَلْفٍ یَقُوْلُ اللّٰھُمَّ لَکَ الْحَمْدُ کُلُّہٗ وَلَکَ الْمُلْکُ بِیَدِکَ الْخَیْرُ کُلُّہٗ وَاِلَیْکَ یَرْجِعُ الْاَمْرُ کُلُّہٗ عَلَانِیَتُہٗ وَسِرُّہٗ لَکَ الْحَمْدُ اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ اِغْفِرْلِیْ مَا مَضٰی مِنْ ذُنُوْبِیْ وَاعْصِمْنِیْ فِیْھَا بَقِیَ مِنْ عُمْرِیْ وَارْزُقْنِیْ اَعْمَالاً رَاکِیَۃً تَرْضٰی بِھَا مِنِّیْ وَتُبْ عَلَیَّ۔ فَأَتٰی رَسُوْلَ اللّٰہِ فَقَصَّ عَلَیْہِ فَقَالَ جِبْرِیْلُ علیہ السلام۔
( روح اؔلمعانی جلد 22 صفحہ 40 زیر تفسیر آیت خاتم ا لنبیّن )
ترجمہ : حضرت انس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ مجھے ابی ّ بن کعب نے کہا میں مسجد میں ضرور داخل ہوں گا پھر ضرور نماز پڑھوں گا اور ضرور اللہ تعالیٰ کی ایسے محامدکے ساتھ حمد کروں گا کہ کسی نے ایسی حمد نہ کی ہو ۔جب انہوں نے نماز پڑھی اور خدا کی حمد کرنے کے لئے بیٹھ گئے تو ناگاہ انہوں نے پیچھے سے ایک شخص کوبلند آواز سے یہ کہتے سنا ۔ ’’اے اللہ! سب حمد تیرے لئے ہے ۔ ملک تیرا ہے۔ سب بھلائی تیرے ہاتھ میں ہے۔ سب امور کا مرجع تو ہے خواہ وہ امور ظاہری ہوں یا باطنی حمد تیرے لئے ہی ہے۔ بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے ۔میرے گزشتہ گناہوں کومعاف کردے اور مجھے باقی عمر محفوظ رکھ اور مجھے ایسے پاکیزہ اعمال کی توفیق دے کہ تو ان کے ذریعہ مجھ سے راضی ہو جائے ۔مجھ پر رحمت سے رجوع کر۔‘‘ پھر حضرت ابی ّ بن کعبؓ رسول اللہ ﷺْ کے پاس حاضر ہوئے اور سارا واقعہ بیان کیا تو حضور ﷺْ نے فرمایا کہ وہ جبرائیل علیہ السلام تھے۔
7۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام پر اللہ تعالیٰ وحی نازل فرمائے گا۔ آنحضورﷺ کا قطعی فیصلہ
حضرت اقدس محمد مصطفیٰ ﷺ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی آمد پر انہیں خدا تعالیٰ کی وحی سے مشرف ہونے کی بابت فرماتے ہیں:
۔۔۔۔إِذْ أَوْحَى اللّٰهُ إِلىٰ عِيْسىٰ إِنِّيْ قَدْ أَخْرَجْتُ عِبَاداً لِّيْ لَا يَدَانِ لِأَحَدٍ بِقِتَالِهِمْ فَحَرِّزْ عِبَادِي۔ إِلىَ الطُّوْرِ
(صحيح مسلم۔ كتاب الفتن وأشراط الساعة ۔ باب ذكر الدجال وصفته وما معه)
یعنی: جب حضرت عیسیٰ ؑ دجال کو قتل کردیں گے تو اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف وحی فرمائیں گے کہ یقیناً میں نے اپنے ایسے بندے نکالیں ہیں کہ کسی کے پاس وہ ہاتھ نہیں ہیں جو ان سے جنگ کرسکیں۔ پس تو میرے بندوں کو طور پہاڑ کی طرف موڑ کرلے جا۔
مذکورہ بالا حدیث میں یہ امر صاف طور پر بیان کیا گیا ہے کہ مسیح موعود علیہ السلام خدا تعالیٰ کی وحی سے مشرف ہوں گے۔
اسی مضمون کی ایک اور حدیث کے الفاظ کچھ یوں ہیں:
’’ یَقْتُلُ عِیْسَی الدَّجَّالَ عِنْدَ بَابِ لُدِّ الشَّرْقِیِّ فَبَیْنَمَا ھُوَ کَذٰلِکَ اِذْ اَوْحَی اللّٰہُ اِلٰی عِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ اِنَّیْ قَدْ اٰخُرَجْتُ عِبَادًا مِنْ عِبَادِیْ ۔‘‘
(مسلم کتاب الفتن و اشراط الساعۃ باب ذکر الدجال و صفتہٖ ومن معہٗ ۔مشکوٰۃ کتاب الفتن باب العلامات بین یدی الساعۃ )
یعنی مسیح موعود ؑدجال کو باب لُدّ شرقی پر قتل کرے گا اور جب وہ اس حالت میں ہوں گے تو خدا تعالیٰ مسیح موعود ؑ پر وحی کرے گا کہ میں نے اپنے بندوں میں سے بعض بندے تیری مدد کے لئے نکالے ہیں ۔
پس اصدق الصادقین محمد مصطفیٰ ﷺ نے ان احادیث میں صراحت کے ساتھ مسیح موعود علیہ السلام کا وحیٔ الہٰی سے مشرف ہونے کا اعلان فرمادیا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ مکالمہ و مخاطبۂ الہٰیہ کا سلسلہ ختم نہیں ہوا۔
حدیث لَا وَحْیَ بَعْدِیْ کی حقیقت
بعض مسلمانوں کو یہ غلطی لگی ہے کہ آنحضورﷺ کے بعد ہر قسم کی وحی کا نزول بند ہوچکا ہے اور اس کی دلیل میں وہ ایک ضعیف حدیث پیش کرتے ہیں جس کے الفاظ لَا وَحْیَ بَعْدِیْ بیان کئے جاتے ہیں۔ یعنی آنحضورﷺ نے فرمایا ہے کہ میرے بعد ہرقسم کی وحی بند ہوجائے گی ۔ یہ بات قرآن کریم اور دیگر ثقہ روایات حدیث ﷺ کے خلاف ہے۔ نیز امت میں ہزارہا اولیاء و اصفیاء کے اقوال اور ان کے تجربات اس بات پر شاہد ہیں کہ خدا تعالیٰ کی صفت تکلّم ازلی ابدی ہے اور یہ سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوگا۔
اگر تو مذکورہ بالا حدیث کے صرف یہ معنیٰ کئے جائیں کہ آنحضورﷺ کے بعد کوئی نئی شریعت والی وحی جو قرآن کریم کو منسوخ کردے، وہ بند ہوجائے گی تو یہ بات بالکل درست اور قرآنی دعویٰ کے عین مطابق ہے۔لیکن اگر کلیۃً ہر قسم کی وحی کو بند کیا جانا اس سے مراد لیا جائے تو یہ بات صریحاً درست نہیں ہے
اس حدیث کے باطل ہونے کے بارہ میں علمائے سلف نے جو رائے بیان کی ہے ان میں سے چند نمونے قارئین کی خدمت میں پیش ہیں۔
حضرت علامہ ابن حجرؒ فرماتے ہیں:
وَخَبْرُ لَا وَحْیَ بَعْدِیْ بَاطِلٌ وَّماَ اَشْھَرَ اَنَّ جِبْرِیْلَ لَایَنْزِلُ اِلیٰ اْلاَرْضِ بَعْدَمَوْتِ النَّبِیِّ صَلْعَمْ فَھُوَ لاَ اَصْلَ لَہُ ۔
(روح المعانی مصنفہ علامہ شہاب الدین الوسیؒ جزء 22 صفحہ 41 زیر آیت خاتم النبیّین ۔ الخصائص الکبرٰی مصنفہ امام جلال الدین السیوطیؒ صفحہ 243)
اس قول کاترجمہ فارسی زبان میں نواب صدیق حسن خان صاحب نے ان الفاظ میں کیا ہے :
’’ وآنکہ بر اَلْسنٔہ عامہ مشہور شدہ کہ نزول جبرائیل ؑ بسوئے ارض بعد موت رسول خدا صلعم نشود بے اصل محض است۔‘‘
(حجج الکرامہ صفحہ 431)
یعنی یہ حدیث کہ میرے بعد کوئی وحی نہیں باطل ہے (موضوع ہے) اور یہ جو عام طور پر مشہور ہے کہ جبرائیلؑ رسول اللہ ﷺ کے بعد زمین پر نازل نہیں ہوں گے اس کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔
پھر ایک اور حدیث سے اس کی تائید ہوتی ہے کہ جبرئیلؑ نازل ہوتے رہیں گے اور ان کے نزول کا سلسلہ کبھی بند نہیں ہوگا جیسا کہ حضور ﷺنے فرمایا:
مَا اُحِبَّ اَنْ یَّرْقُدَ الْجَنْبُ حَتّٰی یَتَوَضَّأَ فَاِنِّیْ اَخَافُ اَنْ یَّتَوَفّٰی وَ مَا یَحْضُرُہٗ جِبْرِیْلُ فَدَلَّ عَلیٰ اَنَّ جِبْرِیْلَ یَنْزِلُ اِلَی الْاَرْضِ وَ یَحْضُرُ مَوْتَ کُلِّ مُؤْمِنٍ تَوَفَّاہُ اللّٰہُ وَ ہُوَ عَلٰی طَہَارَۃٍ۔
(الفتاوی الحدیثیۃ صفحہ 220 مطلب: فی انّ جبریل یعضد الموتیٰ ۔صفحہ 243 مطلب: خبر لا وحی بعدی باطل)
یعنی میں پسند نہیں کرتا کہ کوئی شخص وضوء کے بغیر سو جائے کیونکہ میں ڈرتا ہوں کہ وہ مر جائیگا تو جبرئیل اس کے پاس نہیں آئے گا ۔ پس یہ حدیث دلالت کرتی ہے اس بات پر کہ جبرائیل زمین پر اترتا ہے اور ہر مومن کی موت کے وقت اگر وہ باوضو ہو تو وہ حاضر ہوتا ہے۔
نبی کریم ﷺ کی ایک اور حدیث سے معلوم ہوتاہے کہ امتِ محمدیہ وحی سے حصّہ پاتی رہے گی۔ ہاں اگر وہ اپنے فرض سے غافل ہو جائے تو پھر یہ نعمت اس سے چھین لی جائیگی ۔ حضور ﷺکے الفاظ یہ ہیں:
اِذَا عَظَمَتْ اُمَّتِی الدُّنْیَا نُزِعَتْ مِنْھَا ہَیْبَۃُ اْلاِسْلَامِ وَ اِذَا تَرَکَتِ الْاَمْرَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ النَّہْیَ عَنِ الْمُنْکَرِ حُرِمَتْ بَرَکَۃُ الْوَحْیِ
( الجامع الصغیر مصنفہ امام جلال الدین السیوطیؒ جزءاول صفحہ31)
یعنی جب میری امت دنیا کو اہمیت دینے لگے گی تو اس سے اسلامی رُعب چھن جائیگا اور جب وہ بھلائی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا تر ک کر دیگی تو اس سے وحی کی برکت اُ ٹھ جائیگی۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جب تک امت مسلمہ دین کو دنیا پر مقد ّم رکھے گی اور نیکی کا حکم دیتی رہے گی اور بدی سے روکتی رہے گی تو خدا تعالیٰ اسے وحی کی برکت سے نوازتا چلا جائے گا۔ہاں اگر وہ اس تعلیم کو چھوڑ دینگے اور اس ارشاد کو پس پشت ڈال دینگے تو پھر انہیں وحی الہٰی سے محروم کر دیا جائیگا۔