مختصر سوانح: حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ

دورخلافت ثانیہ:

حضرت مصلح موعود خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ (1889ء تا1965ء):
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کو دور خلافت اس لحاظ سے ممتاز اور نمایاں ہے کہ اس کے بارے میں سابقہ انبیاء و صلحا کی پیشگوئیاں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ کے بے شمار نشانات اور اس کی پیہم تائیدات نے یہ ثابت کر دیا کہ آپ ہی وہ موعود خلیفہ ہیں جس کا وعدہ دیا گیا تھا۔
ابتدائی زندگی:
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے 20فروری1886ء کو ایک مسیحی نفس لڑکے کے پیدائش کی خبر دی جو دل کا حلیم اور علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا جانا تھا اور بتلایا گیا کہ وہ نو سال کی عرصہ میں ضرور پیدا ہو جائے گا۔ اس پیشگوئی کے مطابق سیّدنا حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب حضرت اماں جان نصرت جہاں بیگم کے بطن سے12جنوری1889ء بروز ہفتہ تولد ہوئے۔ الہام الٰہی میں آپ کا نام محمود، بشیر ثانی اور فضل عمر بھی رکھا گیا اور کلمتہ اللہ نیز فخرِ رُسل کے خطابات سے نوازا گیا۔ آپ رضی اللہ عنہ کے بارے میں الہاماً یہ بھی بتایا گیا کہ وہ سخت ذہین و فہیم ہو گا، خدا کا سایہ اس کے سر پر ہوگا، وہ جلد جلد بڑھے گا، اسیروں کی رُستگاری کا موجب ہوگا، زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قومیں اس سے برکت پائیں گی۔ چونکہ آپ رضی اللہ عنہ کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بہت سی بشارات ملی تھیں اِس لئے حضور علیہ السلام آپ رضی اللہ عنہ کا بہت خیال رکھتے۔ کبھی آپ کو ڈانٹ ڈپٹ نہیں کی۔ بچپن سے آپ رضی اللہ عنہ کی طبیعت میں دین کی طرف رغبت تھی۔ دعا میں شغف تھا اور نمازیں بہت توجہ سے ادا کرتے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے ابتدائی تعلیم مدرسہ تعلیم الاسلام (قادیان) میں پائی۔ صحت کی کمزوری اور نظر کی خرابی کے باعث آپ رضی اللہ عنہ کی تعلیمی حالت اچھی نہ رہی اور آپ رضی اللہ عنہ ہر جماعت میں رعایتی ترقی پاتے رہے۔ مڈل اور انٹرنس (میٹرک) کے سرکاری امتحانوں میں فیل ہوئے اس طرح دنیوی تعلیم ختم ہو گئی۔ اس درسی تعلیم کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل نے اپنی خاص تربیت میں لیا۔ قرآن کریم کا ترجمہ تین ماہ میں پڑھادیا۔ پھر بخاری بھی تین ماہ میں پڑھا دی، کچھ طب بھی پڑھائی اور چند عربی کے رسالے پڑھائے۔ قرآنی علوم کا انکشاف تو موہبت الٰہی ہوتی ہے مگر یہ درست ہے کہ قرآن کریم کی چاٹ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ نے ہی لگائی۔ جب آپ رضی اللہ عنہ کی عمر 17،18سال کی تھی ایک دن خواب میں ایک فرشتہ ظاہر ہوا اور اس نے سورۃ فاتحہ کی تفسیر سکھائی۔ اس کے بعد سے تفسیر قرآن کا علم خدا تعالیٰ خود عطا کرتا چلا گیا۔
1906ء میںجب کہ آپ کی عمر 17سال تھی۔ صدر انجمن احمدیہ کا قیام عمل میں آیا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپ رضی اللہ عنہ کو مجلس معتمدین کا رُکن مقرر کیا، 26مئی1908ء کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا جب وصال ہوا تو غم کا ایک پہاڑ آپ رضی اللہ عنہ پر ٹوٹ پڑا۔ غم اس بات کا تھا کہ سلسلہ کی مخالفت زور پکڑے گی اور لوگ طرح طرح کے اعتراضات کریںگے تب آپ رضی اللہ عنہ نے حضور علیہ السلام کے جسدِ اطہر کے سرہانے کھڑے ہو کر اپنے رب سے عہد کیا کہ:
’’اگر سارے لوگ بھی آپ (یعنی مسیح موعود علیہ السلام) کو چھوڑ دیں گے اور میں اکیلا رہ جائوں گا تو میں اکیلا ہی ساری دنیا کا مقابلہ کروں گا اور کسی مخالفت اور دشمنی کی پرواہ نہیں کروں گا‘‘۔
یہ عہد آپ رضی اللہ عنہ کی اولو العزمی اور غیرتِ دینی کی ایک روشن دلیل ہے ۔ تاریخ شاہد ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے اس عہد کو خوب نبھایا ۔ 15،16برس کی عمر میں پہلی مرتبہ آپ رضی اللہ عنہ کو الہام ہو ا کہ: اِنَّ الَّذِیْنَِ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْ اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ۔اس پہلے الہام میں ہی اس امر کی بشارت موجود تھی کہ آپ ایک دن جماعت کے امام ہوںگے۔قرآن کریم کافہم آپ کو بطور موہبت عطا ہو اتھا۔جس کا اظہار ان تقاریر سے ہوتا تھا جو وقتاًفوقتاً آپ جلسہ سالانہ پر یا دوسرے مواقع پر کرتے تھے۔آیت کریمہ لَایَمَسُّہ‘ اِلَّا الْمُطَھَّرُوْنَکے مطابق یہ اس امر کا ثبوت تھا کہ سیّدنا پیارے محمود کے دل میں خدا اور اس کے رسول اور اس کے کلامِ پاک کی محبت کے سوا کچھ نہ تھا لیکن برا ہو حسد اور بغض کا، منکرینِ خلافت آپ رضی اللہ عنہ کے خلاف بھی منصوبے بناتے رہتے تھے اور کوشش کرتے تھے کہ کسی طرح حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ آپ سے بدظن ہو جائیں۔ ان کو آپ سے دشمنی اِس بنا پر تھی کہ اوّل تو آپ حضرت خلیفہ اوّل کے کامل فرمانبردار اور حضور کے دست و بازو اور زبردست مؤید تھے، دوسرے آپ کے تقویٰ و طہارت، تعلق باللہ، اجابت دعا اور مقبولیت روز بروز ترقی کر رہی ہے اور خود حضرت خلیفۃ المسیح اول بھی آپ کا بے حد اکرام کرتے ہیں۔ ان وجو ہات کے باعث آپ رضی اللہ عنہ کا وجود منکرین خلافت کو خار کی طرح کھٹکتا تھا۔
خلافت اُولیٰ کے دور میں آپ نے ہندوستان کے مختلف علاقوں نیز بلادِ عرب و مصر کا سفر کیا۔حج بیت اللہ سے مشرف ہوئے۔1911ء میں آپ نے مجلس انصار اللہ قائم فرمائی اور1913ء میں اخبار الفضل جاری کیا اور اس کی ادارت کے فرائض اپنی خلافت کے دَور تک نہایت عمدگی اور قابلیت سے سر انجام دیئے۔
عہدِ خلافت ثانیہ:
حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد14مارچ1914ء کو مسجد نور (قادیان) میں خلافت کا انتخاب ہوا۔ دو اڑھائی ہزار افراد نے جو اُس وقت موجو د تھے بیعت خلافت کی، قریباً پچاس افراد ایسے تھے جنہوں نے بیعت نہیں کی اور اختلاف کا راستہ اختیار کیا۔ اختلاف کرنے والوں میں مولوی محمد علی صاحب اور خواجہ کمال الدین صاحب جو اپنے آپ کو سلسلہ کا عمود سمجھتے تھے پیش پیش تھے۔ خلافت سے انکار اور حبل اللہ کی ناقدری کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہ لوگ (قادیان) سے منقطع ہوئے؟ صدر انجمن احمدیہ سے منقطع ہوئے۔ نظام وصیت سے منقطع ہوئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت کے منکر ہوئے اور اپنے کئی عقائد و نظریات میں اس لئے تبدیلی کرنے پر مجبور ہوئے کہ شاید عوام میں مقبولیت حاصل ہو لیکن وہ بھی نصیب نہ ہوئی۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کا عہدِ خلافت اسلام کی ترقی اور بے نظیر کامیابیوں کا درخشاں دَور ہے۔ اس باون سالہ دورمیں خدا تعالیٰ کی غیر معمولی نصرتوں کے ایسے عجیب در عجیب نشانات ظاہر ہوئے کہ ایک دنیا ورطۂ حیرت میں پڑ گئی اور دشمن سے دشمن کو بھی یہ تسلیم کئے بغیر چارہ نہ رہا کہ اس زمانہ میں سلسلہ عالیہ احمدیہ نے غیر معمولی ترقی کی ہے اور یہ کہ امام جماعت احمدیہ بے نظیر صلاحیتوں کے مالک ہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے اس باون سالہ عہدِ خلافت میں مخالفتوں کے بہت سے طوفان اٹھے۔ اندرونی اور بیرونی فتنوں نے سر اٹھایا مگر آپ رضی اللہ عنہ کے پائے استقلال میں ذرا سی جنبش نہ ہوئی اور یہ الٰہی قافلہ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ اپنی منزل کی جانب بدستور بڑھتا گیا۔ ہر فتنہ کے بعد جماعت میں قربانی اور فدائیت کی روح میں نمایاں ترقی ہوئی اور قدم آگے ہی آگے بڑھتاگیا۔ جس وقت منکرین ِ خلافت مرکز سلسلہ کو چھوڑ کر گئے اس وقت انجمن کے خزانے میں چند آنوں کے سوا کچھ نہ تھا لیکن جس وقت آپ رضی اللہ عنہ کا وصال ہوا اس وقت صدر انجمن اور تحریک جدید کا بجٹ71لاکھ نواسی ہزار تک پہنچ چکا تھا۔ اختلاف کے وقت ایک کہنے والے نے مدرسہ تعلیم الاسلام کے متعلق کہاکہ یہاں اُلو بولیں گے لیکن خدا کی شان کہ وہ مدرسہ نہ صر ف کالج بنا بلکہ اس کے نام پر بیسیوں تعلیمی ادارے مختلف ممالک میں قائم ہوئے۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے بارے میں جو کچھ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بتلایا تھا وہ لفظاً لفظاً پورا ہوا۔ حضرت فضل عمر جلد جلد بڑھے اور دنیا کے کنارون تک اشاعتِ اسلام کے مراکز قائم کر کے شہرت پائی۔
(دینی معلومات کا بنیادی نصاب شائع کردہ مجلس انصاراللہ پاکستان صفحہ 174 تا 178)
خلافت ثانیہ میں انکارِ خلافت کا پہلا فتنہ اوراس کا سدّباب:
سب سے پہلے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کو فتنہ انکارِ خلافت کا سامنا کرنا پڑا۔ جماعت احمدیہ پر ایک کڑا وقت آن پڑا تھا۔ قادیان میں حاضر احمدیوں میں سے اگرچہ جمہور نے بڑے اخلاص اور پاک نیت کے ساتھ حضرت مرزا بشیرا لدین محمود احمد صاحب کے ہاتھ پر بیعت کر کے نظام خلافت کے حق میں فیصلہ صادر کر دیا تھا لیکن نظام جماعت کے اہم عہدوں پرابھی تک منکرین خلافت قابض تھے، پریس کا بیشتر حصہ ان کے ہاتھ میں تھا، روپے پیسے کی کنجیاں ان کے پاس تھیں اور ایسی معروف اور بظاہر عظیم شخصیتیں ان کے ہم خیال تھیں جن کا اثر جماعت پر بلا شبہ بڑا گہر اور وسیع تھا، ان میں مولانا محمد علی صاحب پیش پیش تھے جن کو دنیاوی علوم کی برتری کے باعث اور انگریزی تفسیر القرآن کا مقدس کام تفویض ہونے کے سبب نیز صدر انجمن احمدیہ کے سیکرٹری ہونے کی وجہ سے جماعت میں ایک غیر معمولی عزت اور احترام کا مقام حاصل تھا۔ پھر سلسلہ کے بعض اور اہم افراد جن میں ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب خواجہ کمال الدین صاحب وکیل،شیخ رحمت اللہ صاحب اور ڈاکٹر سید محمد حسین صاحب خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں بھی اس گروہ میں شامل تھے اور مولوی محمد علی صاحب کی سرکردگی میں منکرین خلافت کی صف اوّل میں کھڑے تھے۔ ان میں سے اکثر صدر انجمن احمدیہ کے ممبر ہونے کی وجہ سے بھی جماعت میں ایک خاص مقام رکھتے تھے۔ انتخاب خلافت کے ساتھ ہی انہوں نے جماعت کے تمام ابلاغ و اشاعت کے ذرائع بروئے کار لاتے ہوئے سارے ہندوستان میں نظام خلافت کی تردید میں ایک خطرناک اور زہریلے پراپیگنڈے(Propaganda) کی مہم بڑی سرعت کے ساتھ شروع کر دی بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ پراپیگنڈے کا یہ منصوبہ خفیہ طور پر منظرِ عام پر آنے کا منتظر تھا۔ اس منصوبہ کے تحت بکثرت جماعتوں میں یہ مہلک خیال پھیلا یا گیا کہ مرزا محمود احمد اور ان کے رُفقا نے اپنے ذاتی مفاد اور اقتدار کی خاطر نظامِ خلافت کا یہ ڈھونگ رچایا ہے جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام واضح طور پر صدر انجمن احمدیہ کو اپنا جانشین مقرر فرما گئے تھے۔ نیز یہ کہا کہ ابھی سے ان لوگوں نے دین کو بگاڑنا شروع کر دیا ہے اور اگر اس نعوذباللہ گمراہ کن غیر ذمہ دار کچی عمر کے نوجوان کی قیادت کو جماعت احمدیہ نے قبول کر لیا تو دیکھتے دیکھتے احمدیت کا شیرازہ بکھر جائے گا اور قادیان پر عیسائیت قابض ہو جائے گی۔ اس قسم کے زہریلے پراپیگنڈے سے لیس بیسیوں کارندے ہر طرف جماعتوں میں دوڑا دیئے گئے اور انہیں خلافت کی بیعت سے باز رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔ ان حالات کے پیش نظر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے خلافت پر متمکن ہوتے ہی سب سے پہلا کام یہ کیا کہ بکثرت رسائل اور اشتہارات کے ذریعے جماعت پر اصل صورتِ حال واضح فرمائی اور منکرینِ خلافت کے ہر قسم کے اعتراضات کا مؤثر جواب دیا۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے سنہری کارنامے اور آپ رضی اللہ عنہ کی بابرکت تحریک:
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے بہت سے کارناموں میں سے چند کا ذکر اختصار سے درج ذیل ہے:
1۔ جماعتی کاموں میں تیزی اور مضبوطی پیدا کر نے کے لئے صدر انجمن احمدیہ کے کاموں کو مختلف شعبوں میں تقسیم کر کے نظارتوں کو نظام قائم کیا۔
2۔ بیرونی ممالک میں تبلیغ کے کام کو وسیع پیمانے پر چلانے کیلئے 1934ء میں تحریک جدید جاری فرمائی اور صدر انجمن احمدیہ سے الگ ایک نئی انجمن یعنی تحریک جدید انجمن احمدیہ کی بنیاد رکھی۔ اس کے نتیجہ میں بفضل ایزدی یورپ، ایشیا، افریقہ اور امریکہ کے مختلف ممالک اور جزائر میں نئے تبلیغی مشن قائم ہوئے، سینکڑوں مساجد تعمیر ہوئیں، قرآن کریم کے مختلف زبانوں میں تراجم ہوئے اور کثرت کے ساتھ اسلامی لٹریچر مختلف زبانوں میں شائع کیا گیا اور لاکھوں افراد اسلام کے نور سے منور ہوئے۔
3۔ اندرون ملک دیہاتی علاقوں میں تبلیغ کے کام کو مؤثر رنگ میں چلانے کے لئے1957ء میں ’’وقفِ جدید انجمن احمدیہ‘‘کے نام سے تیسری انجمن قائم کی۔
4۔ جماعت میں قوتِ عمل کو بیدار رکھنے کیلئے آپ رضی اللہ عنہ نے جماعت میں ذیلی تنظیمیں یعنی انصار اللہ، خدام الاحمدیہ، اطفال الاحمدیہ، لجنہ اماء اللہ اور ناصرات الاحمدیہ قائم فرمائیں تا کہ مرد اور عورتیں، بچے اور جوان سب اپنے اپنے رنگ میں آزادانہ طور پر تعلیم و تربیت کا کام جاری رکھ سکیں اور نئی نسل میں قیادت کی صلاحیتیں اُجاگر ہوں۔ ان تنظیموں کا قیام جماعت پر احسانِ عظیم ہے۔
5۔ 1944ء کو جماعت میں اسلامی نظامِ شوریٰ کوز ندہ رکھنے کیلئے مجلس شوریٰ کا قیام فرمایا۔
6۔ قرآنی علوم کی اشاعت اور ترویج کے لئے درس قرآن کا سلسلہ جماعت میں جاری رکھا۔ تفسیر کبیر کے نام سے کئی جلدوں میں قرآن کریم کی ایک ضخیم تفسیر لکھی جس میں قرآنی حقائق و معارف کو ایسے اچھوتے انداز میں پیش کیا کہ دل تسلی پاتے اور اسلام کی حقانیت خوب واضح ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ ہر طبقہ کے لوگوں میں قرآنی علوم کو چسکا پیدا کرنے کے لئے قرآن کریم کی ایک نہایت مختصر مگر عام فہم تفسیر الگ تحریر فرمائی جس کا نام’’تفسیر صغیر‘‘ہے۔
7۔ بحیثیت امام اور خلیفۂ وقت جماعتی ذمہ داریوں کو نبھانے کے علاوہ آپ رضی اللہ عنہ نے ملک و ملت کی خدمت میں نمایاں اور قابلِ قدر حصہ لیا۔ آپ رضی اللہ عنہ کی تنظیمی صلاحیتوں کے پیش نظر مسلمانانِ کشمیر کو آزادی دلانے کے لئے جب آل انڈیا کشمیر کمیٹی قائم ہوئی تو آپ رضی اللہ عنہ کو اس کا صدر منتخب کیا گیا۔ ہر اہم سیاسی مسئلہ کے بارے میں آپ رضی اللہ عنہ نے مسلمانان ہند کی رہنمائی کی اور بیش قیمت مشوروں کے علاوہ دامے درمے سخنے ہر طرح ان کی مد د کی۔ کئی مرتبہ اپنے سیاسی مشوروں کو کتابی شکل میں شائع کر کے ملک کے تمام سر برآوردہ اشخاص تک نیز ترجمہ کے ذریعہ ممبران برٹش پارلیمنٹ (British Parliment)اور برٹش کیبنٹ (British Cabinet)تک پہنچایا۔
8۔ تقسیم ملک کے وقت جہاں آپ رضی اللہ عنہ نے مسلمانوں کی حفاظت اور بہبود کے لئے مقدور بھر کوشش کیں وہاں اپنی جماعت کیلئے 1948ء میں ربوہ جیسے بے آب و گیاہ علاقہ میں ایک فعال مرکز قائم کیا جہاں سے الحمد للہ تبلیغ اسلام کی مہم پورے زور سے پروان چڑھی۔ ایک بنجر اور شور زدہ علاقہ میں بے سر و سامانی کے باوجود ایک پُررونق بستی کا آباد کر دینا خود اپنی ذات میں ایک بڑا کارنامہ ہے۔ یہ بستی نہ صرف تبلیغ اسلام کا اہم ترین مرکز ہے بلکہ ملک میں علم کی ترقی اور ترویج کا بھی ایک ممتاز سنٹر ہے اس کے علاوہ کھیلوں کے میدان میں بھی قابلِ ذکر کردار ادا کر رہی ہے۔
9۔ 1940ء میں آپ رضی اللہ عنہ نے تاریخ اسلام کے واقعات کو بہتر رنگ میں سمجھنے اور یاد رکھنے کیلئے ہجری شمسی سن جاری فرمایا۔
10۔ آپ رضی اللہ عنہنے متعدد والیان ریاست اور سربراہان مملکت کو تبلیغی خطوط ارسال کئے اور انہیں احمدیت یعنی حقیقی اسلام سے روشناس کرایا۔ اِن میں امیر اللہ خاں والی افغان، نظام دکن، پرنس آف ویلز (Prince of Wales)اور لارڈ ارون وائسرائے ہند (Lord Erwin Viceroy of India)خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔
(دینی معلومات کا بنیادی نصاب صفحہ 179 تا 182شائع کردہ مجلس انصار اللہ پاکستان)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی تصنیفی خدمات:
1۔ تفسیر صغیر (قرآن مجید کا مکمل ترجمہ مع مختصر تفسیری نوٹس)
2۔ تفسیر کبیر10جلدوں میں (قرآن کریم کے بڑے حصوں کی تفصیلی تفسیر)
3۔ انوار العلوم جلد1تا17 (ابھی جاری ہے) پر مشتمل تقاریر و تصانیف (آغاز سے1944ء تک مکمل)
4۔ خطبات محمود جلد1تا15 (پر مشتمل خطبات جمعہ و عیدین و خطباتِ نکاح) (آغاز تا1934ء جاری ہے۔)
1944ء میں بذریعہ رئویا والہام آپ پر ا س امر کا انکشاف ہو کی آپ ہی وہ مصلح موعود ہیں جس کی پیشگوئی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمائی تھی۔ اس انکشاف کے اعلان کے لئے آپ رضی اللہ عنہ نے ہوشیار پور، لدھیانہ، لاہور اور دہلی میں جلسے منعقد کر کے معرکۃ الآرا تقاریر کیں اور اس پیشگوئی کے پورا ہونے کا ذکر کیا۔
آپ رضی اللہ عنہ نے یورپ کا دو مرتبہ سفر کیا۔ پہلی مرتبہ آپ رضی اللہ عنہ 1924ء میں ویمبلے (Wembley)کانفرنس میں شرکت کیلئے لندن تشریف لے گئے جہاں مختلف مذاہب کے نمائندوں نے اپنے اپنے مذاہب کی خوبیاں بیان کیں۔اس کانفرنس میں آپ کا مضمون’’احمدیت یعنی حقیقی اسلام‘‘ انگیریزی میں ترجمہ کر کے پڑھا گیا۔ 1954ء میں آپ رضی اللہ عنہ پر قاتلانہ حملہ ہوا۔ علاج سے زخم تو بظاہر مند مل ہوگئے لیکن تکلیف جاری رہی ا س لئے 1955ء میں آپ رضی اللہ عنہ دوسری مرتبہ بغرض علاج یورپ تشریف لے گئے۔
حضرت مصلح موعودـ رضی اللہ عنہ کی وفات کا سانحہ:
مندرجہ بالا سانحہ کے بعد آپ رضی اللہ عنہ کی صحت برابر گرتی چلی گئی یہاں تک کہ وہ المناک گھڑی آپہنچی جب آپ رضی اللہ عنہ تقدیر الٰہی کے ماتحت اس جہان فانی سے کوچ کر گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ یہ7اور8نومبر1965ء کی درمیانی شب تھی۔ حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے 9 نومبر کو بہشتی مقبرہ ربوہ کے وسیع احاطہ میں نماز جنازہ پڑھائی اور پچاس ہزار افراد نے دلی دعائوں اور اشکبار آنکھوں کے ساتھ آپ رضی اللہ عنہ کو سپرد خاک کیا۔
(دینی معلومات کا بنیادی نصاب صفحہ 183 شائع کردہ مجلس انصار اللہ پاکستان)